سب ’’بکاؤ مال‘‘ ہے

ووٹ کے تقدس کو قائم رکھنے اور دولت کے پجاریوں کو ایوان سے نکالنے کےلیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیچ پر آنا ہوگا


اپوزیشن جماعتیں سینیٹرز کی ہمدردیاں خریدنے کے خدشات کا اظہار کررہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بے لاگ احتساب کا نعرہ بلند کیا۔ اسی آواز کے بلند ہوتے ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف علم بغاوت بلند ہوگیا۔ جی ہاں! وہی چیئرمین سینیٹ جس کےلیے آصف علی زرداری نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور انہیں منتخب کرایا تھا۔ ان کے انتخاب پر اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے سوالات اٹھائے، لیکن وہ پھر بھی چیئرمین منتخب ہوگئے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد پیش تو کردی گئی ہے مگر اس پر ووٹنگ کےلیے حتمی تاریخ کا انتظار ہے۔

چیئرمین سینیٹ کو بلوچستان سے احساس محرومی ختم کرنے کےلیے منتخب کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال مارچ میں منتخب ہونے کے بعد بلوچستان سے احساس محرومی ختم کرانے میں ان کا کیا کردار رہا؟ یہ علیحدہ سے ایک بحث ہے۔ لیکن شطرنج کے مہروں کو اپنی چالوں کے مطابق چلانے کے ماہر کھلاڑی آصف علی زرداری اب اس کی بساط لپیٹنے کے درپے ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی پیپلز پارٹی نے پہلی مرتبہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کےلیے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ یوں سینیٹ میں اکثریتی جماعت کو اپنا چیئرمین منتخب کرنے سے روک دیا گیا۔ اب قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اکثریت میں ہے، غالب امکان ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بھی اسے اکثریت حاصل ہوجائے، لیکن اس سے قبل ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک لانا جمہور کی طاقت کو سلب کرنے کے مترادف ہوگا۔

سینیٹ کا ایوان 104 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں ن لیگ کے 33، پی پی پی 20، پی ٹی آئی 12، آزاد 17، ایم کیو ایم 5، نیشنل پارٹی 5، جے یو آئی 4، پشتونخوا میپ 3، جماعت اسلامی 2 اور بی این پی مینگل، فنکشنل لیگ اور اے این پی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ امیدواروں کو جیتنے کےلیے 53 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد آتے ہی حکومت نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی قرارداد جمع کرادی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی درخواست جمع کروانے کےلیے اس پر 26 ارکان کے دستخط درکار تھے، جبکہ اپوزیشن کی درخواست پر 44 ارکان کے دستخط ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کےلیے قرارداد پر رائے شماری خفیہ ہوگی۔ موجودہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس 67 اور حکومتی بینچز کے پاس 36 سینیٹرز موجود ہیں۔ خفیہ رائے شماری کے بعد اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو دوبارہ انتخاب بھی خفیہ رائے شماری کے تحت ہی ہوگا۔

سینٹرز کے انتخاب کے مرحلے پر اگر غور کیا جائے تو کئی ممبران اسمبلی کی ہمدردیاں خریدی گئیں۔ مویشی منڈی کی طرح ممبران کی بھی بولی لگائی گئی۔ ایوان زیریں کے ارکان نے ''حسب توفیق'' نذرانہ وصول کرکے کئی امرا کو ایوان بالا کا ممبر بنایا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کےلیے بھی نذرانوں کو اہمیت حاصل رہے گی۔ جس کی نذر جتنی تگڑی ہوگی، اسے اتنا ہی نوازا جائے گا۔ آصف علی زرداری اور ن لیگی قیادت بھی متعدد بار ان نذرانوں پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے بیانات میں سینٹرز کی خرید و فروخت کو جمہوریت کےلیے زہر قاتل قرار دیا۔

مسلم لیگ ن کے 30 سینیٹرز میں سے 17 سینیٹرز اپنے بل بوتے پر سینیٹ میں پہنچے تھے، یہی حال پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کا بھی ہے۔ اگر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری کرائی گئی تو ان سینٹرز کا جھکاؤ کس جانب ہوگا؟ غالب امکان یہی ہے کہ یہی سینیٹرز ہی ہواؤں کا رخ بدلنے کا باعث ہوں گے۔ حکومتی ممبران بھی اپوزیشن اراکین کی حمایت کا دعویٰ کرچکے ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کا ''ضمیر'' بیدار ہوا ہے یا انہیں ''نذرانہ'' دیا گیا ہے۔

پاکستانی سیاست میں دھن اور دولت کا رواج قیام پاکستان سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے متعدد بار اس رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کے ایم پی اے محمد علی نے الزام عائد کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لیڈر ان کے پاس کروڑوں روپے لے کر آئے اور سینیٹ انتخاب کےلیے ووٹ دینے کا مطالبہ کیا، تاہم انہوں نے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ محمد علی کے الزامات پر الیکشن کمیشن نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے کوئی وضاحتی بیان جاری کیا۔

اپوزیشن جماعتیں اس وقت سینیٹرز کی ہمدردیاں خریدنے کے خدشات کا اظہار کررہی ہیں۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ پارلیمان میں پیسے کا رجحان متعارف ہی انہوں نے کرایا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران کا نوٹوں میں تلنے کا خواب جہاں جمہوری روایات کا قتل ہے، وہیں عوامی ووٹ کا تقدس پامال کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک کا نتیجہ جو بھی ہو۔ حکومت بلوچستان کی محرومی کا راگ الاپے گی، جبکہ اپوزیشن دولت، سیاست اور جمہوریت کے قصے لے کر بیٹھ جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی کےلیے اپنی انتخابی مہم کےلیے خرچے کی مقدار مختص کردی ہے، لیکن اس کے باوجود متعدد سیاست دان پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔ ایک سیٹ کےلیے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد جب ایک ممبر اسمبلی میں پہنچتا ہے تو اس کا پہلا مقصد اپنا خرچ کیا گیا روپیہ واپس لانا ہوتا ہے۔ اس کےلیے وہ دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے سے بھرپور منافع حاصل کرتا ہے اور رہی سہی کسر سینیٹ انتخاب میں ''نذرانوں'' کی شکل میں پوری ہوجاتی ہے۔

جمہوریت کی بقا اور آئین کی پاسداری کےلیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اور ادارے ملک میں جاری اس پیسے کے کھیل کو ختم کرنے کےلیے لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ پھر کسی سربراہ کو تبدیل کرنے کےلیے ''خرید وفروخت'' کی نوبت نہ آئے۔ سیاسی جماعتوں کو آج خود اپنا احتساب کرکے ملک سے پیسہ کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا، تاکہ مڈل کلاس اور دیانت دار ممبران ایوان میں پہنچیں۔ تبھی ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی، تبھی غریب کےلیے قانون سازی ہوگی۔

ووٹ کے تقدس کو قائم رکھنے اور دولت کے پجاریوں کو ایوان سے نکالنے کےلیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیچ پر آنا ہوگا۔ اس کےلیے سیاسی شطرنج کے بے تاج بادشاہ آصف علی زرداری کو ابتدا کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں