کساوری لاہور چڑیا گھر کا 56 سالہ کنوارہ پرندہ
کساوری، شترمرغ اور ایمو فیملی سے تعلق رکھتا ہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے
میں سیکڑوں مرتبہ لاہور چڑیا گھر آچکا ہوں۔ کبھی سیروتفریح کےلیے تو کبھی بطور صحافی یہاں ہونے والی تقریبات کی کوریج کےلیے۔ چڑیا گھر کے افسران اور عملے کی طرح میں یہاں موجود تمام جانوروں اور پرندوں کے بارے میں بھی جانتا ہوں، لیکن گزشتہ دنوں میرا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا، جب مجھے لاہور چڑیا گھر کے 56 سالہ کنوارے پرندے ''کساوری'' کا علم ہوا۔
میں لاہور چڑیا گھر کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان کے پاس ان کے آفس میں بیٹھا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ رضوان صاحب چڑیا گھر کے کسی منفرد جانور یا پرندے کے بارے بتائیں جسے لوگ بہت کم جانتے ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کساوری کو دیکھا ہے؟
''کون کساوری؟'' میں نے جواب دیا، کیونکہ میں یہ نام ہی پہلی بار سن رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لارنس روڈ والے گیٹ سے جب آپ چڑیا گھر میں داخل ہوں تو دائیں جانب جو جانوروں کے احاطے ہیں، وہاں زرافہ کے احاطے کے سامنے ہی کساوری ہے۔ مجھے ان کے اس طرح سمجھانے پر کچھ سمجھ میں نہ آیا اور نہ ہی اس جانور کی کوئی شبیہہ دماغ کے آئینے میں واضح ہوئی۔ میں ان کے کمرے سے نکلا اور کساوری کے دیدار کا فیصلہ کرلیا۔ میرا رخ زرافہ کے احاطے کی طرف تھا۔
اس دن بارش کے بعد کافی حبس تھا، ہوا بند تھی اور پسینے آرہے تھے۔ میں چند منٹوں میں اس جگہ پہنچ گیا، جس کا ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا تھا۔ یہاں پنجروں میں شترمرغ اور ایمو نظر آئے۔ ان کو تو میں پہچانتا تھا اور سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکا تھا۔ میرا تجسس کساوری کو دیکھنے کا تھا۔ تھوڑی سی محنت کے بعد مجھے ایک پنجرے پر کساوری لکھا نظر آگیا۔ جب میں نے پنجرے کے اندر دیکھا تو وہ خالی تھا۔ میں نے سوچا یہ کساوری کہاں چلا گیا۔ اپنی جگہ تبدیل کرکے احاطے کے اندر بنے شیڈ میں دیکھا تو ایک جانور نظر آیا۔ اس کا دھڑ دیوار کے پیچھے تھا، صرف سر نظر آرہا تھا۔ پہلی نظر میں ایسے لگا جیسے کوئی بہت بڑے سائز کا مور ہے، جس کے سر پر تاج سجا ہے۔ وہاں قریب کھڑے چڑیا گھر کے ایک ملازم سے میں نے درخواست کی وہ کساوری کو ذرا اس شیڈ کے نیچے سے باہر نکالے تاکہ اسے دیکھ سکوں۔ وہ ملازم اس کے پنجرے کے اندر گیا اور اسے دور سے ہی ڈرانے کی کوشش کی، جس کے بعد کساوری باہر آگیا۔
میرے لیے واقعی یہ پرندہ منفرد تھا اور میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ احاطہ دروازے سے ایک سائیڈ پر ہے اور اس طرف کم لوگ جاتے ہیں یا پھر وہ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
لاہور چڑیا گھر کے حکام نے کساوری سے متعلق جو کچھ بتایا وہ بھی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لاہور چڑیا گھر کا یہ خاص مہمان ''کساوری'' شترمرغ کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ سر پر چھوٹا سا تاج، چلنے کا خاص انداز مگر انتہائی خطرناک پرندہ ہے، جو ایک ہی وار میں اپنے پاؤں کے خنجر نما ناخن سے سامنے والے کا سینہ چاک کردیتا ہے۔ سیاہ جسامت اور خوبصورت رنگوں سے مزین چہرے والا یہ پرندہ کساوری عام طور پر نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور نیوگنی میں پایا جاتا ہے اور پورے پاکستان میں یہ پرندہ صرف لاہور چڑیا گھر میں موجود ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا کہ کساوری لاہور چڑیا گھر کا سب سے پرانا اورٖ ضعیف العمر مکین ہے۔ چڑیا گھر کے ریکارڈ کے مطابق یہ دوڑنے والا پرندہ 22 اکتوبر 1971 کو انگلینڈ سے یہاں لایا گیا تھا اور اس وقت اس کی عمر تقریباً 5،6 برس ہوگی۔ اور اب اس کی عمر تقریباً 56 برس ہوچکی ہے۔ چڑیا گھر کے جانوروں اور پرندوں میں سب سے زیادہ عمر والا پرندہ ہے۔
کساوری کو شاہی پرندہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہجوم سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے۔ دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں کساوری کو اکیلا ہی رکھا جاتا ہے۔ لاہور چڑیا گھر میں بھی صرف نر کساوری ہے۔ انتظامیہ کوشش کے باوجود آج تک اس کےلیے مادہ حاصل نہیں کرسکی۔ کساوری کی اوسط عمر چالیس سال تک ہوتی ہے، تاہم لاہور چڑیا گھر میں موجود یہ منفرد اور نایاب پرندہ زندگی کی پچپن بہاریں دیکھ چکا ہے۔
ڈاکٹر رضوان خان کے مطابق کساوری شترمرغ اور ایمو فیملی سے تعلق رکھتا ہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مادہ کساوری انڈے دے کر دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہے، جبکہ نر کساوری انڈوں پر بیٹھ کر بچے نکالتا ہے اور ان کی پرورش کرتا ہے۔ کساوری کے دونوں پاؤں میں تین، تین ناخن ہوتے ہیں، جن میں سے درمیان والا ناخن کسی تیز دھار خنجر کی طرح ہوتا ہے۔ کساوری اپنے دشمن پر سامنے سے اچھل کر وار کرتا ہے اور ایک لمحے میں سامنے کوئی انسان ہو یا جانور، اس کا سینہ چاک کردیتا ہے۔ شترمرغ اور ایمو عام طور پر انسان دوست ہوتے ہیں، وہ حملہ آور نہیں ہوتے، لیکن کساوری کا رویہ ان کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ اپنے کیپر پر بھی حملہ کردیتا ہے۔ ہر سال کئی جانور اور کیپر کساوری کے حملے سے زخمی و ہلاک ہوجاتے ہیں۔
کساوری کی خوراک میں بھنے ہوئے چنے، فروٹ، باجرہ، مکئی اور جو وغیرہ شامل ہیں۔ لاہور چڑیا گھر میں کساوری کے پنجرے میں جامن کا درخت ہے، جس سے گرنے والے جامن یہ شوق سے کھاتا ہے۔ تاہم اس کا زیادہ تر وقت پنجرے کے اندر بنائے گئے کمرے میں ہی گزرتا ہے اور یہ بہت کم باہر نکلتا ہے۔
لاہور چڑیا گھر کی ایجوکیشن آفیسر کرن سلیم نے بتایا کہ ہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ نر ساوری کےلیے کوئی مادہ مل سکے۔ اس حوالے سے امریکا، ملائیشیا، یو کے سمیت کئی ممالک سے رابطہ کیا گیا، لیکن کہیں سے بھی ہمیں اس کی دستیابی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت نایاب ہیں اور شترمرغ یا ایمو کی طرح اس کی فارمنگ کا کوئی رحجان نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں لاہور چڑیا گھر کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان کے پاس ان کے آفس میں بیٹھا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ رضوان صاحب چڑیا گھر کے کسی منفرد جانور یا پرندے کے بارے بتائیں جسے لوگ بہت کم جانتے ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کساوری کو دیکھا ہے؟
''کون کساوری؟'' میں نے جواب دیا، کیونکہ میں یہ نام ہی پہلی بار سن رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لارنس روڈ والے گیٹ سے جب آپ چڑیا گھر میں داخل ہوں تو دائیں جانب جو جانوروں کے احاطے ہیں، وہاں زرافہ کے احاطے کے سامنے ہی کساوری ہے۔ مجھے ان کے اس طرح سمجھانے پر کچھ سمجھ میں نہ آیا اور نہ ہی اس جانور کی کوئی شبیہہ دماغ کے آئینے میں واضح ہوئی۔ میں ان کے کمرے سے نکلا اور کساوری کے دیدار کا فیصلہ کرلیا۔ میرا رخ زرافہ کے احاطے کی طرف تھا۔
اس دن بارش کے بعد کافی حبس تھا، ہوا بند تھی اور پسینے آرہے تھے۔ میں چند منٹوں میں اس جگہ پہنچ گیا، جس کا ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا تھا۔ یہاں پنجروں میں شترمرغ اور ایمو نظر آئے۔ ان کو تو میں پہچانتا تھا اور سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکا تھا۔ میرا تجسس کساوری کو دیکھنے کا تھا۔ تھوڑی سی محنت کے بعد مجھے ایک پنجرے پر کساوری لکھا نظر آگیا۔ جب میں نے پنجرے کے اندر دیکھا تو وہ خالی تھا۔ میں نے سوچا یہ کساوری کہاں چلا گیا۔ اپنی جگہ تبدیل کرکے احاطے کے اندر بنے شیڈ میں دیکھا تو ایک جانور نظر آیا۔ اس کا دھڑ دیوار کے پیچھے تھا، صرف سر نظر آرہا تھا۔ پہلی نظر میں ایسے لگا جیسے کوئی بہت بڑے سائز کا مور ہے، جس کے سر پر تاج سجا ہے۔ وہاں قریب کھڑے چڑیا گھر کے ایک ملازم سے میں نے درخواست کی وہ کساوری کو ذرا اس شیڈ کے نیچے سے باہر نکالے تاکہ اسے دیکھ سکوں۔ وہ ملازم اس کے پنجرے کے اندر گیا اور اسے دور سے ہی ڈرانے کی کوشش کی، جس کے بعد کساوری باہر آگیا۔
