یعنی سب ہی کچھ اللہ کے نام پر
اتوار پندرہ ستمبر۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں قبرستان کے نزدیک دھماکا۔ خاتون سمیت دو افراد زخمی (آمدِ خبر۔ صبح سات بج کے۔۔۔
اتوار پندرہ ستمبر۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں قبرستان کے نزدیک دھماکا۔ خاتون سمیت دو افراد زخمی (آمدِ خبر۔ صبح سات بج کے اٹھاون منٹ)۔
شمالی وزیرستان میں میران شاہ میر علی روڈ پر فوجی گاڑی کے نیچے ریموٹ کنٹرول بم دھماکا۔ ایک اہکار جاں بحق۔ دو زخمی۔( آمدِ خبر۔ صبح نو بج کے تیس منٹ )
خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود میں دو دھماکے۔ ایک دھماکا نیٹو کنٹینر سپلائر کے گھر کے باہر اور دوسرا ایک این جی او اہلکار کے گھر کے باہر ہوا۔ جانی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ مکانات کو جزوی نقصان پہنچا (آمدِ خبر۔ صبح نو بج کے چالیس منٹ)۔
دیر بالا میں ایک گذرتی فوجی گاڑی کے نیچے بم کا دھماکا۔ مالاکنڈ کے فوجی کمانڈر میجر جنرل ثنا اللہ، لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور سپاہی عمران جاں بحق۔ دو دیگر سپاہی زخمی۔ واضح رہے کہ یہ حملہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے اس اعلان کے اگلے روزہوا کہ آیندہ ماہ سے مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کی بتدریج واپسی شروع ہو جائے گی اور سیکیورٹی کے معاملات سول انتظامیہ سنبھال لے گی۔ (آمدِ خبر۔ دوپہر دو بج کے دس منٹ)۔
طالبان نے دیر حملے کی ذمے داری قبول کر لی (آمدِ خبر۔ سہ پہر چار بج کے پندرہ منٹ)۔
تحریکِ طالبان کی مجلسِ شوریٰ نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات کی بابت حکومت اپنے اخلاص اور اختیار کا ثبوت دینے کے لیے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلائے اور طالبان قیدیوں کو رہا کرے ورنہ مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں (آمدِ خبر۔ شام سات بج کے تیس منٹ)
سندھ سے متصل بلوچستان کے شہر حب کے نواحی علاقے بھوانی میں آر سی ڈی ہائی وے پر ناٹو سپلائی لے جانے والے قافلے پر راکٹوں سے حملہ۔ ایک درجن سے زائد کنٹینرز اور آئل ٹینکر آگ لگنے سے تباہ۔ ایک خاتون راہگیر اور ڈرائیور زخمی۔ اس حملے سے ایک دن قبل آر سی ڈی شاہراہ پر سوراب کے علاقے میں ناٹو کنٹینرز پر راکٹ حملے میں نو مال بردار ٹرک تباہ اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوا تھا۔ (آمدِ خبر رات دس بجے)
امیرِ جماعتِ اسلامی منور حسن نے منصورہ میں ایک تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں پر حکومت سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کر رہی۔ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات میں حائل رکاوٹوں کو دو کرنا چاہیے۔ ورنہ امن و امان کے قیام اور دہشت گردی سے نجات کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ (آمدِ خبر۔ رات دس بج کے چالیس منٹ)۔
یہ تمام واقعات و پیش رفت صرف ایک دن کے چودہ گھنٹے بیالیس منٹ میں وقوع پذیر ہوئے۔ جب کہ دن چوبیس گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔
کل جماعتی کانفرنس کی جانب سے حکومتِ وقت کو غیر مشروط امن مذاکرات کا اختیار ملے لگ بھگ ایک ہفتہ ہو چلا ہے۔ اس دوران متعدد طالبان قیدی رہا ہوئے اور طالبان نے بھی سنیچر کو چار سرکاری اہلکاروں کو رہا کیا۔ مگر جیسا کہ صرف ایک دن کی ڈائری سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طالبان کے حملوں کی شدت بڑھ گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے اب تک پولیس کے تو متعدد اعلیٰ افسر طالبان کے ہاتھوں مارے گئے۔ لیکن اس عرصے میں جو فوجی اور نیم فوجی اور ایجنسی اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں، ان میں میجر جنرل ثنا اللہ سب سے اعلیٰ فوجی افسر ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت نشانہ بنے جب وفاقی حکومت طالبان سے غیر مشروط مذاکرات کے قومی مینڈیٹ سے مسلح ہے۔ اور خیبر پختونخوا کی حکومت اور جماعتِ اسلامی و جمیعت علمائے اسلام جیسی سرکردہ مذہبی جماعتوں نے بھی امن مذاکرات کی بھرپور حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔
مگر یہ وہ جنگ ہے جس میں ہر فریق اللہ تعالی کے بھروسے آگے بڑھنے کا دعویدار ہے۔ طالبان کی جدوجہد بھی حکومتِ الہیہ کے محور پرگھوم رہی ہے۔ حکومت بھی امن مذاکرات اتمامِ حجت کے دینی فلسفے کے تحت کرنا چاہ رہی ہے۔ فوجی آپریشنوں میں بھی دشمنوں کو راہِ راست اور راہِ نجات پر لانے کی روح کارفرما بتائی جاتی ہے۔ سیاسی و مذہبی ثالث بھی قرونِ اولی کے جذبہِ اخلاص سے سرشار نظر آ رہے ہیں۔
ذبح کرنے والی بھی تکبیر پڑھ رہے ہیں۔ ذبح ہونے والے بھی کلمہ پڑھ کے اپنی گردنیں ڈھلکا رہے ہیں۔ ذبح کرنے والوں پر حملہ بھی نعرہِ تکبیر کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مذاکرات کار بھی دعائے مناجات کی تسبیح پھیر رہے ہیں اور قوم بھی سورہِ یاسین کا ورد کر رہی ہے۔ یہ کیسی جگہ ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں جہاں حق حق نہیں اور باطل باطل نہیں۔ نا کوئی سفید ہے نا سیاہ۔ جو بھی ہے مٹیالہ ہے۔ جس کو کسی بھی اونچائی یا نیچائی سے جہاں جتنا دکھائی دے رہا ہے، وہ اسی کی بنیاد پر موافقت و مخالفت کے اپنے تئیں فیصلے کر رہا ہے۔ جمل اور صفین کی جنگیں تو آپ کو یاد ہوں گی ہی۔ کیا آج تاریخ اسی طرح دہرانے کی کوشش نہیں ہو رہی؟
ان حالات میں اللہ تعالٰی کس کے ساتھ ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ یہ راز سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ مگر جب سب ہی اللہ تعالٰی کی رسی پکڑنے کے دعویدار ہوں اور پھر اسی رسی سے ایک دوسرے کی مشکیں بھی کسنے کے چکر میں ہوں اور سب ہی بزعمِ خود حق پر بھی ہوں تو پھر ایسی سچویشن جنگ کے لیے تو کارگر ہو سکتی ہے۔ امن کے لیے ہرگز نہیں۔
تو کیا باضابطہ مذاکرات شروع بھی ہو پائیں گے؟ فی الوقت اگر اسی سوال کا جواب مل جائے تو بہت بڑی بات ہو گی۔ مگر یہاں تو بادل دیکھ کر گھڑے پھوڑنے اور سر کے اوپر سے تیزی سے گذرتی گھٹاؤں کے نیچے کھڑے ملہار الاپنے کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ یہ بادل کسی جھلساؤ سے اٹھنے والے دھوئیں کے ہیں یا پانی کے بوجھ سے سیاہ بدلیاں ہیں۔
بائبل کے مطابق قولِ عیسیٰ ہے کہ اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر چپت مارے تو اپنا بایاں گال بھی پیش کر دو۔ لیکن اگر فریقِ ثانی کا یہ عقیدہ ہو کہ آنکھ کے بدلے دو آنکھیں اور کان کے بدلے پورا سر تو وہاں قولِ عیسیٰ پر کون کتنا عمل کر لے گا اور کیسے اور کب تک؟
بد گمانیاں اپنی قیمت ہمیشہ سود سمیت وصول کرتی ہیں مگر خوش گمانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھیں خریدنے اور بیچنے میں جیب سے کچھ نہیں جاتا۔
چاہے آہستہ چلو، چاہے چلو تیز قدم
یا رکو، یا نہ رکو، وقت ہوا جاتا ہے
( احمد نوید )
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )