بھارت میں مسلم نسل کشی …
بالی ووڈ کے مشہور مسلمان اداکار ہوں یا مشہور مسلمان کرکٹر سب کو وقتاً فوقتاً اس مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ مسلمان پاکستان ہجرت کر گئے تھے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بھارت ہی میں رہ گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس وقت بھارت کی ایک ارب سے زیادہ کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تیرہ کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہے یعنی مسلمان بھارت کی کل آبادی کا تیرہ فیصد ہیں جو کہ اسلامی دنیا میں صرف پاکستان اور انڈونیشیا سے کم ہے۔ لیکن اتنی بڑی عددی طاقت رکھنے کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کی حالت انتہائی پسماندہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے بھی بدتر ہے۔ اس کی واحد وجہ بھارت کے انتہا پسند ہندو ؤں کا اب تک مسلمانوںکو دل سے قبول نہ کرنا ہے۔
بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں تیار کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمان کتنا بھی سیکولر ہو جائے، اسلامی تشخص کی کوئی علامت اس کے ظاہر سے نہ جھلکتی ہو، لیکن اس کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ بالی ووڈ کے مشہور مسلمان اداکار ہوں یا مشہور مسلمان کرکٹر سب کو وقتاً فوقتاً اس مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان جو عملی بلکہ اعتقادی طور پر نہ تو مسلمان رہے ہیں اور نہ ہی ہندو۔ انھوں نے اکبر بادشاہ کی تقلید میں اسلام اور ہندو مت کا عجیب ملغوبہ بنار کھا ہے۔ ان کے گھرمیں ایک عبادت گاہ ہے جس میںانھوںنے ہندوؤں کے بت بھی سجا رکھے ہیں اور ساتھ ہی قرآن اور انجیل بھی (نعوذ باللہ)۔ عملی طور پر بھی انھوں نے اسلامی احکام کی کبھی پروا نہیں کی، جس کی تازہ مثال ان کا نوزائیدہ بچہ ہے جوان کی ہندو شریک حیات کے بطن سے نہیں بلکہ اس کے لیے ایک کرائے کی ماں (Surrogate mother) کی خدمات حاصل کی گئی ہیں! لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود وہ اپنے نام و نسب سے پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں اور نتیجتاً وقتاً فوقتاً ہندو تنگ نظری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ ہماری رائے میں ہندو تنگ نظری کا اطلاق تمام ہندوؤں پرکرنا انصاف نہیں، کیونکہ بھارت اور اس کے باہر ہندوؤں کی اکثریت دلت اور نیچ ذات سے تعلق رکھتی ہے، اور یہ کروڑوں ہندو مذہبی تعصب میں مبتلا نہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ خود اپنے مذہب میں شدید ترین تعصب کا شکار ہیں۔ وجہ بہرحال جو بھی ہو، دلتوںکا ذرا سی ترغیب پر مسلمان ہو جانا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ ہندو مت کے ذات پات کے نظام سے کتنے بیزار ہیں۔ اصل بنیا پن اور ہندو تنگ نظری کا تعلق برہمن اور کشتری ہندوؤں سے ہے جو بھارت کو اصلاً ایک ہندو ریاست سمجھتے اور بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کبھی بھی دل سے تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک ہندوستان کی تقسیم ایک ناقابل برداشت فعل اور گویا گاؤ ماتا کی تقسیم تھی۔
ان انتہا پسند ہندوؤں کے خیال میں ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کا جو خواب تھا وہ تقسیم ملک کی وجہ سے چکنا چور ہو گیا، جس کا ذمے دار وہ مسلم لیگی اور کانگریسی کی تفریق کیے بغیر علی الاطلاق مسلمانوں کو سمجھتے ہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان انتہا پسند ٹولے کے اکثر قائدین جاہل نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا ہی کمال تھا کہ انھوں نے ایودھیا کی شہید بابری مسجد کی بنیادوں سے رام کی مورتی ''برآمد'' کر لی تھی، جسے دیکھنے اور پرکھنے کے بعد دنیا بھر کے ماہرین نے نہ صرف جھٹلایا بلکہ مضحکہ اڑایا تھا۔ ان کے بزعم خود تاریخ دان ہندوستان کی سیکڑوں سالہ تاریخ کا بخیہ وقتاً فوقتاً ادھیڑتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کے لیے جواز تلاشنے کے لیے وہ محمد بن قاسم ، غزنوی اور ابدالی کے نام لے لے کر ہندو عوام کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ وہ ظہیرالدین بابر کی بنائی ''بابری مسجد'' کو عنوان بنا کر اپنے باپ دادا کے حکمرانوں مغلوں کو لتاڑتے ہیں اور گویا علمی بددیانتی کا ارتکاب کر کے اپنے مذہبی جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں۔
