رحمت زحمت نہ بنا دی جائے
اب تصور کریں ہے ایسے حالات میں اگر چند گھنٹے موسلادھار بارش ہوگئی تو شہر اور شہر والوں کا کیا حال ہوگا۔
سیانوں نے کہا ہے کہ حالت امن میں جنگ کی تیاریاں کرنے والے ہمیشہ کامیاب و کامران رہتے ہیں، مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں مگر انھیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ اصول اگر زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں لاگو کیا جائے تو بہت سی پریشانیاں اور مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ مسائل اور مشکلات کا سلسلہ شروع ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنی اپنی سطح پر حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور اس جدوجہد میں فرائض پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس وقت شہر کراچی کے باسیوں کے لیے قدرت کی طرف سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ شہر میں موسلا دھار بارشیں ہونے والی ہیں، رواں ماہ کی آخری تاریخوں میں محکمہ موسمیات کی جانب سے تیز بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ زیرنظر مضمون کی اشاعت کے وقت شہر میں بارش کا سلسلہ شروع ہوچکا ہو کیونکہ ہلکی پھلکی بارش تو گزشتہ کئی روز سے مختلف علاقوں کے مکینوں کے لیے تحفہ بن کر آچکی ہے ۔
بارش ہر موسم میں اللہ کی رحمت ہے اور رہے گی لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے اقدامات ضرور کریں جن کی وجہ سے یہ ''رحمت'' خدانخواستہ ''زحمت'' نہ بنے، اس کے لیے صرف حکومت اور ارباب اقتدار نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ باران رحمت کا صحیح لطف اٹھانے کے لیے ذمے داری کا مظاہرہ کرے اور دوسروں کے لیے پریشانی کا سبب نہ بنے۔
اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بارش سر پر ہو اور ہم اب ضروری اقدامات کا سوچیں ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی بارشوں کے سیزن کے آغاز سے قبل سندھ حکومت، شہری انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے تمام سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر شہریوں کو برسات کے موسم میں مزید پریشانیوں اور مسائل سے بچانے کے لیے اقدامات کرتے لیکن شہر کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ تمام حکام ، افسران بالا اور نچلے گریڈ کا عملہ ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہی بیٹھا رہا ہے اور کوئی برسات میں نکل کر نہیں دیکھ پاتا کہ عوام کو کن مسائل کا سامنا ہے۔
بقول شاعر
اُس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
یہ بات کسی کی مخالفت میں نہیں کہی جارہی بلکہ اس تلخ حقیقت کی دلیل چند روز قبل ہونے والی 10یا 15 منٹ کی بارش ہے جس کے بعد شہر کی کئی اہم سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگیا تھا، مختلف علاقوں میں گھنٹوں بجلی غائب رہی تھی اور شہری ٹریفک جام کا بدترین عذاب سہنے پر مجبور ہوئے تھے۔
بارش کے حوالے سے شہر کراچی کے چند مسائل پر بات کرتے رہیں، مجھ نا چیز کی رائے میں بجلی کے ٹوٹے اور لٹکتے تار، گلیوں اور سڑکوں پر بڑے کچرے کے ڈھیر کے ساتھ نالوں میں پانی کی جگہ کچرا ہی کچرا اور مسلسل خستہ ہوتی سڑکیں بارش کو پریشانی کا سبب بنانے کی بڑی وجوہ ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان مذکورہ مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی اور اگر معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوششیں ہو بھی رہی ہیں تو اس پر کام کی رفتار بہت سست ہے۔
اب تصور کریں ہے ایسے حالات میں اگر چند گھنٹے موسلادھار بارش ہوگئی تو شہر اور شہر والوں کا کیا حال ہوگا مسلسل مختلف اقسام کے مسائل کا سامنا کرنے والے اہلیان کراچی ان تمام مشکلات کو ذہن میں رکھ کر ، ماضی میں ہونے والی شکایت کو بھلاکر باران رحمت کی دعائیں مانگ رہے ہیں تو ارباب اقتدار کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی اپنی ڈیوٹی اچھی طرح ادا کرکے معاملات کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور شہریوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور فراہم کیا جائے۔
٭شہر بھر میں رہائشی عمارتوں، سڑکوں اور بازاروں میں بجلی کے ٹوٹے تاروں کی مرمت اور صحیح طرح تنصیب کا عمل ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد واقعات ہوچکے ہیں جب بارش کے دوران ٹوٹے لٹکتے تار انسانی جانیں لینے کا سبب بن گئے تھے۔
٭ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی فوری مرمت اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرنے بھی سخت ضرورت ہے۔ ہلکی بارش بھی ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو سفر کرنے والوں کر لیے بے پناہ مشکلات لے آتی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے سید اشرف علی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں شہر میں موجود نالوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس کو پڑھ کر صورت حال کی شدید سنگینی کا احساس ہوتا ہے ۔رپورٹ کے مطابق شہر میں چھوٹے بڑے تقریباً 550 نالے ہیں جو بدقسمتی سے سارے کے سارے اس وقت پانی سے زیادہ کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور زیادہ بارشوں کے نتیجے میں شدید سنگین صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
٭ایک اور اہم معاملہ گلیوں اور سڑکوں پر بجلی کے کھمبے ہیں، بارشوں کے دوران یا بارش ہونے سے قبل اگر اُن کے گرد لکڑیاں رکھ دی جائیں یا عام آدمی کے قد تک کی اونچائی تک کھمبوں کو لکڑیوں سے ڈھانپ دیا جائے تو برسات میں کئی حادثات رونما ہی نہیں ہونگے۔ جب بارش ہورہی ہوتی ہے تو گھروں سے باہر موجود لوگ جن میں بچے بھی ہوتے ہیں، برساتی پانی سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں لیکن جب پانی زیادہ ہوجائے اور آمدورفت میں مشکل ہو تو پھر غیر ارداری طور پر انسان کھمبے کا سہارا لیتا ہے ، یہی وہ وقت ہوتا جب کرنٹ لگنے کے واقعات کسی کا گھر اجاڑدیتے ہیں۔ حکام بالا کو اس اہم معاملے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭ بارش کے خوبصورت موسم اور اللہ کی اس نعمت سے لطف اندوز ہونے والوں کو شہر کراچی میں اس وقت بڑی اذیت ہوتی ہے جب بارش کا پانی کئی کئی دن سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے جس کی اہم وجہ نکاسی آب کا انتہائی بوسیدہ اور تباہ حال نظام ہے۔ درد مند دل رکھنے والے بار بار ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے رہے ہیں اور کربھی رہے ہیں کہ شہر میں فراہمی آب کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کا بھی نظام بھی صحیح کیا جائے لیکن شاید ابھی عوام کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ نہیں پارہی۔
درج بالا کچھ چیزوں کی نشاندہی کا مقصد شہریوں کے لیے آواز اٹھانا ، اُن کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والوں کو کچھ چیزوں کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ جو کام ہورہے ہیں وہ مزید اچھے طریقے اور زیادی تیزرفتاری سے ہوسکیں جن کا فائدہ عوام کو پہنچے۔ باران رحمت کا مزہ اُس وقت صحیح معنوں میں لیا جاسکتا ہے جب شہری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بجلی کے بوسیدہ تاروں، کرنٹ مارتے کھمبوں اور سیوریج کے بوسیدہ نظام کی پریشانیوں سے محفوظ ہیں۔ ایسا ممکن ہے لیکن ایسا کب ہوگا اس کا ہر ایک کو انتظار ہے۔
اس وقت شہر کراچی کے باسیوں کے لیے قدرت کی طرف سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ شہر میں موسلا دھار بارشیں ہونے والی ہیں، رواں ماہ کی آخری تاریخوں میں محکمہ موسمیات کی جانب سے تیز بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ زیرنظر مضمون کی اشاعت کے وقت شہر میں بارش کا سلسلہ شروع ہوچکا ہو کیونکہ ہلکی پھلکی بارش تو گزشتہ کئی روز سے مختلف علاقوں کے مکینوں کے لیے تحفہ بن کر آچکی ہے ۔
بارش ہر موسم میں اللہ کی رحمت ہے اور رہے گی لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے اقدامات ضرور کریں جن کی وجہ سے یہ ''رحمت'' خدانخواستہ ''زحمت'' نہ بنے، اس کے لیے صرف حکومت اور ارباب اقتدار نہیں بلکہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ باران رحمت کا صحیح لطف اٹھانے کے لیے ذمے داری کا مظاہرہ کرے اور دوسروں کے لیے پریشانی کا سبب نہ بنے۔
اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بارش سر پر ہو اور ہم اب ضروری اقدامات کا سوچیں ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی بارشوں کے سیزن کے آغاز سے قبل سندھ حکومت، شہری انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے تمام سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر شہریوں کو برسات کے موسم میں مزید پریشانیوں اور مسائل سے بچانے کے لیے اقدامات کرتے لیکن شہر کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ تمام حکام ، افسران بالا اور نچلے گریڈ کا عملہ ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ہی بیٹھا رہا ہے اور کوئی برسات میں نکل کر نہیں دیکھ پاتا کہ عوام کو کن مسائل کا سامنا ہے۔
بقول شاعر
اُس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
یہ بات کسی کی مخالفت میں نہیں کہی جارہی بلکہ اس تلخ حقیقت کی دلیل چند روز قبل ہونے والی 10یا 15 منٹ کی بارش ہے جس کے بعد شہر کی کئی اہم سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگیا تھا، مختلف علاقوں میں گھنٹوں بجلی غائب رہی تھی اور شہری ٹریفک جام کا بدترین عذاب سہنے پر مجبور ہوئے تھے۔
بارش کے حوالے سے شہر کراچی کے چند مسائل پر بات کرتے رہیں، مجھ نا چیز کی رائے میں بجلی کے ٹوٹے اور لٹکتے تار، گلیوں اور سڑکوں پر بڑے کچرے کے ڈھیر کے ساتھ نالوں میں پانی کی جگہ کچرا ہی کچرا اور مسلسل خستہ ہوتی سڑکیں بارش کو پریشانی کا سبب بنانے کی بڑی وجوہ ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان مذکورہ مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی اور اگر معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوششیں ہو بھی رہی ہیں تو اس پر کام کی رفتار بہت سست ہے۔
اب تصور کریں ہے ایسے حالات میں اگر چند گھنٹے موسلادھار بارش ہوگئی تو شہر اور شہر والوں کا کیا حال ہوگا مسلسل مختلف اقسام کے مسائل کا سامنا کرنے والے اہلیان کراچی ان تمام مشکلات کو ذہن میں رکھ کر ، ماضی میں ہونے والی شکایت کو بھلاکر باران رحمت کی دعائیں مانگ رہے ہیں تو ارباب اقتدار کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھی اپنی ڈیوٹی اچھی طرح ادا کرکے معاملات کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور شہریوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور فراہم کیا جائے۔
٭شہر بھر میں رہائشی عمارتوں، سڑکوں اور بازاروں میں بجلی کے ٹوٹے تاروں کی مرمت اور صحیح طرح تنصیب کا عمل ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد واقعات ہوچکے ہیں جب بارش کے دوران ٹوٹے لٹکتے تار انسانی جانیں لینے کا سبب بن گئے تھے۔
٭ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی فوری مرمت اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرنے بھی سخت ضرورت ہے۔ ہلکی بارش بھی ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو سفر کرنے والوں کر لیے بے پناہ مشکلات لے آتی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے سید اشرف علی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں شہر میں موجود نالوں کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس کو پڑھ کر صورت حال کی شدید سنگینی کا احساس ہوتا ہے ۔رپورٹ کے مطابق شہر میں چھوٹے بڑے تقریباً 550 نالے ہیں جو بدقسمتی سے سارے کے سارے اس وقت پانی سے زیادہ کچرے سے بھرے ہوئے ہیں اور زیادہ بارشوں کے نتیجے میں شدید سنگین صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
٭ایک اور اہم معاملہ گلیوں اور سڑکوں پر بجلی کے کھمبے ہیں، بارشوں کے دوران یا بارش ہونے سے قبل اگر اُن کے گرد لکڑیاں رکھ دی جائیں یا عام آدمی کے قد تک کی اونچائی تک کھمبوں کو لکڑیوں سے ڈھانپ دیا جائے تو برسات میں کئی حادثات رونما ہی نہیں ہونگے۔ جب بارش ہورہی ہوتی ہے تو گھروں سے باہر موجود لوگ جن میں بچے بھی ہوتے ہیں، برساتی پانی سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں لیکن جب پانی زیادہ ہوجائے اور آمدورفت میں مشکل ہو تو پھر غیر ارداری طور پر انسان کھمبے کا سہارا لیتا ہے ، یہی وہ وقت ہوتا جب کرنٹ لگنے کے واقعات کسی کا گھر اجاڑدیتے ہیں۔ حکام بالا کو اس اہم معاملے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭ بارش کے خوبصورت موسم اور اللہ کی اس نعمت سے لطف اندوز ہونے والوں کو شہر کراچی میں اس وقت بڑی اذیت ہوتی ہے جب بارش کا پانی کئی کئی دن سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے جس کی اہم وجہ نکاسی آب کا انتہائی بوسیدہ اور تباہ حال نظام ہے۔ درد مند دل رکھنے والے بار بار ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے رہے ہیں اور کربھی رہے ہیں کہ شہر میں فراہمی آب کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کا بھی نظام بھی صحیح کیا جائے لیکن شاید ابھی عوام کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ نہیں پارہی۔
درج بالا کچھ چیزوں کی نشاندہی کا مقصد شہریوں کے لیے آواز اٹھانا ، اُن کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والوں کو کچھ چیزوں کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ جو کام ہورہے ہیں وہ مزید اچھے طریقے اور زیادی تیزرفتاری سے ہوسکیں جن کا فائدہ عوام کو پہنچے۔ باران رحمت کا مزہ اُس وقت صحیح معنوں میں لیا جاسکتا ہے جب شہری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بجلی کے بوسیدہ تاروں، کرنٹ مارتے کھمبوں اور سیوریج کے بوسیدہ نظام کی پریشانیوں سے محفوظ ہیں۔ ایسا ممکن ہے لیکن ایسا کب ہوگا اس کا ہر ایک کو انتظار ہے۔