محمود عباس کا اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے معطل کرنے کا اشارہ
اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے باہر نکلتی ہے تو پھر تنازع فلسطین نیا رخ اختیار کرجائے گا۔
ISLAMABAD:
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے ساتھ کیے جانے والے تمام سمجھوتے اور معاہدے اسرائیل کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیاں ہونے کی بناء پر معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چونکہ دونوں فریقوں میں تعلقات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ان تمام معاہدوں کو معطل کر دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔
اس سے قبل اسرائیلی حکام ایک سے زیادہ مرتبہ ان باہمی سمجھوتوں کو تعطل کا شکار بنانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں مگر فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔
صدر محمود عباس نے کہا فلسطینی عوام کو فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے دینی چاہیے جو اس بات پر غور کرے کہ باہمی معاہدے معطل کرنے کا کام کس انداز سے کیا جائے تا کہ فلسطینیوں کو اس کا ذمے دار بھی قرار نہ دیا جا سکے۔ انھوں نے کہا مجوزہ کمیٹی کو اس بات کا بھی جائزہ لیناہو گا کہ معاہدوں کو معطل کرنے کے فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ 84 سالہ محمود عباس نے اس سے قبل بھی اس قسم کی دھمکی دی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ محمود عباس کی حکومت اور مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی حکومت میں دن بدن کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بھی کئی ٹیکس عائد کر رکھے ہیں لیکن محمود عباس ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے حصے کے محصولات وصول کرنے سے بسا اوقات انکار کردیتے ہیں اور ان کا اعتراض ہوتا ہے کہ انھیں ٹیکسوں کی آمدنی کا پورا حصہ نہیں دیا جا رہا اس لیے وہ کچھ بھی نہیں لیتے۔
فروری کے مہینے میں اسرائیل نے فلسطین کو دی جانے والی رقم میں سے 10 ملین (ایک کروڑ ڈالر) ماہوار کاٹ لینے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم فلسطینی قیدیوں کی دیکھ بھال پرخرچ ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف راکٹ بازی کے الزامات بھی عائد کرتا ہے۔
گزشتہ سوموار کے دن اسرائیل نے فلسطینیوں کے 12 مکانات منہدم کر دیے۔ اس کارروائی میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ بلڈوزر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے باہر نکلتی ہے تو پھر تنازع فلسطین نیا رخ اختیار کرجائے گا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو بھی دھچکا لگے گا۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر محمود عباس اتنی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر پائیں گے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے ساتھ کیے جانے والے تمام سمجھوتے اور معاہدے اسرائیل کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیاں ہونے کی بناء پر معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چونکہ دونوں فریقوں میں تعلقات دن بدن کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ان تمام معاہدوں کو معطل کر دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔
اس سے قبل اسرائیلی حکام ایک سے زیادہ مرتبہ ان باہمی سمجھوتوں کو تعطل کا شکار بنانے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں مگر فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو کالعدم قرار دینے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔
صدر محمود عباس نے کہا فلسطینی عوام کو فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے دینی چاہیے جو اس بات پر غور کرے کہ باہمی معاہدے معطل کرنے کا کام کس انداز سے کیا جائے تا کہ فلسطینیوں کو اس کا ذمے دار بھی قرار نہ دیا جا سکے۔ انھوں نے کہا مجوزہ کمیٹی کو اس بات کا بھی جائزہ لیناہو گا کہ معاہدوں کو معطل کرنے کے فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ 84 سالہ محمود عباس نے اس سے قبل بھی اس قسم کی دھمکی دی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ محمود عباس کی حکومت اور مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی حکومت میں دن بدن کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بھی کئی ٹیکس عائد کر رکھے ہیں لیکن محمود عباس ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے حصے کے محصولات وصول کرنے سے بسا اوقات انکار کردیتے ہیں اور ان کا اعتراض ہوتا ہے کہ انھیں ٹیکسوں کی آمدنی کا پورا حصہ نہیں دیا جا رہا اس لیے وہ کچھ بھی نہیں لیتے۔
فروری کے مہینے میں اسرائیل نے فلسطین کو دی جانے والی رقم میں سے 10 ملین (ایک کروڑ ڈالر) ماہوار کاٹ لینے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم فلسطینی قیدیوں کی دیکھ بھال پرخرچ ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے خلاف راکٹ بازی کے الزامات بھی عائد کرتا ہے۔
گزشتہ سوموار کے دن اسرائیل نے فلسطینیوں کے 12 مکانات منہدم کر دیے۔ اس کارروائی میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ بلڈوزر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے باہر نکلتی ہے تو پھر تنازع فلسطین نیا رخ اختیار کرجائے گا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو بھی دھچکا لگے گا۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر محمود عباس اتنی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر پائیں گے۔