دو نئی اینٹی بایوٹکس دریافت
تجربہ گاہ میں بیکٹیریا پر نئی اینٹی بایوٹکس کے تمام تجربات کام یاب رہے ہیں۔
اینٹی بایوٹک ادویہ کے خلاف جراثیم میں بڑھتی ہوئی مدافعت دنیائے صحت کا ایک ایم مسئلہ بن چکی ہے۔ پچھلے سو برسوں کے دوران اینٹی بایوٹکس نے ان گنت انسانی جانیں بچائیں۔ ان کی دریافت کو جہان طب میں انتہائی اہم سنگ میل خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم جیسے جیسے ان کا استعمال وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے جراثیم میں بھی ان کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے لگی جس کے نتیجے میں یہ ادویہ انفیکشنز پر بے اثر ہونے لگیں۔
حالیہ عرصے کے دوران متعدد تحقیقی رپورٹس شایع ہوچکی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے اور اب بیشتر اینٹی بایوٹک دوائیں جزوی یا کُلی طور پر انفیکشنز کے خلاف بے اثر ہوگئی ہیں۔
ماہرین صحت یہ ادراک رکھتے ہیں کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ آج جو امراض قابل علاج ہیں وہ مستقبل میں لاعلاج ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی اینٹی بایوٹکس کی دریافت پر شب و روز تحقیق جاری ہے۔
اس ضمن میں فرانسیسی سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے دو طاقتور اینٹی بایوٹکس دریافت کرلی ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس دریافت سے عالمی سطح پر بیکٹیریا کے اندر بڑھتی ہوئی مزاحمت کو شکست دینے اور انسانی جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔
پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کی ٹیم کا تعلق انسرم انسٹیٹیوٹ اور یونی ورسٹی آف رینیز 1 سے ہے۔ ان کی یہ تحقیق موقر سائنسی جریدے PLOS Biology میں شایع ہوئی ہے۔ محققین کی ٹیم کے مطابق اس نے ایک بیکٹیریائی ٹاکسن دریافت جسے بعدازاں طاقت ور اینٹی بایوٹکس میں کامیابی سے تبدیل کیا گیا۔
پروفیسر کے مطابق دوران تحقیق انھوں نے دیکھا کہ Staphylococcus aureus سے پیدا ہونے والا ٹاکسن جوعموماً انفیکشن کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے، یہی ٹاکسن جسم میں موجود دیگر بیکٹیریا کو ختم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
چناںچہ اس میں انفیکشن پیدا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ختم کرنے کی متضاد صلاحیتیں بیک وقت پائی جاتی تھیں۔ پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کے ساتھیوں نے سوچا کہ اگر وہ اس ٹاکسن کی دونوں صلاحیتوں کو جُدا کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو نئی اینٹی بایوٹکس وجود میں آسکتی ہیں۔ یہ ایک چیلنج تھا جسے سائنس دانوں نے قبول کرلیا۔ آٹھ سال کے مسلسل تجربات کے بعد بالآخر محققین اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے۔
تجربہ گاہ میں بیکٹیریا پر نئی اینٹی بایوٹکس کے تمام تجربات کام یاب رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں انھیں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ ماہرین کو پوری امید ہے کہ انسانوں پر بھی ان ادویہ کے تجربات کام یاب ثابت ہوں گے۔
حالیہ عرصے کے دوران متعدد تحقیقی رپورٹس شایع ہوچکی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے اور اب بیشتر اینٹی بایوٹک دوائیں جزوی یا کُلی طور پر انفیکشنز کے خلاف بے اثر ہوگئی ہیں۔
ماہرین صحت یہ ادراک رکھتے ہیں کہ بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کے انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ آج جو امراض قابل علاج ہیں وہ مستقبل میں لاعلاج ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی اینٹی بایوٹکس کی دریافت پر شب و روز تحقیق جاری ہے۔
اس ضمن میں فرانسیسی سائنس دانوں نے اہم کام یابی حاصل کرتے ہوئے دو طاقتور اینٹی بایوٹکس دریافت کرلی ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس دریافت سے عالمی سطح پر بیکٹیریا کے اندر بڑھتی ہوئی مزاحمت کو شکست دینے اور انسانی جانیں بچانے میں مدد ملے گی۔
پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کی ٹیم کا تعلق انسرم انسٹیٹیوٹ اور یونی ورسٹی آف رینیز 1 سے ہے۔ ان کی یہ تحقیق موقر سائنسی جریدے PLOS Biology میں شایع ہوئی ہے۔ محققین کی ٹیم کے مطابق اس نے ایک بیکٹیریائی ٹاکسن دریافت جسے بعدازاں طاقت ور اینٹی بایوٹکس میں کامیابی سے تبدیل کیا گیا۔
پروفیسر کے مطابق دوران تحقیق انھوں نے دیکھا کہ Staphylococcus aureus سے پیدا ہونے والا ٹاکسن جوعموماً انفیکشن کو پھیلنے میں مدد دیتا ہے، یہی ٹاکسن جسم میں موجود دیگر بیکٹیریا کو ختم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
چناںچہ اس میں انفیکشن پیدا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ختم کرنے کی متضاد صلاحیتیں بیک وقت پائی جاتی تھیں۔ پروفیسر برائس فیلڈین اور ان کے ساتھیوں نے سوچا کہ اگر وہ اس ٹاکسن کی دونوں صلاحیتوں کو جُدا کرنے میں کام یاب ہوجائیں تو نئی اینٹی بایوٹکس وجود میں آسکتی ہیں۔ یہ ایک چیلنج تھا جسے سائنس دانوں نے قبول کرلیا۔ آٹھ سال کے مسلسل تجربات کے بعد بالآخر محققین اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئے۔
تجربہ گاہ میں بیکٹیریا پر نئی اینٹی بایوٹکس کے تمام تجربات کام یاب رہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں انھیں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ ماہرین کو پوری امید ہے کہ انسانوں پر بھی ان ادویہ کے تجربات کام یاب ثابت ہوں گے۔