کے۔ الیکٹرک کا ناکارہ نظام
بارش تو بارش یہاں کا نظام ِ بجلی توسردیوں میں ہونے والے کہرے یا بہار کی شبنم کی نمی سے ہی ڈانوا ڈول ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں رواں ماہ کے دوران اس سال کی مون سون بارشوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔سمندرکے ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر ملک بھر میں گرج چمک کے ساتھ تیز بارشوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
پوٹھو ہار سے صحرائے تھر جہاں اِن بارشوں سے کھِل اُٹھے ہیں ،وہیں ملک کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں نہ ہونے والی یہ بارشیں تکلیف و پریشانیوں کا باعث بن گئی ہیں ۔ نہ تو یہاں کوئی طوفانی بارشیں ہوئی ہیں، بلکہ یہاں تو ابھی ہلکی پھلکی پُھوار ہی شروع ہوئی ہے ، جوبھی ایک دوبار ہی ہوئی ہے ۔ سوائے ایک آدھ علاقے کے پورے شہر میں گذشتہ ہفتے ہونے والی بارش صرف پُھوار تک ہی محدود رہی جب کہ سب سے زیادہ بارش نارتھ ناظم آباد میں محض 1.2ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر یہاں یہ بارشیں عوام کے لیے وبال ِ جاں کیسے بن گئیں ؟ تو اُس کی وجہ ہلکی سی پُھوار شروع ہوتے ہی شہر بھر میں بجلی کا چلے جانا ہے ۔ دنیا بھر میں مون سون کی بارشوں کا انتظار ہوتا ہے تاکہ لوگ اُن سے لطف اندوز ہوسکیں لیکن ایک ہم ہی بدنصیب ہیں کہ ہمارے نشریاتی اداروں سے بارش جیسی نعمت کی خوشخبری سنائی جانے کے بجائے یہاں پر بجلی کے شارٹ سرکٹ ہونے ، فیڈرز ٹرپ کرجانے ، ٹرانسفارمرز کے دھماکوں اور ٹرانسمیشن لائین و سپلائی کی تاریں گرنے کی خبریں ہی نشر ہوتی رہتی ہیں ۔
عوام نہ صرف یہ خبریں وصول کرتے ہیں بلکہ اُن تمام خرابیوں کو بھگتتے بھی ہیں۔ جس کی وجہ کے الیکٹرک کا فرسودہ و نارکاہ نظام اور محکمے کی نااہلی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے علاوہ ساری دنیا میں کہیں دوسری جگہ بارشوں کے دوران بجلی نہیں جاتی یا ایسی فنی خرابیاںنہیں ہوتیں لیکن باقی ملکوں میں ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے ۔
ترقی یافتہ و ترقی کے زینے تیزی سے عبور کرتے ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، اب یہ صرف تیسری دنیا کے ممالک کا ہی مسئلہ رہ گیا ہے ، ورنہ باقی تمام دنیا اپنے نظام ِ بجلی کو اپ گریڈ کرکے ان مسائل سے نجات حاصل کرچکی ہے۔ جب کہ تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص پاکستان میں آج بھی 1960-70کے عشروں والی ٹیکنالوجی رائج ہے ۔
دنیا میں 400ملی میٹر سے زائد چمک دمک کے ساتھ ہونے والی بارشوں کے دوران بھی بجلی کی ترسیل منقطع نہیں ہوتی جب کہ ہمارے یہاں چند بوندوں کے ساتھ ہی سیکڑوں کی تعداد میں فیڈرز ٹرپ ہوجاتے ہیں ، جیساکہ حالیہ پُھوار کے دوران ناکارہ فنی نظام ِ بجلی کے باعث کے اِی کے 100فیڈر ٹرپ کرگئے اور اہلیان ِ کراچی کو3دن تک بھگتنا پڑا ۔
بارش تو بارش یہاں کا نظام ِ بجلی توسردیوں میں ہونے والے کہرے یا بہار کی شبنم کی نمی سے ہی ڈانوا ڈول ہوجاتا ہے اور تو اور تھوڑی ہوا تیز ہونے سے بھی یہاں ہائی ٹرانسمیشن لائنیں گرجاتی ہیں ۔ اُس کے باوجود بجلی سپلائی کرنیوالے اداروں کا دعویٰ'' عوام کی خدمت کے لیے کوشاں'' رہنا ہی بتایا جاتا ہے ۔
ملک بھر میں نظام ِ بجلی کی ناکامی کا سبب سرکاری بدعنوانیاں بتاکر بجلی سپلائی کا نجی نظام لانے کی باتیں کرکے معاملے کو اور رنگ دینے والے ذرا یہ بھی تو بتائیں کہ کراچی میں بجلی کا نظام گذشتہ 30-25سال سے نجی ادارے کے پاس ہونے اور مختلف اوقات میں 3مختلف عالمی سطح کی کمپنیوں کو انتظام دینے کے باوجود کیوں ناکام ہے ؟
ہمارے ملک کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور جیسے شہر ایشیا میں کوالا لمپور ، سنگاپور، جکارتا ، ہانگ کانگ اور بنکاک ہیں ، لیکن ماضی قریب میں وہاں کبھی دوران ِ بارش بجلی جانے یا بریک ڈاؤن سے متعلق کبھی نہیں سنا۔ پھر یورپ کے کچھ ملکوں جیسے ہالینڈ ، بیلجم ، شمالی فرانس ، ڈنمارک ، آئرلینڈ وغیرہ میں تو تقریباً پورا سال ہی وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہتی ہے ،جب کہ شمال جنوبی ایشیا کے ملکوں میں بھی موسلا دھار بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں بھی ہمیں فیڈر ٹرپنگ کی صورتحال نظر نہیں آتی ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فطرتی نہیں بلکہ ہماری الیکٹریکل انجینئرنگ کا معیار اس کا ذمے دار ہے ۔
بجلی انسانی تاریخ کی وہ ایجاد ہے جوکہ باقی تمام ایجادوں کی معاون کہلاتی ہے کیونکہ انسانی زندگی کی سہولیات کے لیے ایجاد ہونے والی تمام اشیاء اسی بجلی پر چلتی ہیں ۔ اس لیے بجلی اس وقت انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں آج سے 50سال قبل اسے مسلسل رواں رکھنے کا مستقل بندوبست کرلیا گیا تھا ۔ جس کے لیے ایسے آلات ، سوئچ ، کنڈکٹر ، کنیکٹر ، کٹ آؤٹ ، جوائنٹر ، ٹرانسفارمر اور تاریں وغیرہ ایجاد کرکے اپڈیٹ کرلی گئیں جوکہ بارش میں بھی بجلی کی روانی کو یقینی بنائے رکھتے ہیں ۔
اب تو یہ آلات و ٹیکنالوجی دنیا بھر میں آسانی سے دستیاب اور زیر استعمال بھی ہے لیکن آج بھی کچھ ایسے ممالک ہیں جو لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات بالخصوص بارش کے دوران بجلی کے بریک ڈاؤن جیسے مسائل سے دوچار ہیں ، اور بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی ایسے ممالک میں شامل ہے ۔ حالانکہ ہم ایٹمی قوت و ٹیکنالوجی رکھتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہائیڈل و تھرمل بجلی گھروں کے ساتھ ساتھ بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ بھی ہیں ۔ دنیا کی بڑی ونڈ کوریڈور ہے ، جس میں سے جھمپیر ونڈ پاور شروع بھی ہوچکا ہے ، اور تو اور دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک فیلڈ ''تھر کول فیلڈ'' بھی ہمارے پاس ہے ، اور اُس میں سے بھی بجلی کی پیداوار کا آغاز ہوچکا ہے۔
