عظیم معدومیت آخری حصہ
اس وقت لوگ اس ڈر سے کہ کہیں کوئی نامعلوم سیارہ زمین پر نہ گر جائے ایک اجتماعی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے۔
ایڈمونڈ ہیلی کو دم دار ستاروں سے خاصی دلچسپی تھی، یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ جب 1682 میں یہ دم دار سیارہ نمودار ہوا تو وہ بقید حیات تھا (جو بعد میں اسی کے نام سے جانا گیا)۔
فلکیاتی ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے اسے یقین ہوگیا کہ جس دم دار ستارے کو اس نے دیکھا تھا وہ وہی تھا جو 1530اور 1606 میں دیکھا گیا تھا اور چونکہ تینوں تاریخوں کے درمیان میں فرق 76 سال اور 10 دنوں کا تھا، چنانچہ ہیلی نے پیش گوئی کی کہ یہ دم دار ستارہ ایک بار پھر 1758، 1834، 1910 اور 1986 میں نمودار ہوگا (آخری تاریخ یعنی 1986کو ہیلی کو آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا۔) اب یہ 28 جولائی 2061 میں آئے گا۔
اگرچہ ہیلی اس دم دار ستارے کی دوبارہ آمد سے پہلے ہی مرگیا تھا تاہم اس کی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی اور یہ دم دار ستارہ واقعتاً ہر 76 سال بعد نمودار ہونے لگا، عمومی طور پر دم دار ستارے سورج کے گرد ایک طویل بیضوی مدار میں چکر لگاتے ہیں، یہ مدار بعض اوقات اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ایک چکر کئی صدیوں پر مشتمل ہوسکتا ہے۔
یہ نظام شمسی کے کناروں سے آتے ہیں اور ایک ضخیم برفانی مرکز پر مشتمل ہوتے ہیں جس کا قطر 50 کلومیٹر تک کا ہوسکتا ہے، جب یہ سورج کے قریب سے گزرتے ہیں تو حرارت کے اثرات سے ان میں تبخیراتی عمل شروع ہوجاتا ہے جس کے اثر سے نہ صرف ان کی ایک طویل دم نمودار ہوتی ہے بلکہ یہ گلنے یا پگھلنے بھی لگتے ہیں، حتیٰ کہ ہیلی کی آخری آمد پر وہ ان قیاسات سے کافی چھوٹا معلوم ہوا جو ایڈومنڈ ہیلی نے 1682میں ریکارڈ کی تھیں۔اگرچہ دم دار ستاروں کے چکر ایڈمونڈ ہیلی نے دریافت کیے تاہم وہ یہ چیز دریافت کرنے والا پہلا شخص بہرحال نہیں تھا، اسلامی تاریخ کئی دم دار ستاروں کے ریکارڈ سے پُر ہے۔
جن میں بذات خود ہیلی بھی شامل ہے۔ مشاہدے کی تاریخ اور دم دار ستارے کی آمد کے وقت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ محنت کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، بس آخری نموداری سے صرف 76 سال منفی کرتے چلے جائیں، مثلاً ابن ایاس نے 862 ہجری بمطابق 1454 عیسوی کو بدایع الزہور میں ہیلی کی نموداری کا تذکرہ کیا ہے، ابن الاثیر نے بھی ہیلی کی آمد 619 ہجری بمطابق 1222 عیسوی کو ریکارڈ کی اور ان سے پہلے المقریزی نے اتحاف الحنفا میں 379 ہجری بمطابق 989 عیسوی کو ہیلی کو ریکارڈ کیا۔
اس کے علاوہ ابن الجوزی نے بھی 299 ہجری بمطابق 913 عیسوی کو کتاب المنتظم میں ہیلی کا تذکرہ کیا ہے، جب کہ ہیلی کو ریکارڈ کرنے کی سب سے پرانی تاریخ 222 ہجری بمطابق 837 عیسوی ہے جو عرب فلاسفر ابو اسحاق الکندی کے ایک خاص رسالہ میں ملتی ہے جو انھوں نے خصوصی طور پر اس کے لیے لکھا جس کا عنوان ہے ''رسالہ خاصا فیمار صد من الاثر العظیم الذی ظہر فی سنہ اثنین و عشرین ومأتین للہجرہ'' یہی تاریخ ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ میں بھی ملتی ہے۔
