معاشی بدحالی میں ڈوبتے بھارتی عوام کی پکار ’’اچھے دن گزر گئے‘‘
مودی حکومت کی عاجلانہ معاشی پالیسیوں نےبھارت میں بیروزگاروں کی ناراض فوج کھڑی کر دی
دوپہر کے بارہ بج چکے۔ سورج آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی کے علاقے ہرولا میں سڑک پر مزدوروں کا ہجوم جمع ہے۔ شدید گرمی نے انہیں پسینے میں شرابور کررکھا ہے مگر وہ متوقع آجیروں کا انتظار کررہے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ آج کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا تاکہ وہ کچھ روپے کما کر گھر لے جائیں اور بیوی بچوں کی بھوک مٹانے کا بندوبست کریں۔
یہ مزدور ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ مگر کام بہت کم رہ گیا ہے... آخری آجیر صبح نو بجے آیا تھا۔ وہ چند مزدوروں کو ساتھ لے گیا۔ اسے کارخانے میں سفیدی کرانی تھی۔ تب سے تین گھنٹے گزر چکے اور علاقے میں کسی آجیر نے قدم نہیں دھرے۔
چار پانچ سال قبل مزدوروں کو اچھا خاصا کام دستیاب تھا۔ ہر گھنٹے میں پانچ چھ آجیر وہاں آتے اور مزدوروں کو ساتھ لے جاتے۔ تب روزانہ ڈھائی تین ہزار مزدوروں کو کام مل جاتا اور انھیں اچھی خاصی آمدن بھی ہوجاتی۔ مگر اب روزانہ ایک ہزار مزدوروں کو بھی کام نہیں مل پاتا۔ دہلی ہی نہیں بھارت کے ہر شہر و قصبے میں بیروزگاری کا یہی عالم ہے۔ لاکھوں بھارتی مجبور ہیں کہ روزانہ عارضی اور جزوقتی ملازمتیں کرتے رہیں تاکہ زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھ سکیں۔
نوٹ بندی کی پالیسی
بھارت میں بیروزگاری کی لہر نے نومبر 2016ء کے بعد جنم لیا۔ اس مہینے مودی حکومت نے 500 اور 1000 والے نوٹوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنایا جاسکے۔ وجہ یہ کہ بھارت میں غیر دستاویزی معیشت ایک آفت کی شکل اختیار کرچکی تھی۔بھارت میں 50 کروڑ سے زائد باشندوں کی افرادی قوت موجود ہے۔ ان میں سے ''90 فیصد'' غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ گویا وہ بعض بالواسطہ (ان ڈائریکٹ) ٹیکس تو دیتے تھے مگر براہ راست ٹیکس سے پہلو بچا جاتے۔ اس طرح بھارتی حکومت ہر سال کھربوں روپے ٹیکس چوری کے باعث کھو دیتی تھی۔ مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑے نوٹ ختم کردیئے جائیں تاکہ چھپایا گیا سرمایہ سامنے آکر دستاویزی میعشت کا حصہ بن جائے۔
آٹھ مہینے بعد مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت کو کاری ضرب پہنچانے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس (بھارت میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس) متعارف کرا دیا۔ جنرل سیلز ٹیکس بالواسطہ ٹیکس ہے۔ مودی حکومت نے اس ٹیکس میں مختلف سلیب متعارف کرائے۔ آخری سلیب کی شرح 28 فیصد ہے۔ یہ پوری دنیا میں جی ٹی ایس کی بلند ترین شرح ہے۔ماہرین کے نزدیک مودی حکومت کا متعارف کرایا گیا جنرل سیلز ٹیکس بہت پیچیدہ ہے۔ نیز اس نے چھوٹے کاروباری افراد، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں اپوزیشن رہنما، راہول گاندھی نے اس ٹیکس کو ''گبرسنگھ ٹیکس'' کا خطاب دے ڈالا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیکس نے چھوٹے کاروبار اور چھوٹی صنعتیں تباہ کر دی۔ اگر پچھلے دو برس کے دوران بھارت میں بیروزگاری کی شرح دیکھی جائے، تو راہول گاندھی کا دعویٰ درست لگتا ہے۔
منصوبہ بندی کے بغیر عمل
