مستقبل دکھانے والا بھوت…
اس درندہ صفت بھوت نے ہماری زندگی اجیرن بنا دی
مشعل بتاتی ہیں ، میں جب سات سال کی تھی تو ایک لڑکی سارہ سے گفتگو کیا کرتی تھی۔ سارہ نے بحریہ کا یونیفارم پہنا ہوتا اور ایک خاتون سپاہی کی طرح نظر آتی۔ سارہ کو اس کے سوتیلے باپ نے قتل کرکے ویرانے میں دفن کر دیا تھا۔ وہ میرے ساتھ کھیلتی اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات بتاتی۔ اس کے علاوہ وہ مجھے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی بھی اطلاع کر دیتی۔ ایک دفعہ اس نے مجھے دکھایا، ایک بوڑھی عورت کو باتھ روم میں قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کی نعش باتھ روم کے ٹب میں پڑی ہے اور ٹب خون سے بھرا ہوا ہے۔ چند روز بعد پتہ چلا کہ نیویارک میں بالکل اسی طرح ایک بڑھیا کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مجھے اس واقعہ سے کوئی ڈر محسوس نہیں ہوا۔ میرے لیے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کو دیکھنا کوئی نئی چیز نہ تھی۔ میری ماں کے پاس بھی روحانی طاقت تھی جس کے باعث وہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں قبل از وقت جان لیتیں۔
مشعل بتاتی ہیں اس کو سارہ کے علاوہ بھی ایک بھوت سے اکثر پالا پڑا ہے۔ یہ سارہ کی طرح دوست بھوت نہیں تھا بلکہ انتہائی شرارتی اورگھٹیا تھا۔ اس کا رنگ سیاہ اور شکل انتہائی خوفناک تھی۔اس نے متعدد بار میری ماں اور مجھ پر حملے کیے۔ایک دفعہ میں رات کو بیڈ پر لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کتاب چھین کر پھاڑ دی۔میں نے غصے میں آکر اسے برا بھلا کہنا اور رونا شروع کر دیا۔صبح جب میں اسکول جانے کے لیے تیاری کر رہی تھی اس نے میرے کپڑوں پر گند مل کر انھیں خراب کر دیا۔میں نے ماما کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئیں اور بھوت کو برا بھلا کہنے لگیں۔ جب میں نو عمری میں تھی ایک رات ماں کے ساتھ بیڈ پر لیٹی سونے کی تیاری کر رہی تھی۔ ہم نے سونے کے لیے ابھی لائٹ آف کی ہی تھی کہ اچانک ہمارا بیڈ ہلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ کچھ ہی دیر میں بیڈ اس قدر زور سے ہلنے لگا جیسے کوئی اسے جھولے دے رہا ہو' بیڈ زور زور سے ہل رہا تھا اور کوشش کے باوجود ہمارے لیے حرکت کرنا ناممکن تھا۔
پھر اچانک ہمارا دم گھٹنے لگا ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے ہمارے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور سانس روکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اسی اثناء میں کمرہ کے پردے بھی خودبخود گر گئے جس سے گھپ اندھیرا ہو گیا' ہم ماں بیٹی بھوت کے ساتھ لڑائی میں مصروف تھیں جو چند منٹ تک چلتی رہی پھر بیڈ ہلنا بند ہو گیا اور حالات پر سکون ہو گئے ہم نے اٹھ کر لائٹ جلائی تو کمرہ میں کوئی نہ تھا۔ کالے کلوٹے بھوت کے ناخن لگنے سے ماں اورمیرے چہرے پر خراشیں پڑ گئی تھیں جن میں سے خون بھی رس رہا تھا۔
