میاں صاحب مولانا روم کے درویشوں کے وطن میں
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت تجدید تعلقات کے لیے ترکی میں ہیں لیکن دونوں ملکوں کے۔۔۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت تجدید تعلقات کے لیے ترکی میں ہیں لیکن دونوں ملکوں کے کاروباری تعلقات اپنی جگہ کتنے ہی اہم' کیا میاں صاحب کو معلوم ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں اور ترکوں کے درمیان ایک جذباتی رشتہ بھی ہے جس کے حوالے تاریخ میں عام ملتے ہیں اور تحریک خلافت تو کل کی بات ہے۔ ترکوں کے لیڈر کمال اتا ترک نے اقتدار میں آ کر 1924ء میں خلافت عثمانیہ ختم کر دی۔ یہ خلافت اگرچہ برائے نام ہی رہ گئی تھی لیکن دنیا بھر کے مسلمان اسے اپنے اتحاد کی علامت اور اسلامی شناخت سمجھتے تھے۔
یہ زیادہ تر مسلمانوں کی غلامی کا زمانہ تھا، برصغیر کے غلام مسلمانوں نے یوں سمجھا جیسے خلافت کا خاتمہ ان کی غلامی پر مہر ہے چنانچہ ہندوستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی۔ یہ ایک سراسر جذباتی تحریک تھی ورنہ ترکی میں ختم ہونے والی خلافت جو عالم اسلام کے بڑے حصے پر مشتمل تھی برصغیر کے مسلمان کیسے بحال کرا سکتے تھے جب کہ عرب' عرب قومیت کے جادو میں تھے لیکن یہ جذباتی تحریک اس وقت کی مسلمان قیادت کی تحریک تھی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے مسلمہ لیڈر اس کے رہنما تھے ''کہتی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو'' یہ بیٹا جو آزادی کے سلسلے میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے لندن گیا کانفرنس ناکام ہوئی تو اس نے کہا کہ میں غلام بن کر واپس نہیں جاؤں گا۔
واپسی پر انتقال ہو گیا اور بیت المقدس میں مدفون ہوئے۔ مولانا محمد علی جوہر اتنی گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے کہ ایک صاحب نے خوب کہا ہے کہ ان لوگوں کو لوک گیتوں کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ خلافت کی اس تحریک میں جو ترک قوم کو آج بھی حرف بہ حرف یاد ہے اس کی بوڑھیوں کے پاس وہ زیور موجود ہیں جو برصغیر کی مسلمان خواتین نے تحریک میں چندے کے طور پر دیے تھے۔
کچھ پہلے ایک ترک صدر پاکستان کے دورے پر آیا تو ان کی بیگم کے پاس کچھ زیورات تھے جو انھوں نے دکھائے ا ور کہا کہ یہ برصغیر کی مسلمان بہنوں کی محبت کی نشانی ہیں اور مجھے اس دورے پر آتے ہوئے بزرگ خواتین نے دی ہیں۔ پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کا نمایندہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ ترکی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ترک آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت انھیں تحریک خلافت سے ورثے میں ملی ہے جو انھوں نے اپنے دلوں میں آباد کر رکھی ہے۔ اس کا اظہار کبھی ترکی جانا ہو تو خود دیکھ لیں۔
مجھے بالکل معلوم نہیں کہ محترم میاں صاحب کو ترکوں کے ساتھ ہمارے اس جذباتی اور زندہ تعلق کا کچھ علم ہے یا نہیں' اگر ہو گا بھی تو سرسری سا بس سنی سنائی ہوئی باتوں تک محدود لیکن ترک خواہ اس کاروباری دور کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں اور حکمران بھی ہوں تو وہ پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ ایک موروثی تعلق رکھتے ہیں اور اس تعلق کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری تو تاریخ کے کتنے ہی ایمان افروز واقعات اس ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ وہ لشکر کتنا خوش نصیب ہو گا جو قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرے گا۔