میرے لیے واقعی یہ پرندہ منفرد تھا اور میں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ احاطہ دروازے سے ایک سائیڈ پر ہے اور اس طرف کم لوگ جاتے ہیں یا پھر وہ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
لاہور چڑیا گھر کے حکام نے کساوری سے متعلق جو کچھ بتایا وہ بھی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لاہور چڑیا گھر کا یہ خاص مہمان ''کساوری'' شترمرغ کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ سر پر چھوٹا سا تاج، چلنے کا خاص انداز مگر انتہائی خطرناک پرندہ ہے، جو ایک ہی وار میں اپنے پاؤں کے خنجر نما ناخن سے سامنے والے کا سینہ چاک کردیتا ہے۔ سیاہ جسامت اور خوبصورت رنگوں سے مزین چہرے والا یہ پرندہ کساوری عام طور پر نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور نیوگنی میں پایا جاتا ہے اور پورے پاکستان میں یہ پرندہ صرف لاہور چڑیا گھر میں موجود ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا کہ کساوری لاہور چڑیا گھر کا سب سے پرانا اورٖ ضعیف العمر مکین ہے۔ چڑیا گھر کے ریکارڈ کے مطابق یہ دوڑنے والا پرندہ 22 اکتوبر 1971 کو انگلینڈ سے یہاں لایا گیا تھا اور اس وقت اس کی عمر تقریباً 5،6 برس ہوگی۔ اور اب اس کی عمر تقریباً 56 برس ہوچکی ہے۔ چڑیا گھر کے جانوروں اور پرندوں میں سب سے زیادہ عمر والا پرندہ ہے۔
کساوری کو شاہی پرندہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہجوم سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا ہے۔ دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں کساوری کو اکیلا ہی رکھا جاتا ہے۔ لاہور چڑیا گھر میں بھی صرف نر کساوری ہے۔ انتظامیہ کوشش کے باوجود آج تک اس کےلیے مادہ حاصل نہیں کرسکی۔ کساوری کی اوسط عمر چالیس سال تک ہوتی ہے، تاہم لاہور چڑیا گھر میں موجود یہ منفرد اور نایاب پرندہ زندگی کی پچپن بہاریں دیکھ چکا ہے۔
ڈاکٹر رضوان خان کے مطابق کساوری شترمرغ اور ایمو فیملی سے تعلق رکھتا ہے، لیکن ان میں سب سے زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مادہ کساوری انڈے دے کر دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہے، جبکہ نر کساوری انڈوں پر بیٹھ کر بچے نکالتا ہے اور ان کی پرورش کرتا ہے۔ کساوری کے دونوں پاؤں میں تین، تین ناخن ہوتے ہیں، جن میں سے درمیان والا ناخن کسی تیز دھار خنجر کی طرح ہوتا ہے۔ کساوری اپنے دشمن پر سامنے سے اچھل کر وار کرتا ہے اور ایک لمحے میں سامنے کوئی انسان ہو یا جانور، اس کا سینہ چاک کردیتا ہے۔ شترمرغ اور ایمو عام طور پر انسان دوست ہوتے ہیں، وہ حملہ آور نہیں ہوتے، لیکن کساوری کا رویہ ان کے برعکس ہوتا ہے۔ یہ اپنے کیپر پر بھی حملہ کردیتا ہے۔ ہر سال کئی جانور اور کیپر کساوری کے حملے سے زخمی و ہلاک ہوجاتے ہیں۔
کساوری کی خوراک میں بھنے ہوئے چنے، فروٹ، باجرہ، مکئی اور جو وغیرہ شامل ہیں۔ لاہور چڑیا گھر میں کساوری کے پنجرے میں جامن کا درخت ہے، جس سے گرنے والے جامن یہ شوق سے کھاتا ہے۔ تاہم اس کا زیادہ تر وقت پنجرے کے اندر بنائے گئے کمرے میں ہی گزرتا ہے اور یہ بہت کم باہر نکلتا ہے۔
لاہور چڑیا گھر کی ایجوکیشن آفیسر کرن سلیم نے بتایا کہ ہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ نر ساوری کےلیے کوئی مادہ مل سکے۔ اس حوالے سے امریکا، ملائیشیا، یو کے سمیت کئی ممالک سے رابطہ کیا گیا، لیکن کہیں سے بھی ہمیں اس کی دستیابی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت نایاب ہیں اور شترمرغ یا ایمو کی طرح اس کی فارمنگ کا کوئی رحجان نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