کبھی ہم بھی خوب صورت تھے قومی ایرلائن کا تابندہ ماضی دکھاتے کچھ ریکارڈز
جنوبی ایشیا کی کئی فضائی کمپنی کو آپریشنل اور کام یاب بنانے والی پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن اب...
جنوبی ایشیا کی کئی فضائی کمپنی کو آپریشنل اور کام یاب بنانے والی پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن اب خود زبوں حالی کا شکار ہے، ایک دہائی قبل تک اس ایئر لائن کا شمار دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں ہوتا تھا اور ماضی میں اس نے کئی ریکارڈ قائم کیے ہیں، جیسے:
٭پی آئی اے ایشیا اور مسلم دنیا کی'' Super Constellation ''جہاز اڑانے والی پہلی ایئر لائن ہے ۔
٭پی آئی اے کو ''جیٹ جہاز'' آپریٹ کرنے والی پہلی ایشیائی ایئر لائن کا اعزاز حاصل ہے۔
٭پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہے جسے امریکا کی ''فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن '' اور ''برٹش سول ایوی ایشن اتھارٹی '' کے ''ایئر رجسٹریشن بورڈ'' نے جہازوں کی مینٹی نینس کرنے کی اجازت دی۔
٭ایشیا میں سب سے پہلے پی آئی اے نے یورپ اور ایشیا کے درمیان براستہ ماسکو فضائی آپریشن شروع کیا اور چین میں پرواز کرنے والی پہلی ''نان کمیونسٹ '' ایئرلائن کا اعزاز حاصل کیا۔
٭جدید ٹیکنالوجی سے مزین بوئنگ 737-300 جہازوں کو فضائی بیڑے میں شامل کرنے والی ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہونے کا اعزاز بھی پی آئی اے کے پاس ہے۔
٭پاکستان کی تاریخ کا پہلا کمپیوٹر ''IBM 1401'' 1967میں پی آئی اے ہیڈ آفس میں نصب کیا گیا تھا۔
٭جنوبی ایشیا میں پہلی بار بین الاقوامی روٹ پر دوران پرواز فلم دکھانے کا اعزاز بھی پی آئی اے کو حاصل ہے۔
٭پی آئی اے ''آٹو ٹکٹنگ'' سہولیات فراہم کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی تھی۔
٭سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نئی بننے والی ریاست ازبکستان تک دنیا کی پہلی پرواز پی آئی اے نے کی تھی۔
٭پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے جیٹ جہازوں کے ساتھ ''ایئر سفاری'' شروع کی۔
٭ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے لیے پرواز شروع کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی ایئر لائن بھی پی آئی اے تھی۔
٭پی آئی اے کو '' بوئنگ 777-200LR'' جہاز سے ہوابازی کی تاریخ میں دنیا کی سب سے طویل کمرشیل پرواز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
٭پی آئی اے بذریعہ موبائل فون ''سیٹ ریزویشن'' کی سہولت متعارف کرانے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی ہے۔
اورینٹ ایرویز سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز تک
ایک قوم کا جنم، ایک ایئر لائن کا جنم
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جہاں آزادی کے بعد پیش آنے والے دیگر مسائل کا ادراک تھا وہیں وہ ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے قومی فضائی کمپنی کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پاکستان بننے سے ایک سال قبل اپنے دوست اور ممتاز صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ترجیحی بنیادوں پر ایک فضائی کمپنی قائم کرنے کا مشورہ دیا۔
23 اکتوبر 1946 کو بر صغیر میں ''اورینٹ ایئرویز'' کے نام سے ایک ایئر لائن نے جنم لیا، جس کے چیئر مین ''ایم اے اصفہانی '' اور جنرل مینیجر ''ایئر وائس مارشل ''او کے کارٹر'' تھے۔ اس نوزائیدہ فضائی کمپنی کے لیے فروری 1947میں امریکی کمپنی ''ٹیمپو'' سے چار'' Douglas DC-3s '' طیارے خریدے گئے۔ جون 1947میں ''اورینٹ ایئر ویز'' نے پرواز کا آغاز کر دیا۔ ابتدا میں اس کا روٹ ''کلکتہ، اکیاب اور رنگون'' تھا۔ اورینٹ ایئرویز بننے کے دو سال دنیا کے نقشے پر پاکستان ظاہر ہوگیا۔ حکومت پاکستان نے اورینٹ ایئر ویز سے چارٹر کیے گئے BOAC جہاز میں لوگوں کی دہلی سے کراچی منتقلی اور ریلیف آپریشن شروع کردیا۔ تقسیم کے بعد اورینٹ ایئرویز نے کراچی میں بھی اپنا دفتر قائم کردیا۔ اس وقت اورینٹ ایئرویز کے پاس صرف تین کریو ممبر، بارہ میکینک اور دوDC-3s جہاز تھے۔ ابتدائی طور پر اورینٹ ایئر ویز کا روٹ ''کراچی سے لاہور،پشاور''،''کراچی سے کوئٹہ ،لاہور'' اور ''کراچی سے دہلی، کلکتہ'' تھا۔1949تک اورینٹ ایئر ویز کے بیڑے میں دس''DC-3s'' اور تین''Convair 240s'' طیارے شامل ہو چکے تھے۔
اورینٹ ایئر ویز محدود وسائل رکھنے والی ایک نجی کمپنی تھی، جو آزادانہ طور پر ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ایک قومی ایئر لائن قائم کرکے اورینٹ ایئر ویز کو اس میں ضم ہونے کی دعوت دی ۔
دس جنوری 1955کوPIACآرڈینینس کے تحت ایک نئی فضائی کمپنی ''پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن'' کا قیام عمل میں آیا۔ ایم اے اصفہانی کو پی آئی اے کا پہلا چیئر مین اور ظفرالاحسان کو پہلا مینیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا، جنہیں ایئر لائن کے شعبے کا وسیع تجربہ تھا۔
اورینٹ ایئر لائن کی اوور ہالنگ اور مینٹی نینس سہولیات، تربیت یافتہ پائلٹس، انجینیئرز اور ٹیکنیشنز نے نئی قومی فضائی کمپنی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یکم فروری 1955کو پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی پرواز نے کراچی سے براستہ قاہرہ لندن کے لیے اڑان بھری۔
1959میں حکومت پاکستان نے ایئر کموڈور نور خان کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر پی آئی اے کا نیا ایم ڈی تعینات کردیا۔ نور خان نے چھے سال کے مختصر عرصے میں پی آئی اے کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں کی صف میں کھڑا کردیا۔ آج بھی ان کے دور کو ''پی آئی اے کے سنہرے سال'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نئی انتظامیہ کو بہتری، پھیلاؤ اور گروتھ کے چیلینجز کا سامنا تھا ۔ مارچ 1960 میں پی آئی اے نے لندن، کراچی اور ڈھاکہ میں پہلی ''بوئنگ 707'' جیٹ سروس شروع کی۔ زبردست کام یابی حاصل کرنے والے اس روٹ سے پی آئی اے کو جیٹ جہاز آپریٹ کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ پی آئی اے نے1961میں کراچی سے نیویارک تک پرواز کا آغاز کیا۔ اسی سال پی آئی اے نے فضائی بیڑے میں اضافے کے لیے مزید نئے جہازوں کا آرڈر دے دیا، جن میں ''فوکر F-27s''،''بوئنگ 720Bs''،''Sikorsky'' ہیلی کاپٹر شامل تھے۔ مشرقی پاکستان کے شہروں ''سہلٹ''،''چٹا گانگ''،''ڈھاکا''،''کومیلا'' اور ''اشوردی'' میں پی آئی اے کی ہیلی کاپٹر سروس بے حد مقبول ہوئی اور یہ آپریشن شروع ہونے کے ایک سال کے عرصے میں 70ہزار سے زاید مسافروں نے اس سروس سے استفادہ حاصل کیا۔ تاہم دو ناگہانی آفات کی وجہ سے 1966میں یہ سروس بند کر دی گئی۔
ساٹھ کی دہائی میں پی آئی اے کا نام مثالی سمجھا جاتا تھا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا اور بوئنگ،Super Constellationsاور Vickers Viscount 815s جہازوں کی خصوصی پروازیں آپریٹ کرکے مسلح افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔
1966میں مسافروں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایئرلائن کے''Vickers Viscount 815s ''جہازوں کو ''Hawker Siddeley HS.121 Trident 1E '' سے تبدیل کردیا گیا۔ تاہم بعد میں Trident 1E کو چین کی ''سول ایو ی ایشن ایڈمنسٹریشن'' کو فروخت کردیا گیا۔ اسی سال پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں دو ''فوکر F-27s''دو ''بوئنگ 707s''اور ایک ''Trident'' شامل کیا گیا۔ 1974میں پی آئی اے نے پہلی بار چوڑی باڈی والے ''McDonnell Douglas DC-10-30 '' طیارے اور 1974میں ''Airbus A300B4-203''کا استعمال شروع کیا۔ 1985میں پی آئی اے''بوئنگ 737-300'' ایئر کرافٹ استعمال کرنے والی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی بن گئی۔ 1991میں پی آئی اے نے چھے ''بوئنگ 737-300'' جہاز حاصل کیے جنہیں ''بوئنگ720B {{'' سے تبدیل کردیا گیا۔ 1999پی آئی اے نے یورپی اور شمالی امریکا کے فلائٹ آپریشن کے لیے پانچ ''بوئنگ {{747-367'' حاصل کیے۔ 2002میں پی آئی اے نے طیارہ ساز ادارے بوئنگ سے آٹھ ''بوئنگ 777 '' خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ پی آئی اے کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل تھی۔
