عرفان صدیقی کے معاملے پر بہت سبکی ہوئی چیف جسٹس آف پاکستان
بڑے بڑے مشکل فیصلے کیے لیکن جو ٹھیک لگا وہ آرڈر دے دیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عرفان صدیقی کی گرفتاری کے معاملے پر آئی جی اسلام آباد سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سارک لا کانفرنس کے انتظامی امور سے متعلق اجلاس کے بعد چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ میں کہا کہ عرفان صدیقی کے معاملے میں بہت سبکی ہوئی تاہم آئی جی اسلام آباد نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کی، اجلاس میں سارک لا کانفرنس کے موقع پر آنے والے مہمانوں کیلئے ویزا کے اجرا، سیکیورٹی، رہائش اور سفر کے حوالے سے امور پر گفتگو ہوئی۔
اجلاس میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس قاضی محمد امین، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی نے بھی شرکت کی، پاکستان میں سارک لا کانفرنس ستمبر میں ہوگی۔
دوسری جانب فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ میں1998 میں جج کا منصب سنبھالا، میرے ساتھ 8ججز تھے، بہت جلد ہمیں جنون گروپ کہا جانے لگا، پہلے دن سے اپنی عدالت میں لگے تمام کیسز کا فیصلہ کر کے اٹھتا ہوں، میری عدالت میں کیسز کارروائی کیلئے نہیں فیصلے کیلئے لگتے ہیں، ہمیں عدالت میں صرف دن نہیں گزارنا چاہئے بلکہ فیصلہ کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کئی بار وکلا کو کہا کہ کیس ملتوی نہیں کرونگا، خدانخواستہ وکیل مر جائے یا جج رحلت فرما جائے تب ہی کیس ملتوی ہو سکتا ہے، جج کا کام دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہے، کیس ملتوی کرنا نہیں، یہی چیز اس کو بقیہ لوگوں سے منفرد کرتی ہے، اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے؟ اللہ نے ہمارے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے، ہمیں کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، انصاف اللہ نے آپ کے وسیلے سے فرمانا ہے، اللہ قرآن میں فرماتا ہے انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا آپ سے محبت کرے تو پھر کس چیز کا ڈر ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں نے بہت سے ایسے کیسز کے فیصلے بھی کیے جب مجھے جان کا خطرہ بھی تھا لیکن اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جو صحیح لگا وہ فیصلہ کر دیا، بہت سے مقدمات میں مذہبی معاملات بھی سامنے آئے لیکن میں نے جو بھی فیصلے کیے مجھے عزت ملی، بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی سے متعلق لکھتے ہیں، ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیس چلانا مناسب عمل نہیں، دلائل سنیں اور فیصلہ کر دیں۔ وکلا، سائلین کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انکے پاس کیس کیلئے مقررہ وقت اتنا ہے، دونوں فریقین کو بلا کر ان سے کیس سے متعلق ایک معیاد مقرر ہوگی، عدالت پارٹی کے پیچھے نہیں بھاگے گی، عدالت فریقین کو اپنا موقف پیش کرنے کیلئے ایک مہلت دیتی ہے، اگر فریقین اس سہولت سے مستفید نہ ہوئے تو وہ گلہ نہیں کرسکیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سارے جوڈیشل سسٹم میں ٹرائل کی بہت فوقیت ہوتی ہے، ایک ہی وکیل ٹرائل کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس لڑتا ہے، وکیل ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں مصروف ہو تو ٹرائل کورٹ کا مقدمہ التوا کا شکار ہو جاتا ہے مگر اب ٹرائل کورٹ میں کیس ہو تو بڑی عدالتوں میں کیس ملتوی کیا جاتا ہے، ہم نے اصولی فیصلہ ٹرائل کورٹ کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر کرنا ہوتا ہے، بعض اوقات بڑے مسائل کا حل چھوٹا ہے، ہم ایسے کیسز پر کمیشن بناتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں، ریاستی کیسز میں مدعی اپنے گواہ لارہا ہے، ہم نے ہر ضلع سے آئی جی کو بلا لیا، ایس پی انویسٹی گیشن کو بھی شامل کیا اور گواہوں کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
