اسے تو لوگ کھا جائیں گے

ہمارے ملک میں اگر کوئی درخت ہماری برد سے بچ بھی گئے ہیں تو وہ وہی ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی۔

Shireenhaider65@hotmail.com

'' یہ سب، گھر سے باہر... آپ کو یقین ہے کہ یہ سارے پودے آپ گھر سے باہر ہی لگوانا چاہتی ہیں؟'' اس نے حیرت سے مجھے دیکھا، '' پہلے بھی اتنی ساری سبزی آپ نے ساتھ والے خالی پلاٹ میں لگوائی ہے ، اسے تو ارد گرد کام کرنے والے مستری مزدور ہی توڑ کر لے جایا کریں گے!! ''

'' مجھے معلوم ہے کہ ایسا ہی ہو گا، اسی لیے تو میں یہ سب اپنے گھر سے باہر لگوا رہی ہوں ! '' میرے کہنے پر اس کا منہ کھل گیا۔

'' آپ اتنے پیسے بیجوں ، پنیریوں اور کھادوں پر لگا رہی ہیں، اس لیے کہ آپ کے گھر سے باہر لگی ہوئی سبزی کو کوئی اور کھا جائے ، ان درختوں کا پھل آپ اور آپ کے بچے نہیں بلکہ راہ چلتے لوگ کھا جائیں ؟ ''

'' ایسا ہی ہے حق نواز!! '' میں نے اپنے مالی سے کہا۔

'' ایسا کون کرتا ہے باجی؟ '' اس نے بد دلی سے کہا۔

'' ایسا کوئی کرے یانہ کرے، میں کر رہی ہوں ، آپ کریں اور میں چاہتی ہوں کہ ایسا کر کے ہم مثال قائم کریں تا کہ دوسرے اس کی تقلید کریں ! '' میںنے اسے رسان سے سمجھایا، '' اور ایسا بھی نہیں کہ اس سے پہلے ایسا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ ہمیں جگہ جگہ سایہ دار اور پھل دار درخت نظر آتے ہیں جن کا والی وارث کوئی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے پھل اور سائے پر کوئی ٹیکس یا کرایہ ہوتا ہے! ''

مجھے یاد آیا کہ ہماری لین کی پچھلی لین میں، ایک خالی پلاٹ کے ساتھ، برلب سڑک کچنار کا ایک بہت ہی گھنا اور پھل سے بھرا ہوا درخت تھا۔ چند سال پہلے عید قربان کی سہ پہر کو، میں اپنے ابا جی کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئی وہاں سے گزری تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ کتنا زیادہ اور خوبصورت کلیوں سے بھرا ہوا کچنار کا درخت ہے۔ اس کی کلیاں ہی کھائی جاتی ہیں، چند دن میں یہ کھل جائیں گی تو ضایع ہوجائیں گی، اپنے ملازم کو بھیج کر اس سے یہ کلیاں منگواؤ اور انھیں پکاؤ۔

میں نے گھر آکر جب بتایا کہ میں ملازم کو اس کام کے لیے بھجوانے لگی ہوں، پوچھا کہ کسی کو کچنار گوشت بناناآتا ہے ۔ کوئی اپنی مہارت تو کیا بتاتا، سب نے سختی سے منع کر دیا کہ یوں سڑک کے کنارے یوں لاوارث درخت بھلا کون لگاتا ہے، ممکن ہے کہ کوئی جنگلی پودا ہو اور اس کا پھل زہریلا ہو۔ یعنی کوئی قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ کام کی کوئی چیز یوں لاوارث ہو سکتی ہے۔ کوئی اس بات پر بھی یقین نہیں کر رہا تھا کہ قدرت بھی تو اس کی آبیاری کر سکتی ہے۔اس پر بھی دلیل تھی کہ اگر اتنا ہی کلیوں سے بھرا ہوا درخت ہے تو اب تک اسے اس لین کے مکینوں نے اجاڑ کیوں نہیں دیا۔

'' میں نے تو لوگوں کو اپنے پھل دار درختوں کی ٹہنیوں کو بڑھ کر، اپنے گھر سے باہر سڑک کی طرف یا اپنے پڑوسیوں کے آنگن کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر انھیں کٹواتے ہوئے ہی دیکھا ہے کہ اس کا پھل کہیں راہ چلتے یا پڑوسی نہ کھا لیں '' مالی نے بتایا۔


میں نے خود اس بات پر لوگوں کو مارتے پیٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ انھوں نے ان کے گھر میںلگے ہوئے درخت سے ، اپنے گھر کے باہرلٹکنے والی ٹہنیوں سے کسی کو چوری پھل توڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ ہمارے مزاج مختلف ہیں، ہم خوراک کو گل سڑ جانے یا باسی ہو جانے پر کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں مگر اسے ٹھیک حالت میںکسی جاندار کے کام نہیں آنے دیتے۔ دکاندار گرمی کی شدت میں اپنی دکان پر رکھا ہوا پھل گلتے سڑتے دیکھتے اور ضایع ہوتے دیکھتے رہتے ہیں مگر اس کا نرخ کم کر کے کسی غریب کو نہیں دیتے ۔

