25 جولائی 2018 سے 25 جولائی2019 تک
صرف سول وملٹری تعلقات میں توازن کا طلبگار ہے ، اگر یہ توازن بگڑا تو یہ ملک کے مفاد میں کسی طرح بھی بہتر نہ ہوگا۔
میاں صاحب جب 2013 کے انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے تو ایک سال کے اندر ہی ان کا ڈی چوک پر اس وقت کی دوسری بڑی مقبول پارٹی اور پارلیمنٹ کی تیسری بڑی پارٹی سے سامنا ہوا۔ چار مہینے یہ دھرنا چلتا رہا ، بلآخر 16دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے یہ دھرنا لپیٹ دیا۔ ہوا کچھ بھی نہیں، اسلیے کہ پارلیمنٹ کی دوسری بڑی پارٹی میاں صاحب کے خلاف دھرنے کا حصہ نہیں بنی۔
خان صاحب کے ساتھ طاہر القادری اور ان کی جماعت اس دھرنے میں اکھٹی تھی اور پھر آہستہ آہستہ دوبارہ میاں صاحب اپنی حکومت کی رٹ کو مضبوط کرتے گئے پھر نیوز لیکس کا واقعہ پیش آیا،اس سے پہلے پاناما سامنے آیا اور پھر جے آئی ٹی بنی، نیب آیا وغیرہ وغیرہ۔اسی روانی میںان کی پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرگئی۔ عاصمہ جہانگیرکہتی تھیں کہ میاں صاحب کو پرویز مشرف پرکیس چلانا ہی نہیں تھا۔کمزور جمہوریتیں ایسے کاموں میں نہیں الجھا کرتیں ۔
آج پھر اسی دوراہے پر عمران خان صاحب کھڑے ہیں۔ ایک سال ابھی گزرا نہیں اور تمام اہم بڑی پارٹیوں نے اتحاد بنالیا اور مظاہرہ بھی کردیا۔ دو بڑی پارٹیوں کے لیڈر صاحبان احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں اور پابند سلاسل ہیں۔ ملک کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ایک جمود سا طاری ہے اور یہ جمود بہت دیر تک چلا تو ایک اور بحران ہماری دہلیزکو دستک دے گا۔ جلد بازیوں اور جذباتی باتوں سے معیشت بہتر نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں۔
اس رواں سال اور خان صاحب کی ایک سالہ حکومت کی دو بڑی خبریں سامنے آئیں۔ ایک تو وہ بلآخر آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ، یہ اور بات ہے کہ جو شرائط آئی ایم ایف نے سامنے رکھیں وہ کسی کڑوی گولی کو نگلنے سے کم نہ تھیں۔ دوسرا یہ کہ جو ہمارے امریکا سے تعلقات آخری نہج تک پہنچ گئے تھے ، خان صاحب کی امریکا یاترا سے وہ بہت حد تک نہ صرف استوار ہوئے ہیں بلکہ اور بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم جو اکیلے پن کا شکار تھے اس سے ہم نکلتے نظر آرہے ہیں۔
2007 میں امریکا کی وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے بینظیرکا جنرل مشرف سے reconciliation کروایا تھا۔ جمہوریت واپس لوٹ آئی مگر بینظیر کو اس کی قیمت اپنی جان کا نذرانہ دے کر ادا کرنی پڑی۔کیری لوگر بل آیا امریکا نے اپنی امداد کو جمہوریت سے مشروط کردیا اور پھر امریکا کو یہیں سے اسامہ بن لادن مل گئے۔ یہ انکشاف خود عمران خان نے اب ظاہر کیا ۔ اسامہ توگیا مگر افغانستان وہیں کا وہیں، وہی امریکی فوجیں اور وہی طالبان۔ ہندوستان بھی افغانستان میں داخل ہوگیا مگر طالبان کو شکست نہ ہوئی اسلیے کے وہ وہاں کے پشتونوں کی indigenous جدوجہد تھی، یہ اور بات ہے کہ اس پر بہت سے اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ہماری مجبوری تھی، ہم ہندوستان کی مداخلت افغانستان میں برداشت نہیں کرسکتے تھے اسلیے کہ وہ ان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کریگا اور اس نے کیا بھی۔
ان ہی زمانوں میں جب ہمارے تعلقات امریکا سے سرد پڑگئے تھے۔ ایک اور طرح کی سرد جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔اس سرد جنگ کا محور تھا تجارت۔ چین بازی مارچکا تھا۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن کے ابھرا۔اس کے بیرونی زر مبادلے کے ذخائر دنیا میں سب سے زیادہ تھے اور یہ تھی وہ طاقت جس کے بل بوتے پر ''ون بیلٹ ون روڈ''کے نام سے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا پروجیکٹ متعارف کروایا گیا اور چین اس کے لیے دنیا کے ممالک کو قرضے فراہم کرتا گیا۔ جب ٹرمپ آیا تو اس نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا نوٹس لیا اور اس طرح دنیا کی شرح نموکو دھچکا لگا۔ سب نے باہر سے منگوائی ہوئی اشیاء یعنی امپورٹس پر ڈیوٹی بڑھا دی۔
ہماری خارجہ پالیسی کا توازن بگڑگیا جوکہ فطری عمل بھی تھا اس لیے کہ امراء کا ہندوستان کی طرف کھچائو بہت زیادہ تھا اور ہمارے پاس بھی دنیا کے مذہبی انتہا پرست آسانی سے پناہ لے سکتے تھے۔ ہمیں بھی اربوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا اس جنگ کے بعد اس کے نتائج بھگتنے پڑے جو ہم نے امریکا کے ساتھ مل کر سوویت یونین اور پھر انتہا پرستوں کے خلاف لڑی۔ ہم بحیثیت ریاست ایک ایسے زمانے میں ظہور پذیر ہوئے جب دوسری جنگ عظیم اختتام کو پہنچی اور سرد جنگ نے اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں ہمیشہ اس سرد جنگ کے سینٹرل اسٹیج پر لے آتی ہے۔ اب ایک اور معرکہ ہمارے پڑوس میں دوبارہ سر ہونے کو ہے ، وہ ہے ایران۔ دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی تضاد کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ہماری ریاست آدھی ماڈرن اور آدھی کلاسک ہے۔ یہاں آمریتیں اس طرح بھی نہ رہیں اور نہ رہ سکتیں ہیں جس طرح مصر و مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں رہتی آئی ہیں مگر یہاں بدنصیبی سے جمہوریتیں بھی اس طرح سے نہیں رہیں جس طرح ہندوستان، برازیل اور انڈونیشیا وغیرہ میں رہیں اور رہنے لگی ہیں۔ اور اب بنگلہ دیش کو بھی ان ممالک کی صف میں ضرور شامل کرنا ہوگا۔ ہماری جمہوریت سول و ملٹری توازن کے ساتھ رہی ہے۔ جس کو ہم ظاہراً Quasi Democracy بھی کہہ سکتے ہیں۔
ا س دفعہ کی جمہوریت کا جھکائو اسٹیبلشمنٹ کی طرف حد سے زیادہ ہے۔اس طرح بھی نہیں کہ ایک آمر ہے اس کا کوئی ظفر اللہ جمالی جیسا وزیراعظم ہے اور اس طرح بھی نہیں کہ ایک وزیر اعظم ہے اور اس کا صدر چوہدری فضل الٰہی ہے۔ امریکا کا دورہ خان صاحب کی ڈپلومیسی کا کمال نہیں ہے، یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے۔ ہمارے خان صاحب یوں کہیے کہ ان کے رحم وکرم پر ہیں ۔ ''جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا''۔ والا ماجرا ہے۔
مگر یہ ریاست اس طرح نہیں چل سکتی ۔ اس ریاست کو ان پیمانوں پر پورا اترنا ہوگا جوکہ ایک ماڈرن ریاست کے لیے اس دنیا میں اور ریاست کی سائنس میں مانے ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارا آئین اور اس کی حکمرانی ہو، ادارے مضبوط ہوں، فیڈریشن مضبوط ہو۔ انسانی حقوق اور تمام اقلیتیں آزادی کے ساتھ سانس لے سکتی ہوں، مذہبی اور انسانی رواداری ہو۔ انسانی وسیلوں کی ترقی پر سرمایہ کاری ہو اور ساتھ ساتھ کرپشن جیسی لعنت پرکنٹرول ہو۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ ہماری جمہوریتیں وہ درجہ حاصل نہ کرسکیں جو انکوکرنا چاہیے تھا، بری حکمرانی، اقرباء پروری اور کرپشن کی درخشاں مثال ہیں، یہ ہماری جمہوریتیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان جمہوریتیوں کو پروان چڑھنے کے لیے بحیثیت سماج وہ انفرا اسٹکچرمیسر نہیں ۔ ہندوستان کی طرز جمہوریت میں اس طرح جاگیرداریاںا ور دیہی مافیا نہیں ہیں جس طرح یہاں پاکستان میں۔اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ 1971 کا سانحہ خود کلاس کیئر ٹیکر کے حوالے سے مڈل کلاس کی جدوجہد تھی جو اس ملک کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئی۔
