پاک امریکا تعلقات کا ایک اور نیا آغاز
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ امریکا میں پاکستان کو ’’مسئلہ‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔
KARACHI:
وزیر اعظم کا تاریخی تین روزہ دورۂ امریکا اختتام کو پہنچا۔ اس دورے کا واضح تاثر یہی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مزید قربت کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔وقت بتائے گا یہ امید کتنی درست ہے۔ صدر ٹرمپ نے دورۂ پاکستان کے لیے وزیر اعظم کی دعوت قبول کرلی ہے جو ایک مثبت اشارہ ہے تاہم ہمیں اس امید افزا ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط رہنا پڑے گا۔
دیگر اہم ملاقاتوں کے ساتھ اس دورے میں امریکی سینیٹ کمیٹی برائے عدلیہ کے سربراہ اور سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن لنزے گراہم کے ساتھ بھی وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی۔ سینیٹر گراہم نے، اپنے آنجہانی دوست سینیٹر جوہن مک کین کے ساتھ ، ہمیشہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کی خطے کے امن وسلامتی کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور انھیں مستحکم کرنے کے حامی رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے عمران خان کے دورۂ امریکا کو گزشتہ دو دہائیوں میں دونوں ممالک کے مابین تزویراتی (اسٹرٹیجک) روابط مستحکم کرنے کے لیے بہترین موقعے سے تعبیر کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان اور خطے کے طویل المیعاد امن کے لیے یہ دورہ مددگار ثابت ہوگا۔
اس دورے میں افغانستان سے متعلق انتہائی اہم امور زیر بحث آئے۔ افغانستان میں 18برس سے جاری جنگ کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے بڑے انتخابی وعدوں میں شامل ہے، اسی لیے زلمے خلیل زاد کے طالبان سے جاری مذاکرات کو 2020کے انتخابات سے قبل نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان پر تیزی سے گزرتے وقت کا دباؤ ہے۔ طالبان سے امن معاہدہ انتخابات میں دوبارہ کامیابی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔
یہ مذاکرات ستمبر 2019تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور یہی وہ وقت ہوگا جب امریکا میں صدارتی مہم کا آغاز ہوچکا ہوگا۔ دوسری جانب امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا نہیں چاہتی ، وہ محدود تعداد میں سہی وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے صدر اشرف غنی کی امریکا کی حامی حکومت کا تسلسل چاہتی ہے۔
اس وقت مذاکرات چند بنیادی امور پر رُکے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جانب سے انخلاء کی کوئی واضح تاریخ نہیں دی جارہی، طالبان صدر اشرف غنی کو محض ایک امریکی کارندہ سمجھتے ہیں اس لیے ان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور تیسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ طالبان یہ دو امور طے ہونے سے قبل جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ سویلین اہداف کو نشانہ نہ بنانے پر ''رضا مندی'' کے باوجود کابل یونیورسٹی پر حملہ ہوا جس میں کئی شہریوں کی جان گئی۔
اب پاکستان سے یہ تمام مسائل حل کرنے کی توقع کی جارہی ہے اور خواہش یہ ہے کہ پاکستان طالبان کو ''پلیٹ میں رکھ کر'' ٹرمپ کی خدمت میں پیش کردے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ناکامی پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا سکتی ہے۔ ان حالات میں اس دورے کے نتائج سے متعلق ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور بار بار ''ڈو مور'' کی صدائیں سننے کے لیے تیار بھی رہنا ہوگا۔
پاک بھارت تعلقات اور کشمیر اس دورے میں دوسرا اہم موضوع رہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش اور یہ بیان کہ مودی نے اس کے لیے ان سے براہ راست درخواست کی تھی، یہ دونوں باتیں خود ایک مسئلہ بن گئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس کی فوری تردید سامنے آچکی ہے اور دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے ''بھارت کا مستقل یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر صرف دو طرفہ مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے تک پاکستان سے کسی قسم کی بات چیت کا آغاز نہیں ہوسکتا۔ شملہ معاہدہ اور معاہدۂ لاہور یہ بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تمام مسائل دوطرفہ رہیں گے۔'' بھارتی دفتر خارجہ کا بیان متوقع تھا۔ ماضی میں امریکی صدور اس مسئلے سے دور ہی رہے ہیں ، صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو صدور کی روش سے ہٹ کر یہ پیش کش کی ہے۔ اس کے لیے بھی تیار رہیں کہ امریکا کی جانب سے تنازعہ کشمیر میں کسی قسم کی ثالثی پاکستان اور کشمیریوں کے مفاد میں ہوگی۔
وزیر اعظم کا حالیہ دورۂ امریکا بہر حال اس اعتبار سے اہم تھا کہ دونوں ممالک کی افواج کے باہمی تعلقات جو معطل ہوچکے تھے ان میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی امریکا کی عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ سبکدوش ہونے والے چیئرمین چیفس آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ اور حالیہ آرمی چیف جنرل ملی سے ، جو صدر ٹرمپ کا انتخاب اور بطور چیئرمین جنرل ڈنفورڈ کے جانشین بھی ہیں، اہم ملاقاتیں ہوئیں۔
اندازہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد کی سیکیورٹی اورپاکستانی جانب سے معطل معاونت کو بحال کرنا اس گفت و شنید کا محور رہا ہوگا۔ اگر امریکا افغان امریکا مذاکرات میں پاکستان کی معاونت چاہتا ہے تو یہ اس کا منطقی نتیجہ بھی ہے۔ آیندہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل ملی اس صورت حال سے پوری طرح واقف ہیں تبھی انھوں نے کہا :'' مقصد یہ ہوگا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین دفاعی تعلقات کو اس حد تک مستحکم کیا جائے کہ ہم پاکستان سے کارروائی کی درخواست کرسکیں۔ اگرچہ ہماری جانب سے دفاعی معاونت و مذاکرات معطل ہیں تاہم ہمیں مشترکہ مفادات کے لیے دونوں افواج کے باہمی تعلقات کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے۔''
پاکستان اور وزیراعظم دونوں کے لیے واشنگٹن کا دورہ بہت اچھا رہا۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی طرح، امریکا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات پاکستانی مفاد میں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ امریکا میں پاکستان کو ''مسئلہ'' بنا کر پیش کیا ہے۔ آصف زرداری کے معتمد اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے بعد تو بھارت کو اس کام کے لیے کسی اور کی ضرورت ہی نہیں۔ اس معاملے پر آصف زرداری کی خاموشی پر تعجب ہوتا ہے۔ پاکستان کا یہ تاثر آسانی سے تبدیل نہیں ہوگا تاہم آج بین الاقوامی تعلقات کے اعتبار سے پاکستان بہتر صورت حال میں ہے۔ خطے میں تعلقات کے حوالے سے ہمارا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم اس کا محور ہے۔
پاکستان اگر کشمیر کی طرح خطے کے دیگر تنازعات حل کرنے کے لیے امریکی حمایت کی توقع رکھتا ہے تو کسی بھی خوش گمانی سے گریز کرنا ہوگا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے درست انداز میں کسی خوش فہمی کے بغیر اس جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ''میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ملاقات ہمارے لیے صورت حال کو یکسر تبدیل کردے گی۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دروازہ جو ہم پر بند ہوچکا تھا اس کے کھلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ ہم بڑی سنجیدگی کے ساتھ ازسر نو تعلقات استوار کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہمارے باہمی تعلقات میں جو ایک تناؤ آچکا تھا اس میں کمی آئی ہے۔''
شاہ محمود قریشی کا بیان حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکا سے ہمارے تعلقات دس برس کے دائرے میں اچھے اور خراب ہوتے رہتے ہیں۔ 1980سے 1990تک تعلقات عروج پر تھے، 1990سے 2000کے مابین خراب رہے، 2000 سے 2010کے دورانیے میں ایک بار پھر بہترین سطح پر آگئے، 2010سے 2019تک تعلقات نچلی ترین سطح پر چلے گئے اور اب دیکھنا ہے کہ 2020 کے بعد شاید دوبارہ بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ ہمیں جما جما کر قدم رکھنے ہوں گے اور وزیر خارجہ کے بیان کا بنیادی پیغام ذہن نشیں رہنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
وزیر اعظم کا تاریخی تین روزہ دورۂ امریکا اختتام کو پہنچا۔ اس دورے کا واضح تاثر یہی ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مزید قربت کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔وقت بتائے گا یہ امید کتنی درست ہے۔ صدر ٹرمپ نے دورۂ پاکستان کے لیے وزیر اعظم کی دعوت قبول کرلی ہے جو ایک مثبت اشارہ ہے تاہم ہمیں اس امید افزا ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط رہنا پڑے گا۔
دیگر اہم ملاقاتوں کے ساتھ اس دورے میں امریکی سینیٹ کمیٹی برائے عدلیہ کے سربراہ اور سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن لنزے گراہم کے ساتھ بھی وزیر اعظم کی ملاقات ہوئی۔ سینیٹر گراہم نے، اپنے آنجہانی دوست سینیٹر جوہن مک کین کے ساتھ ، ہمیشہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کی خطے کے امن وسلامتی کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور انھیں مستحکم کرنے کے حامی رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے عمران خان کے دورۂ امریکا کو گزشتہ دو دہائیوں میں دونوں ممالک کے مابین تزویراتی (اسٹرٹیجک) روابط مستحکم کرنے کے لیے بہترین موقعے سے تعبیر کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان اور خطے کے طویل المیعاد امن کے لیے یہ دورہ مددگار ثابت ہوگا۔
اس دورے میں افغانستان سے متعلق انتہائی اہم امور زیر بحث آئے۔ افغانستان میں 18برس سے جاری جنگ کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے بڑے انتخابی وعدوں میں شامل ہے، اسی لیے زلمے خلیل زاد کے طالبان سے جاری مذاکرات کو 2020کے انتخابات سے قبل نتیجہ خیز بنانے کے لیے ان پر تیزی سے گزرتے وقت کا دباؤ ہے۔ طالبان سے امن معاہدہ انتخابات میں دوبارہ کامیابی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔
یہ مذاکرات ستمبر 2019تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور یہی وہ وقت ہوگا جب امریکا میں صدارتی مہم کا آغاز ہوچکا ہوگا۔ دوسری جانب امریکی فوج افغانستان سے مکمل انخلا نہیں چاہتی ، وہ محدود تعداد میں سہی وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے صدر اشرف غنی کی امریکا کی حامی حکومت کا تسلسل چاہتی ہے۔
اس وقت مذاکرات چند بنیادی امور پر رُکے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جانب سے انخلاء کی کوئی واضح تاریخ نہیں دی جارہی، طالبان صدر اشرف غنی کو محض ایک امریکی کارندہ سمجھتے ہیں اس لیے ان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور تیسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ طالبان یہ دو امور طے ہونے سے قبل جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ سویلین اہداف کو نشانہ نہ بنانے پر ''رضا مندی'' کے باوجود کابل یونیورسٹی پر حملہ ہوا جس میں کئی شہریوں کی جان گئی۔
اب پاکستان سے یہ تمام مسائل حل کرنے کی توقع کی جارہی ہے اور خواہش یہ ہے کہ پاکستان طالبان کو ''پلیٹ میں رکھ کر'' ٹرمپ کی خدمت میں پیش کردے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ناکامی پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا سکتی ہے۔ ان حالات میں اس دورے کے نتائج سے متعلق ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے اور بار بار ''ڈو مور'' کی صدائیں سننے کے لیے تیار بھی رہنا ہوگا۔
پاک بھارت تعلقات اور کشمیر اس دورے میں دوسرا اہم موضوع رہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش اور یہ بیان کہ مودی نے اس کے لیے ان سے براہ راست درخواست کی تھی، یہ دونوں باتیں خود ایک مسئلہ بن گئی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اس کی فوری تردید سامنے آچکی ہے اور دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے ''بھارت کا مستقل یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر صرف دو طرفہ مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے تک پاکستان سے کسی قسم کی بات چیت کا آغاز نہیں ہوسکتا۔ شملہ معاہدہ اور معاہدۂ لاہور یہ بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تمام مسائل دوطرفہ رہیں گے۔'' بھارتی دفتر خارجہ کا بیان متوقع تھا۔ ماضی میں امریکی صدور اس مسئلے سے دور ہی رہے ہیں ، صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو صدور کی روش سے ہٹ کر یہ پیش کش کی ہے۔ اس کے لیے بھی تیار رہیں کہ امریکا کی جانب سے تنازعہ کشمیر میں کسی قسم کی ثالثی پاکستان اور کشمیریوں کے مفاد میں ہوگی۔