عربوں کے کئی لشکروں نے فتح کرنے کی کوشش کی۔ ایک لشکر میں حضورﷺ کے مدینہ میں میزبان حضرت ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے' ضعیف تھے لیکن زرہ بند تھے۔ انھوں نے وصیت کی کہ میں اگر دوران جنگ مر جاؤں تو مجھے قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ترین لے جا کر دفن کیا جائے۔ آج ان کا مزار استنبول کے لوگوں کے لیے بے حد محبوب جگہ ہے جیسے لاہوریوں کے لیے داتا دربار۔ یہ شہر بہت بعد میں ایک ترک حکمران اور سالار نے فتح کیا جو فاتح کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
رومیوں کے اس مشرقی دارالحکومت کی مرکزی عمارت ایا صوفیہ کے سامنے پہنچا تو اپنے سفید گھوڑے سے اتر کر اس مبارک فتح پر سر جھکائے چلتا ہوا اس گرجے کے سامنے پہنچا اور اس کے اندر شکرانے کے نوافل ادا کیے، کس کیفیت میں اس کا تصور اس مسلمان فاتح کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے۔ مجھے جب استنبول جانے کا موقع ملا تو میں اس مختصر سے راستے پر جس پر سفید بجری بچھی ہوئی تھی پیدل چلا تبرک سمجھ کر، ایک بنچ پر بیٹھ کر اس فاتح کو چشم تصور سے دیکھتا رہا جس کی خوش بختی کی حضور پاکؐ نے گواہی دی تھی۔
ان دنوں ترکی میں مقیم میاں صاحب مجھے بہت یاد آ رہے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ان کے رفقاء میں کوئی ایسا ہے جس کا اس ملک اور اس کے شہر سے جذباتی تعلق ہو اور تاریخ بھی کچھ یاد ہو تاکہ وہ برصغیر کی تحریک خلافت والے مسلمانوں کے ملک کی سربراہی کرنے والے کو کچھ بتا سکے اور پھر اس ملک کے ساتھ تو ہمارا تعلق صرف عثمانی خلافت تک محدود نہیں۔ مولانا روم اسی ملک کے ایک شہر قونیہ میں محوخواب ہیں۔ ہمارا قومی شاعر ان کا بے پناہ عقیدت مند تھا اور وہ پہچانا ہی مرید ہندی کے نام سے جاتا ہے۔ میں چند دن قونیہ میں مولانا روم کی درگاہ کے آس پاس رہا۔ میں نے وہ جگہ بارہا دیکھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مولانا اور ان کے پیر شمس تبریز کی یہاں سر راہے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
اس مقام کو ''مجمع البحرین'' یعنی سمندروں کی ملاقات کہا جاتا ہے۔ مولانا روم کا ذکر تو ختم ہی نہیں ہو سکتا، میرے گھر پر ایک بڑی سی تصویر لگی ہے، مولانا کے درویشوں کے رقص کی جو برادرم شعیب بن عزیز کا یادگار تحفہ ہے۔ یہی وہ درویش ہیں جو صدیوں سے زندہ اور رقصاں ہیں۔ ایک عثمانی خلیفہ سلیمان نے بڑھاپے میں ایک دن اپنے وزیر اعظم سے پوچھا کہ پیری پاشا ہم تو چلے جائیں گے لیکن ترکی میں باقی کون رہ جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا سلطان آپ ہی بتائیں۔ اس پر اس نامور مسلمان نے کہا کہ دنیا کی نرم ترین اون پیدا کرنے والی انگورہ کی بکریاں اور مولانا کے درویش۔ انگورہ وول کا تو پتہ نہیں لیکن مولانا کے درویش محفل سماع کو جسے اب رقص کہا جاتا ہے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت کہاں ہو گا کہ وہ ترکوں اور برصغیر کے مسلمانوں کے تعلق کا کچھ پتہ چلا سکیں۔ آج کے دور کی کچھ مجبوریاں ہیں اور کاروباری سلسلے ہیں جن میں اضافہ پرانے تعلقات کی طرح اہم ہے لیکن تعلق کاروبار کا ہو یا تاریخ کا تعلق بہرحال قوموں کی قربت کا ہی ذریعہ ہے اور یہ ذریعہ جتنا پھلے پھولے اتنا ہی اہم ہے۔ کوئی نہ کوئی پاکستانی تاریخ کے اس جذباتی اور ایمان افروز تعلق کو تازہ کرتا رہے گا۔ خدا کرے ہمارے وزیر اعظم کا یہ سفر مبارک ثابت ہو اور یاد آیا استنبول کا پہلا نام ''اسلام بول'' تھا جس کے معنی اسلام آباد کے ہیں جو بعد میں استنبول بن گیا۔ کیا عجیب مماثلت ہے۔
