’’تنقیدی آئینے‘‘ ایک جائزہ

ان کے قلم کی گرفت میں جو تخلیق کار اور ان کی تخلیقی کام آئے ہیں تو ان حضرات کے علم و ادب کا زمانہ معترف ہے۔

nasim.anjum27@gmail.com

شاعر علی شاعر ادبی منظر نامے کا ایک نمایاں نام ہے۔ وہ تخلیقی امور پر سال ہا سال سے مصروف عمل ہیں، وہ بیک وقت ادب کی مختلف جہتوں پر کام کر رہے ہیں، شاعری، افسانے، ناول نگاری اس کے علاوہ ایک پرچے کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں، ''رنگ ادب'' کے عنوان سے باقاعدگی سے جریدہ نکالتے ہیں، کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بھی ان کا نمایاں نام ہے۔

ان کے معروف اشاعتی ادارے ''رنگ ادب پبلی کیشنز'' کراچی سے ہر خاص و عام کی کتب بڑے سلیقے اور اہتمام کے ساتھ شایع ہوتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ انھوں نے لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کیا ہے، دیانت داری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اردو بازار کے وسط میں جھنڈا نصب کرلیا ہے۔ ان کے اس انداز سے قلم کار کی جیب پر برے اثرات مرتب نہیں ہوتے اور اتنا بوجھ نہیں پڑھتا ہے کہ اس کی کمر جھک جائے، یہی وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے ان کی عزت میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ اعتبار کی فضا میں اپنی کتابیں شایع کراتے ہیں۔

تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے، جب ان کی کتاب ''تنقیدی آئینے'' منظر عام پر آئی ہے، اس کتاب کی اشاعت سے قبل بھی وہ شعر و ادب پر بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں، گویا لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ایک بات اور کہتی چلوں کہ شاعر علی شاعر آج کل ایک مقامی اخبار کے ادبی صفحے کے انچارج کے طور پر کام کر رہے ہیں، یہ بات حیران کن ہے کہ وہ اتنا وقت کس طرح نکال لیتے ہیں کہ تمام کام بھی ہوجائیں اور گھریلو ذمے داریوں کو بھی نبھاتے رہیں۔ ماشا اللہ بڑی بات ہے اور اللہ کرے یہ بڑی بات یوں ہی قائم رہے۔

''تنقیدی آئینے'' یہ کتاب 23 مضامین اور 5 انٹرویوز پر مشتمل ہے اور ہر تحریر محنت اور خلوص دل سے لکھی گئی ہے، ان کے قلم کی گرفت میں جو تخلیق کار اور ان کی تخلیقی کام آئے ہیں تو ان حضرات کے علم و ادب کا زمانہ معترف ہے اور اپنے اپنے وقت میں ان کا طوطی بولتا رہا ہے، ان میں سے چند آج بھی شہرت و کمال کی بلندیوں پر کھڑے نظر آتے ہیں، جن میں حمایت علی شاعر، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، انور شعور اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے نام گرامی نمایاں ہیں۔ شاعر علی شاعر نے بہ عنوان ''ایک قدآور ادبی شخصیت۔۔۔۔حمایت علی شاعر'' کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا ہے:

حمایت علی شاعر نے اپنے تخلیقی سفر کی بنیاد تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات اور ذاتی خیالات پر رکھی ہے، ہجرت کا کرب بھی ان کی تخلیقات شعری میں جا بہ جا نظر آتا ہے، انھوں نے جو کچھ بھی لکھا، بلاشبہ اسے ہم ''امکانات کی شاعری'' کہہ سکتے ہیں، وہ ایک جدید شاعر ہی نہیں بلکہ سچے اور پورے قد کے شاعر ہیں۔ منظوم خودنوشت کو ان کی اضافی خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

مصنف نے حمایت علی شاعر کے ادبی و شعری امور کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے گھرانے کا تعارف کرایا ہے، اور اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ حمایت علی شاعر نے 1961 سے 1975 تک مختلف فلموں کے نغمات و مکالمات لکھے، ان کے ادبی و شعری فن پاروں نے ناقدین و قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس طرح ان پر مختلف رسائل میں گوشے نکالے گئے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں طلبا کو تفویض کی گئیں اور ان پر تحقیقی کام ہندوستان اور پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں کیا گیا۔

اس طرح رقم طراز ہیں کہ ایسی ادبی شخصیات بہت کم ہیں جنھوں نے شاعری اور نثر نگاری ایک ساتھ کی، ایسے ہی اہل قلم میں سب سے معتبر اور سنجیدہ نام پروفیسر سحر انصاری کا ہے۔ آج وہ جدید شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری پاکستان کے نمایندہ شاعر اور جدید نقاد کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ بے شک ان کا تخلیق کردہ ہر شعر اور ہر لفظ اپنے اندر ایک معنویت اور دل کشی رکھتا ہے۔ شاعر علی شاعر کے اشعار کا انتخاب ان کے مضمون کی زینت بن گیا ہے۔ غزلیات سے چند اشعار:

وہ پاس آئے تو موضوعِ گفتگو نہ ملے

وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے ہے

٭

ہمیں اندازہ رہتا ہے ہمیشہ دوست دشمن کا


نشانی یاد رکھتے ہیں' نشانہ بھول جاتے ہیں

ڈاکٹر معین الدین عقیل کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ ماہر تعلیم، مترجم اور تاریخ داں ہیں۔ مصنف نے ان کی علمیت اور لیاقت پر بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

ان کی علمی استعداد اور تعلیمی قابلیت کی بنا پر انھیں ایک صاحب نظر دانش ور اور اسکالر تسلیم کیا گیا ہے اور اسی حوالے سے انھوں نے متعدد ممالک کے سفر کیے، تصنیف و تالیف کی مد میں اردو اور انگریزی زبانوں میں 70 کتابیں تصنیف و تالیف اور ترتیب دیں اور 400 کے قریب تحقیقی مقالات و مضامین تحریر کیے جو تحقیقی مجلوں اور کتابوں میں شایع ہوئے۔ مختلف یونی ورسٹیوں سے ان پر ایم اے اور ایم فل کیا گیا۔ بے شک وہ ایک جیّد عالم اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے اپنی شناخت علیحدہ رکھتے ہیں۔

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں

جو سوچتا بھی نہی' خواب دیکھتا بھی نہیں

سرِ آغاز ہر شب' ایک نیا غم گھیر لیتا ہے

جو خود بھی جاگتا ہے' اور مجھے سونے نہیں دیتا

اس قدر خوب صورت اور معانی آفرینی سے پُر شاعری کوئی بڑا شاعر ہی کرسکتا ہے اور سامعین ذی وقار اس باکمال شاعر، دانش ور اور نابغۂ روزگار ہستی سے بھلا کون واقف نہیں ہے؟ ان کے اشعار ان کی شناخت بن چکے ہیں، جی ہاں میں بات ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی کر رہی ہوں جو ادبی محفلوں کی شان سمجھے جاتے ہیں، مصنف نے ان کے بارے میں کہا ہے:

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی شاعری کی تشریح و تفسیر کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے۔ ان کی غزل کا ہر شعر ایک مکمل فلسفہ لیے ہوئے ہے، اس عہد کے وہ نمایندہ شاعر ہیں۔

بالکل درست فرمایا ہے مصنف نے، ان کے علمی و ادبی کاموں پر جس قدر لکھا جائے کم ہے۔

شاعر علی شاعر ایک محقق اور نقاد کے اعتبار سے اس کتاب کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے مکمل معلومات کے بعد قلم اٹھایا ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ میں خلوصِ دل کے ساتھ انھیں مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
Load Next Story