جہاں گشت
تو فقیر تو ٹیکسلا کو ایک عام سی وادی سمجھا تھا، چھوٹا سا بس اسٹاپ، چند دکانیں لیکن ایثارکیش اور سادہ لوح بے ریا لوگ۔
قسط نمبر54
بابا نے بے رنگ چمڑے کا ایک ایپرن پہنا اور تیل کی کپّی سے آرا مشین کے مختلف حصوں میں تیل ڈالنے لگے، کچھ دیر بعد انہوں نے مشین کو بند کیا اور ایک فیتے سے درختوں کے تنوں کی پیمائش کرنے لگے، پھر انہوں نے فیتا لپیٹا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ جی بیٹا جی! دیکھا تم نے ان درختوں کو کہ ویسے تو یہ دیکھنے میں مر چکے ہیں، لوگ تو یہی سمجھتے ہیں، لیکن سوچو! کیا یہ واقعی مرچکے ہیں، اگر واقعی مر چکے ہوتے تو کیا کسی کے کام آتے؟ نہیں ناں! لیکن یہ تو ہر وقت انسان کے کام آتے ہیں، ہم ان درختوں سے مکانات کی چھتوں میں لگانے کے لیے شہتیر اور ستون بناتے ہیں۔
کوئی اس کے دروازے اور کھڑکیاں بناتا ہے، اس سے پلنگ اور چارپائیاں بناتا ہے، اور آخر میں رہ جانے والی لکڑیاں بھی بے کار نہیں ہوتیں بل کہ انسان اس سے ایندھن بناکر کھانا بناتا اور دیگر کام کرتا ہے اور تو اور اس کا تو بُرادہ بھی بے کار نہیں ہے، اس بُرادے کے دھوئیں کو کسان لوگ خود کو اور اپنے مویشیوں کو مچھروں سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور تو اور اس کی بچی ہوئی راکھ بھی بے کار نہیں ہوتی، گاؤں میں خواتین اس راکھ سے برتن مانجھتی ہیں، اب سوچو! کون بے کار ہے ۔۔۔۔۔؟
بابا یہ کہہ کر میری طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں تین مزدور آگئے اور بابا کو سلام کرکے ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، بابا نے ان کا حال پوچھا اور پھر کہنے لگے: یہ میرا بچہ ہے جی، غور سے دیکھ لو اسے، اب یہ بھی یہ کام سیکھے گا، اس کی مدد کرنا سب۔ ان سب نے میری طرف دیکھا اور کہا: کیوں نہیں بابا! یہ ہمارا چھوٹا بھائی ہے، آپ نے ہمیں بھی یہ کام سکھایا ہے تو اب یہ ہمارا استاد بھائی بھی بن گیا ہے۔ اتنے میں چائے آگئی اور ہم نے چائے پی اس کے بعد بابا نے مجھ سے کہا: بیٹا جاؤ بازار میں گھومو، مخلوق کو دیکھو، یہ سامنے کھیت ہیں انہیں دیکھو، زیادہ دُور مت جانا اور جو چیز خریدنا چاہو تو خرید لینا۔ انہوں نے میری جیب میں پیسے ڈالتے ہوئے کہا اور پھر وہ اپنے کام میں جُت گئے۔
میں ٹیکسلا کو ایک عام سی وادی سمجھا تھا جسے چاروں طرف سے کہساروں نے گھیر رکھا ہے، وہی ُپرہیبت کوہ سار جن کے متعلق رب تعالی نے بتایا ہے کہ یہ زمین کو قرار سے رکھنے کی میخیں ہیں۔ اور پھر ان کہساروں کا انجام بھی بتایا کہ جب ''القاریہ'' کہ تم کیا جانو کہ القاریہ کیا ہے، جب وہ برپا ہوگی تو یہی ہیبت ناک پہاڑ ہَوا میں روئی کے گالوں کی مانند اڑتے پھریں گے، کبھی ہم تصور کرتے ہیں اس دن کا، اتنی مصروف زندگی میں کچھ وقت نکالا کیجیے اور اس پر سوچا کیجیے کہ رب تعالٰی کا یہ حکم ہے کہ اسرار کائنات پر غور کرو، اور اگر تم نے اس پر غور کرنا شروع کردیا تو ہم تم پر کائنات کے بھید کھول دیں گے اور اشیاء کی اصل حقیقت بھی۔ آپ تو دانا ہیں، ایسا کرتے ہی ہوں گے، فقیر کے لیے بھی دعا کیجیے کہ وہ بھی اس سعادت سے نوازا جائے۔
تو فقیر تو ٹیکسلا کو ایک عام سی وادی سمجھا تھا، چھوٹا سا بس اسٹاپ، چند دکانیں لیکن ایثارکیش اور سادہ لوح بے ریا لوگ۔ لیکن پھر مجھے بابا نے اس کے متعلق بتایا تو میں دنگ رہ گیا اور سمجھ پایا کہ مجھے اس جگہ بھیجنے کے پیچھے کیا راز مضمر تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ دنیا کے چند پُراسرار مقامات میں سے ایک ہے، اور اس کا تجربہ بھی فقیر کو ہوا۔ بابا نے وقتاً فوقتاً جو بتایا میں اختصار سے اس کا ذکر کرتا ہوں کہ ٹیکسلا کا ذکر ہندو مت' جین مت اور بُدھ مت کی مذہبی کتب میں بھی موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی معلوم تاریخ جناب مسیح ابن مریمؑ، جو روح اﷲ تھے، سے چھے سو سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تیکشا قبیلے کی حکم رانی تھی۔ ٹیکسلا کو سانپوں کا مسکن پہاڑی بھی کہا جاتا تھا اور ہندو اہل دانش کہتے تھے کہ یہاں کا حکم ران قبیلہ بھی سانپوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جو اپنی مرضی سے انسانی شکل اختیار کر لیتے تھے۔ مہابھارت میں اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔
ٹیکسلا مرکز علم و دانش رہا ہے اور اسی میں گندھارا جیسی درس گاہ تھی۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کی ایک روایت کے مطابق اس شہر کا نام بھرت کے بیٹے کے نام پر ٹیکسلا رکھا گیا تھا اور وہی اس شہر کا پہلا حکم راں تھا۔ ٹیکسلا میں کچھ کھنڈرات تو تین ہزار سال قبل مسیح سے بھی زیادہ پُرانے ہیں۔ سات سو سال قبل مسیح میں قائم ہونے والی ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ دنیا کی پہلی اور قدیم ترین درس گاہ تھی۔ ٹیکسلا کی یہ عظیم درس گاہ کوئی عام تعلیمی مرکز نہیں تھی، یہاں پڑھنے کے لیے دور دراز سے آنے والے انتہائی ہونہار طالب علم ہوتے تھے اور پڑھانے والے اعلیٰ پائے کے زیرک و دانا استاد۔ ٹیکسلا کی اس عظیم درس گاہ کے معلمین اپنے وقت کے بلند و روشن خیال اور ذہین لوگ تو تھے ہی لیکن وہ اعلٰی انسانی اوصاف کے مالک بھی تھے۔
یہ ایک اقامتی درس گاہ تھی جس میں اس وقت کے مختلف ممالک سے حصول علم کے لیے آئے ہوئے سیکڑوں طلبا موجود تھے۔ سکندراعظم کی آمد کے موقع پر یہاں موریا خاندان حکم راں تھا، اس نے سکندر کی بہت خاطر مدارات کی۔ اشوک اعظم کی وفات کے بعد موریا سلطنت بکھر گئی اور باختریوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ اس شہر کے لوگ انتہائی کشادہ دل اور روادار تھے، اسی لیے آتش پرست' بُت پرست اور بُدھ مت کے ماننے والے آپس میں امن و آشتی سے رہتے اور اپنے عقائد پر کاربند اور اپنی مذہبی رسومات کو آزادی سے ادا کرتے تھے۔ آج بھی ٹیکسلا کے اطراف میں بُدھوں' جین مت اور آتش پرستوں کی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بہ کثرت موجود اور اچھی حالت میں ہیں۔ قدیم زمانے میں ٹیکسلا، جین مت کا ایک اہم مرکز تھا اور اس مذہب کی عبادت گاہوں کے آثار یہاں جا بہ جا اب بھی موجود ہیں۔ واﷲاعلم بالصواب
بابا نے اجازت دی تو میں سامنے کھیتوں میں جانکلا، سرسبز کھیت اور ان میں کام کرنے والے جفاکش کسان، کیا بات ہے ان کی، وہ دھرتی ماں کی خدمت کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے رزق کا بندوبست کرتے ہیں بل کہ دیگر انسانوں کے لیے بھی۔ وہ صرف اپنے لیے ہی نہیں، اوروں کے لیے بھی جیتے ہیں۔ میں کھیتوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک کسان نے مجھے دیکھ لیا، پھر وہ میرے قریب آئے اور سلام کرنے کے بعد خاموش کھڑے ہوگئے، شاید وہ مجھ اجنبی جس کا حلیہ بھی ملنگوں جیسا تھا کو دیکھ کر گفت گو کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہے تھے کہ میں نے ابتدا کی۔ یہ زمین آپ کی ہے؟ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: زمین تو مالک ہی کی ہے جی۔ تو کیا آپ یہاں کام کرتے ہیں، کون ہے مالک اس کا ؟
