ہاتھوں پر رکھی ہوئی آنکھیں
فن مصوری اور مجسمہ سازی کے حوالے سے قدیم زمانے میں تقریباً پندرہ تہذیبوں نے اپنے فنون میں مقبولیت حاصل کی
تصور کو متصور کرنیوالا مصور کہلاتا ہے۔ یہ سرگرمی سوچنے میں اتنی خوب صورت ہے، جب تخلیق کے مرحلے طے کرتی ہو گی، تو کس قدر شان دار ہوتی ہو گی۔ ''مصوری'' کا لفظ پڑھتے ہی ذہن میں رنگوں کی جمع تفریق شروع ہو جاتی ہے۔ نقش اُبھرنے لگتے ہیں، خاکے بننے لگتے ہیں۔ جذبات کا اس سے حسین اظہار کیا ہو گا کہ آپ گفتگو میں حروف کا استعمال کیے بغیر سب کہہ دیں اور دوسری طرف سب کچھ داد و تحسین کی خاموش ادا میں سمیٹ لیا جائے۔مصوری ایسا اظہار ہے، جس میں نقوش، خاکے، خیال اور رنگوں کی مدد سے ذہن میں جنم لینے والی شبیہہ کو کینوس پر اتارا جاتاہے۔ تصویر کینوس پر اتر کر تصور کی پرچھائی کو حقیقت کا چہرہ بنا دیتی ہے۔ اپنے احساس کو تخلیق میں ڈھالنا ویسے بھی ایک پُرلطف سرگرمی ہے، جس میں انسان خود اپنے آپ کو ہی بیان کر رہا ہوتا ہے۔
مصوری کی متعدد جہتیں ہیں اور مختلف تہذیبوں کے پس منظر کا تاریخی سفر ہے، جس کے بارے میں جان کر یہ اندازہ ہوتا ہے، کس طرح تخلیق کا یہ سفر ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک ہوتا ہوا عہد ِحاضر کی مصوری تک آن پہنچا۔ مصوری کے جادوئی حسن پر بات کرنے سے پہلے کیوں نا ہم یہ جان لیں، پہلے زمانوں سے لے کر عہد موجود تک اس تخلیقی احساس کو کس تہذیب نے کس طرح اپنایا۔ کس نے اظہار کے راستے پر رنگوں کا چنائو کیا۔فنِ مصوری کے لیے انگریزی زبان میں لفظ ''آرٹ'' استعمال کیا جاتا ہے اور اس فن کی صلاحیت رکھنے والا ''آرٹسٹ'' کہلاتا ہے۔ انسانی آرٹ کے ٹھوس نمونوں کی پہلی دریافت ہزاروں برس پہلے ہوئی تھی۔ اس دور میں مشرق اور مغرب دونوں خطوں میں بسنے والی تہذیبوں نے مصوری، مجسمہ سازی سمیت دیگر فنون میں جمالیاتی قابلیت کا سکہ جمایا اور اپنے فن سے ثقافت کی ترویج کی۔
عالمی مصوری کی تاریخ پانچ بڑے ادوار میں تقسیم ہے، جس میں پہلا دور قبل از مسیح کا ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں قدیم مصوری، مغربی مصوری، مشرقی مصوری اور اسلامی مصوری کے دور شامل ہیں۔ قدیم مصوری کے حوالے سے قبل از مسیح مصوری کے تین دور دکھائی دیتے ہیں، انھیں برسوں کی ترتیب، مصوری اور مجسمہ سازی میں خام مال کے استعمال کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ ان تینوں ادوار میں غاروں اور پہاڑی سلسلوں پر مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کیا، ان کے علاوہ دیگر دھاتوں پر بھی آرٹ کے نمونے تخلیق کیے گئے، وہ نمونے آج بھی موجود ہیں۔ یہ زمانہ ہاتھ سے چیزیں بنانے کا تھا۔ اہرام مصر ہوں یا کوئی پینٹنگ، اس میں انسانی طاقت اور ہاتھ ہی استعمال ہوتے تھے۔ قدیم مصوری کے دور میں کئی طرز کا آرٹ تخلیق ہوا، جس کے ذریعے ثقافت اور تہذیبوں کا بول بالا ہوا۔ فن مصوری اور مجسمہ سازی کے حوالے سے قدیم زمانے میں تقریباً پندرہ تہذیبوں نے اپنے فنون میں مقبولیت حاصل کی، لیکن جن کو بام عروج ملا، ان میں چین، ہندوستان، عراق، ایران، مصر، یونان اور روم کی تہذیبیں شامل تھیں۔
مغربی مصوری، جس میں یورپی ممالک کے آرٹسٹو ں کا کام سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس خطے میں بھی آرٹ کی تخلیق کا زمانہ بہت پیچھے سے شروع ہوتا ہے۔ عہد حاضر تک اس خطے سے ایک سے بڑھ کر ایک آرٹسٹ سامنے آیا، جن کی صلاحیتیں دیکھ کر انگلیاں دانتوں تلے دبے رہ جاتی ہیں۔ یورپ کے آرٹ کی تاریخ ، نو ادوار پر مشتمل ہے، انھیں ہم تحریکوں کے زمانے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان نو ادوار کے ذریعے، اس فن کے چاہنے والوں پر آرٹ کے کئی حیرت انگیز پہلو منکشف ہوئے۔یہ ادوار مندرجہ ذیل ترتیب سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ پہلا دور قرون وسطیٰ کا فنی دور کہلاتا ہے۔ دوسرا دور فنی نشاط ثانیہ تھا۔ تیسرے دور کو آداب پرستی کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ چوتھا دور یورپ کے خاص عہد کا طرزِ تعمیر، جسے سترہویں صدی کے فرانسیسی حکمرانوں سے منسوب کیا گیا۔ پانچویں دور میں نوکلاسیکیت اپنے عروج پر تھی۔ چھٹا دور رومان پرستی کا دور تھا۔ ساتویں دور کو حقیقت پسندی کا نام دیا تھا۔ آٹھواں دور جدید آرٹ کا زمانہ کہلایا اور نویں دور کو عہد ِ حاضر کہا جاتا ہے، جس میں ہم جی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی موٹی تحریکوں نے جنم لیا، مگر بنیادی طور پر یہ نو ادوار ایسے ہیں، جن کے ستونوں پر مغربی آرٹ کی تاریخ کھڑی ہے۔
مشرقی مصوری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اس خطے میں فن مصوری نے مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے اثرات لیے اور فن کی دنیا میں ایسے قدم جمائے کہ مشرقی آرٹ پورے قد و قامت سے مغربی آرٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مشرقی خطے میں جن تہذیبوں نے مصوری پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اپنے جداگانہ فنی اسلوب میں کامیابیاں سمیٹیں۔ مختلف پس منظر رکھنے والی ان تہذیبوں نے ایک دوسرے کے کئی رجحانات کو بھی اپنایا، ان میں چینی، جاپانی، کورین، ہندوستانی، ایرانی اور دیگر تہذیبو ں کے پس منظر والے ملک شامل تھے۔ ان کے علاوہ بحرالکاہل اور نزدیک کے سمندری جزیروں والے ممالک نے بھی اپنے حصے کا فن تخلیق کیا، جس کو مشرقی آرٹ کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔اسلامی آرٹ کے کئی پہلو ہیں، یہاں فن صرف کسی ایک مخصوص میڈیم تک محدود نہیں ہے۔
ان پہلوئوں میں کیلی گرافی، پینٹنگ، ظروف، قالین، عمارتوں اور دیگر اشیا پر بنائے ہوئے مصوری کے فن پارے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام تو ایسا ہے، جس کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے اور اس کا اپنا ایک جداگانہ مقام ہے۔ برصغیر کا مغل دور میں تخلیق کیا گیا کام عالمی سطح پر کسی بڑے فن سے پیچھے نہیں ہے۔ تہذیب کا جمالیاتی رنگ لیے ہوئے اس تہذیب کے آرٹ کی دلدادہ پوری دنیا ہے اور اس مصوری کے ماہر مصوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔آرٹ کے تاریخی سفر میں آرٹ میوزیم کی اہمیت بھی کلیدی ہے۔ مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کینوس پر کیا، جب کہ فن سے محبت کرنیوالوں نے ان آرٹ گھرو ں میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آرٹ میوزیم جیسی جگہ مصوری کے نادر فن پاروں سے سجائی جاتی ہے، تا کہ آرٹ کے مداح وہاں آ کر ان فن پاروں سے روشناس ہو سکیں۔ ان کی رسائی فنی تخلیق تک ممکن ہو، وہ اپنے خیالات کا عکس کینوس پر بکھرے ہوئے رنگوں میں دیکھ سکیں۔
پینٹنگز کی نمائشیں اس فن کے فروغ میں ہمیشہ مددگار رہی ہیں۔آرٹ کے کئی فن پارے مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ بھی بنے۔ کسی فن پارے کو بہت پسند کیا گیا، کسی کے بارے میں شدید ناراضگی کا اظہار ہوا۔ کئی قیمتی فن پارے چوری بھی ہوئے۔ اصلی فن پاروں کی نقول بنا کر مداحین کو دھوکہ بھی دیا گیا اور چاہنے والوں نے ماسٹرز کی اصلی پینٹنگز منہ مانگے دام دے کر خریدیں۔پینٹ بنانیوالے اور انھیں پسند کرنے والے دونوں کی دلی ترجمانی کا عکس ان تصاویر میں جھلکتا ہے۔ آرٹسٹوں کی زندگی میں جھانک کر دیکھا جائے، تو دنیا کے کئی ایک نامور آرٹسٹ ہیں، جنھوں نے تکلیف دہ زندگی گزاری، مگر شہرت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔ اسی طرح کئی پینٹنگز بھی ایسی ہیں، جن کو بے پناہ پسند کیا گیا، ناقدین کی طرف سے تنقید بھی بے شمار ہوئی، مگر شہرت کے دروازے ان پر کھلے رہے۔
آرٹ کی جمالیات، تاریخ اور اقسام کو بیان کرنے کے لیے دنیا میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں، ان میں زیادہ تر مشہور کتابیں انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ فائن آرٹ سے لگائو رکھنے والوں کے لیے اور خاص طور پر اس فن کی تاریخ سے آشنا ہونے کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان مشہور اور معیاری کتابوں میں، اَرنسٹ گومبریچ کی ''اسٹوری آف آرٹ''۔ میریلین اسٹوکسڈ کی ''آرٹ ہسٹری''۔ انتھونی جانسن کی ''ہسٹری آف آرٹ''۔ ہیلن گارڈنر کی ''آرٹ تھرو دی ایجیز''۔ ہگ ہانر اور فلیمنگ کی ''اے ورلڈ ہسٹری آف آرٹ'' شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ہندوستانی خطہ اور تقسیم کے بعد پاکستان کی سر زمین فن مصوری کے حوالے سے زرخیز رہی۔ پاکستان نے فن مصوری کے ہر میڈیم میں شاندار صلاحیتوں کے حامل آرٹسٹ دیے، ان میں سرفہرست عبدالرحمان چغتائی، احمد پرویز، بشیر مرزا، اقبال مہدی، اسماعیل گل جی، جمیل نقش، صادقین، ظہور اخلاق، زبیدہ آغا اور شاکر علی جیسے آرٹسٹ شامل ہیں۔ پاکستانی محکمۂ ڈاک نے دس مصوروں کا انتخاب کر کے ڈاک ٹکٹ بھی چھاپے، اس فہرست میں سے اکثر نام یہی تھے۔ آرٹسٹ مر جائے تو معاشرے کی آنکھیں مر جاتی ہیں۔مصور کے تو آنسو بھی کینوس پر گر کر رنگوں کو امر کرتے ہیں۔ اتنا نفیس کام کرنیوالوں کی زندگیوں کا ایسا خاتمہ، فن کی موت ہے اور احساس کی بھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ دونوں طرح کی اموات بہت تیزی سے ہو رہی ہیں۔ ہاتھوں پر رکھی ہوئی آنکھیں بھی نوچ لی جاتی ہیں۔
مصوری کی متعدد جہتیں ہیں اور مختلف تہذیبوں کے پس منظر کا تاریخی سفر ہے، جس کے بارے میں جان کر یہ اندازہ ہوتا ہے، کس طرح تخلیق کا یہ سفر ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک ہوتا ہوا عہد ِحاضر کی مصوری تک آن پہنچا۔ مصوری کے جادوئی حسن پر بات کرنے سے پہلے کیوں نا ہم یہ جان لیں، پہلے زمانوں سے لے کر عہد موجود تک اس تخلیقی احساس کو کس تہذیب نے کس طرح اپنایا۔ کس نے اظہار کے راستے پر رنگوں کا چنائو کیا۔فنِ مصوری کے لیے انگریزی زبان میں لفظ ''آرٹ'' استعمال کیا جاتا ہے اور اس فن کی صلاحیت رکھنے والا ''آرٹسٹ'' کہلاتا ہے۔ انسانی آرٹ کے ٹھوس نمونوں کی پہلی دریافت ہزاروں برس پہلے ہوئی تھی۔ اس دور میں مشرق اور مغرب دونوں خطوں میں بسنے والی تہذیبوں نے مصوری، مجسمہ سازی سمیت دیگر فنون میں جمالیاتی قابلیت کا سکہ جمایا اور اپنے فن سے ثقافت کی ترویج کی۔
عالمی مصوری کی تاریخ پانچ بڑے ادوار میں تقسیم ہے، جس میں پہلا دور قبل از مسیح کا ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں قدیم مصوری، مغربی مصوری، مشرقی مصوری اور اسلامی مصوری کے دور شامل ہیں۔ قدیم مصوری کے حوالے سے قبل از مسیح مصوری کے تین دور دکھائی دیتے ہیں، انھیں برسوں کی ترتیب، مصوری اور مجسمہ سازی میں خام مال کے استعمال کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔ ان تینوں ادوار میں غاروں اور پہاڑی سلسلوں پر مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کیا، ان کے علاوہ دیگر دھاتوں پر بھی آرٹ کے نمونے تخلیق کیے گئے، وہ نمونے آج بھی موجود ہیں۔ یہ زمانہ ہاتھ سے چیزیں بنانے کا تھا۔ اہرام مصر ہوں یا کوئی پینٹنگ، اس میں انسانی طاقت اور ہاتھ ہی استعمال ہوتے تھے۔ قدیم مصوری کے دور میں کئی طرز کا آرٹ تخلیق ہوا، جس کے ذریعے ثقافت اور تہذیبوں کا بول بالا ہوا۔ فن مصوری اور مجسمہ سازی کے حوالے سے قدیم زمانے میں تقریباً پندرہ تہذیبوں نے اپنے فنون میں مقبولیت حاصل کی، لیکن جن کو بام عروج ملا، ان میں چین، ہندوستان، عراق، ایران، مصر، یونان اور روم کی تہذیبیں شامل تھیں۔
مغربی مصوری، جس میں یورپی ممالک کے آرٹسٹو ں کا کام سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس خطے میں بھی آرٹ کی تخلیق کا زمانہ بہت پیچھے سے شروع ہوتا ہے۔ عہد حاضر تک اس خطے سے ایک سے بڑھ کر ایک آرٹسٹ سامنے آیا، جن کی صلاحیتیں دیکھ کر انگلیاں دانتوں تلے دبے رہ جاتی ہیں۔ یورپ کے آرٹ کی تاریخ ، نو ادوار پر مشتمل ہے، انھیں ہم تحریکوں کے زمانے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان نو ادوار کے ذریعے، اس فن کے چاہنے والوں پر آرٹ کے کئی حیرت انگیز پہلو منکشف ہوئے۔یہ ادوار مندرجہ ذیل ترتیب سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ پہلا دور قرون وسطیٰ کا فنی دور کہلاتا ہے۔ دوسرا دور فنی نشاط ثانیہ تھا۔ تیسرے دور کو آداب پرستی کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ چوتھا دور یورپ کے خاص عہد کا طرزِ تعمیر، جسے سترہویں صدی کے فرانسیسی حکمرانوں سے منسوب کیا گیا۔ پانچویں دور میں نوکلاسیکیت اپنے عروج پر تھی۔ چھٹا دور رومان پرستی کا دور تھا۔ ساتویں دور کو حقیقت پسندی کا نام دیا تھا۔ آٹھواں دور جدید آرٹ کا زمانہ کہلایا اور نویں دور کو عہد ِ حاضر کہا جاتا ہے، جس میں ہم جی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی موٹی تحریکوں نے جنم لیا، مگر بنیادی طور پر یہ نو ادوار ایسے ہیں، جن کے ستونوں پر مغربی آرٹ کی تاریخ کھڑی ہے۔
مشرقی مصوری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اس خطے میں فن مصوری نے مختلف ثقافتوں اور مذاہب سے اثرات لیے اور فن کی دنیا میں ایسے قدم جمائے کہ مشرقی آرٹ پورے قد و قامت سے مغربی آرٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مشرقی خطے میں جن تہذیبوں نے مصوری پر گہرے اثرات مرتب کیے اور اپنے جداگانہ فنی اسلوب میں کامیابیاں سمیٹیں۔ مختلف پس منظر رکھنے والی ان تہذیبوں نے ایک دوسرے کے کئی رجحانات کو بھی اپنایا، ان میں چینی، جاپانی، کورین، ہندوستانی، ایرانی اور دیگر تہذیبو ں کے پس منظر والے ملک شامل تھے۔ ان کے علاوہ بحرالکاہل اور نزدیک کے سمندری جزیروں والے ممالک نے بھی اپنے حصے کا فن تخلیق کیا، جس کو مشرقی آرٹ کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔اسلامی آرٹ کے کئی پہلو ہیں، یہاں فن صرف کسی ایک مخصوص میڈیم تک محدود نہیں ہے۔