دراصل نوٹ بندی اور نئے جنرل سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہزارہا سرمایہ کاروں نے غیر دستاویزی معیشت سے اپنا پیسہ نکال لیا۔ وہ اپنی رقم کو حکومت اور ٹیکس اداروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ نتیجتاً سینکڑوں کاروبار بند ہوگئے، کمپنیاں ختم ہوئیں اور ان میں کام کرتے بھارتی اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں بیروزگاری کی شرح 8.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پچھلے پینتالیس سال میں بلند ترین شرح ہے۔ گویا بھارت میں چار کروڑ سے زائد بیروزگاروں کی فوج ظفر موج دندناتی پھرتی ہے۔
یہی نہیں، باروزگاروں میں سے بھی اکثریت چھوٹی موٹی ملازمتیں کرکے ہی گزار کررہی ہے کیونکہ اچھی ملازمت کا ملنا بہت کٹھن مرحلہ بن چکا۔صورتحال سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتیوں کا خیال کیے بغیر غیر دستاویزی معیشت پر اچانک دھاوا بول دیا۔ افراتفری میں سرمایہ کاروں نے اپنے کاروبار و کمپنیاں بند کردیں۔ ان کا مگر کچھ نہیں بگڑا کیونکہ وہ تو کروڑوں اربوں روپوں میں کھیلتے ہیں۔ وہ آرام و آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل آفت نچلے و متوسط طبقات کے افراد پر ٹوٹی جو کاروبار و صنعتیں بند ہونے سے بے روزگار ہوگئے۔ اب حالت یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی خیراتی ہوٹلوں سے کھانا کھاکر جسم و روح کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی جہنم بن چکی۔ جو مسائل برداشت نہ کرسکے، وہ اپنی جان لے لیتا ہے۔ اسی لیے بھارت میں خودکشیوں کی سالانہ شرح بھی بلند ہوچکی۔
حالات بہت خراب ہیں
صورتحال سے عیاں ہے کہ غیر دستاویزی معیشت کے خلاف مودی حکومت کی جنگ کامیاب نہیں ہوسکی، بلکہ اس نے بھارتی معیشت کو کمزور کر ڈالا۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت میں شامل بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس نظام میں شامل کرنے کے لیے انھیں کوئی آگاہی نہیں دی،انھیں دستاویزی معشیت کا حصہ بننے کی خاطر ذہنی طور پہ تیار نہیں کیا اور نہ انھیں کسی قسم کی ترغیبات دیں کہ وہ خود کو قانونی نظام میں ضم کر دیتے۔ چناں چہ سرمایہ کاروں نے خوفزدہ ہوکر غیر دستاویزی معیشت سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ اس عمل نے نہ صرف معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری کیا بلکہ بہت سے بھارتی اپنی ملازمتوں اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ماضی میں غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے ناخواندہ، نیم ہنرمند، ہنرمند اور تعلیم یافتہ بھارتی غیر دستاویزی معیشت میں شامل ہوکر ملازمتیں پالیتے تھے۔ یوں انہیں دال دلیہ ملنے لگتا۔ مگر مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت پر ڈرون حملے کرکے غریبوں اور متوسط طبقہ والوں کو ذریعہ روزگار سے محروم کردیا۔ ان میں سے لاکھوں نے نریندر مودی کو اقتدار میں لانے کی خاطر ووٹ دیئے تھے۔اب وہ بہت پچھتارہے ہیں۔ اکثر بیروزگار کہتے ہیں ''کانگریس کی حکومت میں معاشی حالات اچھے تھے۔ افسوس ہے، اچھے دن گزرگئے۔ اب تو ہم ایک وقت کی روٹی بھی بہ مشکل حاصل کرپاتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔''
عجیب و غریب عذاب
39 سالہ راجو پرجاپتی اپنے ماں باپ اور بیوی کے ساتھ ممبئی میں رہتا ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ معمولی ملازمتیں کرنے لگا۔ آخر اس نے راج گیری کا کام سیکھ لیا۔ اسے پھر کنسٹرکشن کمپنیوں میں کام ملنے لگا۔ وہ ہرماہ پندرہ ہزار روپے کمالیتا۔ یوں زندگی آرام سے گزرنے لگی۔راجو کا باپ، گنیش بھی ڈیلی ورکر ہے۔ اسے روزانہ جو کام ملتا ہے، وہ کر ڈالتا۔ اسے بھی ماہانہ بارہ تیرہ ہزار کی آمدن ہوجاتی۔ یوں باپ بیٹا اس قابل ہوگئے کہ ہر ماہ معقول رقم کی بچت کریں۔ لیکن نوٹ بندی نے اس گھرانے کی زندگی تلپٹ کرڈالی اور وہ بیروزگاری کے طوفان بلا کا نشانہ بن گیا۔نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نافذ ہونے کے بعد بیشتر کنسٹرکشن کمپنیوں نے کام روک دیا۔