وہ بہ دستور مسکرا رہے تھے اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سرکار مالک تو ساری زمین کا خدا ہے جی، بس کچھ دن تک یہ میرے حوالے ہے، پھر میں خود بھی اس زمین کے حوالے ہوجاؤں گا، اور جب میں اس کے اندر چلا جاؤں گا تو کوئی اور مجھ جیسا یہاں کام کر رہا ہوگا۔ آپ تو بہت زبردست بات کر رہے ہیں، میں نے انہیں داد دی اور حیران بھی ہوا کہ ایک کسان اور اتنا زیرک و دانا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر کہنے لگے: سرکار! بندہ بشر تو عاجز ہے، کارساز تو مالک ہے، اس نے سارے کام کاج تقسیم کر رکھے ہیں، اگر سب اپنے کام اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے محنت سے انجام دیں تو یہی دنیا جنّت بن جائے جی۔ ہاں یہی اصل بات ہے لیکن کوئی سمجھے تو ناں، لیکن یہ آپ مجھے سرکار کیوں کہہ رہے ہیں، میں تو اک مزدور ہوں۔ میری بات سن کر وہ مسکرائے اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک جانب چلنے لگے، پھر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور بولے: کب آئے یہاں اور کس کے پاس؟ میں نے سامنے آرا مشین کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ایک بابا جی کام کرتے ہیں۔
ان کے پاس آیا ہوں کل ہی۔ اوہو! تو میں صحیح سمجھا تھا، بابا جی کو تو میں جانتا ہوں جی۔ لیکن میں تو بابا جی کو نہیں جانتا، میری بات سن کر وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: تو جان جاؤ گے، وہ تو بہت نیک روح ہیں جی۔ میں تو انہیں انسان سمجھا تھا لیکن اب آپ نے بتایا ہے کہ وہ تو نیک روح ہیں، اچھا ہے ایک بَدروح ایک نیک روح کے پاس چلی آئی ہے، میری باتیں سن کر وہ ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے۔ پھر وہ اچانک کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: سرکار غلطی ہوگئی آپ کو پانی بھی نہیں پلایا۔ نہیں مجھے پیاس نہیں ہے۔
ہوگی تو مانگ لوں گا، میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بٹھایا۔ کب تک رہو گے یہاں؟ اس سوال کا جواب تو نہیں ہے جی میرے پاس، بس جب تک مالک کو منظور ہوگا، اور پھر زمین خدا کی ہے تو بندہ بھی خدا کا ہے ناں، تو کیا سوچنا۔ پھر وہ بتانے لگے: بابا جی بھی مجھے یہیں ملے تھے، اسی جگہ جہاں آپ ملے ہو، اور وہ بھی کچھ ایسی ہی باتیں کر رہے تھے، پھر وہ آرا مشین پر کام کرنے لگے، میں ملتا رہتا ہوں انہیں، پہلے تو میں انہیں ایک عام سا انسان سمجھا تھا، لیکن پھر وہ مجھ پر کُھل گئے۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوئے تو مجھے وہی اپنے تجسس نے گھیر لیا، کیسے کُھل گئے بابا جی۔ وہ نہ جانے کیا سوچ رہے تھے، بالکل گم صم۔ میں نے انہیں شانے سے پکڑ کر ہلایا تو وہ ہوش میں آئے، تب میں نے ان کے سامنے اپنا سوال دہرایا۔ ان کی آنکھیں برسنے لگیں۔
انہیں بتانے میں دقّت ہورہی تھی، لیکن میں سننا چاہتا تھا۔ پھر وہ بتانے لگے: سرکار! ایسا نہیں تھا میں، جیسا اب نظر آرہا ہوں، میں تو سب گھر والوں کے لیے آزار تھا، آوارہ تھا، جوانی تھی تو بھٹک گیا اور ایسا کہ سمجھو زندہ ہی جہنم رسید ہوگیا، پہلے دوستوں کی محفل میں خراب ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر سے پیسے چُرانے لگا اور پھر لالچ میں جواری بن گیا، گھر والے سمجھے کہ شادی کرادو تو ٹھیک ہوجائے گا اور پھر شادی کرادی گئی تو اور زیادہ بے باک ہوگیا، مت پوچھو زندگی آزار بن گئی، پھر دو بیٹیاں خدا نے دیں لیکن میں! سب گھر والے پریشان تھے، میں خود بھی اپنی حالت سے پریشان تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا، پھر میری دونوں بیٹیاں بیمار ہوگئیں اور ایسی کی مت پوچھو، بہت علاج کرایا لیکن بے سُود، مجھے اپنی بیٹیوں سے بہت محبّت ہے، میں پریشان یہیں گھوم رہا تھا کہ بابا مجھے نظر آئے، میں ان کے پاس پہنچا تو وہ خاموش تھے، میں نے بھی کوئی بات نہیں کی، میں نے سوچا ہوگا کوئی، وہ روز ہی مجھے ملتے تھے لیکن میں اپنی پریشانی میں تھا تو بات نہیں ہوتی تھی، پھر ایک دن میری بیٹیوں کی حالت انتہائی خراب ہوگئی، مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی تو میں یہیں آکر بیٹھ گیا جہاں اب ہم بیٹھے ہیں، میں رو رہا تھا اپنی بے بسی پر کہ بابا میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے اور کہا: بہت تکلیف میں ہو! میں انہیں کوئی ایسا ویسا سمجھا کہ اب کچھ مانگے گا مجھ سے تو میں نے ذرا غصے میں کہا: یہ تو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ میں بہت پریشان ہوں۔
بابا نے میری بات تحمل سے سنی اور پھر مجھے گلے لگایا، اور کہا: دیکھو سب ٹھیک ہوجائے گا، لیکن ایک شرط ہے۔ میں نے ان سے پوچھا، کیا شرط، تو انہوں نے کہا: دیکھو! بیٹیاں رب تعالی کی نعمت ہیں، کسی نصیب والے کو ہی دی جاتی ہیں لیکن تم اس نعمت کی قدر نہیں کرتے ناں تو بس اب پریشان ہو۔ میں غور سے بابا کی باتیں سن رہا تھا تو انہوں نے کہا: بس ایک شرط یہ ہے کہ تم اپنے گناہوں سے توبہ کرلو، آئندہ راہ راست پر رہو تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ سب کچھ بس چند دن میں ہی صحیح ہوجائے گا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی کروں گا۔ میں گھر پہنچا تو بیٹیوں کی حالت قدرے سنبھل چکی تھی، پھر ایسا ہی ہوا اور واقعی سب ٹھیک ہوتا چلا گیا، یہ ساری باتیں جو میں آپ سے کر رہا ہوں، ان ہی سے سنی ہیں، میں نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ ہمارے پاس آکر رہیں، لیکن حیرت ہے انہوں نے آج تک ہمارا پانی بھی نہیں پیا، بس ٹال جاتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں اور اتنی محنت لیکن کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے، اس طرح وہ مجھ پر کُھل گئے اور مجھ پر ہی کیا، یہاں کے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو ان سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کبھی مان کر نہیں دیے، وہ واقعی خدا کے منتخب بندے ہیں، میں کئی مرتبہ ان کے ٹھکانے پر بھی گیا ہوں پھر انہوں نے مجھے منع کردیا اور کہا کہ اپنے کام ذمے داری سے کرو اور لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہو، تو بس یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، انہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، ان ہی کا فیض ہے۔
میں ان کی باتیں بہت غور سے سُن رہا تھا کہ مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں نے ان سے اجازت چاہی تو وہ افسردہ ہوئے اور کہا: سرکار! گھر بھی آئیے گا، بابا کو بھی ساتھ لائیں تو احسان ہوگا، خدمت کا موقع ملے گا تو بہت زیادہ خوشی ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کرتا کہ بابا جو کہیں گے میں ان کے حکم کا پابند ہوں۔
میں واپس آرا مشین پر پہنچا تو بابا مجھے دیکھ کر مسکرائے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ رب تعالٰی کے گھر سے اذان ظہر کی منادی بلند ہوئی: آؤ! فلاح کی طرف۔ آؤ! نماز کی طرف اور اس کے ساتھ ہی بابا نے بٹن دبا کر مشین بند کردی۔ وہ پسینے میں شرابور میری جانب آئے اور میرے سر پر اپنا دست شفقت رکھتے ہوئے کہا: مل گیا تھا وہ ؟ جی وہ مل گئے تھے ان کی کہانی ہی سُن رہا تھا بابا۔ پھر انہوں نے وضو کیا اور میرا ہاتھ پکڑے مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔
بابا نے بے رنگ چمڑے کا ایک ایپرن پہنا اور تیل کی کپّی سے آرا مشین کے مختلف حصوں میں تیل ڈالنے لگے، کچھ دیر بعد انہوں نے مشین کو بند کیا اور ایک فیتے سے درختوں کے تنوں کی پیمائش کرنے لگے، پھر انہوں نے فیتا لپیٹا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ جی بیٹا جی! دیکھا تم نے ان درختوں کو کہ ویسے تو یہ دیکھنے میں مر چکے ہیں، لوگ تو یہی سمجھتے ہیں، لیکن سوچو! کیا یہ واقعی مرچکے ہیں، اگر واقعی مر چکے ہوتے تو کیا کسی کے کام آتے؟ نہیں ناں! لیکن یہ تو ہر وقت انسان کے کام آتے ہیں، ہم ان درختوں سے مکانات کی چھتوں میں لگانے کے لیے شہتیر اور ستون بناتے ہیں۔
کوئی اس کے دروازے اور کھڑکیاں بناتا ہے، اس سے پلنگ اور چارپائیاں بناتا ہے، اور آخر میں رہ جانے والی لکڑیاں بھی بے کار نہیں ہوتیں بل کہ انسان اس سے ایندھن بناکر کھانا بناتا اور دیگر کام کرتا ہے اور تو اور اس کا تو بُرادہ بھی بے کار نہیں ہے، اس بُرادے کے دھوئیں کو کسان لوگ خود کو اور اپنے مویشیوں کو مچھروں سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور تو اور اس کی بچی ہوئی راکھ بھی بے کار نہیں ہوتی، گاؤں میں خواتین اس راکھ سے برتن مانجھتی ہیں، اب سوچو! کون بے کار ہے ۔۔۔۔۔؟
بابا یہ کہہ کر میری طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں تین مزدور آگئے اور بابا کو سلام کرکے ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، بابا نے ان کا حال پوچھا اور پھر کہنے لگے: یہ میرا بچہ ہے جی، غور سے دیکھ لو اسے، اب یہ بھی یہ کام سیکھے گا، اس کی مدد کرنا سب۔ ان سب نے میری طرف دیکھا اور کہا: کیوں نہیں بابا! یہ ہمارا چھوٹا بھائی ہے، آپ نے ہمیں بھی یہ کام سکھایا ہے تو اب یہ ہمارا استاد بھائی بھی بن گیا ہے۔ اتنے میں چائے آگئی اور ہم نے چائے پی اس کے بعد بابا نے مجھ سے کہا: بیٹا جاؤ بازار میں گھومو، مخلوق کو دیکھو، یہ سامنے کھیت ہیں انہیں دیکھو، زیادہ دُور مت جانا اور جو چیز خریدنا چاہو تو خرید لینا۔ انہوں نے میری جیب میں پیسے ڈالتے ہوئے کہا اور پھر وہ اپنے کام میں جُت گئے۔
میں ٹیکسلا کو ایک عام سی وادی سمجھا تھا جسے چاروں طرف سے کہساروں نے گھیر رکھا ہے، وہی ُپرہیبت کوہ سار جن کے متعلق رب تعالی نے بتایا ہے کہ یہ زمین کو قرار سے رکھنے کی میخیں ہیں۔ اور پھر ان کہساروں کا انجام بھی بتایا کہ جب ''القاریہ'' کہ تم کیا جانو کہ القاریہ کیا ہے، جب وہ برپا ہوگی تو یہی ہیبت ناک پہاڑ ہَوا میں روئی کے گالوں کی مانند اڑتے پھریں گے، کبھی ہم تصور کرتے ہیں اس دن کا، اتنی مصروف زندگی میں کچھ وقت نکالا کیجیے اور اس پر سوچا کیجیے کہ رب تعالٰی کا یہ حکم ہے کہ اسرار کائنات پر غور کرو، اور اگر تم نے اس پر غور کرنا شروع کردیا تو ہم تم پر کائنات کے بھید کھول دیں گے اور اشیاء کی اصل حقیقت بھی۔ آپ تو دانا ہیں، ایسا کرتے ہی ہوں گے، فقیر کے لیے بھی دعا کیجیے کہ وہ بھی اس سعادت سے نوازا جائے۔