اس ہندو تعصب کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمان گو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن ملک کے دیوہیکل سرکاری ڈھانچے سے منسلک اہلکاروں میں صرف پانچ فیصد مسلمان ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بھی باقی ہندوستانیوں کی شرح خواندگی سے بہت کم ہے۔ ایک طرف ہر شعبے میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف گاہے بگاہے ہندو مسلم فسادات کے ذریعے ان کی نسل کشی کی جاتی ہے کیوں کہ ان فسادات میں ہمیشہ نقصان صرف مسلمانوں کی جان و مال کا ہی ہوتا ہے۔ یہ خونی فسادات جو آج سری نگر اور اتر پردیش میں ہو رہے ہیں، نئے نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف اس دہشت گردی کے مظاہرے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد سے اب تک سیکڑوں چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہو کر رہنا کتنا مشکل ہے اور پاکستان اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔
ذرا دسمبر 1963 کی آخری تاریخوں میں ہونے والا کلکتہ کے خونی فسادات یاد کیجیے کہ ان فسادات میں مسلمانوں کا کتنا عظیم جانی و مالی نقصان ہو اتھا۔ پھر اس کے صرف تین ماہ بعد مارچ 64 میں شمالی ہند کی سرحدی پٹی رانچی، جمشید پور اور راؤڑ کیلا کے بھیانک ہندو مسلم فسادات نے بھارت کے چہرے پر وہ کالک ملی تھی کہ آج تک بھارت اس کے اثرات سے پیچھا نہیں چھڑا سکا ہے۔ ان فسادات میں چار ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔ واقعے کی سنگینی اور اس میں حصہ لینے والے قاتلوں کی سفاکی، خون آشامی اور سنگدلی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیکڑوںانسانی سر کھیتوں میں خربوزے اور تربوزکی طرح پڑے تھے ۔اس کے بعد16 دسمبر 1992 کو یاد کیجیے جو بھارت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ دنیا بھر میںمذہبی تعصب اور نفرت کی ایسی مثال نہیں ملتی-چار سو چونسٹھ (464) سال پرانی تاریخی 'بابری مسجد' شہید کر دی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو اہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سیکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں متعصب ہندوؤں نے اس تاریخی مسجد کو شہید کیا، اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے فوراً بعد بھارت میںمسلمانوں کے احتجاج اور مظاہروں کو دبانے کے لیے تقریباً تین ہزار مسلمانوں کو فسادات کا رنگ دے کر شہید کر دیا گیا۔
بھارت کے مسلمانوں کے بارے میں تیار کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمان کتنا بھی سیکولر ہو جائے، اسلامی تشخص کی کوئی علامت اس کے ظاہر سے نہ جھلکتی ہو، لیکن اس کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے۔ بالی ووڈ کے مشہور مسلمان اداکار ہوں یا مشہور مسلمان کرکٹر سب کو وقتاً فوقتاً اس مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان جو عملی بلکہ اعتقادی طور پر نہ تو مسلمان رہے ہیں اور نہ ہی ہندو۔ انھوں نے اکبر بادشاہ کی تقلید میں اسلام اور ہندو مت کا عجیب ملغوبہ بنار کھا ہے۔ ان کے گھرمیں ایک عبادت گاہ ہے جس میںانھوںنے ہندوؤں کے بت بھی سجا رکھے ہیں اور ساتھ ہی قرآن اور انجیل بھی (نعوذ باللہ)۔ عملی طور پر بھی انھوں نے اسلامی احکام کی کبھی پروا نہیں کی، جس کی تازہ مثال ان کا نوزائیدہ بچہ ہے جوان کی ہندو شریک حیات کے بطن سے نہیں بلکہ اس کے لیے ایک کرائے کی ماں (Surrogate mother) کی خدمات حاصل کی گئی ہیں! لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود وہ اپنے نام و نسب سے پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں اور نتیجتاً وقتاً فوقتاً ہندو تنگ نظری کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ ہماری رائے میں ہندو تنگ نظری کا اطلاق تمام ہندوؤں پرکرنا انصاف نہیں، کیونکہ بھارت اور اس کے باہر ہندوؤں کی اکثریت دلت اور نیچ ذات سے تعلق رکھتی ہے، اور یہ کروڑوں ہندو مذہبی تعصب میں مبتلا نہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ خود اپنے مذہب میں شدید ترین تعصب کا شکار ہیں۔ وجہ بہرحال جو بھی ہو، دلتوںکا ذرا سی ترغیب پر مسلمان ہو جانا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ ہندو مت کے ذات پات کے نظام سے کتنے بیزار ہیں۔ اصل بنیا پن اور ہندو تنگ نظری کا تعلق برہمن اور کشتری ہندوؤں سے ہے جو بھارت کو اصلاً ایک ہندو ریاست سمجھتے اور بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کبھی بھی دل سے تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کے نزدیک ہندوستان کی تقسیم ایک ناقابل برداشت فعل اور گویا گاؤ ماتا کی تقسیم تھی۔
ان انتہا پسند ہندوؤں کے خیال میں ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کا جو خواب تھا وہ تقسیم ملک کی وجہ سے چکنا چور ہو گیا، جس کا ذمے دار وہ مسلم لیگی اور کانگریسی کی تفریق کیے بغیر علی الاطلاق مسلمانوں کو سمجھتے ہیں۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ان انتہا پسند ٹولے کے اکثر قائدین جاہل نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا ہی کمال تھا کہ انھوں نے ایودھیا کی شہید بابری مسجد کی بنیادوں سے رام کی مورتی ''برآمد'' کر لی تھی، جسے دیکھنے اور پرکھنے کے بعد دنیا بھر کے ماہرین نے نہ صرف جھٹلایا بلکہ مضحکہ اڑایا تھا۔ ان کے بزعم خود تاریخ دان ہندوستان کی سیکڑوں سالہ تاریخ کا بخیہ وقتاً فوقتاً ادھیڑتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت کے لیے جواز تلاشنے کے لیے وہ محمد بن قاسم ، غزنوی اور ابدالی کے نام لے لے کر ہندو عوام کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ وہ ظہیرالدین بابر کی بنائی ''بابری مسجد'' کو عنوان بنا کر اپنے باپ دادا کے حکمرانوں مغلوں کو لتاڑتے ہیں اور گویا علمی بددیانتی کا ارتکاب کر کے اپنے مذہبی جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں۔
اس ہندو تعصب کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمان گو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن ملک کے دیوہیکل سرکاری ڈھانچے سے منسلک اہلکاروں میں صرف پانچ فیصد مسلمان ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بھی باقی ہندوستانیوں کی شرح خواندگی سے بہت کم ہے۔ ایک طرف ہر شعبے میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ یہ رویہ رکھا جاتا ہے تو دوسری طرف گاہے بگاہے ہندو مسلم فسادات کے ذریعے ان کی نسل کشی کی جاتی ہے کیوں کہ ان فسادات میں ہمیشہ نقصان صرف مسلمانوں کی جان و مال کا ہی ہوتا ہے۔ یہ خونی فسادات جو آج سری نگر اور اتر پردیش میں ہو رہے ہیں، نئے نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف اس دہشت گردی کے مظاہرے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تقسیم کے بعد سے اب تک سیکڑوں چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہو کر رہنا کتنا مشکل ہے اور پاکستان اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔
ذرا دسمبر 1963 کی آخری تاریخوں میں ہونے والا کلکتہ کے خونی فسادات یاد کیجیے کہ ان فسادات میں مسلمانوں کا کتنا عظیم جانی و مالی نقصان ہو اتھا۔ پھر اس کے صرف تین ماہ بعد مارچ 64 میں شمالی ہند کی سرحدی پٹی رانچی، جمشید پور اور راؤڑ کیلا کے بھیانک ہندو مسلم فسادات نے بھارت کے چہرے پر وہ کالک ملی تھی کہ آج تک بھارت اس کے اثرات سے پیچھا نہیں چھڑا سکا ہے۔ ان فسادات میں چار ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔ واقعے کی سنگینی اور اس میں حصہ لینے والے قاتلوں کی سفاکی، خون آشامی اور سنگدلی کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیکڑوںانسانی سر کھیتوں میں خربوزے اور تربوزکی طرح پڑے تھے ۔اس کے بعد16 دسمبر 1992 کو یاد کیجیے جو بھارت کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ دنیا بھر میںمذہبی تعصب اور نفرت کی ایسی مثال نہیں ملتی-چار سو چونسٹھ (464) سال پرانی تاریخی 'بابری مسجد' شہید کر دی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو اہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سیکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں متعصب ہندوؤں نے اس تاریخی مسجد کو شہید کیا، اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے فوراً بعد بھارت میںمسلمانوں کے احتجاج اور مظاہروں کو دبانے کے لیے تقریباً تین ہزار مسلمانوں کو فسادات کا رنگ دے کر شہید کر دیا گیا۔