اب باپ بیٹے کو ہفتے میں ایک دو دن ہی کام ملنے لگا۔ ماہانہ آمدن جو پہلے پچیس ہزار روپے کے قریب تھی، اب گھٹ کر دس بارہ ہزار رہ گئی۔ معاشی مسائل نے انہیں آن گھیرا۔ انہوں نے دو کمروں کا کرائے والا مکان چھوڑا اور سستے علاقے میں ایک کمرا کرایہ پر لے لیا۔ اس کا کرایہ گیارہ سو روپے ماہانہ ہے۔گنیش اور راجو، دونوں صبح سویرے کام ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ قسمت اچھی ہو تو کام مل جاتا ہے ورنہ بے نیل و مرام خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ بھارت میں لاکھوں افراد کی یہی اندوہناک کہانی ہے۔ مودی حکومت کے عجلت سے، بے سوچے سمجھے کیے گئے معاشی اقدامات نے انہیں عجیب عذاب میں مبتلا کردیا۔
چاندنی چوک میں کام ٹھپ
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چاندنی چوک کا علاقہ بہت بڑا کاروباری و تجارتی مرکز ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس جیسے اقدامات نے وہاں ''70 فیصد'' کاروباری و تجارتی سرگرمیاں ختم کردیں۔ علاقے میں بیشتر چھوٹے کارخانے، ادارے اور کمپنیاں غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ جب مودی حکومت نے ان پر کریک ڈاؤن کیا، تو ستر فیصد کاروباری و تجارتی ادارے بند ہوگئے۔ ان میں ہزارہا مردو زن کام کرتے تھے۔ اداروں کی بندش کے باعث وہ بھی کروڑوں بھارتی بیروزگاروں کی فوج میں جا شامل ہوئے۔
نئی دہلی، ممبئی اوردیگر شہروں میں بنے کارخانے اور فیکٹریاں ایک نئے مسئلے کا بھی شکار ہوچکے۔ ان کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے بھارتی شہروں کی فضا آلودہ کردی ہے۔ لہٰذا مودی حکومت چاہتی ہے کہ یہ کارخانے شہروں کے مضافات میں قائم کردیئے جائیں۔ کارخانوں کے جن مالکان نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا، وہ اب عدالتوں میں مودی حکومت سے جنگ لڑرہے ہیں۔ مگر اس عدالتی کارروائی نے بھی کئی فیکٹریوں میں تالے لگوا دیئے اور وہاں کام کرتے کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نقد لین دین کی بندش
کاروبار دشمن صورتحال کی وجہ سے ہزارہا ایسے بھارتی کنگال ہوچکے جو پانچ برس قبل اچھی خاصی رقم کمالیتے تھے۔ مثلاً پچاس سالہ مہیش کو لیجیے۔ مہیش پندرہ سال قبل لکھنو سے دہلی آیا تھا۔ وہ پھر مزدوروں کا ٹھیکے دار بن گیا۔ وہ روزانہ مزدور اکٹھے کرتا اور کارخانوں کو سپلائی کردیتا۔ اس کام سے وہ ماہانہ پچاس ہزار کمالیتا۔ مگر کارخانے بند ہوئے تو مہیش کا کام بھی ٹھپ ہوگیا۔ اب وہ ٹیکسی چلا کر گزارہ کررہا ہے۔ اس کے بیوی بچے واپس لکھنو جاچکے تاکہ آبائی مکان میں رہ کر کرائے کی بھاری رقم بچائی جاسکے۔
غیر دستاویزی معیشت کی روح دراصل نقد لین دین میں پوشیدہ ہے۔ جب مودی حکومت نے نوٹ بندی کے ذریعے نقد لین دین بند کیا، تو غیر دستاویزی معیشت میں معاشی سرگرمیاں تھم گئیں۔ اس دوران حکومت سیلز ٹیکس لیے اس پر حملہ آور ہوگئی۔ اس حملے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔مغربی دہلی میں علاقہ مایا پوری واقع ہے۔ یہ بھارت میں لوہے کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ وہاں کئی چھوٹے کارخانے، کاروباری ادارے اور کمپنیاں لوہے کے کاروبار سے متعلق ہیں۔ ان میں ہزارہا افراد کام کرتے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نے اس علاقے میں بھی کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ سکریپ لوہے کا ایک تاجر، باون سالہ چیتین شرما کا کہنا ہے ''جنرل سیلز ٹیکس میں فائلنگ سسٹم بہت پیچیدہ ہے۔ ہم چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں ہوتی کہ فائلنگ سسٹم سے سرکھپائیں اور نہ ہم اتنا سرمایہ رکھتے ہیں کہ کسی پیشہ ور کو بھاری فیس دے کر ٹیکس فائل کرسکیں۔''
