پاکستانی انجینئر کا شاندار کارنامہ

پانی پر گاڑی چلانے سے 10 روپے کے پانی سے 40 کلومیٹر کا سفر طے کیا جاسکے گا


Shabbir Ahmed Arman August 29, 2012
[email protected]

سندھ کے شہر خیرپورکے فرزند انجینئر آغا وقار نے پانی سے کار چلانے کا عملی مظاہرہ کرکے جدید ترقی یافتہ دنیا کو حیران کردیا ہے جو بلاشبہ اہلِ پاکستان کے لیے باعثِ فخر ہے اور ان طبقوں کو پیغام ہے جو پاکستان سے شاکی ہیں کہ ان کے نوجوان کند ذہن ہیں۔ اگر قسمت نے آغا وقار کے ساتھ وفا کی اور وہ حاسدوں سے محفوظ رہے تو ان کی کاوش رنگ لائے گی۔

30 جولائی کو انجینئر آغا وقار اور ان کے ساتھیوں نے واٹر کٹ نصب کرکے ایک عام کار کو پٹرول یا سی این جی کے بجائے پانی سے چلانے کا مظاہرہ کیا اور یہ منظر بذریعہ ٹی وی چینل ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔ پاکستانی انجینئر وقار احمد نے خیرپور کے سرکاری ٹیکنیکل کالج میں تعلیم حاصل کی اور وہیں پر ہی انھوں نے پانی کو گاڑیوں کا ایندھن بنانے کا عمل شروع کیا، جس میں انھیں کامیابی ملی۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے پاکستانی انجینئر آغا وقار احمد کا یہ کارنامہ وفاقی کابینہ میں پیش کیا تھا، جس پر غور کے لیے کابینہ نے ایک سب کمیٹی بنادی تھی۔ وزیر اعظم راجا پرویز اشرف اور وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے پٹرول اور سی این جی کی جگہ پانی سے گاڑیاں چلانے کے منصوبے کی تائید کی تھی۔

وقار کا کہنا ہے کہ ''کار چلانے کے لیے ڈسٹلڈ واٹر (کشید کیا ہوا پانی) استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک عام کار میں واٹر فیول کِٹ نصب کی جاتی ہے جس کے ذریعے پانی سے ہائیڈروجن گیس پیدا کرکے انجن کو چلایا جاتا ہے۔ ڈسٹلڈ واٹر کے لیے پلانٹ لگانے پڑیں گے اور 10 روپے کے پانی سے 40 کلومیٹر کا سفر طے کیا جاسکے گا۔ واٹر کٹ کا کل خرچ تقریباً 50 ہزار روپے تک ہوسکتا ہے۔'' یہ امر باعثِ اطمینان ہے حکومتِ پاکستان انجینئر آغا وقار کی مکمل حمایت کرے گی، انھیں سیکیورٹی فراہم کرے گی اور پانی کی کٹ بنانے کا فارمولا محفوظ رکھا جائے گا۔ اہلِ پاکستان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ملک بھر میں واٹرفیول کٹ بنانے کے پلانٹ لگانے میں انجینئر کی سرپرستی کرے، اس سے ملک میں موجود توانائی کے بحران سمیت تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

تجزیہ یہ ہے کہ پانی کے ذریعے گاڑی کو چلانے کا دعویٰ پہلی بارسامنے نہیں آیا ہے۔ قبل ازیں دنیا میں یہ دعوے کئی بار سامنے آچکے ہیں جن میں فرانس، امریکا، کینیڈا اور فلپائن کے انجینئرز سرفہرست ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان موجدین کی پراسرار اموات واقع ہوتی رہتی ہیں۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ پٹرولیم انڈسٹری دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے گاڑیوں کے کسی ایسے ایندھن کو برداشت نہیں کرسکتی جس سے اس کے مفادات پر ضرب پہنچتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وجہ ہے وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو مختلف طریقوں سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔

تحقیق کے مطابق پانی سے چلنے والی پہلی کار 1805 میں فرانسیسی سائنس دان فرانکوئس ایساک نے تیار کی تھی۔ امریکی انجینئر ایلن اسٹیٹلے میئر نے 1990 کی دہائی میں ''واٹر فیول سیل'' یا گاڑی کو پانی سے چلانے والی ''ڈیوائس'' ایجاد کی تھی۔ انھوں نے واٹر فیول سیل کا اپنی کار پر کامیاب تجربہ کیا تھا اور اس گاڑی کو ''ڈیون بگی'' کا نام دیا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا تھا کہ اس گاڑی میں لاس اینجلس سے نیویارک تک سفر کرنے کے لیے صرف 83 لیٹر پانی کی ضرورت ہوگی۔ 20 مارچ 1998 اوبائیو کے شہر گروف سٹی میں واقع کریکر بیرل میں اسٹیٹلے میئر نے ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس پارٹی میں انجینئر کو تواضع کے لیے جوس پیش کیا گیا۔