بحیثیت سماج ہمارا دیہی سندھ ، سائوتھ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا ، یوں کہیے آدھا ملک الیکٹیبلز کی سیاست کے بھنور میں پھنسا ہے جب کہ سینٹرل پنجاب اس وقت اتنا ہی شورش زدہ ہے جس طرح کل ایسٹ پاکستان تھا اس لیے کہ سینٹرل پنجاب کے اندر جمہوریت کے وہ اجزا موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج مریم نواز وہاں سے بطور ایک مضبوط سیاستدان اس طرح ابھر رہی ہیں جس طرح کل بینظیر بھٹو تھیں۔ سندھ میں بھٹوز کے ساتھ والہانہ محبت کے اور محرکات تھے جو اب آہستہ آہستہ بکھرکر رہ گئے ہیں اور اسی لیے بلاول بھٹو ملک کے سیاسی افق پر لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں لیکن اس تیزی سے نہیں جس تیزی سے مریم نواز۔
اور یہ بات ہمارے ملک کے اہم اقتداری حلقوں کو سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں اب بھی جمہوری جدوجہد ایک حیثیت رکھتی ہے ، مگر خرابی تب نکلتی ہے جب یہ اقتدار میں آتے ہیں اور سمجھوتہ بازی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ الیکٹبلز کی سیاست ان کی مجبوری ہوتی ہے اس کا دیرینہ حل ہے یہ ہے کہ ہمارے دیہی اقدار میں اس طرح تبدیلی آئے جس طرح سینٹرل پنجاب کے اندر آئی ہے ۔ ایک بھرپور مڈل کلاس وجود میں آئے اور جس کے لیے طریقہ پیداوار کا زراعت سے بدل کر صنعتی ہونا لازمی ہے۔
پاکستان یقینا 25 جولائی 2018 کے بعد 25 جولائی 2019 تک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا ہے۔ ملک صرف سول وملٹری تعلقات میں توازن کا طلبگار ہے ، اگر یہ توازن بگڑا تو یہ ملک کے مفاد میں کسی طرح بھی بہتر نہ ہوگا۔ ہم جانتے ہیں اس ملک کے اندر ظاہری آمریتی اور باطنی ادوار دونوں میں بہت برا ہوا ہے۔ یہ ملک ایک ذمے دار ریاست بن کے ابھرے، یہی آج کا تقاضا ہے اور ہمیں یہ مقصد حاصل کرنا ہے۔
خان صاحب کے ساتھ طاہر القادری اور ان کی جماعت اس دھرنے میں اکھٹی تھی اور پھر آہستہ آہستہ دوبارہ میاں صاحب اپنی حکومت کی رٹ کو مضبوط کرتے گئے پھر نیوز لیکس کا واقعہ پیش آیا،اس سے پہلے پاناما سامنے آیا اور پھر جے آئی ٹی بنی، نیب آیا وغیرہ وغیرہ۔اسی روانی میںان کی پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرگئی۔ عاصمہ جہانگیرکہتی تھیں کہ میاں صاحب کو پرویز مشرف پرکیس چلانا ہی نہیں تھا۔کمزور جمہوریتیں ایسے کاموں میں نہیں الجھا کرتیں ۔
آج پھر اسی دوراہے پر عمران خان صاحب کھڑے ہیں۔ ایک سال ابھی گزرا نہیں اور تمام اہم بڑی پارٹیوں نے اتحاد بنالیا اور مظاہرہ بھی کردیا۔ دو بڑی پارٹیوں کے لیڈر صاحبان احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں اور پابند سلاسل ہیں۔ ملک کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ایک جمود سا طاری ہے اور یہ جمود بہت دیر تک چلا تو ایک اور بحران ہماری دہلیزکو دستک دے گا۔ جلد بازیوں اور جذباتی باتوں سے معیشت بہتر نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی قوموں کی تقدیریں بدلا کرتی ہیں۔
اس رواں سال اور خان صاحب کی ایک سالہ حکومت کی دو بڑی خبریں سامنے آئیں۔ ایک تو وہ بلآخر آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ، یہ اور بات ہے کہ جو شرائط آئی ایم ایف نے سامنے رکھیں وہ کسی کڑوی گولی کو نگلنے سے کم نہ تھیں۔ دوسرا یہ کہ جو ہمارے امریکا سے تعلقات آخری نہج تک پہنچ گئے تھے ، خان صاحب کی امریکا یاترا سے وہ بہت حد تک نہ صرف استوار ہوئے ہیں بلکہ اور بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم جو اکیلے پن کا شکار تھے اس سے ہم نکلتے نظر آرہے ہیں۔
2007 میں امریکا کی وزیر خارجہ کونڈلیزا رائس نے بینظیرکا جنرل مشرف سے reconciliation کروایا تھا۔ جمہوریت واپس لوٹ آئی مگر بینظیر کو اس کی قیمت اپنی جان کا نذرانہ دے کر ادا کرنی پڑی۔کیری لوگر بل آیا امریکا نے اپنی امداد کو جمہوریت سے مشروط کردیا اور پھر امریکا کو یہیں سے اسامہ بن لادن مل گئے۔ یہ انکشاف خود عمران خان نے اب ظاہر کیا ۔ اسامہ توگیا مگر افغانستان وہیں کا وہیں، وہی امریکی فوجیں اور وہی طالبان۔ ہندوستان بھی افغانستان میں داخل ہوگیا مگر طالبان کو شکست نہ ہوئی اسلیے کے وہ وہاں کے پشتونوں کی indigenous جدوجہد تھی، یہ اور بات ہے کہ اس پر بہت سے اعتراضات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ہماری مجبوری تھی، ہم ہندوستان کی مداخلت افغانستان میں برداشت نہیں کرسکتے تھے اسلیے کہ وہ ان کی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کریگا اور اس نے کیا بھی۔
ان ہی زمانوں میں جب ہمارے تعلقات امریکا سے سرد پڑگئے تھے۔ ایک اور طرح کی سرد جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔اس سرد جنگ کا محور تھا تجارت۔ چین بازی مارچکا تھا۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن کے ابھرا۔اس کے بیرونی زر مبادلے کے ذخائر دنیا میں سب سے زیادہ تھے اور یہ تھی وہ طاقت جس کے بل بوتے پر ''ون بیلٹ ون روڈ''کے نام سے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا پروجیکٹ متعارف کروایا گیا اور چین اس کے لیے دنیا کے ممالک کو قرضے فراہم کرتا گیا۔ جب ٹرمپ آیا تو اس نے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا نوٹس لیا اور اس طرح دنیا کی شرح نموکو دھچکا لگا۔ سب نے باہر سے منگوائی ہوئی اشیاء یعنی امپورٹس پر ڈیوٹی بڑھا دی۔
ہماری خارجہ پالیسی کا توازن بگڑگیا جوکہ فطری عمل بھی تھا اس لیے کہ امراء کا ہندوستان کی طرف کھچائو بہت زیادہ تھا اور ہمارے پاس بھی دنیا کے مذہبی انتہا پرست آسانی سے پناہ لے سکتے تھے۔ ہمیں بھی اربوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا اس جنگ کے بعد اس کے نتائج بھگتنے پڑے جو ہم نے امریکا کے ساتھ مل کر سوویت یونین اور پھر انتہا پرستوں کے خلاف لڑی۔ ہم بحیثیت ریاست ایک ایسے زمانے میں ظہور پذیر ہوئے جب دوسری جنگ عظیم اختتام کو پہنچی اور سرد جنگ نے اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہماری جغرافیائی حیثیت ہمیں ہمیشہ اس سرد جنگ کے سینٹرل اسٹیج پر لے آتی ہے۔ اب ایک اور معرکہ ہمارے پڑوس میں دوبارہ سر ہونے کو ہے ، وہ ہے ایران۔ دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی تضاد کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ہماری ریاست آدھی ماڈرن اور آدھی کلاسک ہے۔ یہاں آمریتیں اس طرح بھی نہ رہیں اور نہ رہ سکتیں ہیں جس طرح مصر و مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں رہتی آئی ہیں مگر یہاں بدنصیبی سے جمہوریتیں بھی اس طرح سے نہیں رہیں جس طرح ہندوستان، برازیل اور انڈونیشیا وغیرہ میں رہیں اور رہنے لگی ہیں۔ اور اب بنگلہ دیش کو بھی ان ممالک کی صف میں ضرور شامل کرنا ہوگا۔ ہماری جمہوریت سول و ملٹری توازن کے ساتھ رہی ہے۔ جس کو ہم ظاہراً Quasi Democracy بھی کہہ سکتے ہیں۔