تو فقیر تو ٹیکسلا کو ایک عام سی وادی سمجھا تھا، چھوٹا سا بس اسٹاپ، چند دکانیں لیکن ایثارکیش اور سادہ لوح بے ریا لوگ۔ لیکن پھر مجھے بابا نے اس کے متعلق بتایا تو میں دنگ رہ گیا اور سمجھ پایا کہ مجھے اس جگہ بھیجنے کے پیچھے کیا راز مضمر تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ دنیا کے چند پُراسرار مقامات میں سے ایک ہے، اور اس کا تجربہ بھی فقیر کو ہوا۔ بابا نے وقتاً فوقتاً جو بتایا میں اختصار سے اس کا ذکر کرتا ہوں کہ ٹیکسلا کا ذکر ہندو مت' جین مت اور بُدھ مت کی مذہبی کتب میں بھی موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی معلوم تاریخ جناب مسیح ابن مریمؑ، جو روح اﷲ تھے، سے چھے سو سال قبل سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں تیکشا قبیلے کی حکم رانی تھی۔ ٹیکسلا کو سانپوں کا مسکن پہاڑی بھی کہا جاتا تھا اور ہندو اہل دانش کہتے تھے کہ یہاں کا حکم ران قبیلہ بھی سانپوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا تھا جو اپنی مرضی سے انسانی شکل اختیار کر لیتے تھے۔ مہابھارت میں اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔
ٹیکسلا مرکز علم و دانش رہا ہے اور اسی میں گندھارا جیسی درس گاہ تھی۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کی ایک روایت کے مطابق اس شہر کا نام بھرت کے بیٹے کے نام پر ٹیکسلا رکھا گیا تھا اور وہی اس شہر کا پہلا حکم راں تھا۔ ٹیکسلا میں کچھ کھنڈرات تو تین ہزار سال قبل مسیح سے بھی زیادہ پُرانے ہیں۔ سات سو سال قبل مسیح میں قائم ہونے والی ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ دنیا کی پہلی اور قدیم ترین درس گاہ تھی۔ ٹیکسلا کی یہ عظیم درس گاہ کوئی عام تعلیمی مرکز نہیں تھی، یہاں پڑھنے کے لیے دور دراز سے آنے والے انتہائی ہونہار طالب علم ہوتے تھے اور پڑھانے والے اعلیٰ پائے کے زیرک و دانا استاد۔ ٹیکسلا کی اس عظیم درس گاہ کے معلمین اپنے وقت کے بلند و روشن خیال اور ذہین لوگ تو تھے ہی لیکن وہ اعلٰی انسانی اوصاف کے مالک بھی تھے۔
یہ ایک اقامتی درس گاہ تھی جس میں اس وقت کے مختلف ممالک سے حصول علم کے لیے آئے ہوئے سیکڑوں طلبا موجود تھے۔ سکندراعظم کی آمد کے موقع پر یہاں موریا خاندان حکم راں تھا، اس نے سکندر کی بہت خاطر مدارات کی۔ اشوک اعظم کی وفات کے بعد موریا سلطنت بکھر گئی اور باختریوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ اس شہر کے لوگ انتہائی کشادہ دل اور روادار تھے، اسی لیے آتش پرست' بُت پرست اور بُدھ مت کے ماننے والے آپس میں امن و آشتی سے رہتے اور اپنے عقائد پر کاربند اور اپنی مذہبی رسومات کو آزادی سے ادا کرتے تھے۔ آج بھی ٹیکسلا کے اطراف میں بُدھوں' جین مت اور آتش پرستوں کی عبادت گاہیں اور خانقاہیں بہ کثرت موجود اور اچھی حالت میں ہیں۔ قدیم زمانے میں ٹیکسلا، جین مت کا ایک اہم مرکز تھا اور اس مذہب کی عبادت گاہوں کے آثار یہاں جا بہ جا اب بھی موجود ہیں۔ واﷲاعلم بالصواب
بابا نے اجازت دی تو میں سامنے کھیتوں میں جانکلا، سرسبز کھیت اور ان میں کام کرنے والے جفاکش کسان، کیا بات ہے ان کی، وہ دھرتی ماں کی خدمت کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے رزق کا بندوبست کرتے ہیں بل کہ دیگر انسانوں کے لیے بھی۔ وہ صرف اپنے لیے ہی نہیں، اوروں کے لیے بھی جیتے ہیں۔ میں کھیتوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک کسان نے مجھے دیکھ لیا، پھر وہ میرے قریب آئے اور سلام کرنے کے بعد خاموش کھڑے ہوگئے، شاید وہ مجھ اجنبی جس کا حلیہ بھی ملنگوں جیسا تھا کو دیکھ کر گفت گو کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہے تھے کہ میں نے ابتدا کی۔ یہ زمین آپ کی ہے؟ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: زمین تو مالک ہی کی ہے جی۔ تو کیا آپ یہاں کام کرتے ہیں، کون ہے مالک اس کا ؟
وہ بہ دستور مسکرا رہے تھے اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سرکار مالک تو ساری زمین کا خدا ہے جی، بس کچھ دن تک یہ میرے حوالے ہے، پھر میں خود بھی اس زمین کے حوالے ہوجاؤں گا، اور جب میں اس کے اندر چلا جاؤں گا تو کوئی اور مجھ جیسا یہاں کام کر رہا ہوگا۔ آپ تو بہت زبردست بات کر رہے ہیں، میں نے انہیں داد دی اور حیران بھی ہوا کہ ایک کسان اور اتنا زیرک و دانا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر کہنے لگے: سرکار! بندہ بشر تو عاجز ہے، کارساز تو مالک ہے، اس نے سارے کام کاج تقسیم کر رکھے ہیں، اگر سب اپنے کام اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے محنت سے انجام دیں تو یہی دنیا جنّت بن جائے جی۔ ہاں یہی اصل بات ہے لیکن کوئی سمجھے تو ناں، لیکن یہ آپ مجھے سرکار کیوں کہہ رہے ہیں، میں تو اک مزدور ہوں۔ میری بات سن کر وہ مسکرائے اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک جانب چلنے لگے، پھر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور بولے: کب آئے یہاں اور کس کے پاس؟ میں نے سامنے آرا مشین کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ایک بابا جی کام کرتے ہیں۔
ان کے پاس آیا ہوں کل ہی۔ اوہو! تو میں صحیح سمجھا تھا، بابا جی کو تو میں جانتا ہوں جی۔ لیکن میں تو بابا جی کو نہیں جانتا، میری بات سن کر وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: تو جان جاؤ گے، وہ تو بہت نیک روح ہیں جی۔ میں تو انہیں انسان سمجھا تھا لیکن اب آپ نے بتایا ہے کہ وہ تو نیک روح ہیں، اچھا ہے ایک بَدروح ایک نیک روح کے پاس چلی آئی ہے، میری باتیں سن کر وہ ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے۔ پھر وہ اچانک کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: سرکار غلطی ہوگئی آپ کو پانی بھی نہیں پلایا۔ نہیں مجھے پیاس نہیں ہے۔
ہوگی تو مانگ لوں گا، میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بٹھایا۔ کب تک رہو گے یہاں؟ اس سوال کا جواب تو نہیں ہے جی میرے پاس، بس جب تک مالک کو منظور ہوگا، اور پھر زمین خدا کی ہے تو بندہ بھی خدا کا ہے ناں، تو کیا سوچنا۔ پھر وہ بتانے لگے: بابا جی بھی مجھے یہیں ملے تھے، اسی جگہ جہاں آپ ملے ہو، اور وہ بھی کچھ ایسی ہی باتیں کر رہے تھے، پھر وہ آرا مشین پر کام کرنے لگے، میں ملتا رہتا ہوں انہیں، پہلے تو میں انہیں ایک عام سا انسان سمجھا تھا، لیکن پھر وہ مجھ پر کُھل گئے۔ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوئے تو مجھے وہی اپنے تجسس نے گھیر لیا، کیسے کُھل گئے بابا جی۔ وہ نہ جانے کیا سوچ رہے تھے، بالکل گم صم۔ میں نے انہیں شانے سے پکڑ کر ہلایا تو وہ ہوش میں آئے، تب میں نے ان کے سامنے اپنا سوال دہرایا۔ ان کی آنکھیں برسنے لگیں۔
انہیں بتانے میں دقّت ہورہی تھی، لیکن میں سننا چاہتا تھا۔ پھر وہ بتانے لگے: سرکار! ایسا نہیں تھا میں، جیسا اب نظر آرہا ہوں، میں تو سب گھر والوں کے لیے آزار تھا، آوارہ تھا، جوانی تھی تو بھٹک گیا اور ایسا کہ سمجھو زندہ ہی جہنم رسید ہوگیا، پہلے دوستوں کی محفل میں خراب ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر سے پیسے چُرانے لگا اور پھر لالچ میں جواری بن گیا، گھر والے سمجھے کہ شادی کرادو تو ٹھیک ہوجائے گا اور پھر شادی کرادی گئی تو اور زیادہ بے باک ہوگیا، مت پوچھو زندگی آزار بن گئی، پھر دو بیٹیاں خدا نے دیں لیکن میں! سب گھر والے پریشان تھے، میں خود بھی اپنی حالت سے پریشان تھا لیکن کچھ کر نہیں سکتا تھا، پھر میری دونوں بیٹیاں بیمار ہوگئیں اور ایسی کی مت پوچھو، بہت علاج کرایا لیکن بے سُود، مجھے اپنی بیٹیوں سے بہت محبّت ہے، میں پریشان یہیں گھوم رہا تھا کہ بابا مجھے نظر آئے، میں ان کے پاس پہنچا تو وہ خاموش تھے، میں نے بھی کوئی بات نہیں کی، میں نے سوچا ہوگا کوئی، وہ روز ہی مجھے ملتے تھے لیکن میں اپنی پریشانی میں تھا تو بات نہیں ہوتی تھی، پھر ایک دن میری بیٹیوں کی حالت انتہائی خراب ہوگئی، مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی تو میں یہیں آکر بیٹھ گیا جہاں اب ہم بیٹھے ہیں، میں رو رہا تھا اپنی بے بسی پر کہ بابا میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے اور کہا: بہت تکلیف میں ہو! میں انہیں کوئی ایسا ویسا سمجھا کہ اب کچھ مانگے گا مجھ سے تو میں نے ذرا غصے میں کہا: یہ تو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے کہ میں بہت پریشان ہوں۔
بابا نے میری بات تحمل سے سنی اور پھر مجھے گلے لگایا، اور کہا: دیکھو سب ٹھیک ہوجائے گا، لیکن ایک شرط ہے۔ میں نے ان سے پوچھا، کیا شرط، تو انہوں نے کہا: دیکھو! بیٹیاں رب تعالی کی نعمت ہیں، کسی نصیب والے کو ہی دی جاتی ہیں لیکن تم اس نعمت کی قدر نہیں کرتے ناں تو بس اب پریشان ہو۔ میں غور سے بابا کی باتیں سن رہا تھا تو انہوں نے کہا: بس ایک شرط یہ ہے کہ تم اپنے گناہوں سے توبہ کرلو، آئندہ راہ راست پر رہو تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ سب کچھ بس چند دن میں ہی صحیح ہوجائے گا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ایسا ہی کروں گا۔ میں گھر پہنچا تو بیٹیوں کی حالت قدرے سنبھل چکی تھی، پھر ایسا ہی ہوا اور واقعی سب ٹھیک ہوتا چلا گیا، یہ ساری باتیں جو میں آپ سے کر رہا ہوں، ان ہی سے سنی ہیں، میں نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ ہمارے پاس آکر رہیں، لیکن حیرت ہے انہوں نے آج تک ہمارا پانی بھی نہیں پیا، بس ٹال جاتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں اور اتنی محنت لیکن کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے، اس طرح وہ مجھ پر کُھل گئے اور مجھ پر ہی کیا، یہاں کے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو ان سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کبھی مان کر نہیں دیے، وہ واقعی خدا کے منتخب بندے ہیں، میں کئی مرتبہ ان کے ٹھکانے پر بھی گیا ہوں پھر انہوں نے مجھے منع کردیا اور کہا کہ اپنے کام ذمے داری سے کرو اور لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہو، تو بس یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، انہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، ان ہی کا فیض ہے۔
میں ان کی باتیں بہت غور سے سُن رہا تھا کہ مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں نے ان سے اجازت چاہی تو وہ افسردہ ہوئے اور کہا: سرکار! گھر بھی آئیے گا، بابا کو بھی ساتھ لائیں تو احسان ہوگا، خدمت کا موقع ملے گا تو بہت زیادہ خوشی ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ میں کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کرتا کہ بابا جو کہیں گے میں ان کے حکم کا پابند ہوں۔
میں واپس آرا مشین پر پہنچا تو بابا مجھے دیکھ کر مسکرائے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ رب تعالٰی کے گھر سے اذان ظہر کی منادی بلند ہوئی: آؤ! فلاح کی طرف۔ آؤ! نماز کی طرف اور اس کے ساتھ ہی بابا نے بٹن دبا کر مشین بند کردی۔ وہ پسینے میں شرابور میری جانب آئے اور میرے سر پر اپنا دست شفقت رکھتے ہوئے کہا: مل گیا تھا وہ ؟ جی وہ مل گئے تھے ان کی کہانی ہی سُن رہا تھا بابا۔ پھر انہوں نے وضو کیا اور میرا ہاتھ پکڑے مسجد کی جانب روانہ ہوئے۔