جوس پیتے ہی اسٹیٹلے میئر نے اپنے گلے کو پکڑ لیا اور باہر کی طرف بھاگا۔ باہر جا کر اس نے الٹیاں کیں اور کچھ ہی دیر میں دم توڑ گیا۔ اسٹیٹلے کے جڑواں بھائی اسٹیفن کے مطابق انجینئر اسٹیٹلے کے آخری الفاظ یہ تھے ''انھوں نے مجھے زہر دیا ہے۔'' پولیس تین برس تک واقعے کی تحقیقات کرتی رہی اور آخرکار اسٹیٹلے کی موت کو برین ہیمبرج کا نتیجہ قرار دے دیا جب کہ اسٹیفن نے شبہ ظاہر کیا کہ پٹرولیم کی صنعت سے وابستہ بعض شخصیات اس قتل میں ملوث ہیں۔ قبل ازیں 80 کی دہائی میں امریکا کے ایک نوجوان انجینئرکارل سیلا نے پانی سے چلنے والی کار کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔

انھوں نے اس گاڑی کا نام ''واٹر فیولڈ کار'' رکھا تھا۔ بعد ازاں انجینئر کارل سیلا کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا اور جیل کی کوٹھری میں اس کی موت واقع ہوئی، لیکن موت کی وجوہات کا تاحال علم نہیں ہوسکا۔ اس سے بھی قبل یعنی 70 کی دہائی میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ہیکٹر ہیری ویس نامی انجینئر نے پانی سے کار چلانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ میڈیا کوریج کے بعد بعض غیر ملکی اداروں نے اس کے منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کی، لیکن ''واٹر فیولڈ کار'' کے تجارتی پیمانے پر متعارف ہونے سے پہلے ہی ہیکٹر ہیری ویس پراسرار طور پر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا جب کہ اس کے لواحقین کا کہنا تھا کہ اسے قتل کیا گیا۔

میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ سنگاپور نے پانی سے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کرنے والے پاکستانی انجینئر آغا وقار احمد کو اپنے ملک میں آکر اپنی صلاحیتوں سے اس نئی ٹیکنالوجی کی صنعت قائم کرنے کی پیشکش کردی جس میں تمام سرمایہ کاری سنگاپور کی کمپنی کرے گی تاہم آغا وقار نے پیشکش مسترد کرتے ہوئے کمپنی سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں ہی سرمایہ کاری کرے، جس پر کمپنی نے رضامندی ظاہر کردی ہے۔

آغا وقار کے تجربے کو شک کی نظر سے دیکھنے والے ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ایک میڈیا نمایندے سے کہا ہے کہ ''جو کچھ وہ (آغا وقار) کہہ رہے ہیں وہ سراسر سائنسی بنیاد کے خلاف ہے، وہ (آغا وقار) باقاعدہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں، انھوں نے کوئی ریسرچ پیپر یا کتاب بھی نہیں لکھی، وہ پی ایچ ڈی بھی نہیں ہیں، ان کا کوئی تحقیقی و تجربے کا ٹریک ریکارڈ نہیں ہے، انھوں نے کوئی پیٹنٹ نہیں کرایا، اگر کوئی نئی ڈسکوری ہو تو اسے پیٹنٹ کراتے ہیں، یہ سب کچھ میرے نزدیک فراڈ ہے، اس کے بارے میں بات کرنا وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے۔''

پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹرلسٹ ریسرچ کے چیئرمین ڈاکٹر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ ''انھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ انجینئر وقار نے پانی کو بطور ایندھن استعمال کرکے گاڑی کو چلایا۔ یہ ضرور ہے کہ میں نے گاڑی کا تیکنیکی اعتبار سے معائنہ نہیں کیا، لیکن بغیر معائنے یا تحقیق کے کسی کی محنت کو یک دم فراڈ قرار نہیں دیا جاسکتا، جو شخص اچھا کام کرتا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، عین ممکن ہے کہ اس سے کوئی بہتر نتیجہ نکل آئے۔ ہم نے سائنس کی تاریخ میں دیکھا ہے کہ کئی ایجادات اتفاق سے ہوئی ہیں، عین ممکن ہے کہ ان سے بھی کوئی اتفاقیہ ایجاد ہوگئی ہو، لیکن اعتراض سے پہلے اس کا جائزہ لیں، چیک کریں اور پھر دعوے کو تسلیم یا رد کیا جائے۔ سائنسی طریقہ تو یہی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ اب ہمیں ایسا ماحول بنانا ہوگا جو اس قسم کے معاملات کی حوصلہ افزائی کرسکے۔ پہلے مرحلے پر ہی سخت تنقید حوصلہ شکن ہوتی ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں