کاروبار سیاست
حقیقی دینی شخصیات بلاشبہ قابل قدر و تقلید لوگ ہیں لیکن بہت سوں نے اسے کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے۔
ویسے تو قدرت کے حسین نظاروں کے لحاظ سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایک سے بڑھ کر ایک منظر دل و نظر کو اپنی گرفت میں لے کر پھر دستبردار ہونے پر مائل نہیں ہوتا، لیکن خدا کی بستی اتنی وسیع و عریض ہے کہ ہر جگہ اور متنوع حسن کے ایک دوسرے سے مختلف فضائوں میں، زمین پر، پانیوں میں، دن کے اجالے اور راتوں میں سورج کی روشنی اور چاند ستاروں کی جگمگاہٹ میں خدا کی مخلوق کے لیے اس قدر تحائف ہیں کہ ان کا ذکر کرنے لگیں تو اس کی نعمتوں کا شمار ہی ناممکن ہے۔
امریکا کے شہر اٹلانٹا میں جبران کے گھر سے ساٹھ میل جانب شمال Lanier Islands نامی تین جزیرے ہیں جن کے الگ الگ نام Blue Ridge Island، Pine Island، Legacy Island ہیں۔ ایک چوتھا لیکن بہت چھوٹا Georgia جزیرہ ہے۔ وہاں Legacy Lodge میں ایک دن کے لیے کمرہ بک کروایا جس کا کرایہ 50314 روپے تھا۔ روانگی ہوئی تو ایک گھنٹے کے بعد ہم جزیروں کی حدود میں داخل ہو گئے۔
جزیرے ہمارے دائیں بائیں شروع ہو گئے، رستہ کہیں اترائی کہیں چڑھائی، کسی جگہ بل کھاتا، جگہ جگہ رہنمائی کے نشان، کہیں سبزہ کہیں چٹان کسی جگہ آبادی کہیں میدان، کہیں جزیرے اور کہیں جنگل، تمام رستہ آتی جاتی تیز رفتار ڈسپلن سے چلتی ٹریفک کی پابند گاڑیاں جن کی نہ Lane کی خلاف ورزی نہ غلط اوورٹیکنگ نہ ہارن کی آواز، نہ ہی بریکیں لگنے کی سکریچنگ جب کہ کسی جگہ ٹریفک پولیس بھی نہ تھی۔
ان جزیروں کی ڈویلپمنٹ کا کام 1984میں SAM OLIVER نامی اٹارنی کے سپرد ہوا جو 2011 تک دلجمی سے اس کے مختلف پراجیکٹس کو مکمل کرتا رہا۔ اس کی تصویر والا کتبہ برلب سڑک نصب ہے۔ جس مہارت اور خوبصورتی سے اس نے ان جزائر پر تعمیراتی اور ڈیزائن کا کام اپنے انتقال کے دن تک مکمل کیا وہ اس کے نظاروں میں دیکھا جا سکتا ہے اسی لیے SAM کی تصویر اور اس کی محنت و مہارت کو پتھروں سے نقش کر کے ایک چوک میں محفوظ کر کے یادگار کی شکل دے دی گئی ہے۔
میرا ایک دن کا قیام جزیروں کے بہترین ہوٹل Legacy Lodges میں تھا جس کی چار منزلیں تھیں اور کمروں کا پچھلا دروازہ جزیروں کی طرف کھلتا تھا۔ کمرہ لیتے ہی ہم جزیرے کے کنارے جا بیٹھے۔ جہاں سے تینوں جزیرے اور ان کا سنگھم دیکھا جا سکتا تھا۔ سامنے مسافروں کی کرایہ پر لی ہوئی کشتیاں فراٹے بھرتی ہوئی آ جا رہی تھیں۔ ہمیں ہوٹل کے منیجر نے دو گھنٹے کی سیر کے لیے بوٹ منگوا دینے کی آفر دی۔ کرایہ پوچھا تو وہ پچاس ہزار روپے کے قریب تھا۔ ہم بیسیوں بار استنبول میں سمندر کی سیر کر چکے تھے اس لیے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔
جزیروں کی بتیاں روشن ہوئیں تو ہم Live موسیقی والی جگہ پہنچے۔ وہاں جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ ہوٹل کے لائونج میں اور کمروں میں آتے جاتے لوگ جنھیں کمرہ لیتے وقت دیکھا تھا، سب وہاں ریستوران اور جزیرے کے اردگرد، نہاتے، تیرتے، موسیقی سنتے اور جزیرے کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے، قہقہے لگاتے، کھا پی رہے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں ان کی روشنی پانی پر پڑ کر سارے علاقے کو سحر زدہ بنا رہی تھی جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔
روشنوں سے جگمگاتی چھوٹی اور بڑی آہستہ اور برق رفتار Boots مسافروں کو لے کر گھوم رہی تھیں۔ وہاں گورے اور ان سے زیادہ سیاہ فام بچے بوڑھے اور جوان قسم قسم کے لباس پہنے خواتین زندگی اور ماحول کا لطف اٹھارہے تھے۔ ہم جیسے اجنبیوں کے لیے وہ شام کوہ قاف کا منظر پیش کر رہی تھی جس کا نظارہ زندگی میں پہلی بار کیا اور شاید آخری بار ہو۔ رات گئے ریستوران میں آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد کھانے کی ٹیبل ملی۔ فش چپس اور جھینگوں نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔ ہم تو چند روز کے بعد اپنی حبس زدہ لیکن محبوب فضائوں کی طرف لوٹ جائیں گے لیکن جبران کی تو وہاں Coke کے ہیڈ آفس میں پوسٹنگ ہے۔
اگلے دن ہم جلدی جلدی لنچ کر کے پاکستان کا ٹی وی چینل لگا کر TV کے سامنے جا بیٹھے۔ خبر تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر آئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان واشنگٹن کے ایک بڑے ہال کیپٹل ون ایرینا میں امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں سے خطاب کرینگے۔ جلسہ گاہ کا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ وزیراعظم کی تقریر ولولہ انگیز تھی جس کا جواب پر جوش نعروں سے آتا رہا۔
ادھر پاکستان میں اکٹھی ہوئیں حکومت مخالف پارٹیاں ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کی تیاریوں میں مصروف تھیں، ان کا نعرہ تھا کہ حکومت نالائق اور نااہل ہے جس نے ملک کو قرضوں اور گرانی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے جب کہ عمران کا جواب تھا کہ سابق حکمرانوں نے ملک کو کرپشن، بدعنوانی کے ذریعے مقروض کر چھوڑا ہے۔
بہ الفاظ دیگر سابق اور موجودہ حکمرانوں کے نزدیک ملک کے تمام حکمران کرپٹ، بدعنوان، نالائق، سلیکٹڈ اور نااہل ٹھہرتے ہیں اور یوں یہ ملک گندگی غلاظت اور بدفطرتوں کا گہوارہ کہلایا جا سکتا ہے جب کہ اس کے عوام ملک کے نااہل ترین حکمرانوں کو اقتدار میں لانے کی بنا پر دنیا کی نالائق ترین مخلوق کہی جا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ میں نے گزشتہ دو ماہ امریکا کے تین شہروں ہیوسٹن، اٹلانٹا اور ڈیٹرائٹ میں وہاں آباد ہو کر ایک سے بڑھ کر ایک بزنس، ڈاکٹری اور ملازمت کرتے عزت و احترام پاتے پاکستانیوں کو شان و شوکت سے رہتے، دوسروں کے ساتھ Interaction کرتے، ان کے بچوں کو امریکی بچوں سے تعلیم اسپورٹس اور رفاہی کاموں میں سبقت لے جاتے اور برابری کی سطح پر ملتے جلتے دیکھا ہے اور لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ تم لوگوں کو مذہبی ٹھیکیداروں اور سیاسی کاروباریوں نے ماحول اور زندگی کو مطعفن کر رکھا ہے۔