ا س دفعہ کی جمہوریت کا جھکائو اسٹیبلشمنٹ کی طرف حد سے زیادہ ہے۔اس طرح بھی نہیں کہ ایک آمر ہے اس کا کوئی ظفر اللہ جمالی جیسا وزیراعظم ہے اور اس طرح بھی نہیں کہ ایک وزیر اعظم ہے اور اس کا صدر چوہدری فضل الٰہی ہے۔ امریکا کا دورہ خان صاحب کی ڈپلومیسی کا کمال نہیں ہے، یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کمال ہے۔ ہمارے خان صاحب یوں کہیے کہ ان کے رحم وکرم پر ہیں ۔ ''جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا''۔ والا ماجرا ہے۔
مگر یہ ریاست اس طرح نہیں چل سکتی ۔ اس ریاست کو ان پیمانوں پر پورا اترنا ہوگا جوکہ ایک ماڈرن ریاست کے لیے اس دنیا میں اور ریاست کی سائنس میں مانے ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارا آئین اور اس کی حکمرانی ہو، ادارے مضبوط ہوں، فیڈریشن مضبوط ہو۔ انسانی حقوق اور تمام اقلیتیں آزادی کے ساتھ سانس لے سکتی ہوں، مذہبی اور انسانی رواداری ہو۔ انسانی وسیلوں کی ترقی پر سرمایہ کاری ہو اور ساتھ ساتھ کرپشن جیسی لعنت پرکنٹرول ہو۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ ہماری جمہوریتیں وہ درجہ حاصل نہ کرسکیں جو انکوکرنا چاہیے تھا، بری حکمرانی، اقرباء پروری اور کرپشن کی درخشاں مثال ہیں، یہ ہماری جمہوریتیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان جمہوریتیوں کو پروان چڑھنے کے لیے بحیثیت سماج وہ انفرا اسٹکچرمیسر نہیں ۔ ہندوستان کی طرز جمہوریت میں اس طرح جاگیرداریاںا ور دیہی مافیا نہیں ہیں جس طرح یہاں پاکستان میں۔اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ 1971 کا سانحہ خود کلاس کیئر ٹیکر کے حوالے سے مڈل کلاس کی جدوجہد تھی جو اس ملک کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئی۔
بحیثیت سماج ہمارا دیہی سندھ ، سائوتھ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا ، یوں کہیے آدھا ملک الیکٹیبلز کی سیاست کے بھنور میں پھنسا ہے جب کہ سینٹرل پنجاب اس وقت اتنا ہی شورش زدہ ہے جس طرح کل ایسٹ پاکستان تھا اس لیے کہ سینٹرل پنجاب کے اندر جمہوریت کے وہ اجزا موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج مریم نواز وہاں سے بطور ایک مضبوط سیاستدان اس طرح ابھر رہی ہیں جس طرح کل بینظیر بھٹو تھیں۔ سندھ میں بھٹوز کے ساتھ والہانہ محبت کے اور محرکات تھے جو اب آہستہ آہستہ بکھرکر رہ گئے ہیں اور اسی لیے بلاول بھٹو ملک کے سیاسی افق پر لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں لیکن اس تیزی سے نہیں جس تیزی سے مریم نواز۔
اور یہ بات ہمارے ملک کے اہم اقتداری حلقوں کو سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں اب بھی جمہوری جدوجہد ایک حیثیت رکھتی ہے ، مگر خرابی تب نکلتی ہے جب یہ اقتدار میں آتے ہیں اور سمجھوتہ بازی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ الیکٹبلز کی سیاست ان کی مجبوری ہوتی ہے اس کا دیرینہ حل ہے یہ ہے کہ ہمارے دیہی اقدار میں اس طرح تبدیلی آئے جس طرح سینٹرل پنجاب کے اندر آئی ہے ۔ ایک بھرپور مڈل کلاس وجود میں آئے اور جس کے لیے طریقہ پیداوار کا زراعت سے بدل کر صنعتی ہونا لازمی ہے۔
پاکستان یقینا 25 جولائی 2018 کے بعد 25 جولائی 2019 تک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا ہے۔ ملک صرف سول وملٹری تعلقات میں توازن کا طلبگار ہے ، اگر یہ توازن بگڑا تو یہ ملک کے مفاد میں کسی طرح بھی بہتر نہ ہوگا۔ ہم جانتے ہیں اس ملک کے اندر ظاہری آمریتی اور باطنی ادوار دونوں میں بہت برا ہوا ہے۔ یہ ملک ایک ذمے دار ریاست بن کے ابھرے، یہی آج کا تقاضا ہے اور ہمیں یہ مقصد حاصل کرنا ہے۔