ہم ہر کام سے پہلے اس کا فائدہ دیکھتے ہیں، ہمارے حق میں کیا اچھا ہے، وہ اہم ہے، اس سے دوسروں کو کیا نقصان پہنچتا ہے، اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کسی دوسرے کے کام ہماری لگائی ہوئی سبزی آجائے، کوئی ہمارے لگائے ہوئے درخت سے پھل کھا لے تو ہمیں اس کا اجر تو ملے گا نا۔ اس پھل یا سبزی کے لگانے میں ہمارا کیا کمال ہے، ہم تو صرف بیج لگاتے ہیں، ہماری محنت کا پھل تو اللہ ہی دیتا ہے نا۔ صرف اسے طاقت ہے کہ وہ پھل پھول اگاتا ہے اور ہم اسے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جہاں درختوں کی اہمیت کو سمجھا نہیں گیا اور نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں جنگلات کی کمی خطرے کی حد کو چھو رہی ہے۔ ہم نے کنکریٹ کے جنگل تو کھڑے کر لیے ہیں مگر ہریالی کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ ہمارے ملک میں اگر کوئی درخت ہماری برد سے بچ بھی گئے ہیں تو وہ وہی ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی۔

جنگلات وہی قائم ہیں جن کی آبیاری قدرت خود کرتی ہے اور انسانی مہارت اور محنت کا ان میں کم ہی کمال ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں کم از کم دس درخت لگائے، اپنی آیندہ نسل کو ہم اس سے بہتر کیا تحفہ دے سکتے ہیں کہ اس ملک کے آبی وسائل کی قدرکریں اور انھیں ضایع نہ کریں اور درخت لگائیں کہ یہ صدقہء جاریہ بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔

ہم لوگ مختلف طرح سے صدقات اور زکوۃ دیتے ہیں اور اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ میں دیں تو اللہ اور بھی نوازتا ہے ، کیا صدقہ اور خیرات صرف پیسے ، کپڑوں اور گوشت کا ہو سکتا ہے؟ کیا اس کے علاوہ کوئی اور صورت ہم سوچتے ہیں۔ہم لوگوں کے لیے راہ میں سایے کے لیے درخت لگا دیں۔ کہیں ایسی جگہ سبزی لگا دیں جہاں سے کوئی بھی ضرورت مند توڑ کر اسے کھا لے، پھل دار درخت لگائیں اور اس کا پھل پرندوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی مفت میں کھا سکیں کہ جنھیں خرید کر پھل کھانے کی سکت نہیں، تو کیا یہ سارے اعمال اللہ کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہوں گے؟ نیکی کا کوئی بھی عمل، بالخصوص نیکی کی نیت کر کے اور دوسروں کی فلاح کی خاطر کیا جائے تو اس کا اجر بے حساب اور بے شمار ہے۔

اپنے نصیب کے رزق میں سے اگرہم کسی کو دے دیں، اسے کھانے میں کسی اور کو شامل کر لیں، اللہ کے دیے کو اپنے ہاتھوں سے، اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے دوسروں میں تقسیم کریں تو وہ کون سا ہمارا ادھار رکھنے والا ہے،اس نے تو ہمیں کئی گنا زیادہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ کسی جگہ پر پرندوں کے پینے کے لیے پانی بھر کر رکھ دیں، گھر کے روٹیوں کے بچے ہوئے ٹکڑے توڑ کر نرم کر کے پرندوں کو ڈال دیں تو وہ بے زبان مخلوق بھی ہمیں دعائیں دے گی۔

بینک، اسپتال، ویگن یا بس کا اڈا، پاسپورٹ کا دفتر، نادرا کا دفتر، کچہریاں ، ائیر پورٹ، سڑکوں کے کنارے ، ریلوے اسٹیشن یا ایسی ہی کوئی اور جگہ ... جہاںآپ کو لگے کہ لوگوں کو طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور کوئی سایہ ہے نہ بیٹھنے کی جگہ تو وہاں انتظا رکرنے والوں کے لیے سہولت کردیں۔ پانی کا کولر لگوا دیں یا ایک ٹونٹی، کوئی سنگی بنچ بنوا دیں یا پلاسٹک کی کرسیاں ہی رکھوا دیں ۔ سایہ دار اور پھلدار درخت لگوا دیں تا کہ وہاں چند سالوں میں سایہ ہوجائے ، تب تک کوئی چھتری بنوا دیں ۔ غرض کوئی ایسا چھوٹا سا عمل کردیں کہ جس کا اجر بہت بڑا ہو۔

اپنے ان نیک اعمال میں اپنے دنیا سے چلے جانے والے اور اپنے پاس موجود بزرگوں کے ناموں سے منسوب کردیں تا کہ آپ کے ساتھ ساتھ ان کو بھی ثواب میں حصہ ملے اور اس سے آپ کے بچے بھی سیکھیں کہ آپ کے بعد انھوں نے بھی آپ کے نام کو اسی طرح زندہ رکھنا ہے۔ دنیا میں صرف بیماریاں ہی چھوتی نہیں ہیں ... نیکی کے کام بھی اسی طرح پھیلتے ہیں۔ صرف برائی کو دیکھ کر ہی ہمارے بچے متاثرنہیں ہوتے اور غلط باتیں سیکھتے ، اگر ہم چاہیں تو وہ ہمیں اچھے اعمال کرتے ہوئے دیکھ کر بھی سیکھ سکتے ہیں اور ہماری تقلید کر سکتے ہیں ۔

بچوں کے لیے ان کے سب سے پہلے آئیڈیل ان کے ماں باپ ہوتے ہیں، وہ ہم سے اپنی زندگیوں کے ابتدائی سالوں میں تو بہت کچھ سیکھتے اور اسے عمر بھر ساتھ لے کر چلتے ہی ہیں ، مگر جب وہ جوان ہو جاتے ہیں تو بھی وہ ہم سے سیکھتے رہتے ہیں۔ان کے سامنے ہمیشہ اچھائی کا عملی نمونہ بنیں تا کہ اچھائی کے یہ جراثیم ان کی جین میں ہوں اور ہمارے بعد بھی نسل در نسل چلتے رہیں۔ انشا اللہ!!
Load Next Story