ان کے تجزیے میں کتنا سچ ہے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ میں نے 35 سال سرکاری ملازمت کے دوران PTI سے پہلی تمام سیاسی پارٹیوں ہی کو نہیں سیاستدانوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ حقیقی دینی شخصیات بلاشبہ قابل قدر و تقلید لوگ ہیں لیکن بہت سوں نے اسے کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے اور ہمارے ملک میں سیاست نوّے فیصد منافع بخش کاروبار ہے۔
امریکا کے شہر اٹلانٹا میں جبران کے گھر سے ساٹھ میل جانب شمال Lanier Islands نامی تین جزیرے ہیں جن کے الگ الگ نام Blue Ridge Island، Pine Island، Legacy Island ہیں۔ ایک چوتھا لیکن بہت چھوٹا Georgia جزیرہ ہے۔ وہاں Legacy Lodge میں ایک دن کے لیے کمرہ بک کروایا جس کا کرایہ 50314 روپے تھا۔ روانگی ہوئی تو ایک گھنٹے کے بعد ہم جزیروں کی حدود میں داخل ہو گئے۔
جزیرے ہمارے دائیں بائیں شروع ہو گئے، رستہ کہیں اترائی کہیں چڑھائی، کسی جگہ بل کھاتا، جگہ جگہ رہنمائی کے نشان، کہیں سبزہ کہیں چٹان کسی جگہ آبادی کہیں میدان، کہیں جزیرے اور کہیں جنگل، تمام رستہ آتی جاتی تیز رفتار ڈسپلن سے چلتی ٹریفک کی پابند گاڑیاں جن کی نہ Lane کی خلاف ورزی نہ غلط اوورٹیکنگ نہ ہارن کی آواز، نہ ہی بریکیں لگنے کی سکریچنگ جب کہ کسی جگہ ٹریفک پولیس بھی نہ تھی۔
ان جزیروں کی ڈویلپمنٹ کا کام 1984میں SAM OLIVER نامی اٹارنی کے سپرد ہوا جو 2011 تک دلجمی سے اس کے مختلف پراجیکٹس کو مکمل کرتا رہا۔ اس کی تصویر والا کتبہ برلب سڑک نصب ہے۔ جس مہارت اور خوبصورتی سے اس نے ان جزائر پر تعمیراتی اور ڈیزائن کا کام اپنے انتقال کے دن تک مکمل کیا وہ اس کے نظاروں میں دیکھا جا سکتا ہے اسی لیے SAM کی تصویر اور اس کی محنت و مہارت کو پتھروں سے نقش کر کے ایک چوک میں محفوظ کر کے یادگار کی شکل دے دی گئی ہے۔
میرا ایک دن کا قیام جزیروں کے بہترین ہوٹل Legacy Lodges میں تھا جس کی چار منزلیں تھیں اور کمروں کا پچھلا دروازہ جزیروں کی طرف کھلتا تھا۔ کمرہ لیتے ہی ہم جزیرے کے کنارے جا بیٹھے۔ جہاں سے تینوں جزیرے اور ان کا سنگھم دیکھا جا سکتا تھا۔ سامنے مسافروں کی کرایہ پر لی ہوئی کشتیاں فراٹے بھرتی ہوئی آ جا رہی تھیں۔ ہمیں ہوٹل کے منیجر نے دو گھنٹے کی سیر کے لیے بوٹ منگوا دینے کی آفر دی۔ کرایہ پوچھا تو وہ پچاس ہزار روپے کے قریب تھا۔ ہم بیسیوں بار استنبول میں سمندر کی سیر کر چکے تھے اس لیے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔
جزیروں کی بتیاں روشن ہوئیں تو ہم Live موسیقی والی جگہ پہنچے۔ وہاں جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ ہوٹل کے لائونج میں اور کمروں میں آتے جاتے لوگ جنھیں کمرہ لیتے وقت دیکھا تھا، سب وہاں ریستوران اور جزیرے کے اردگرد، نہاتے، تیرتے، موسیقی سنتے اور جزیرے کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے، قہقہے لگاتے، کھا پی رہے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں ان کی روشنی پانی پر پڑ کر سارے علاقے کو سحر زدہ بنا رہی تھی جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔
روشنوں سے جگمگاتی چھوٹی اور بڑی آہستہ اور برق رفتار Boots مسافروں کو لے کر گھوم رہی تھیں۔ وہاں گورے اور ان سے زیادہ سیاہ فام بچے بوڑھے اور جوان قسم قسم کے لباس پہنے خواتین زندگی اور ماحول کا لطف اٹھارہے تھے۔ ہم جیسے اجنبیوں کے لیے وہ شام کوہ قاف کا منظر پیش کر رہی تھی جس کا نظارہ زندگی میں پہلی بار کیا اور شاید آخری بار ہو۔ رات گئے ریستوران میں آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد کھانے کی ٹیبل ملی۔ فش چپس اور جھینگوں نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔ ہم تو چند روز کے بعد اپنی حبس زدہ لیکن محبوب فضائوں کی طرف لوٹ جائیں گے لیکن جبران کی تو وہاں Coke کے ہیڈ آفس میں پوسٹنگ ہے۔
اگلے دن ہم جلدی جلدی لنچ کر کے پاکستان کا ٹی وی چینل لگا کر TV کے سامنے جا بیٹھے۔ خبر تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر آئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان واشنگٹن کے ایک بڑے ہال کیپٹل ون ایرینا میں امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں سے خطاب کرینگے۔ جلسہ گاہ کا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ وزیراعظم کی تقریر ولولہ انگیز تھی جس کا جواب پر جوش نعروں سے آتا رہا۔
ادھر پاکستان میں اکٹھی ہوئیں حکومت مخالف پارٹیاں ملک بھر میں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کی تیاریوں میں مصروف تھیں، ان کا نعرہ تھا کہ حکومت نالائق اور نااہل ہے جس نے ملک کو قرضوں اور گرانی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے جب کہ عمران کا جواب تھا کہ سابق حکمرانوں نے ملک کو کرپشن، بدعنوانی کے ذریعے مقروض کر چھوڑا ہے۔
بہ الفاظ دیگر سابق اور موجودہ حکمرانوں کے نزدیک ملک کے تمام حکمران کرپٹ، بدعنوان، نالائق، سلیکٹڈ اور نااہل ٹھہرتے ہیں اور یوں یہ ملک گندگی غلاظت اور بدفطرتوں کا گہوارہ کہلایا جا سکتا ہے جب کہ اس کے عوام ملک کے نااہل ترین حکمرانوں کو اقتدار میں لانے کی بنا پر دنیا کی نالائق ترین مخلوق کہی جا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ میں نے گزشتہ دو ماہ امریکا کے تین شہروں ہیوسٹن، اٹلانٹا اور ڈیٹرائٹ میں وہاں آباد ہو کر ایک سے بڑھ کر ایک بزنس، ڈاکٹری اور ملازمت کرتے عزت و احترام پاتے پاکستانیوں کو شان و شوکت سے رہتے، دوسروں کے ساتھ Interaction کرتے، ان کے بچوں کو امریکی بچوں سے تعلیم اسپورٹس اور رفاہی کاموں میں سبقت لے جاتے اور برابری کی سطح پر ملتے جلتے دیکھا ہے اور لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ تم لوگوں کو مذہبی ٹھیکیداروں اور سیاسی کاروباریوں نے ماحول اور زندگی کو مطعفن کر رکھا ہے۔
ان کے تجزیے میں کتنا سچ ہے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ میں نے 35 سال سرکاری ملازمت کے دوران PTI سے پہلی تمام سیاسی پارٹیوں ہی کو نہیں سیاستدانوں کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ حقیقی دینی شخصیات بلاشبہ قابل قدر و تقلید لوگ ہیں لیکن بہت سوں نے اسے کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے اور ہمارے ملک میں سیاست نوّے فیصد منافع بخش کاروبار ہے۔