چھیالیس سالہ دھیان چند مایا پوری انڈسٹریل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ''دہلی، لکھنو اور قریبی شہروں میں بستے سینکڑوں افراد نے عمر بھر کی جمع پونجی سے علاقے میں چھوٹے کارخانے لگائے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور جی ٹی ایس نے ان کے کارخانے ختم کر ڈالے۔ یوں وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے جبکہ کارخانوں میں کام کرتے کارکنوں سے بھی بیروزگاری کا جن چمٹ گیا۔''
پاکستان کے لیے سبق
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی عمران خان حکومت اپنی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہے۔ بعض ماہرین نے حکومت کو 5 اور 1 ہزار کے نوٹ تبدیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس طرح نقد لین دین کو دستاویزی بنانے کے لیے شناختی کارڈ دینے کی شرط عائد کردی گئی۔ ان اقدامات سے پاکستان میں بھی معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوگیا۔ نتیجتاً غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزارہا پاکستانی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
غیر دستاویزی معیشت کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ یہ ملک و قوم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ مودی حکومت کے مانند اسے ختم کرنے کے لیے عجلت میں اور منصوبہ بندی کے بغیر پالیسیاں نہیں بنائے۔انھیں ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے مفادات کا خیال رکھیں کیونکہ غیر دستاویزی معیشت ہی انہیں روزگار مہیا کرتی ہے۔ آخر وزیراعظم انہی پاکستانیوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔مگر منصوبہ بندی کے بغیر عاجلانہ عمل انھیں نقصان پہنچائیں گے اور حکومت کو ضعف پہنچے گا۔
یہ مزدور ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ مگر کام بہت کم رہ گیا ہے... آخری آجیر صبح نو بجے آیا تھا۔ وہ چند مزدوروں کو ساتھ لے گیا۔ اسے کارخانے میں سفیدی کرانی تھی۔ تب سے تین گھنٹے گزر چکے اور علاقے میں کسی آجیر نے قدم نہیں دھرے۔
چار پانچ سال قبل مزدوروں کو اچھا خاصا کام دستیاب تھا۔ ہر گھنٹے میں پانچ چھ آجیر وہاں آتے اور مزدوروں کو ساتھ لے جاتے۔ تب روزانہ ڈھائی تین ہزار مزدوروں کو کام مل جاتا اور انھیں اچھی خاصی آمدن بھی ہوجاتی۔ مگر اب روزانہ ایک ہزار مزدوروں کو بھی کام نہیں مل پاتا۔ دہلی ہی نہیں بھارت کے ہر شہر و قصبے میں بیروزگاری کا یہی عالم ہے۔ لاکھوں بھارتی مجبور ہیں کہ روزانہ عارضی اور جزوقتی ملازمتیں کرتے رہیں تاکہ زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھ سکیں۔
نوٹ بندی کی پالیسی
بھارت میں بیروزگاری کی لہر نے نومبر 2016ء کے بعد جنم لیا۔ اس مہینے مودی حکومت نے 500 اور 1000 والے نوٹوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ مقصد یہ تھا کہ بھارت کی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنایا جاسکے۔ وجہ یہ کہ بھارت میں غیر دستاویزی معیشت ایک آفت کی شکل اختیار کرچکی تھی۔بھارت میں 50 کروڑ سے زائد باشندوں کی افرادی قوت موجود ہے۔ ان میں سے ''90 فیصد'' غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ گویا وہ بعض بالواسطہ (ان ڈائریکٹ) ٹیکس تو دیتے تھے مگر براہ راست ٹیکس سے پہلو بچا جاتے۔ اس طرح بھارتی حکومت ہر سال کھربوں روپے ٹیکس چوری کے باعث کھو دیتی تھی۔ مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑے نوٹ ختم کردیئے جائیں تاکہ چھپایا گیا سرمایہ سامنے آکر دستاویزی میعشت کا حصہ بن جائے۔
آٹھ مہینے بعد مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت کو کاری ضرب پہنچانے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس (بھارت میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس) متعارف کرا دیا۔ جنرل سیلز ٹیکس بالواسطہ ٹیکس ہے۔ مودی حکومت نے اس ٹیکس میں مختلف سلیب متعارف کرائے۔ آخری سلیب کی شرح 28 فیصد ہے۔ یہ پوری دنیا میں جی ٹی ایس کی بلند ترین شرح ہے۔ماہرین کے نزدیک مودی حکومت کا متعارف کرایا گیا جنرل سیلز ٹیکس بہت پیچیدہ ہے۔ نیز اس نے چھوٹے کاروباری افراد، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں اپوزیشن رہنما، راہول گاندھی نے اس ٹیکس کو ''گبرسنگھ ٹیکس'' کا خطاب دے ڈالا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیکس نے چھوٹے کاروبار اور چھوٹی صنعتیں تباہ کر دی۔ اگر پچھلے دو برس کے دوران بھارت میں بیروزگاری کی شرح دیکھی جائے، تو راہول گاندھی کا دعویٰ درست لگتا ہے۔
منصوبہ بندی کے بغیر عمل
دراصل نوٹ بندی اور نئے جنرل سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہزارہا سرمایہ کاروں نے غیر دستاویزی معیشت سے اپنا پیسہ نکال لیا۔ وہ اپنی رقم کو حکومت اور ٹیکس اداروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ نتیجتاً سینکڑوں کاروبار بند ہوگئے، کمپنیاں ختم ہوئیں اور ان میں کام کرتے بھارتی اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے، بھارت میں بیروزگاری کی شرح 8.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پچھلے پینتالیس سال میں بلند ترین شرح ہے۔ گویا بھارت میں چار کروڑ سے زائد بیروزگاروں کی فوج ظفر موج دندناتی پھرتی ہے۔
یہی نہیں، باروزگاروں میں سے بھی اکثریت چھوٹی موٹی ملازمتیں کرکے ہی گزار کررہی ہے کیونکہ اچھی ملازمت کا ملنا بہت کٹھن مرحلہ بن چکا۔صورتحال سے عیاں ہے کہ مودی حکومت نے نچلے اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتیوں کا خیال کیے بغیر غیر دستاویزی معیشت پر اچانک دھاوا بول دیا۔ افراتفری میں سرمایہ کاروں نے اپنے کاروبار و کمپنیاں بند کردیں۔ ان کا مگر کچھ نہیں بگڑا کیونکہ وہ تو کروڑوں اربوں روپوں میں کھیلتے ہیں۔ وہ آرام و آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل آفت نچلے و متوسط طبقات کے افراد پر ٹوٹی جو کاروبار و صنعتیں بند ہونے سے بے روزگار ہوگئے۔ اب حالت یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی خیراتی ہوٹلوں سے کھانا کھاکر جسم و روح کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی جہنم بن چکی۔ جو مسائل برداشت نہ کرسکے، وہ اپنی جان لے لیتا ہے۔ اسی لیے بھارت میں خودکشیوں کی سالانہ شرح بھی بلند ہوچکی۔
حالات بہت خراب ہیں
صورتحال سے عیاں ہے کہ غیر دستاویزی معیشت کے خلاف مودی حکومت کی جنگ کامیاب نہیں ہوسکی، بلکہ اس نے بھارتی معیشت کو کمزور کر ڈالا۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت میں شامل بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس نظام میں شامل کرنے کے لیے انھیں کوئی آگاہی نہیں دی،انھیں دستاویزی معشیت کا حصہ بننے کی خاطر ذہنی طور پہ تیار نہیں کیا اور نہ انھیں کسی قسم کی ترغیبات دیں کہ وہ خود کو قانونی نظام میں ضم کر دیتے۔ چناں چہ سرمایہ کاروں نے خوفزدہ ہوکر غیر دستاویزی معیشت سے اپنا سرمایہ نکال لیا۔ اس عمل نے نہ صرف معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری کیا بلکہ بہت سے بھارتی اپنی ملازمتوں اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ماضی میں غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے ناخواندہ، نیم ہنرمند، ہنرمند اور تعلیم یافتہ بھارتی غیر دستاویزی معیشت میں شامل ہوکر ملازمتیں پالیتے تھے۔ یوں انہیں دال دلیہ ملنے لگتا۔ مگر مودی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت پر ڈرون حملے کرکے غریبوں اور متوسط طبقہ والوں کو ذریعہ روزگار سے محروم کردیا۔ ان میں سے لاکھوں نے نریندر مودی کو اقتدار میں لانے کی خاطر ووٹ دیئے تھے۔اب وہ بہت پچھتارہے ہیں۔ اکثر بیروزگار کہتے ہیں ''کانگریس کی حکومت میں معاشی حالات اچھے تھے۔ افسوس ہے، اچھے دن گزرگئے۔ اب تو ہم ایک وقت کی روٹی بھی بہ مشکل حاصل کرپاتے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔''
عجیب و غریب عذاب
39 سالہ راجو پرجاپتی اپنے ماں باپ اور بیوی کے ساتھ ممبئی میں رہتا ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ معمولی ملازمتیں کرنے لگا۔ آخر اس نے راج گیری کا کام سیکھ لیا۔ اسے پھر کنسٹرکشن کمپنیوں میں کام ملنے لگا۔ وہ ہرماہ پندرہ ہزار روپے کمالیتا۔ یوں زندگی آرام سے گزرنے لگی۔راجو کا باپ، گنیش بھی ڈیلی ورکر ہے۔ اسے روزانہ جو کام ملتا ہے، وہ کر ڈالتا۔ اسے بھی ماہانہ بارہ تیرہ ہزار کی آمدن ہوجاتی۔ یوں باپ بیٹا اس قابل ہوگئے کہ ہر ماہ معقول رقم کی بچت کریں۔ لیکن نوٹ بندی نے اس گھرانے کی زندگی تلپٹ کرڈالی اور وہ بیروزگاری کے طوفان بلا کا نشانہ بن گیا۔نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نافذ ہونے کے بعد بیشتر کنسٹرکشن کمپنیوں نے کام روک دیا۔
اب باپ بیٹے کو ہفتے میں ایک دو دن ہی کام ملنے لگا۔ ماہانہ آمدن جو پہلے پچیس ہزار روپے کے قریب تھی، اب گھٹ کر دس بارہ ہزار رہ گئی۔ معاشی مسائل نے انہیں آن گھیرا۔ انہوں نے دو کمروں کا کرائے والا مکان چھوڑا اور سستے علاقے میں ایک کمرا کرایہ پر لے لیا۔ اس کا کرایہ گیارہ سو روپے ماہانہ ہے۔گنیش اور راجو، دونوں صبح سویرے کام ڈھونڈنے نکل جاتے ہیں۔ قسمت اچھی ہو تو کام مل جاتا ہے ورنہ بے نیل و مرام خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ بھارت میں لاکھوں افراد کی یہی اندوہناک کہانی ہے۔ مودی حکومت کے عجلت سے، بے سوچے سمجھے کیے گئے معاشی اقدامات نے انہیں عجیب عذاب میں مبتلا کردیا۔
چاندنی چوک میں کام ٹھپ
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چاندنی چوک کا علاقہ بہت بڑا کاروباری و تجارتی مرکز ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس جیسے اقدامات نے وہاں ''70 فیصد'' کاروباری و تجارتی سرگرمیاں ختم کردیں۔ علاقے میں بیشتر چھوٹے کارخانے، ادارے اور کمپنیاں غیر دستاویزی معیشت کا حصہ تھے۔ جب مودی حکومت نے ان پر کریک ڈاؤن کیا، تو ستر فیصد کاروباری و تجارتی ادارے بند ہوگئے۔ ان میں ہزارہا مردو زن کام کرتے تھے۔ اداروں کی بندش کے باعث وہ بھی کروڑوں بھارتی بیروزگاروں کی فوج میں جا شامل ہوئے۔
نئی دہلی، ممبئی اوردیگر شہروں میں بنے کارخانے اور فیکٹریاں ایک نئے مسئلے کا بھی شکار ہوچکے۔ ان کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے بھارتی شہروں کی فضا آلودہ کردی ہے۔ لہٰذا مودی حکومت چاہتی ہے کہ یہ کارخانے شہروں کے مضافات میں قائم کردیئے جائیں۔ کارخانوں کے جن مالکان نے یہ فیصلہ قبول نہیں کیا، وہ اب عدالتوں میں مودی حکومت سے جنگ لڑرہے ہیں۔ مگر اس عدالتی کارروائی نے بھی کئی فیکٹریوں میں تالے لگوا دیئے اور وہاں کام کرتے کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
نقد لین دین کی بندش
کاروبار دشمن صورتحال کی وجہ سے ہزارہا ایسے بھارتی کنگال ہوچکے جو پانچ برس قبل اچھی خاصی رقم کمالیتے تھے۔ مثلاً پچاس سالہ مہیش کو لیجیے۔ مہیش پندرہ سال قبل لکھنو سے دہلی آیا تھا۔ وہ پھر مزدوروں کا ٹھیکے دار بن گیا۔ وہ روزانہ مزدور اکٹھے کرتا اور کارخانوں کو سپلائی کردیتا۔ اس کام سے وہ ماہانہ پچاس ہزار کمالیتا۔ مگر کارخانے بند ہوئے تو مہیش کا کام بھی ٹھپ ہوگیا۔ اب وہ ٹیکسی چلا کر گزارہ کررہا ہے۔ اس کے بیوی بچے واپس لکھنو جاچکے تاکہ آبائی مکان میں رہ کر کرائے کی بھاری رقم بچائی جاسکے۔
غیر دستاویزی معیشت کی روح دراصل نقد لین دین میں پوشیدہ ہے۔ جب مودی حکومت نے نوٹ بندی کے ذریعے نقد لین دین بند کیا، تو غیر دستاویزی معیشت میں معاشی سرگرمیاں تھم گئیں۔ اس دوران حکومت سیلز ٹیکس لیے اس پر حملہ آور ہوگئی۔ اس حملے نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔مغربی دہلی میں علاقہ مایا پوری واقع ہے۔ یہ بھارت میں لوہے کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ وہاں کئی چھوٹے کارخانے، کاروباری ادارے اور کمپنیاں لوہے کے کاروبار سے متعلق ہیں۔ ان میں ہزارہا افراد کام کرتے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور سیلز ٹیکس نے اس علاقے میں بھی کاروباری سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ سکریپ لوہے کا ایک تاجر، باون سالہ چیتین شرما کا کہنا ہے ''جنرل سیلز ٹیکس میں فائلنگ سسٹم بہت پیچیدہ ہے۔ ہم چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کے پاس اتنا وقت اور توانائی نہیں ہوتی کہ فائلنگ سسٹم سے سرکھپائیں اور نہ ہم اتنا سرمایہ رکھتے ہیں کہ کسی پیشہ ور کو بھاری فیس دے کر ٹیکس فائل کرسکیں۔''
چھیالیس سالہ دھیان چند مایا پوری انڈسٹریل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ''دہلی، لکھنو اور قریبی شہروں میں بستے سینکڑوں افراد نے عمر بھر کی جمع پونجی سے علاقے میں چھوٹے کارخانے لگائے تھے۔ مگر نوٹ بندی اور جی ٹی ایس نے ان کے کارخانے ختم کر ڈالے۔ یوں وہ اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے جبکہ کارخانوں میں کام کرتے کارکنوں سے بھی بیروزگاری کا جن چمٹ گیا۔''
پاکستان کے لیے سبق
بھارت کی طرح پاکستان میں بھی عمران خان حکومت اپنی غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہے۔ بعض ماہرین نے حکومت کو 5 اور 1 ہزار کے نوٹ تبدیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس طرح نقد لین دین کو دستاویزی بنانے کے لیے شناختی کارڈ دینے کی شرط عائد کردی گئی۔ ان اقدامات سے پاکستان میں بھی معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوگیا۔ نتیجتاً غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزارہا پاکستانی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
غیر دستاویزی معیشت کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ یہ ملک و قوم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ مودی حکومت کے مانند اسے ختم کرنے کے لیے عجلت میں اور منصوبہ بندی کے بغیر پالیسیاں نہیں بنائے۔انھیں ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غریب و متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے مفادات کا خیال رکھیں کیونکہ غیر دستاویزی معیشت ہی انہیں روزگار مہیا کرتی ہے۔ آخر وزیراعظم انہی پاکستانیوں کا معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔مگر منصوبہ بندی کے بغیر عاجلانہ عمل انھیں نقصان پہنچائیں گے اور حکومت کو ضعف پہنچے گا۔