ٹرائپوفوبیا Trypophobia

ایک منفرد مرض، جس میں جوف دار اجسام و اشیاء کو دیکھ کر کراہت و خوف آتا ہے


ایک منفرد مرض، جس میں جوف دار اجسام و اشیاء کو دیکھ کر کراہت و خوف آتا ہے۔ فوٹو: فائل

شہد کی مکھی کا چھتا، قدرتی اسفنج، کنول کے پھول کا ڈوڈا، ساحل سمندر پر اسفنجی ساخت کے پودے اور جانور، ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کی ساخت غیرہموار ہوتی ہے، یعنی ان کی بیرونی سطح پر گڑھے یا سوراخ ہوتے ہیں۔

کیا کبھی ان چیزوں کو دیکھ کر آپ کو اپنے روئیں کھڑے ہوتے اور بدن پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوتی ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو پھر آپ بھی ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنھیں ٹرائپوفوبیا ( Trypophobia ) کا منفرد مرض لاحق ہے۔

اس مرض یا کیفیت میں سوراخ یا جوف دار سطحوں کو دیکھ کر گھبراہٹ اور خوف طاری ہونے لگتا ہے۔ اگرچہ ٹرائپوفوبیا کو امریکن سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن ( اے پی اے) نے ہنوز دماغی مرض تسلیم نہیں کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کیفیت کا تعلق انسان کی دماغی حالت ہی سے ہے۔

ٹرائپوفوبیا کی علامات اور اسباب

متاثرہ فرد کی جب گھونگھے کی چٹانیں، باتھ ٹب میں بھرے ہوئے صابن کے جھاگ اور اسی نوع کی دیگر سوراخ و جوف دار ساختوں پر نظر پڑتی ہے تو فوری طور پر اس کے مزاج پر کراہت غالب آجاتی ہے، سر بھاری ہوجاتا ہے اور وہ کمزوری محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے لگتی ہیں اور سر چکرانے لگتا ہے۔ بعض اوقات مندرجہ بالا اور اسی نوع کی چیزوں کے تذکرے ہی سے ٹرائپوفوبیا کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔

ٹرائپوفوبیا میں مبتلا افراد کی مرکزی تشخیصی علامت جوف دار اشیاء یا ان کی تصاویر دیکھ کر کراہت میں مبتلا ہونا ہے۔ یہ علامت دیگر تسلیم شدہ فوبیاز میں ظاہر نہیں ہوتی جن میں خوف کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ خواتین ٹرائپوفوبیا کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ کیفیت ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کو بھی ہمراہ لے کر آتی ہے۔

فوبیا کیا ہوتا ہے؟

امریکا کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق فوبیا ذہنی اضطراب ہی کی ایک قسم ہے جس کے نتیجے میں متلی، ابکائی، کراہت، سر چکرانا، دھڑکن کا بڑھ جان، خوف کے زیراثر جسم میں لرزش جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ کوئی فرد فوبیا کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب کسی خاص صورتحال، مقام، احساس یا شے وغیرہ کے بارے میں وہ غیرمعمولی طور پر حساس ہوجائے۔ اس ردعمل کی وجہ ان کے ذاتی ناخوش گوار تجربات یا مشاہدات بھی ہوسکتے ہیں۔ این ایچ ایس کے مطابق کسی فرد کے فوبیا میں مبتلا ہونے کا انحصار اس کی جینیاتی تاریخ پر ہوتا ہے۔

ٹرائپوفوبیا کے بارے میں نیویارک میں واقع کولمبیا یونی ورسٹی سے منسلک کلینیکل سائیکالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر انتھونی پولیافیکو کہتے ہیں کہ سوراخ دار اشیاء یا ان کی تصاویر سے کسی فرد کی کراہت کے پس پردہ اسباب کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ اگر کسی فرد کو ان اشیاء و تصاویر سے بس کراہت محسوس ہوتی ہے اور اس کے معمولات متأثر نہیں ہوتے تو پھر اسے فوبیا نہیں کہا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر فوبیا وہ کیفیت ہے جو ایک فرد کے معمولات زندگی پر اثرانداز ہورہی ہو۔ سائنس داں اب تک اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ ٹرائپوفوبیا، فوبیا کی مذکورہ بالا شرط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اس موضوع پر اگر مزید تحقیق کی جائے تو اس سوال کا جواب ممکن ہوسکتا ہے۔

ٹرائپوفوبیا کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی؟

یہ اصطلاح زیادہ پرانی نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز A Phobia of Holes نامی ایک آن لائن فورم سے ہوا جس کی بنیاد آئرلینڈ کے ایک یوزر نے رکھی تھی۔ 2009ء میں یہ اصطلاح اس وقت معروف ہوگئی جب البانے یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ٹرائپوفوبیا ڈاٹ کوم کے یوآرایل سے ویب سائٹ شروع کی اور فیس بُک پر سپورٹ گروپ بنایا۔ خاصی تگ و دو کے بعد ٹرائپوفوبیا میں مبتلا افراد کی کمیونٹی وکی پیڈیا پر صفحہ بنانے میں بھی کامیاب ہوگئی۔

2009ء میں وکی پیڈیا کے ایڈیٹرز نے یہ کہہ کر ٹرائپوفوبیا کا صفحہ ڈیلیٹ کردیا تھا کہ یہ کوئی مرض یا کیفیت نہیں بلکہ ہوّا کھڑا کیا گیا ہے۔ بعدازاں کئی شہرت یافتہ شخصیات جب ٹرائپوفوبیا کی حمایت میں سامنے آئیں اور کہا کہ وہ اس کا شکار ہیں تو پھر اس فوبیا کو اعتبار حاصل ہوا۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

سائنسی ادب میں ٹرائپوفوبیا کی آمد 2013ء میں اس وقت ہوئی جب چند محققین نے کہا کہ اس کیفیت کی جڑیں خطرناک جانوروں سے جبلی خوف اور گریز میں پیوست ہیں۔ پھر جب محققین ہی میں سے ایک نے یہ کہا کہ اسے نیلے دائروں والے زہریلے آکٹوپس سے خوف آتا ہے تو تحقیقی ٹیم کا اپنے موقف پر یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔ مزید تحقیق پر انھیں پتا چلا کہ متعدد زہریلے جانوروں جیسے باکس جیلی فش، سانپ، زہریلے مینڈک وغیرہ کی جلد پر دائرہ نما نقش بنے ہوتے ہیں جو جوف دار اشیاء کی ساخت سے بے حد مشابہت رکھتے ہیں۔

کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ٹرائپوفوبیا زہریلے جانوروں کا خوف نہیں بلکہ انسانی مرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی متعدی امراض اور طفیلی کیڑوں کی وجہ سے جلد پر چھالے اور سوراخ ہوجاتے ہیں جیسے اسمال پاکس، اسکارلٹ فیور یا بوٹ فلائی کے کاٹنے کے بعد جسم پر بننے والا پھوڑا سوراخ چھوڑ جاتا ہے۔ ان امراض کا شکار ہونے والے افراد جوف دار اشیاء کو دیکھ کر ٹرائپوفوبیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سائنس دانوں کو ایسے شواہد بھی ملے جن سے پتا چلتا ہے کہ ٹرائپوفوبیا کے محرکات محض بصری پریشانی پیدا کرتے ہیں، نیز یہ کہ کچھ لوگ خاص طور سے ان اثرات سے حساسیت رکھتے ہیں جیسے آنکھوں پر زور پڑنا وغیرہ۔ تاہم سائنس داں اب تک اس مرض یا کیفیت کے کسی ایک سبب پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں۔

ٹرائپوفوبیا کا علاج کیسے کیا جائے؟

اگرچہ امریکن سائیکاٹرسٹ ایسوسی ایشن اسے مرض تسلیم نہیں کرتا تاہم ٹرائپوفوبیا لوگوں کی زندگی میں دخل انداز ضرور ہوتا ہے۔ پروفیسر انتھونی پولیافیکو کہتے ہیں کہ اگرکسی فرد میں فوبیا کی علامات برقرار رہیں تو اسے دماغی امراض کے ماہر سے ضرور رجوع کرنا چاہیے جسے ایکسپوژر ٹریٹمنٹ میں مہارت حاصل ہو۔ اس طریقۂ علاج میں معالج متأثرہ فرد کو بہ تدریج ان اشیاء کا سامنا کرنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے جن سے اسے خوف یا کراہت آتی ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