’’ناکام‘‘ ریاست…
خدا خدا کر کے ایک’’کرپٹ‘‘حکومت سے جان چْھوٹی تھی کہ ایک اور’’بدعنوان‘‘ سیاسی سیٹ اپ مسلّط کر دیا گیا
خدا خدا کر کے ایک''کرپٹ''حکومت سے جان چْھوٹی تھی کہ ایک اور''بدعنوان'' سیاسی سیٹ اپ مسلّط کر دیا گیا۔ خْدا اِن کو پْوچھے، انھیں عوام کی خِدمات اور قربانیوں کا کوئی احساس ہی نہیں۔ سیانے دانشور بدیشی اخبارات میں عرصے سے تبصرے کر رہے ہیں کہ ریاست پاکستان (خاکم بدہن) اب مکمل ناکام ہونے جا رہی ہے۔ خدا کی پناہ، ہر آنے والا صرف اپنے اثاثے بنانے میں لگا ہے۔ مجال ہے جو کسی سیاسی فورم پر بیچارے غریب عوام کے لیے تین چار بیڈ رومز کا چھوٹا موٹا گھر، دو ڈھائی ہزار سی سی کی کوئی گاڑی یا کم از کم ماہانہ لاکھ دو لاکھ کا سرکاری وظیفہ دینے کا کوئی منصوبہ زیرِ غور تک ہو! یہ ہے تمھاری نام نہاد فلاحی ریاست؟
اپنے پروفیسر آغا صاحب کو ہی دیکھیں۔ علم ریاضی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ماشااللہ، شہر کے قدیمی سرکاری کالج کے شعبہ ریاضی کے سربراہ ہیں۔ صبح سے رات گئے تک نونہالانِ قوم کو ریاضی کے دقیق فارمولے سمجھانے ایک سے دوسری پرائیویٹ اکیڈمی میں بھاگے پھرتے ہیں۔ مصروفیت کا یہ عالم کہ گزشتہ سات برسوں میں صرف تین بار سرکاری کالج کا دورہ فرما سکے ہیں۔ درویش آدمی ہیں۔ سرکار کی طرف سے ملنے والی قلیل تنخواہ جو کلرک بابو ان کے بینک اکاؤنٹ میں بھجواتا ہے، برسوں سے نکلوانے کی فرصت ہی نہیں ملی، بس جمع ہوئے جاتی ہے۔ دال دلیہ بورڈ کلرک پورا کر دیتا ہے۔ اکیڈمیوں سے ملنے والی محنت مشقت کی رقم سے اپنے پانچ فرزندوں میں سے ابھی تک صرف چار کے لیے محض ایک ایک کنال کے سر چھپانے قابل گھروندے بنا پائے ہیں۔ نشانِ امتیاز دینے کی باری آئے تو پروفیسر صاحب کی بجائے گلوکارہ کو عطا کر دیا جاتا ہے۔ نا انصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!
