سرمایہ دارانہ انتخابات یا انقلاب

پاکستان کی معیشت کا 76 فیصد کالے دھن پر انحصار ہے

zb0322-2284142@gmail.com

اب سرمایہ داری کے بوسیدہ نظام کو دفنانے کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔ انقلاب ہی اس کا موزوں متبادل ہے اور بھی وہ غیر طبقاتی آزاد معاشرہ ہے۔انقلاب دنیا میں دو ہی آئے ہیں۔ ایک اٹھارہویں صدی کا انقلاب فرانس جس کے جملہ مقاصد حاصل کرنے کی منزل ابھی دور ہے۔ دوسرا ہسپانیہ میں برپا ہونے والا 19 جولائی 1936 کا انقلاب جو بظاہر ناکام ہوگیا مگر مختلف شکلوں میں اپنا جلوہ دکھاتا رہتا ہے۔ انقلاب کی پہلی اور آخری شناخت یہ ہے کہ اس کا کوئی رہنما یا لیڈر نہیں ہوتا۔ آج فرانس نے صفرگروتھ کے ساتھ کساد بازی کو چکمہ دے دیا ہے ، جرمنی میں 0.3 فیصد نمو، بیلجیئم، فنش، یونان، اطالوی و ہسپانوی معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔ یورو زون رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں 0.2 فیصد انحطاط کے ساتھ کساد بازاری کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ، تاہم ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال معاشی تنزلی کا سفر جاری رہے گا۔ تجزیہ کار ٹام راجرز کا کہنا تھا کہ سست روی دائرے سے مرکز تک پھیل چکی ہے۔

اکنامسٹ کے جوناتھن لوئنس نے کہا کہ خطے کو قرض کے بحران سے نکالنے کے لیے درکار اقتصادی نمو اب بھی کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ برآمدی منڈیوں کی طلب کم ہورہی ہے اور اب یہ امکان حقیقت لگ رہا ہے کہ اہم معیشتوں کی پیداوار بھی رواں سال کی دوسری ششماہی میں بھی سکڑ جائے گی۔ اعداد و شمار کے مطابق دوسری سہ ماہی میں اٹلی کی معیشت 0.7 فیصد اور ہسپانوی معیشت 0.4 فیصد سکڑ گئی جب کہ یونان میں اقتصادی بدحالی کو لگام نہ دی جاسکی اور معیشت 6.2 فیصد سکڑ گئی۔ تجزیہ کار ہاورڈارچر نے کہا کہ یہ سب متوقع تھا مگر قابل ذکر اور پریشان کن یہ بات ہے کہ بیلجیئم اور فن لینڈ میں بھی جی ڈی پی سکڑ گئی اور یہ انحطاط بالترتیب 0.6 اور 0.1 فیصد رہا۔ انھوں نے رواں سال یورو زون کی جی ڈی پی میں 0.5 فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک یونان، اسپین، اٹلی اور پرتگال کے مسائل کے باعث تنزلی کا شکار ہیں۔

انھوں نے آئی ایچ ایس کی پیش گوئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونان 2013 کے وسط تک یوروزون کو چھوڑ سکتا ہے اور اس کا نتیجہ دوسری ششماہی 2013 کو یوروزون میں کساد بازاری کی صورت میں نکلے گا۔ انھوں نے خطے میں آیندہ سال 0.2 فیصد معاشی انحطاط کا اندیشہ ظاہر کیا۔ یاد رہے کہ کساد بازاری کی اصطلاح کسی بھی ملک یا خطے کی مسلسل دو سہ ماہی کے دوران معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یورو اسٹیٹ کے مطابق امریکا میں معاشی نمو سہ ماہی بنیادوں پر 2.2 فیصد اور جاپان میں 3.6 فیصد رہی۔ ماہر اقتصادیات کرسٹائن شولز کے مطابق یورو بحران پر قابو پانے کے بعد ہی یورپ میں نمو کے رجحان کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی معیشت کا 76 فیصد کالے دھن پر انحصار ہے۔ پاکستان میں ایک وقت میں پٹرول اور مویشیوں کا چارہ سستا ہونے کے باوجود دودھ کی قیمت میں حکومت کمی نہیں کرپائی۔ دودھ کی سرکاری قیمت سے 4 روپے زاید پر فروخت جاری ہے۔ ڈیری فارمرز فی لیٹر عوام سے 13.13 روپے منافع وصول کررہے ہیں۔ پاکستان کا انتہائی معتبر تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ کے ای ایس سی کے بجلی گھروں کی انتہائی خراب کارکردگی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے بھاری سبسڈی کی ادائیگی کے باعث نج کاری کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔


سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے محقق ارشد ایس عباسی کی جانب سے پیش کی جانے والی تحقیقی رپورٹ میں کے ای ایس سی کی کارکردگی اور مسائل کا بغور مطالعہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بجلی کے بحران کا حل ڈیمز کے ذریعے سستی بجلی کا حصول، بجلی گھروں میں کم سے کم ایندھن کے ذریعے زیادہ بجلی کی پیداوار کو ممکن بنانا، اسمارٹ گرڈ اور ایڈوانس میٹرنگ سسٹم کو متعارف کرانے میں مضمر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کے ای ایس سی کی نج کاری کا بنیادی مقصد حکومتی خزانے سے ادا کیے جانے والے ادارے کے اربوں روپے کے مالی نقصانات تھے، تاہم نج کاری کے بعد بھی کے ای ایس سی کو سبسڈی کی مد میں حکومت پاکستان کی جانب سے خطیر رقوم مل رہی ہیں۔

پاکستان خصوصاً کے ای ایس سی کے تھرمل بجلی گھروں کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ بجلی گھروں سے فی یونٹ بجلی پیدا کرنے پر بہت بڑی مقدار میں فرنس آئل خرچ ہوتا ہے جب کہ فی کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے کے ای ایس سی کو 11 سے 18 کیوبک فٹ قدرتی گیس درکار ہوتی ہے جب کہ ملک کے دیگر حصّوں میں قائم بجلی گھر 7 سے ساڑھے 7 کیوبک فٹ میں اتنی ہی بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اگر کے ای ایس سی بجلی گھروں میں استعمال ہونے والے ایندھن کا موازنہ بنگلہ دیش کے بجلی گھروں سے کیا جائے تو کے ای ایس سی کے بجلی گھروں میں فرنس آئل اور گیس کی تقریباً دگنی مقدار کے ذریعے اتنی ہی بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

اگر ایندھن پر آنے والے اضافی اخراجات پر قابو پالیا جائے تو حکومت کی جانب سے ادا کی جانے والی سبسڈی میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان کی جانب سے کے ای ایس سی پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ اپنے بجلی گھروں کی کارکردگی بہتر بنائے اور اپنے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن سسٹم میں مناسب سرمایہ کاری کرے تو بجلی کے بحران پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ بہرحال کے ای ایس سی کے حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے بددیانتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ کے ای ایس سی کے غیر ملکی سرمایہ دار نے حکومتِ پاکستان سے یہ طے کیا تھا کہ اس پروجیکٹ پر 7 ارب روپے لگایا جائے گا، 3 سال تک بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اور ملازمین کو ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا جب کہ کے ای ایس سی کے مالکان حکومت اور دیگر عالمی اداروں سے 80 ارب روپے قرض لے چکے ہیں، آئے روز بجلی کے نرخوں میں اضافہ کررہے ہیں اور ہزاروں مزدوروں کو برطرف کردیا ہے۔ 12 افراد کو 5 لاکھ سے 25 لاکھ روپے تنخواہیں ڈائریکٹرز بناکے ادا کر رہی ہے اور نکالے گئے مزدوروں سے کہیں زیادہ تنخواہیں دے کر نئے اور غیر تجربہ کار مزدوروں کو ملازمت پر رکھا گیا ہے۔

جہاں تک جنگ، دفاع اور اسلحہ سازی کا تعلق ہے اگر اسے بند کردیا جائے تو دنیا کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ 200 قومی ریاستوں کا سالانہ دفاعی اخراجات 750 ارب ڈالر ہے جن میں واحد سپرپاور آدھی رقم سالانہ خرچ کرتی ہے۔ اگر اسے خرچ نہ کیا جائے تو دنیا کے ہر شخص کی سالانہ آمدنی میں 7000 روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ریاست اور دفاعی اخراجات ختم کردیے جائیں تو دنیا سے بھوک، افلاس، غربت، جہالت، بے گھری اور لاعلاجی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
Load Next Story