یہ زیادہ تر مسلمانوں کی غلامی کا زمانہ تھا، برصغیر کے غلام مسلمانوں نے یوں سمجھا جیسے خلافت کا خاتمہ ان کی غلامی پر مہر ہے چنانچہ ہندوستان میں تحریک خلافت شروع ہوئی۔ یہ ایک سراسر جذباتی تحریک تھی ورنہ ترکی میں ختم ہونے والی خلافت جو عالم اسلام کے بڑے حصے پر مشتمل تھی برصغیر کے مسلمان کیسے بحال کرا سکتے تھے جب کہ عرب' عرب قومیت کے جادو میں تھے لیکن یہ جذباتی تحریک اس وقت کی مسلمان قیادت کی تحریک تھی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے مسلمہ لیڈر اس کے رہنما تھے ''کہتی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو'' یہ بیٹا جو آزادی کے سلسلے میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے لندن گیا کانفرنس ناکام ہوئی تو اس نے کہا کہ میں غلام بن کر واپس نہیں جاؤں گا۔
واپسی پر انتقال ہو گیا اور بیت المقدس میں مدفون ہوئے۔ مولانا محمد علی جوہر اتنی گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے کہ ایک صاحب نے خوب کہا ہے کہ ان لوگوں کو لوک گیتوں کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ خلافت کی اس تحریک میں جو ترک قوم کو آج بھی حرف بہ حرف یاد ہے اس کی بوڑھیوں کے پاس وہ زیور موجود ہیں جو برصغیر کی مسلمان خواتین نے تحریک میں چندے کے طور پر دیے تھے۔
کچھ پہلے ایک ترک صدر پاکستان کے دورے پر آیا تو ان کی بیگم کے پاس کچھ زیورات تھے جو انھوں نے دکھائے ا ور کہا کہ یہ برصغیر کی مسلمان بہنوں کی محبت کی نشانی ہیں اور مجھے اس دورے پر آتے ہوئے بزرگ خواتین نے دی ہیں۔ پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کا نمایندہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ جب آپ ترکی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ترک آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت انھیں تحریک خلافت سے ورثے میں ملی ہے جو انھوں نے اپنے دلوں میں آباد کر رکھی ہے۔ اس کا اظہار کبھی ترکی جانا ہو تو خود دیکھ لیں۔
مجھے بالکل معلوم نہیں کہ محترم میاں صاحب کو ترکوں کے ساتھ ہمارے اس جذباتی اور زندہ تعلق کا کچھ علم ہے یا نہیں' اگر ہو گا بھی تو سرسری سا بس سنی سنائی ہوئی باتوں تک محدود لیکن ترک خواہ اس کاروباری دور کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں اور حکمران بھی ہوں تو وہ پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ ایک موروثی تعلق رکھتے ہیں اور اس تعلق کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری تو تاریخ کے کتنے ہی ایمان افروز واقعات اس ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ وہ لشکر کتنا خوش نصیب ہو گا جو قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرے گا۔
عربوں کے کئی لشکروں نے فتح کرنے کی کوشش کی۔ ایک لشکر میں حضورﷺ کے مدینہ میں میزبان حضرت ایوب انصاریؓ بھی شامل تھے' ضعیف تھے لیکن زرہ بند تھے۔ انھوں نے وصیت کی کہ میں اگر دوران جنگ مر جاؤں تو مجھے قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ترین لے جا کر دفن کیا جائے۔ آج ان کا مزار استنبول کے لوگوں کے لیے بے حد محبوب جگہ ہے جیسے لاہوریوں کے لیے داتا دربار۔ یہ شہر بہت بعد میں ایک ترک حکمران اور سالار نے فتح کیا جو فاتح کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
رومیوں کے اس مشرقی دارالحکومت کی مرکزی عمارت ایا صوفیہ کے سامنے پہنچا تو اپنے سفید گھوڑے سے اتر کر اس مبارک فتح پر سر جھکائے چلتا ہوا اس گرجے کے سامنے پہنچا اور اس کے اندر شکرانے کے نوافل ادا کیے، کس کیفیت میں اس کا تصور اس مسلمان فاتح کے علاوہ اور کون کر سکتا ہے۔ مجھے جب استنبول جانے کا موقع ملا تو میں اس مختصر سے راستے پر جس پر سفید بجری بچھی ہوئی تھی پیدل چلا تبرک سمجھ کر، ایک بنچ پر بیٹھ کر اس فاتح کو چشم تصور سے دیکھتا رہا جس کی خوش بختی کی حضور پاکؐ نے گواہی دی تھی۔
ان دنوں ترکی میں مقیم میاں صاحب مجھے بہت یاد آ رہے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ ان کے رفقاء میں کوئی ایسا ہے جس کا اس ملک اور اس کے شہر سے جذباتی تعلق ہو اور تاریخ بھی کچھ یاد ہو تاکہ وہ برصغیر کی تحریک خلافت والے مسلمانوں کے ملک کی سربراہی کرنے والے کو کچھ بتا سکے اور پھر اس ملک کے ساتھ تو ہمارا تعلق صرف عثمانی خلافت تک محدود نہیں۔ مولانا روم اسی ملک کے ایک شہر قونیہ میں محوخواب ہیں۔ ہمارا قومی شاعر ان کا بے پناہ عقیدت مند تھا اور وہ پہچانا ہی مرید ہندی کے نام سے جاتا ہے۔ میں چند دن قونیہ میں مولانا روم کی درگاہ کے آس پاس رہا۔ میں نے وہ جگہ بارہا دیکھی جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مولانا اور ان کے پیر شمس تبریز کی یہاں سر راہے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
اس مقام کو ''مجمع البحرین'' یعنی سمندروں کی ملاقات کہا جاتا ہے۔ مولانا روم کا ذکر تو ختم ہی نہیں ہو سکتا، میرے گھر پر ایک بڑی سی تصویر لگی ہے، مولانا کے درویشوں کے رقص کی جو برادرم شعیب بن عزیز کا یادگار تحفہ ہے۔ یہی وہ درویش ہیں جو صدیوں سے زندہ اور رقصاں ہیں۔ ایک عثمانی خلیفہ سلیمان نے بڑھاپے میں ایک دن اپنے وزیر اعظم سے پوچھا کہ پیری پاشا ہم تو چلے جائیں گے لیکن ترکی میں باقی کون رہ جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا سلطان آپ ہی بتائیں۔ اس پر اس نامور مسلمان نے کہا کہ دنیا کی نرم ترین اون پیدا کرنے والی انگورہ کی بکریاں اور مولانا کے درویش۔ انگورہ وول کا تو پتہ نہیں لیکن مولانا کے درویش محفل سماع کو جسے اب رقص کہا جاتا ہے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کے پاس اتنا وقت کہاں ہو گا کہ وہ ترکوں اور برصغیر کے مسلمانوں کے تعلق کا کچھ پتہ چلا سکیں۔ آج کے دور کی کچھ مجبوریاں ہیں اور کاروباری سلسلے ہیں جن میں اضافہ پرانے تعلقات کی طرح اہم ہے لیکن تعلق کاروبار کا ہو یا تاریخ کا تعلق بہرحال قوموں کی قربت کا ہی ذریعہ ہے اور یہ ذریعہ جتنا پھلے پھولے اتنا ہی اہم ہے۔ کوئی نہ کوئی پاکستانی تاریخ کے اس جذباتی اور ایمان افروز تعلق کو تازہ کرتا رہے گا۔ خدا کرے ہمارے وزیر اعظم کا یہ سفر مبارک ثابت ہو اور یاد آیا استنبول کا پہلا نام ''اسلام بول'' تھا جس کے معنی اسلام آباد کے ہیں جو بعد میں استنبول بن گیا۔ کیا عجیب مماثلت ہے۔