میڈم رْخِ زیبا پروفیسر صاحب کی شاگرد رہ چکی ہیں۔ مقامی ہائی اسکول برائے طالبات میں تین سال قبل سے انگریزی کی اْستانی تعینات ہیں۔ رات دن مردوں کے بے رحم معاشرے میں پسی ہوئی خواتین کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد میں سربکف! کسی اداکارہ کے بولڈ ڈریسز کا معاملہ ہو کہ عورتوں کے ووٹ ڈالنے کا، میڈم سے بڑھ کر کوئی موافقانہ دلائل نہیں دے سکتا۔ دن رات اپنے غیر معمولی ذہانت والے بظاہر بدتمیز بچوں اور نکھٹو شوہر کی خبر گیری میں مصروف! ہر ماہ انھیں اپنی ذاتی گرہ سے کرایہ خرچ کر کے رکشوں کے دھکے کھا کر بینک سے اپنی تنخواہ نکلوانے جانا پڑتا ہے۔ شبانہ روز جہد ِمسلسل کے باوجود تین برسوں میں دسیوں بار سرکاری اسکول کا چکر بھی لگا آئی ہیں۔ دوغلے دانشوروں نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مس چُنائے اور کمسن طالبہ جیسیوں پر تو سیکڑوں کالم لکھ مارے مگر میڈم کی شب و روز محنت کا قدر دان کوئی نہیں!رائے حکمداد خان چناب کنارے کے ایک شہر کے خاندانی زمیندار ہیں۔
ہر سال دشمن ملک بھارت چناب میں پانی چھوڑ دیتا ہے۔ چنانچہ باقاعدگی سے ہر سال رائے صاحب کی نہ صرف تین سو بائیس گائیں اور ایک سو انتالیس بکریاں سیلاب میں بہہ جاتی ہیں بلکہ سالانہ 72 ایکڑ رقبے پر پھیلی دھان کی فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ بھارتی سازشی ٹولے نے فلاں سال دریاؤں میں پانی چھوڑا ہی نہیں۔ رائے صاحب کے مزارعین پوری برسات بان کی چارپائیاں، حْقّے اور "متاثرین" والی مکمل کِٹ لیے چناب کنارے منتظر رہے مگر کافر ملک نے سیلاب چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔ ڈی سی او مدد کو پہنچا نہ کوئی فوجی افسر۔ اْس سال کی امدادی رقم نہ ملنے سے رائے صاحب کے منجھلے صاحبزادے کی گلبرگ والی کوٹھی تاحال نامکمل ہے۔ ایسے غیر سیلابی ماحول میں زرعی سیکٹر کس طرح پروان چڑھے گا؟صدیقی صاحب فلاں دفتر میں ہیڈ کلرک ہیں۔ پکے نمازی اور مطالعے کے شوقین۔ علی الصبح سوا گیارہ بجے دفتر پہنچے ہوتے ہیں۔
چار اردو اخبارات کا الف سے ے تک سیر حاصل مطالعہ کرتے ہیں۔ دِن پونے ایک بجے نماز ظْہر کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اڑھائی بجے تک نماز میں مشغول رہتے ہیں۔ بمشکل شام تین بجے تک گھر واپس پہنچتے ہیں۔ بدعنوان افسر وں نے کبھی صدیقی صاحب کو محکمانہ کیش ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا!فرحان اصفہانی 1992 سے ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں کمپیوٹر سسٹم انالسٹ، سوفٹ ویئر انجینئراور بہت کچھ لگے ہوئے ہیں۔ شبانہ روز بین الاقوامی مصروفیات کی وجہ سے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کے سفید ہاتھی نما پراجیکٹ کی طرف دھیان ہی نہیں دے سکتے۔ رات گئے تک سماجی میڈیا پر باریاں لگانیوالے سیاسی لیڈروں کے خلاف خفیہ الیکٹرانک جہاد میں کفن بر دوش رہتے ہیں۔ تمغہ حسن کارکردگی اور نہ جانے کون کون سے ایوارڈ نابالغ ارفع کریم کے حصے میں آتے ہیں۔
اصفہانی صاحب جیسا سینئر ایکسپرٹ کسی کو یاد نہیں!ہاشمی صاحب انتہائی ایماندار، فرشتہ صفت اور متقی آفیسر ہیں۔ عوام کے سچے خادم۔ مقبولیت کا یہ عالم کہ ہر سال عوامی خرچے پر باقاعدگی سے عمرہ کرنے جاتے ہیں اور اکثر حرم پاک میں پورا رمضان شریف اعتکاف فرماتے ہیں۔ پروموشن البتہ ہاشمی صاحب جیسے نیک سیرت کی بجائے ہمیشہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے نالائقوں کی ہوتی ہے۔ دْکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! سچ ہے فی زمانہ دیانتداری کی کوئی قدر ہی نہیں!سیٹھ صاحب شہر کے مشہور بزنس مین ہیں۔ انتہائی پرہیزگار اور مخیّر۔ آئے روز ٹی وی پر مسکینوں، بیواؤں اور خاص کر جیلوں میں منشیات فروشی کے جھوٹے مقدمات میں قید اسیروں کے لاکھوں کے جرمانے ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں تا کہ مذکورہ اسیران دوبارہ "تجارت" جیسے مقدس پیشے کو اختیار کر کے معاشرے کے معزز رکن بن سکیں۔ ریاست کو مگر ان کے فلاحی کاموں کی کوئی خبر ہی نہیں، اْلٹا سرگرم حاکمِ اعلٰی کا چہیتا ڈی سی او آئے روز اْن کی فیکٹریوں میں بلاواسطہ نصب جائز قدرتی وسائل کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے!