ہمیں زندگی میں بہت دفعہ بھوتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جس قدر خوفناک وہ رات تھی ایسے حالات اس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں پیش آئے وہ کہتی ہیں اس درندہ صفت بھوت نے ہماری زندگی اجیرن بنا دی۔ مشعل کہتی ہیں سارہ اور کالے کلوٹے بھوت کے علاوہ ہمارے گھر میں ایک تیسرا بھوت بھی ہے جس کا نام ایمی ہے۔ ایمی ایک نیک دل اور ہمدرد قسم کا بھوت ہے۔ وہ ہمیں کالے شیطان کے حملہ سے بچانے کی کوشش کرتا اور اس کے آنے سے قبل ہمیں اطلاع دے دیتا۔ وہ بھوت ہمارے ساتھ اس قدر مانوس تھا کہ امی کئی بار مجھے پکارنے کے لیے مشعل کہنے کی بجائے ایمی کو پکارنے لگتیں جس کے باعث میں ماں کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگتی۔
ریسرچر کی روح
نیو یارک کی سارہ بتاتی ہیں کہ میری چچی شیمپو بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ چچی کے پاس سنانے کے لیے ایسی بہت سی کہانیاں اور واقعات تھے جن کا انھیں یکے بعد دیگرے سامنا کرنا پڑا تھا۔ میری چچی ایک پڑھی لکھی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ان کی رائے ہمیشہ صائب ہوتی ۔خاندان کے دیگر افراد بھی ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ چچی نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی لہذا وہ فیکٹری میں ریسرچ کا کام کرتی تھیں۔ چچی بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ فیکٹری کی لیبارٹری میں کام کر رہی تھیں، اچانک انھیں کسی آدمی کی سرگوشی کرنے جیسی آواز سنائی دی حالانکہ اس وقت وہ اور ان کی ساتھی خاتون ہی وہاں تھیں اور ان کے سوا ارد گرد کوئی تیسرا موجود نہ تھا۔
انھوں نے اردگرد اچھی طرح جائزہ لیا مگر وہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر ایک دفعہ وہ پہلی شفٹ میں کام کے لیے فیکٹری گئیں کیونکہ وہ بالوں کو مضبوط اور لمبا کرنے والے شیمپو کی نئی قسم پر ریسرچ کر رہی تھیں۔ صبح سویرے ان کے اور ایک خاتون کے سوا فیکٹری میں کوئی دوسرا نہیں آیا تھا۔ وہ لیبارٹری میں کام میں مصروف تھیں، اچانک انھیں درمیانے قد کا ایک آدمی نظر آیا پھر غائب ہو گیا۔ وہ صرف ایک سایہ تھا حقیقت میں کوئی وہاں موجود نہ تھا۔ چچی نے ساتھی خاتون سے کہا کہ کیا اس نے کسی آدمی کو دیکھا ہے۔خاتون نے جواب دیا کہ ہاں مگر وہ کہاں گیا۔ نظر آنے والی چیز کیا تھی، اس بارے وہ کوئی مزید تفصیل نہیں بتا سکتیں۔
وہ کہتی ہیں مجھے یقین ہے وہ فیکٹری کے سابق ریسرچر جس کا نام نکسن تھا، کی روح ہے جو اب بھی فیکٹری دیکھنے آتی ہے۔ چچی کو پکا یقین ہے جو آدمی انھیں نظر آیا، وہ فیکٹری کا ریسرچر ہی تھا۔
پھر ایک دفعہ وہ کام میں مصروف تھیں، اچانک انھیں احساس ہوا جیسے کوئی انھیں دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی لیکن کوئی نظر نہ آیا۔لیبارٹری سے باہر فیکٹری کی دوسری ورکرز اپنے کام میں مصروف تھیں اور ان میں سے کسی کو بھی کسی روح یا بھوت کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا۔
ایک دفعہ کام کے دوران انھیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا جو جسم کو چھو کر گزر گیا۔ جس وقت انھیں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا، فیکٹری کا سنٹرل ہیٹر چل رہا تھا اور ساری کھڑکیاں بند تھیں۔چچی کہتی ہیں وہ یقینا نکسن تھا جو آج بھی اپنی لیبارٹری کو دیکھنے آتا ہے۔ اس نے آج تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ چچی کبھی پریشان نہیں ہوئیں۔