سندھ کو سیاسی نظام سے بچایا جائے

سندھ ایک بار پھر سیاسی آتش فشاں کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے، سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

سندھ ایک بار پھر سیاسی آتش فشاں کے دہانے کی طرف بڑھ رہا ہے، سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پچھلی سندھ حکومت کے دوران اختلافات کا جو سلسلہ چل پڑا تھا، وہ حالیہ انتخابات کے بعد اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ پچھلی حکومت میں پی پی پی، متحدہ اور اے این پی کا جو اتحاد تھا اگرچہ یہ اتحاد مسلسل محاذ آرائی کی زد میں رہا لیکن کسی نہ کسی طرح گاڑی گھسٹتی رہی، متحدہ اپنی شکایات کے حوالے سے کئی بار حکومت سے باہر روتی پیٹتی آئی پھر منت سماجت کے بعد حکومت میں واپس گئی لیکن سندھ حکومت اور متحدہ کے درمیان عدم اعتماد کی فضا برقرار رہی۔

مئی کے قومی انتخابات کے بعد متحدہ نے جب مسلم لیگ کے رہنما میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے حوالے سے حمایت کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی اور متحدہ میں وہ فاصلے پیدا ہوگئے جو آج تصادم تک پہنچتے نظر آرہے ہیں۔ میاں صاحب کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد جو اہم ترین مسائل ان کے سامنے تھے ان میں کراچی بدامنی کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ کراچی میں ایک عشرے سے جو انارکی پھیلی ہوئی تھی وہ اس انتہا کو پہنچ گئی تھی جہاں حکومت نام کی کسی چیز کا وجود مشکوک ہوگیا تھا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم نے کراچی کے 2 کروڑ عوام کو یرغمال بنالیا تھا۔

ہر روز درجن بھر لاشیں روز کا معمول بن گئی تھیں بلاامتیاز زبان و قومیت کراچی کا ہر شہری خوف و دہشت کا شکار تھا بھتہ مافیا میں بے شمار گروہ شامل ہوگئے تھے تاجر اور صنعتکار کے ساتھ ہر شعبہ زندگی کے معروف لوگ بھتوں اور اغواء برائے تاوان کی زد میں تھے بھتے کی پرچی موت کی پرچی بن گئی تھی جسے یہ پرچی مل جاتی اس کے پاس صرف دو آپشن ہوتے یا تو وہ بھتے کی مطلوبہ بھاری رقم بھتہ خوروں کو خاموشی سے ادا کردے یا پھر اپنی موت یا اپنے بچوں کے اغواء کے لیے تیار ہوجائے یہ مکر وہ کاروبار اس قدر منظم انداز میں چلایا جارہا تھا کہ بھتہ خوروں کے پاس اپنے شکار کے خاندان کی مکمل معلومات ہوتی تھیں کہ اس کے کتنے بچے ہیں کس کس اسکول میں پڑھتے ہیں کب گھر سے نکلتے ہیں کب گھر واپس آتے ہیں وہ خود کیا کرتا ہے اس کے دن بھر کے پروگرام کی معلومات کے ساتھ جب اسے بھتہ خوروں کا خوف ملتا تو وہ ہر صورت بھتہ خوروں کا مطالبہ پورا کرنے پر مجبور ہوجاتا یوں سارا شہر بھتہ مافیا کی دہشت میں مبتلا تھا۔

اس خطرناک منظر نامے میں حکومت کا کردار ایک خاموش تماشائی کا بن کر رہ گیا تھا۔ تاجر اس خوف کے خلاف ہڑتالیں دھرنے اور مظاہرے کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مرکزی اور صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ اس صورت حال نے وفاقی حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لیے آگے بڑھے میاں صاحب کراچی تشریف لائے ان کے ساتھ ان کے وزیر داخلہ بھی تشریف لائے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ سے ملاقات کے بعد ٹارگیٹڈ آپریشن کا فیصلہ ہوا جس کی کمان وزیر اعلیٰ سندھ کے ہاتھوں میں دے دی گئی جن سے متحدہ کو سخت شکایات تھیں۔

متحدہ کے کراچی میں فوج کو بلانے کا جو مطالبہ کیا تھا وہ نہیں مانا گیا اور ٹارگیٹڈ آپریشن کی ذمے داری رینجرز کو دی گئی۔ رینجرز جو برسوں سے کراچی میں آپریشن کر رہی تھی اب اس آپریشن کو ٹارگیٹڈ کا نیا نام دے کر اور رینجرز کو زیادہ اختیارات دے کر اس آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن کے آغاز ہی کے ساتھ یہ آپریشن متنازعہ بن گیا متحدہ اور اے این پی نے شکایت کی کہ ان کے بے گناہ کارکنوں کو پکڑا جارہا ہے۔

کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے بلاشبہ ایک بلاامتیاز اور سخت آپریشن کی ضرورت تھی لیکن اس حوالے سے جو غلطی نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اس آپریشن کو مرحلہ وار شروع کرنے کے بجائے چومکھی میں بدل دیا گیا۔ ایک ہی وقت میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے شہر میں ایک بھونچال آگیا جب اس قسم کے آپریشن شروع ہوتے ہیں تو گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں اور پھر ہر ایک کو خاص طور پر نوجوان طبقے کو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ کہیں وہ بھی گھن کی طرح گیہوں کے ساتھ نہ پس جائے۔ اس خوف کی وجہ سے نوجوان اپنے گھروں کو چھوڑ کر ادھر ادھر پناہ تلاش کرتے ہیں ماں باپ اپنے بچوں کی وجہ سے سخت اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایک غیر یقینیت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔ یہ غیر یقینیت حالات کو اور سنگین بنادیتی ہے۔

''کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے'' یہ بات اس قدر تکرا کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ایک ناخواندہ شہری کو بھی یہ بات زبانی یاد ہوگئی ہے۔ اسی حوالے سے ہمارے سیاستدان کراچی میں امن وامان کی بحالی کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لیے ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جارہا ہے۔ اگر یہ آپریشن انارکی کے ذمے داروں کی ترجیحات کے ساتھ مرحلہ وار شروع کیا جاتا تو اس کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ٹارگٹ کلنگ ہے جو دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔


ٹارگٹ کلنگ میں ہر روز 10 سے 20 تک بے گناہ مارے جاتے ہیں جس کا مطلب 10 سے 20 تک خاندان روزانہ مارے جاتے ہیں۔ اسی مسئلے سے بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور بڑی بینک ڈکیتیاں منسلک ہیں اگر پہلے مرحلے میں ٹارگٹ کلنگ عرف دہشت گردی کو ٹارگٹ کیا جاتا تو نہ کسی کو اس پر اعتراض ہوتا نہ وہ صورت حال پیدا ہوتی جو پیدا ہوگئی ہے۔

اس عفریت سے نجات کے بعد دوسرے مسائل کے خلاف آپریشن کیا جاتا تو نہ صرف ایک اہم اور خوفناک مسئلے سے نجات مل جاتی بلکہ عمومی بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان وغیرہ جیسے مسائل سے نمٹنے میں آسانی ہوتی لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کا جواب سیاسی بصیرت کی کمی بھی ہوسکتا ہے سیاسی مفادات کی اولیت بھی ہوسکتا ہے جواب خواہ کچھ ہو نتائج نہ صرف خوفناک نظر آرہے ہیں بلکہ لگ یہ رہا ہے کہ اس سیاسی لڑائی کا فائدہ دہشت گرد گروہوں کو پہنچے گا۔

اسے ہم اس صوبے کے عوام اور اس کے سیاست دانوں کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صوبہ زبان، نسل، قومیت، فقہہ وغیرہ کے حوالے سے اس طرح بٹ گیا ہے یا بانٹ دیا گیا ہے کہ ہر جگہ غریب ہی غریب کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور غریبوں کو آپس میں لڑانے والوں کی چاندی ہورہی ہے۔ سندھ میں بڑی سیاسی تقسیم پی پی پی اور متحدہ کے درمیان ہے۔ یہ تقسیم عرصے سے ان دونوں جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اور اس محاذ آرائی کا سب سے زیادہ فائدہ منفی قوتوں کو حاصل ہورہا ہے اور اس محاذ آرائی کا سب سے بڑا نقصان غریب طبقات کو ہورہا ہے اس محاذ آرائی میں طبقاتی سیاست جو اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے پس منظر میں چلی گئی ہے۔

سندھ کی حکومت کا خیال ہے کہ وہ اس ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے کراچی میں امن وامان بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔متحدہ کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن 1992 کی تاریخ کا اعادہ ہے۔ متحدہ نے اپنے اس موقف کے ساتھ اس آپریشن کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ پریس کلب پر مظاہرے کے دوران متحدہ کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ ''انصاف نہیں کیا گیا تو فیصلہ ہم خود کریں گے، کسی کو ووٹ کی طاقت پسند نہیں تو ہم سڑکوں کی طاقت سے جواب دینا جانتے ہیں'' وغیرہ وغیرہ۔

متحدہ کے اس اعلان اور حکومت کے ٹارگیٹڈ آپریشن کو ہر قیمت پر جاری رکھنے کی پالیسی کا نتیجہ کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم نے ابتداء میں کہا تھا کہ سندھ کی سیاسی تقسیم اس صوبے کے عوام کی ایسی بدقسمتی ہے جس کا سارا نقصان ہر حال میں عوام ہی کو بھگتنا پڑے گا۔

لہٰذا ممکنہ خطرناک صورت حال سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس ٹارگیٹڈ آپریشن کی یا تو دونوں جماعتوں کے اتفاق سے ازسرنو منصوبہ بندی کی جائے اور اس منصوبہ بندی میں دوسری جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے یا پھر اسے حقیقی معنوں میں سیاسی مصلحتوں، سیاسی دوستیوں اور دشمنیوں سے بالاتر ہوکر اس طرح بلاامتیاز اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے کہ کسی جماعت کو یہ شکایت نہ رہے کہ یہ آپریشن اسے دیوار سے لگانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کو خلوص نیت سے اپنا غیر جانبدارانہ اور مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ:

خون خاک نشیناں ہی رزق خاک ہوگا
اور ایلیٹ اس منظرنامے پر مسکراتی رہے گی
Load Next Story