جس میں وہ لکھتے ہیں: ترجمہ : ''سال بائیس اور دو سو ہجری کو قبلہ کی بائیں طرف سے ایک دم دار سیارہ نمودار ہوا جو کوئی چالیس راتوں تک نظر آتا رہا اور وہ پہلی بار مغرب سے نکلا اور پھر مشرق کی طرف جاتا گیا اور وہ سفید اور لمبا تھا تو لوگ ڈر گئے اور اس کا معاملہ ان پر بھاری ہوگیا۔''
خبریں کہتی ہیں کہ اس وقت لوگ اس ڈر سے کہ کہیں کوئی نامعلوم سیارہ زمین پر نہ گر جائے ایک اجتماعی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو لوگوں کی یادداشت میں پھر بھی باقی رہا حتیٰ کہ عرب شاعر ابی تمام نے اس پر اپنے ایک مشہور قصیدے بعنوان ''السیف اصدق انباء من الکتب'' میں ایک شعر بھی کہا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ''اور انھوں نے لوگوں کو ایک اندھیری مکار سے ڈرایا جب دم والا مغربی سیارہ نمودار ہوا۔''
ہیلی کے علاوہ اسلامی علمی تاریخ میں اور بھی بہت سارے دم دار ستاروں کا تذکرہ ملتا ہے جن کا چکر ہیلی سے میل نہیں کھاتا بلکہ دوسرے ایسے دم دار ستاروں سے میل کھاتا ہے جو باقاعدگی سے زمین سے گزرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے کم چکر والا دم دار سیارہ اینکی Encke صرف 3.3 سال یا کوہوٹک Kohoutek اسی سال اور ہیل بوپ Hale Bopp جو زمین سے ہر 4210 سالوں میں گزرتا ہے اور اگر وہ زمین سے جولائی 1995 میں نہ گزرتا تو اس کے وجود کا کسی کو علم ہی نہ ہو پاتا۔
بہرحال ہماری زمین روزانہ سیکڑوں شہاب ثاقب کا سامنا کرتی ہے اکثر شہاب ثاقب دم دار سیاروں اور دیگر اجرام فلکی کے ٹوٹے ہوئے حصے ہوتے ہیں جن میں اکثر زمین کی کرہ فضائی میں داخل ہوتے ہیں جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں اور زمین بڑے نقصان یا حادثے سے محفوظ رہتی ہے۔
لیکن کبھی کبھی یہ زمین تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور اکثر شہری آبادیوں کی بجائے غیر آباد علاقوں، جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں، سمندروں اور برف پوش علاقوں جیسے انٹارکٹیکا وغیرہ میں گرتے ہیں زمین تک آنے والے شہاب ثاقب (Asteroid) ایک سے بیس میٹر حجم تک ہوتے ہیں اور انھیں 1994سے لے کر 2013 تک ریکارڈ کیا گیا ہے جو شہاب ثاقب 20 میٹر تک ہوتے ہیں وہ اوسطاً سو برس میں دو بار ہی زمین تک آتے ہیں یہ تقریباً چھ منزلہ عمارت جتنے ہوتے ہیں اور پانچ سو کلو ٹن کی طاقت سے یہ ٹکرا سکتے ہیں جوکہ ہیروشیما جیسے 30 نیوکلیئر بم جتنی ہوگی ایسا ہی ایک واقعہ روس کے شہر چلیا بنسک (Chelya Binsk) میں وقوع پذیر ہوا۔
یہ 2013 کی بات ہے جب ایسا ہی دیوہیکل شہاب ثاقب زمین کے قریب اچانک آیا اور زمین سے صرف تیس میٹر کی بلندی پر پھٹ گیا۔ اس کی وجہ سے تقریباً سات ہزار عمارتوں کو نقصان پہنچا اور پندرہ سو افراد زخمی ہوگئے اس شہاب ثاقب سے ہوئی تباہی کی بحالی کے لیے روس کو تیس ملین ڈالر کا نقصان ہوا اتفاق سے اس واقعے کے سولہ گھنٹے کے بعد اس سے بھی پچاس گنا بڑے شہاب ثاقب نے بہت ہی کم فاصلے سے زمین کو عبور کیا، یہ فاصلہ صرف 27,700 کلومیٹر کا تھا لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے 23 مارچ 1989 میں 300 میٹر کا ایک شہاب ثاقب ہم سے صرف سات لاکھ کلو میٹر کے فاصلے سے گزرا اگر وہ شہاب ثاقب اپنے کروڑوں سال کے سفر میں صرف ایک گھنٹہ تاخیر سے زمین کی طرف آتا تو وہ یقینا زمین سے ٹکرا جاتا کیونکہ زمین اپنی خاص رفتار سے سورج کے گرد گردش کناں ہے اور یہ زمین کے اس راستے میں آنے سے پہلے ہی وہاں سے گزر گیا۔