ہمارے پاس سال کے بارہ مہینے سورج اپنی آب و تاب سے موجود ہوتا ہے ، جس سے ہم سولر پینل کے ذریعے بے بہا توانائی حاصل کرسکتے ہیںاور عوام انفرادی طور پر حاصل کربھی رہے ہیں ۔ یعنی ہم دنیا میں موجود جدید ٹیکنالوجیز کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لارہے ہیں ۔ لیکن آج بھی ہمارے لوگ مہنگے ترین نرخوں پر بجلی خریدنے کے باوجود 8سے 16گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو جھیلتے ہیں ، پھر آئے دن بجلی کا بریک ڈاؤن ہوجاتا ہے ، جب کہ آج بھی تھوڑی برسات ہونے پر بھی سیکڑوں کی تعداد میں فیڈرز ٹرپ کرجاتے ہیں اور بجلی منقطع ہوجاتی ہے۔
ہائی ٹرانسمیشن لائین و سپلائی تاریں گرنے اور اُن سے انسانوں اور جانوروں کے مرنے کے واقعات عام ہیں ۔ ٹرانسفارمرز اُڑجانا معمول بن چکا ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا جہاں کی جدید ٹیکنالوجی کو یہاں صرف پاور جنریشن یعنی بجلی پیداوار حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب کہ بجلی کنزیومنگ یعنی صرف و سپلائی یعنی عوام کو فراہمی کے شعبے کو اب تک 50سالہ پرانے نظام پر چلایا جارہا ہے ۔ جس وجہ سے متواتر بریک ڈاؤن اور فیڈرز کی ٹرپنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔
ایسی بھیانک صورتحال میں بھی حکومت و محکمہ بجلی کی انتظامیہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنزیومنگ و سپلائی کے شعبے کو ابھی تک پرانے اور فرسودہ نظام پر ہی کیوں آپریٹ کیا جارہا ہے ؟ اس کی کوئی تُک نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ عوام کی سہولت انتظامیہ کی ترجیح نہیں ہے ۔
یہاں کے ۔الیکٹرک کا شکایتی سیل بھی دنیا کا سُست ترین و ٹوپیاں گھمانے میں مہارت رکھنے والے شعبے کے طور پر شہرت رکھتا ہے ۔ ایک تو Manual شکایت کا نظام یہاں ختم ہوکر رہ گیا ہے، پھر جہاں ہے وہاں کوئی داد رسی نہیں ہوتی ، جب کہ جدت کے نام پر شکایتی نظام کو آن لائین و ہیلپ لائین کے تحت کردیا گیا ہے ۔ آن لائن پر بھیجے جانے والے اِی میل ، ایس ایم ایس وغیرہ کا تو ریکارڈ کیا ہوا یا کمپیوٹر جنریٹیڈ جواب موصول ہوتا ہے کہ ''آپ کی شکایت درج کرلی گئی ہے اور اُس پر عمل کیا جارہا ہے '' وغیرہ وغیرہ ، جوکہ کبھی نہیں ہوتا ۔ جب کہ ہیلپ لائین کا تو معاملہ ہی نرالہ ہے ۔
دنیا کے دستور کے برعکس یہ ہیلپ لائین مفت نہیں بلکہ مہنگے ترین کال ریٹ پر دستیاب ہوتی ہے اور پھر کال ملنے پر پہلے ایک لمبا چوڑا ریکارڈ شدہ پیغام چلتا رہے ، اُس کے بعد آپریٹر کو کال منتقلی پر پتا چلتا ہے کہ لائین مصروف ہے اور مسلسل آپ کو میوزک سنائی جاتی رہے گی ۔ یوں آپ کے موبائیل کا بل بڑھتا رہے گا اور مزے کی بات آخر میں یا تو آپ کا بیلنس ختم، یا آپ اکتا کر خود ہی کال کاٹ دیں گے۔
باربار ناکامی کی اس صورتحال سے متعلق کبھی کسی فورم پر ادارے کی شکایت کی جائے تو شکایتی لائینوں کے زیادہ مصروف رہنے کی وجہ بتاکر کمپنی کی جانب سے شکایات کے ازالے کا قوم پر احسان جتایا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ بات تو بچے بھی سمجھتے ہیں کہ شکایتی لائنیں مسلسل مصروف رہنا یعنی شکایات کے انبار ہونا ہے جوکہ خود نظام کی ناکامی کا اعتراف ہے ، لیکن ادارے اور حکومت پھر بھی اپنے اس نظام پر ''نازاں '' ہیں ۔!
ملک میں نیپرا ایکٹ کے تحت ملک میں کچھ حصوں میں بجلی کی سپلائی نجی کمپنیوں کے سپرد کی گئی ۔ اُن میں سے اہم کراچی کا KESCتھا ۔ 2014-15میںجب کے ای ایس سی کو کے الیکٹرک بننے کے بعد دنیا میں محفوظ ترین بجلی کے آلات و ٹیکنالوجی کے حامل ملک چین کے سپرد کیا گیا تو اُمید کی جارہی تھی کہ وہ اپنی جدید ٹیکنالوجی و محفوظ ترین آلات سے یہاں کے نظام کوفنی طور پر کارآمد بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گالیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ یہ ادارے کی منتقلی محض نام اور کمپنی کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہوا ۔
یہاں کیا سرکاری انتظام اور کیا نجی کمپنیوں کا نظام ِ سپلائی ، دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ، جواداراتی طبقے کی جانب سے عوام سے سکہ اُچھال کر کھیلا جانے والا ''چاند یا چھاپ'' کھیل ہے ۔ جس میں چاند اورچھاپ دونوں ہی اُن کے حق میں ہیں ۔
کے اِی کے کراچی میں 1500کے قریب فیڈرز ہیں ، جن میں سے بارشوں کے دوران اکثر 90سے 400کے درمیان ٹرپ ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ حالیہ پُھوار کے دوران 100فیڈرز ٹرپ ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ جس کی عام وجہ ہمارے فرسودہ بجلی کے کھمبوں میں لگے ہوئے پرانے اور کھلے ہوئے جمپرز ، کنڈکٹرز اور پینلز اور لگی ہوئی پرانی و ننگی کمزور تاریں اور اُن کے کمزور جوڑ ہیں جو تیز ہوا اور پانی لگنے سے اسپارک کرتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں اور فیڈرز کی ٹرپنگ کا باعث بنتے ہیں ۔ جب کہ دنیا بھر میںسیرامک سے بنے انسولیٹرزاور جمپرز و کنڈکٹرز اوپرسے ڈھکے ہوتے ہیںاور تاروں و جوڑوں کوجنکشنز میں کلپ پنچ کے ذریعے بند رکھا جاتا ہے ۔
موجودہ صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے من میں اندیشے اُبھرتے ہیں کہ یہ توصرف پُھوار و ہلکی پھلکی برسات تھی ، جوکہ رِن آف کچھ میں موجود ہوا کے کم دباؤ کے تحت ہوئی ہیں لیکن رواں ماہ یا پھر شاید رواں ہفتے ہی خلیج بنگال میں بننے والے ہوا کے انتہائی کم دباؤ کے تحت تیز بارشیں ہونے کا امکان ہے تو پھر ایسی صورتحال میں کیا ہوگا؟
اس لیے ملک کے کرتا دھرتا اور محکمہ پانی و بجلی کی انتظامیہ کو اس مسئلے کے حل کے لیے دور ِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ملک میں بجلی کی سپلائی کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی بالخصوص چین کے تیار کردہ آلات سے لیس کرکے مضبوط و محفوظ بنانا چاہیے تاکہ عوام نہ صرف عام رواجی زندگی میں لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈاؤن سے بچ سکیں بلکہ آیندہ بارش جیسی خدا کی انمول نعمت سے پناہ مانگنے کے بجائے اُس سے مستفیض و مسرور ہوسکیں ۔