ان پہلوئوں میں کیلی گرافی، پینٹنگ، ظروف، قالین، عمارتوں اور دیگر اشیا پر بنائے ہوئے مصوری کے فن پارے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام تو ایسا ہے، جس کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے اور اس کا اپنا ایک جداگانہ مقام ہے۔ برصغیر کا مغل دور میں تخلیق کیا گیا کام عالمی سطح پر کسی بڑے فن سے پیچھے نہیں ہے۔ تہذیب کا جمالیاتی رنگ لیے ہوئے اس تہذیب کے آرٹ کی دلدادہ پوری دنیا ہے اور اس مصوری کے ماہر مصوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔آرٹ کے تاریخی سفر میں آرٹ میوزیم کی اہمیت بھی کلیدی ہے۔ مصوروں نے اپنے فن کا اظہار کینوس پر کیا، جب کہ فن سے محبت کرنیوالوں نے ان آرٹ گھرو ں میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ آرٹ میوزیم جیسی جگہ مصوری کے نادر فن پاروں سے سجائی جاتی ہے، تا کہ آرٹ کے مداح وہاں آ کر ان فن پاروں سے روشناس ہو سکیں۔ ان کی رسائی فنی تخلیق تک ممکن ہو، وہ اپنے خیالات کا عکس کینوس پر بکھرے ہوئے رنگوں میں دیکھ سکیں۔
پینٹنگز کی نمائشیں اس فن کے فروغ میں ہمیشہ مددگار رہی ہیں۔آرٹ کے کئی فن پارے مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ متنازعہ بھی بنے۔ کسی فن پارے کو بہت پسند کیا گیا، کسی کے بارے میں شدید ناراضگی کا اظہار ہوا۔ کئی قیمتی فن پارے چوری بھی ہوئے۔ اصلی فن پاروں کی نقول بنا کر مداحین کو دھوکہ بھی دیا گیا اور چاہنے والوں نے ماسٹرز کی اصلی پینٹنگز منہ مانگے دام دے کر خریدیں۔پینٹ بنانیوالے اور انھیں پسند کرنے والے دونوں کی دلی ترجمانی کا عکس ان تصاویر میں جھلکتا ہے۔ آرٹسٹوں کی زندگی میں جھانک کر دیکھا جائے، تو دنیا کے کئی ایک نامور آرٹسٹ ہیں، جنھوں نے تکلیف دہ زندگی گزاری، مگر شہرت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔ اسی طرح کئی پینٹنگز بھی ایسی ہیں، جن کو بے پناہ پسند کیا گیا، ناقدین کی طرف سے تنقید بھی بے شمار ہوئی، مگر شہرت کے دروازے ان پر کھلے رہے۔
آرٹ کی جمالیات، تاریخ اور اقسام کو بیان کرنے کے لیے دنیا میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں، ان میں زیادہ تر مشہور کتابیں انگریزی میں لکھی گئی ہیں۔ فائن آرٹ سے لگائو رکھنے والوں کے لیے اور خاص طور پر اس فن کی تاریخ سے آشنا ہونے کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان مشہور اور معیاری کتابوں میں، اَرنسٹ گومبریچ کی ''اسٹوری آف آرٹ''۔ میریلین اسٹوکسڈ کی ''آرٹ ہسٹری''۔ انتھونی جانسن کی ''ہسٹری آف آرٹ''۔ ہیلن گارڈنر کی ''آرٹ تھرو دی ایجیز''۔ ہگ ہانر اور فلیمنگ کی ''اے ورلڈ ہسٹری آف آرٹ'' شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ہندوستانی خطہ اور تقسیم کے بعد پاکستان کی سر زمین فن مصوری کے حوالے سے زرخیز رہی۔ پاکستان نے فن مصوری کے ہر میڈیم میں شاندار صلاحیتوں کے حامل آرٹسٹ دیے، ان میں سرفہرست عبدالرحمان چغتائی، احمد پرویز، بشیر مرزا، اقبال مہدی، اسماعیل گل جی، جمیل نقش، صادقین، ظہور اخلاق، زبیدہ آغا اور شاکر علی جیسے آرٹسٹ شامل ہیں۔ پاکستانی محکمۂ ڈاک نے دس مصوروں کا انتخاب کر کے ڈاک ٹکٹ بھی چھاپے، اس فہرست میں سے اکثر نام یہی تھے۔ آرٹسٹ مر جائے تو معاشرے کی آنکھیں مر جاتی ہیں۔مصور کے تو آنسو بھی کینوس پر گر کر رنگوں کو امر کرتے ہیں۔ اتنا نفیس کام کرنیوالوں کی زندگیوں کا ایسا خاتمہ، فن کی موت ہے اور احساس کی بھی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ دونوں طرح کی اموات بہت تیزی سے ہو رہی ہیں۔ ہاتھوں پر رکھی ہوئی آنکھیں بھی نوچ لی جاتی ہیں۔