ایک چھوٹے سے قدم سے ایس ایچ او تمام گواہان کو پیش کرتا ہے، سپریم کورٹ میں جنوری میں42500 کیس زیر التوا تھے، ان میں اڑھائی ہزار مقدمات کم ہوگئے ہیں، ان میں اور بھی کمی آئے گی، اسلام آباد سیٹ پر اب صرف41، لاہور میں91، پشاور میں5 کرمنل اپیلیں زیر التوا ہیں، کراچی اورکوئٹہ میں کوئی کرمنل اپیل زیرالتوا نہیں ، یہ زیر التوا اپیلیں بھی بہت جلد نمٹا دی جائیں گی، جج محنت سے کام کریں اللہ بہت اجر دے گا، کسی سے گھبرانا یا ڈرنا نہیں، آج ہم نے آفیسرز میس کا بھی افتتاح کیا، اسلام آباد میں ہوٹلز بہت مہنگے ہیں، جو بھی جج اسلام آباد آئے وہ ہوٹل کی بجائے بہت کم پیسوں پر یہاں رہ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سارک لا کانفرنس کے انتظامی امور سے متعلق اجلاس کے بعد چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ میں کہا کہ عرفان صدیقی کے معاملے میں بہت سبکی ہوئی تاہم آئی جی اسلام آباد نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کی، اجلاس میں سارک لا کانفرنس کے موقع پر آنے والے مہمانوں کیلئے ویزا کے اجرا، سیکیورٹی، رہائش اور سفر کے حوالے سے امور پر گفتگو ہوئی۔
اجلاس میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس قاضی محمد امین، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی نے بھی شرکت کی، پاکستان میں سارک لا کانفرنس ستمبر میں ہوگی۔
دوسری جانب فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ میں1998 میں جج کا منصب سنبھالا، میرے ساتھ 8ججز تھے، بہت جلد ہمیں جنون گروپ کہا جانے لگا، پہلے دن سے اپنی عدالت میں لگے تمام کیسز کا فیصلہ کر کے اٹھتا ہوں، میری عدالت میں کیسز کارروائی کیلئے نہیں فیصلے کیلئے لگتے ہیں، ہمیں عدالت میں صرف دن نہیں گزارنا چاہئے بلکہ فیصلہ کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کئی بار وکلا کو کہا کہ کیس ملتوی نہیں کرونگا، خدانخواستہ وکیل مر جائے یا جج رحلت فرما جائے تب ہی کیس ملتوی ہو سکتا ہے، جج کا کام دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہے، کیس ملتوی کرنا نہیں، یہی چیز اس کو بقیہ لوگوں سے منفرد کرتی ہے، اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے؟ اللہ نے ہمارے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے، ہمیں کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، انصاف اللہ نے آپ کے وسیلے سے فرمانا ہے، اللہ قرآن میں فرماتا ہے انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا آپ سے محبت کرے تو پھر کس چیز کا ڈر ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں نے بہت سے ایسے کیسز کے فیصلے بھی کیے جب مجھے جان کا خطرہ بھی تھا لیکن اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جو صحیح لگا وہ فیصلہ کر دیا، بہت سے مقدمات میں مذہبی معاملات بھی سامنے آئے لیکن میں نے جو بھی فیصلے کیے مجھے عزت ملی، بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی سے متعلق لکھتے ہیں، ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیس چلانا مناسب عمل نہیں، دلائل سنیں اور فیصلہ کر دیں۔ وکلا، سائلین کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ انکے پاس کیس کیلئے مقررہ وقت اتنا ہے، دونوں فریقین کو بلا کر ان سے کیس سے متعلق ایک معیاد مقرر ہوگی، عدالت پارٹی کے پیچھے نہیں بھاگے گی، عدالت فریقین کو اپنا موقف پیش کرنے کیلئے ایک مہلت دیتی ہے، اگر فریقین اس سہولت سے مستفید نہ ہوئے تو وہ گلہ نہیں کرسکیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سارے جوڈیشل سسٹم میں ٹرائل کی بہت فوقیت ہوتی ہے، ایک ہی وکیل ٹرائل کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس لڑتا ہے، وکیل ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں مصروف ہو تو ٹرائل کورٹ کا مقدمہ التوا کا شکار ہو جاتا ہے مگر اب ٹرائل کورٹ میں کیس ہو تو بڑی عدالتوں میں کیس ملتوی کیا جاتا ہے، ہم نے اصولی فیصلہ ٹرائل کورٹ کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر کرنا ہوتا ہے، بعض اوقات بڑے مسائل کا حل چھوٹا ہے، ہم ایسے کیسز پر کمیشن بناتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں، ریاستی کیسز میں مدعی اپنے گواہ لارہا ہے، ہم نے ہر ضلع سے آئی جی کو بلا لیا، ایس پی انویسٹی گیشن کو بھی شامل کیا اور گواہوں کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
ایک چھوٹے سے قدم سے ایس ایچ او تمام گواہان کو پیش کرتا ہے، سپریم کورٹ میں جنوری میں42500 کیس زیر التوا تھے، ان میں اڑھائی ہزار مقدمات کم ہوگئے ہیں، ان میں اور بھی کمی آئے گی، اسلام آباد سیٹ پر اب صرف41، لاہور میں91، پشاور میں5 کرمنل اپیلیں زیر التوا ہیں، کراچی اورکوئٹہ میں کوئی کرمنل اپیل زیرالتوا نہیں ، یہ زیر التوا اپیلیں بھی بہت جلد نمٹا دی جائیں گی، جج محنت سے کام کریں اللہ بہت اجر دے گا، کسی سے گھبرانا یا ڈرنا نہیں، آج ہم نے آفیسرز میس کا بھی افتتاح کیا، اسلام آباد میں ہوٹلز بہت مہنگے ہیں، جو بھی جج اسلام آباد آئے وہ ہوٹل کی بجائے بہت کم پیسوں پر یہاں رہ سکتا ہے۔