وزیر اعظم کا حالیہ دورۂ امریکا بہر حال اس اعتبار سے اہم تھا کہ دونوں ممالک کی افواج کے باہمی تعلقات جو معطل ہوچکے تھے ان میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی امریکا کی عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ سبکدوش ہونے والے چیئرمین چیفس آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ اور حالیہ آرمی چیف جنرل ملی سے ، جو صدر ٹرمپ کا انتخاب اور بطور چیئرمین جنرل ڈنفورڈ کے جانشین بھی ہیں، اہم ملاقاتیں ہوئیں۔
اندازہ یہ ہے کہ پاک افغان سرحد کی سیکیورٹی اورپاکستانی جانب سے معطل معاونت کو بحال کرنا اس گفت و شنید کا محور رہا ہوگا۔ اگر امریکا افغان امریکا مذاکرات میں پاکستان کی معاونت چاہتا ہے تو یہ اس کا منطقی نتیجہ بھی ہے۔ آیندہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل ملی اس صورت حال سے پوری طرح واقف ہیں تبھی انھوں نے کہا :'' مقصد یہ ہوگا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین دفاعی تعلقات کو اس حد تک مستحکم کیا جائے کہ ہم پاکستان سے کارروائی کی درخواست کرسکیں۔ اگرچہ ہماری جانب سے دفاعی معاونت و مذاکرات معطل ہیں تاہم ہمیں مشترکہ مفادات کے لیے دونوں افواج کے باہمی تعلقات کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے۔''
پاکستان اور وزیراعظم دونوں کے لیے واشنگٹن کا دورہ بہت اچھا رہا۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی طرح، امریکا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات پاکستانی مفاد میں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ امریکا میں پاکستان کو ''مسئلہ'' بنا کر پیش کیا ہے۔ آصف زرداری کے معتمد اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے بعد تو بھارت کو اس کام کے لیے کسی اور کی ضرورت ہی نہیں۔ اس معاملے پر آصف زرداری کی خاموشی پر تعجب ہوتا ہے۔ پاکستان کا یہ تاثر آسانی سے تبدیل نہیں ہوگا تاہم آج بین الاقوامی تعلقات کے اعتبار سے پاکستان بہتر صورت حال میں ہے۔ خطے میں تعلقات کے حوالے سے ہمارا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم اس کا محور ہے۔
پاکستان اگر کشمیر کی طرح خطے کے دیگر تنازعات حل کرنے کے لیے امریکی حمایت کی توقع رکھتا ہے تو کسی بھی خوش گمانی سے گریز کرنا ہوگا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے درست انداز میں کسی خوش فہمی کے بغیر اس جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا ''میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ملاقات ہمارے لیے صورت حال کو یکسر تبدیل کردے گی۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دروازہ جو ہم پر بند ہوچکا تھا اس کے کھلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ ہم بڑی سنجیدگی کے ساتھ ازسر نو تعلقات استوار کرنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہمارے باہمی تعلقات میں جو ایک تناؤ آچکا تھا اس میں کمی آئی ہے۔''
شاہ محمود قریشی کا بیان حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکا سے ہمارے تعلقات دس برس کے دائرے میں اچھے اور خراب ہوتے رہتے ہیں۔ 1980سے 1990تک تعلقات عروج پر تھے، 1990سے 2000کے مابین خراب رہے، 2000 سے 2010کے دورانیے میں ایک بار پھر بہترین سطح پر آگئے، 2010سے 2019تک تعلقات نچلی ترین سطح پر چلے گئے اور اب دیکھنا ہے کہ 2020 کے بعد شاید دوبارہ بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔ ہمیں جما جما کر قدم رکھنے ہوں گے اور وزیر خارجہ کے بیان کا بنیادی پیغام ذہن نشیں رہنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)