فخری پہلوان گنے کا رس بیچتے ہیں۔ برف کا پانی ملا ملا کر زیادہ سے زیادہ عوام کی تلخیاں قومی مشروب کی مٹھاس سے کم کرنے کی بے لوث کوشش کرتے رہتے ہیں۔ قومی ایوارڈ دیتے وقت بدعنوان قیادت کو اداکارہ میرا تو یاد مگر فخری پہلوان بھول جاتے ہیں۔ احسان فراموش کہیں کے!
گْرو سائیں اپنے خاندان کے ہمراہ چلچلاتی دھوپ میں بھٹہ خشت پر سارا سارا دن اینٹیں بناتے ہیں۔ انتہائی مہارت سے کم سے کم مٹی سے زیادہ سے زیادہ اینٹیں بنا ڈالتے ہیں۔ رشوت خور انجنئیرز مگر گرو سائیں کی اینٹوں کو کم وزن اور چھوٹے سائز کا قرار دیتے ہیں۔ غریب فنکار کی صلاحیتوں کا یوں مذاق اڑانا کس قدر دردناک ہے!
اتحاد بین المسلمین کے علم بردار علامہ مفتی المشہوری سے کون واقف نہیں! ماشاللہ قوی الجثہ، خوش خوراک اور کھلے ذہن کی مالک دینی شخصیت ہیں۔ نوجوانی میں علامہ نے صوبائی دارالحکومت کے مشہور دینی مدرسے میں تحصیل علم کے لیے داخلہ لیا تھا تاہم مدرسے کے بنیاد پرست مْلاؤں کے دقیانوسی طور طریقے ان کے محققانہ مزاج سے میل نہ کھاتے تھے۔ پہلے ہی سال مدرسے کو خیر آباد کہا اور ذاتی تحقیق اور جستجو کے راستے کے مسافر ہوئے۔ ان کا مشہور قول ہے:''پانچ وقتی نماز ہر کوئی پڑھ لیتا ہے، ہر سانس کی پڑھنا مشکل کام ہے''۔ علامہ خود اسی مقولے پر کماحقہ عمل پیرا ہیں۔ آج تک کسی نے ان کو پانچ وقتی پڑھتے نہیں پایا البتہ ان کا دعوٰی ہے کہ وہ ہر سانس کی پڑھتے ہیں۔ ان کے ایک مرید نے ملاؤں کی باتوں میں آ کر گرمیوں کا روزہ رکھ لیا اور پیاس کی شکایت کی۔ علامہ نے فرمایا: ''زندگی میں کبھی اپنے سے طاقتور کو ہاتھ نہ ڈالو''۔ اس دن کے بعد ان کے مرید نے مڑ کر اپنے سے طاقتور روزوں کو ہاتھ نہیں ڈالا۔ وفاقی حکومت کے کرتوں دھرتوں نے رجعت پسند ملاؤں کے خوف سے ایسے بلند پایہ محقق اور فقیہہ کو اسلامی نظریاتی کونسل تو کجا رویت ہلال کمیٹی کارکن تک نہیں بنایا۔ در ایں صورت احوال اتحاد بین المسلمین کا خواب شرمندہ تعبیر ہو تو کیونکر؟ الغرض، قومی ہیرو زکی فہرست طویل ہے۔ مکمل احاطہ ممکن نہیں۔ وقت نکال کر گرد و پیش میں نگاہ دوڑائیں تو ایسے لاتعداد ہیرے بکھرے ملیں گے بلکہ درونِ گریبان جھانکیں تو حضورِ والا اپنے آپ اور خود راقم الحروف کو بھی مندرجہ بالا عظمت کے میناروں میں کہیں نہ کہیں ایستادہ پا لیں گے۔
تو اے منافق، قلم فروش اور مردم ناشناس تجزیہ کارو، کالم نگارو، دانشورو اور اینکرو! مغربی طاقتوں اور یہود و ہنود کے ایجنڈے کے زیرِ اثر غیر معروف شخصیات کی منقبت نگاری چھوڑ کر وطنِ عزیز کے اصل گوہرِ نایاب اور گْدڑی میں رْلتے لعلوں کی خدمات کو سراہو!
اپنے پروفیسر آغا صاحب کو ہی دیکھیں۔ علم ریاضی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ماشااللہ، شہر کے قدیمی سرکاری کالج کے شعبہ ریاضی کے سربراہ ہیں۔ صبح سے رات گئے تک نونہالانِ قوم کو ریاضی کے دقیق فارمولے سمجھانے ایک سے دوسری پرائیویٹ اکیڈمی میں بھاگے پھرتے ہیں۔ مصروفیت کا یہ عالم کہ گزشتہ سات برسوں میں صرف تین بار سرکاری کالج کا دورہ فرما سکے ہیں۔ درویش آدمی ہیں۔ سرکار کی طرف سے ملنے والی قلیل تنخواہ جو کلرک بابو ان کے بینک اکاؤنٹ میں بھجواتا ہے، برسوں سے نکلوانے کی فرصت ہی نہیں ملی، بس جمع ہوئے جاتی ہے۔ دال دلیہ بورڈ کلرک پورا کر دیتا ہے۔ اکیڈمیوں سے ملنے والی محنت مشقت کی رقم سے اپنے پانچ فرزندوں میں سے ابھی تک صرف چار کے لیے محض ایک ایک کنال کے سر چھپانے قابل گھروندے بنا پائے ہیں۔ نشانِ امتیاز دینے کی باری آئے تو پروفیسر صاحب کی بجائے گلوکارہ کو عطا کر دیا جاتا ہے۔ نا انصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!
میڈم رْخِ زیبا پروفیسر صاحب کی شاگرد رہ چکی ہیں۔ مقامی ہائی اسکول برائے طالبات میں تین سال قبل سے انگریزی کی اْستانی تعینات ہیں۔ رات دن مردوں کے بے رحم معاشرے میں پسی ہوئی خواتین کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد میں سربکف! کسی اداکارہ کے بولڈ ڈریسز کا معاملہ ہو کہ عورتوں کے ووٹ ڈالنے کا، میڈم سے بڑھ کر کوئی موافقانہ دلائل نہیں دے سکتا۔ دن رات اپنے غیر معمولی ذہانت والے بظاہر بدتمیز بچوں اور نکھٹو شوہر کی خبر گیری میں مصروف! ہر ماہ انھیں اپنی ذاتی گرہ سے کرایہ خرچ کر کے رکشوں کے دھکے کھا کر بینک سے اپنی تنخواہ نکلوانے جانا پڑتا ہے۔ شبانہ روز جہد ِمسلسل کے باوجود تین برسوں میں دسیوں بار سرکاری اسکول کا چکر بھی لگا آئی ہیں۔ دوغلے دانشوروں نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے مس چُنائے اور کمسن طالبہ جیسیوں پر تو سیکڑوں کالم لکھ مارے مگر میڈم کی شب و روز محنت کا قدر دان کوئی نہیں!رائے حکمداد خان چناب کنارے کے ایک شہر کے خاندانی زمیندار ہیں۔
ہر سال دشمن ملک بھارت چناب میں پانی چھوڑ دیتا ہے۔ چنانچہ باقاعدگی سے ہر سال رائے صاحب کی نہ صرف تین سو بائیس گائیں اور ایک سو انتالیس بکریاں سیلاب میں بہہ جاتی ہیں بلکہ سالانہ 72 ایکڑ رقبے پر پھیلی دھان کی فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ بھارتی سازشی ٹولے نے فلاں سال دریاؤں میں پانی چھوڑا ہی نہیں۔ رائے صاحب کے مزارعین پوری برسات بان کی چارپائیاں، حْقّے اور "متاثرین" والی مکمل کِٹ لیے چناب کنارے منتظر رہے مگر کافر ملک نے سیلاب چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔ ڈی سی او مدد کو پہنچا نہ کوئی فوجی افسر۔ اْس سال کی امدادی رقم نہ ملنے سے رائے صاحب کے منجھلے صاحبزادے کی گلبرگ والی کوٹھی تاحال نامکمل ہے۔ ایسے غیر سیلابی ماحول میں زرعی سیکٹر کس طرح پروان چڑھے گا؟صدیقی صاحب فلاں دفتر میں ہیڈ کلرک ہیں۔ پکے نمازی اور مطالعے کے شوقین۔ علی الصبح سوا گیارہ بجے دفتر پہنچے ہوتے ہیں۔
چار اردو اخبارات کا الف سے ے تک سیر حاصل مطالعہ کرتے ہیں۔ دِن پونے ایک بجے نماز ظْہر کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اڑھائی بجے تک نماز میں مشغول رہتے ہیں۔ بمشکل شام تین بجے تک گھر واپس پہنچتے ہیں۔ بدعنوان افسر وں نے کبھی صدیقی صاحب کو محکمانہ کیش ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا!فرحان اصفہانی 1992 سے ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں کمپیوٹر سسٹم انالسٹ، سوفٹ ویئر انجینئراور بہت کچھ لگے ہوئے ہیں۔ شبانہ روز بین الاقوامی مصروفیات کی وجہ سے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کے سفید ہاتھی نما پراجیکٹ کی طرف دھیان ہی نہیں دے سکتے۔ رات گئے تک سماجی میڈیا پر باریاں لگانیوالے سیاسی لیڈروں کے خلاف خفیہ الیکٹرانک جہاد میں کفن بر دوش رہتے ہیں۔ تمغہ حسن کارکردگی اور نہ جانے کون کون سے ایوارڈ نابالغ ارفع کریم کے حصے میں آتے ہیں۔
اصفہانی صاحب جیسا سینئر ایکسپرٹ کسی کو یاد نہیں!ہاشمی صاحب انتہائی ایماندار، فرشتہ صفت اور متقی آفیسر ہیں۔ عوام کے سچے خادم۔ مقبولیت کا یہ عالم کہ ہر سال عوامی خرچے پر باقاعدگی سے عمرہ کرنے جاتے ہیں اور اکثر حرم پاک میں پورا رمضان شریف اعتکاف فرماتے ہیں۔ پروموشن البتہ ہاشمی صاحب جیسے نیک سیرت کی بجائے ہمیشہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے نالائقوں کی ہوتی ہے۔ دْکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! سچ ہے فی زمانہ دیانتداری کی کوئی قدر ہی نہیں!سیٹھ صاحب شہر کے مشہور بزنس مین ہیں۔ انتہائی پرہیزگار اور مخیّر۔ آئے روز ٹی وی پر مسکینوں، بیواؤں اور خاص کر جیلوں میں منشیات فروشی کے جھوٹے مقدمات میں قید اسیروں کے لاکھوں کے جرمانے ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں تا کہ مذکورہ اسیران دوبارہ "تجارت" جیسے مقدس پیشے کو اختیار کر کے معاشرے کے معزز رکن بن سکیں۔ ریاست کو مگر ان کے فلاحی کاموں کی کوئی خبر ہی نہیں، اْلٹا سرگرم حاکمِ اعلٰی کا چہیتا ڈی سی او آئے روز اْن کی فیکٹریوں میں بلاواسطہ نصب جائز قدرتی وسائل کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے!
فخری پہلوان گنے کا رس بیچتے ہیں۔ برف کا پانی ملا ملا کر زیادہ سے زیادہ عوام کی تلخیاں قومی مشروب کی مٹھاس سے کم کرنے کی بے لوث کوشش کرتے رہتے ہیں۔ قومی ایوارڈ دیتے وقت بدعنوان قیادت کو اداکارہ میرا تو یاد مگر فخری پہلوان بھول جاتے ہیں۔ احسان فراموش کہیں کے!
گْرو سائیں اپنے خاندان کے ہمراہ چلچلاتی دھوپ میں بھٹہ خشت پر سارا سارا دن اینٹیں بناتے ہیں۔ انتہائی مہارت سے کم سے کم مٹی سے زیادہ سے زیادہ اینٹیں بنا ڈالتے ہیں۔ رشوت خور انجنئیرز مگر گرو سائیں کی اینٹوں کو کم وزن اور چھوٹے سائز کا قرار دیتے ہیں۔ غریب فنکار کی صلاحیتوں کا یوں مذاق اڑانا کس قدر دردناک ہے!
اتحاد بین المسلمین کے علم بردار علامہ مفتی المشہوری سے کون واقف نہیں! ماشاللہ قوی الجثہ، خوش خوراک اور کھلے ذہن کی مالک دینی شخصیت ہیں۔ نوجوانی میں علامہ نے صوبائی دارالحکومت کے مشہور دینی مدرسے میں تحصیل علم کے لیے داخلہ لیا تھا تاہم مدرسے کے بنیاد پرست مْلاؤں کے دقیانوسی طور طریقے ان کے محققانہ مزاج سے میل نہ کھاتے تھے۔ پہلے ہی سال مدرسے کو خیر آباد کہا اور ذاتی تحقیق اور جستجو کے راستے کے مسافر ہوئے۔ ان کا مشہور قول ہے:''پانچ وقتی نماز ہر کوئی پڑھ لیتا ہے، ہر سانس کی پڑھنا مشکل کام ہے''۔ علامہ خود اسی مقولے پر کماحقہ عمل پیرا ہیں۔ آج تک کسی نے ان کو پانچ وقتی پڑھتے نہیں پایا البتہ ان کا دعوٰی ہے کہ وہ ہر سانس کی پڑھتے ہیں۔ ان کے ایک مرید نے ملاؤں کی باتوں میں آ کر گرمیوں کا روزہ رکھ لیا اور پیاس کی شکایت کی۔ علامہ نے فرمایا: ''زندگی میں کبھی اپنے سے طاقتور کو ہاتھ نہ ڈالو''۔ اس دن کے بعد ان کے مرید نے مڑ کر اپنے سے طاقتور روزوں کو ہاتھ نہیں ڈالا۔ وفاقی حکومت کے کرتوں دھرتوں نے رجعت پسند ملاؤں کے خوف سے ایسے بلند پایہ محقق اور فقیہہ کو اسلامی نظریاتی کونسل تو کجا رویت ہلال کمیٹی کارکن تک نہیں بنایا۔ در ایں صورت احوال اتحاد بین المسلمین کا خواب شرمندہ تعبیر ہو تو کیونکر؟ الغرض، قومی ہیرو زکی فہرست طویل ہے۔ مکمل احاطہ ممکن نہیں۔ وقت نکال کر گرد و پیش میں نگاہ دوڑائیں تو ایسے لاتعداد ہیرے بکھرے ملیں گے بلکہ درونِ گریبان جھانکیں تو حضورِ والا اپنے آپ اور خود راقم الحروف کو بھی مندرجہ بالا عظمت کے میناروں میں کہیں نہ کہیں ایستادہ پا لیں گے۔
تو اے منافق، قلم فروش اور مردم ناشناس تجزیہ کارو، کالم نگارو، دانشورو اور اینکرو! مغربی طاقتوں اور یہود و ہنود کے ایجنڈے کے زیرِ اثر غیر معروف شخصیات کی منقبت نگاری چھوڑ کر وطنِ عزیز کے اصل گوہرِ نایاب اور گْدڑی میں رْلتے لعلوں کی خدمات کو سراہو!