حکومت کے ادارہ جاتی اصلاحات کے پروگرام میں متعدد خامیاں

اداروں کے آڈٹ کا اقدام بے مصرف ہے، سرکاری اداروں کی نجکاری کیلیے کوئی روڈ میپ نہیں

آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کا جائزہ لینے سے اصلاحاتی پروگرام کی کمزوریاں سامنے آتی ہیں فوٹو:فائل

عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں لفظ SOE ( سرکاری ملکیتی ادارے ) 40 سے زائد بار استعمال ہوا ہے۔


یہ رپورٹ آئی ایم ایف بورڈ کو پاکستان کے توازن ادائیگی میں معاونت کی منظوری کے لیے جمع کرائی گئی تھی۔ رپورٹ میں لفظ SOE کی تکرار سے یہ مطلب بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت ریاستی ملکیتی اداروں میں اصلاحات لانے میں سنجیدہ ہیں۔تاہم رپورٹ میں حکومت کی جانب سے ظاہر کیے گئے عزائم ( کمٹ منٹس ) کا بہ غور جائزہ لینے سے ریاستی اداروں کے اصلاحی ایجنڈے میں متعدد خامیاں سامنے آتی ہیں۔ رپورٹ میں صراحت کردہ کلیدی اقدام میں سرکاری اداروں کو مختلف زمروں ( کیٹیگریز) میں تقسیم کرنا، نئے آڈٹ کے ذریعے شفافیت بڑھانا، کچھ اداروں کی نجکاری اور اداروں کے لیے لیگل فریم ورک کو جدید بنانا شامل ہیں۔ ان اقدام میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ سب سے پہلے آڈٹ کا اقدام بالکل بے مصرف اور صرف باکس کو چیک کرنے کے مترادف ہے۔

پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا آڈٹ باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ اس کی رپورٹس نجکاری کمیشن کے پاس دستیاب ہوں گی۔ نجکاری کا عمل شروع کرنے کی عجلت میں حکومت نے ان کمپنیوں کو فراموش کردیا ہے جنھیں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصل ایشو پاور سیکٹر کی ڈسٹریبیوشن اور پاور جنریشن کمپنیوں، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، کموڈیٹ مارکیٹ آپریشن اور اسٹیل ملز کا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اداروں کی نجکاری یا پبلک پراؤیٹ پارٹنرشپ کے لیے کوئی روڈمیپ نہیں دیا گیا۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں نئے ایس او ای قانون کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ قانون کیوں ضروری ہے۔
Load Next Story