2005میں پی آئی اے نے فرانس کی کمپنی '' Avions de Transport Regional ''(ATR) سے 48 سیٹر ATR 42-500 خریدنے کا معاہدہ کیا جنہیں بعد میں ''فوکرF27s'' سے تبدیل کیا گیا۔
٭پی آئی اے ایشیا اور مسلم دنیا کی'' Super Constellation ''جہاز اڑانے والی پہلی ایئر لائن ہے ۔
٭پی آئی اے کو ''جیٹ جہاز'' آپریٹ کرنے والی پہلی ایشیائی ایئر لائن کا اعزاز حاصل ہے۔
٭پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہے جسے امریکا کی ''فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن '' اور ''برٹش سول ایوی ایشن اتھارٹی '' کے ''ایئر رجسٹریشن بورڈ'' نے جہازوں کی مینٹی نینس کرنے کی اجازت دی۔
٭ایشیا میں سب سے پہلے پی آئی اے نے یورپ اور ایشیا کے درمیان براستہ ماسکو فضائی آپریشن شروع کیا اور چین میں پرواز کرنے والی پہلی ''نان کمیونسٹ '' ایئرلائن کا اعزاز حاصل کیا۔
٭جدید ٹیکنالوجی سے مزین بوئنگ 737-300 جہازوں کو فضائی بیڑے میں شامل کرنے والی ایشیا کی پہلی ایئر لائن ہونے کا اعزاز بھی پی آئی اے کے پاس ہے۔
٭پاکستان کی تاریخ کا پہلا کمپیوٹر ''IBM 1401'' 1967میں پی آئی اے ہیڈ آفس میں نصب کیا گیا تھا۔
٭جنوبی ایشیا میں پہلی بار بین الاقوامی روٹ پر دوران پرواز فلم دکھانے کا اعزاز بھی پی آئی اے کو حاصل ہے۔
٭پی آئی اے ''آٹو ٹکٹنگ'' سہولیات فراہم کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی تھی۔
٭سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نئی بننے والی ریاست ازبکستان تک دنیا کی پہلی پرواز پی آئی اے نے کی تھی۔
٭پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئر لائن ہے جس نے جیٹ جہازوں کے ساتھ ''ایئر سفاری'' شروع کی۔
٭ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے لیے پرواز شروع کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی ایئر لائن بھی پی آئی اے تھی۔
٭پی آئی اے کو '' بوئنگ 777-200LR'' جہاز سے ہوابازی کی تاریخ میں دنیا کی سب سے طویل کمرشیل پرواز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
٭پی آئی اے بذریعہ موبائل فون ''سیٹ ریزویشن'' کی سہولت متعارف کرانے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی ہے۔
اورینٹ ایرویز سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز تک
ایک قوم کا جنم، ایک ایئر لائن کا جنم
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو جہاں آزادی کے بعد پیش آنے والے دیگر مسائل کا ادراک تھا وہیں وہ ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے قومی فضائی کمپنی کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پاکستان بننے سے ایک سال قبل اپنے دوست اور ممتاز صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ترجیحی بنیادوں پر ایک فضائی کمپنی قائم کرنے کا مشورہ دیا۔
23 اکتوبر 1946 کو بر صغیر میں ''اورینٹ ایئرویز'' کے نام سے ایک ایئر لائن نے جنم لیا، جس کے چیئر مین ''ایم اے اصفہانی '' اور جنرل مینیجر ''ایئر وائس مارشل ''او کے کارٹر'' تھے۔ اس نوزائیدہ فضائی کمپنی کے لیے فروری 1947میں امریکی کمپنی ''ٹیمپو'' سے چار'' Douglas DC-3s '' طیارے خریدے گئے۔ جون 1947میں ''اورینٹ ایئر ویز'' نے پرواز کا آغاز کر دیا۔ ابتدا میں اس کا روٹ ''کلکتہ، اکیاب اور رنگون'' تھا۔ اورینٹ ایئرویز بننے کے دو سال دنیا کے نقشے پر پاکستان ظاہر ہوگیا۔ حکومت پاکستان نے اورینٹ ایئر ویز سے چارٹر کیے گئے BOAC جہاز میں لوگوں کی دہلی سے کراچی منتقلی اور ریلیف آپریشن شروع کردیا۔ تقسیم کے بعد اورینٹ ایئرویز نے کراچی میں بھی اپنا دفتر قائم کردیا۔ اس وقت اورینٹ ایئرویز کے پاس صرف تین کریو ممبر، بارہ میکینک اور دوDC-3s جہاز تھے۔ ابتدائی طور پر اورینٹ ایئر ویز کا روٹ ''کراچی سے لاہور،پشاور''،''کراچی سے کوئٹہ ،لاہور'' اور ''کراچی سے دہلی، کلکتہ'' تھا۔1949تک اورینٹ ایئر ویز کے بیڑے میں دس''DC-3s'' اور تین''Convair 240s'' طیارے شامل ہو چکے تھے۔
اورینٹ ایئر ویز محدود وسائل رکھنے والی ایک نجی کمپنی تھی، جو آزادانہ طور پر ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ایک قومی ایئر لائن قائم کرکے اورینٹ ایئر ویز کو اس میں ضم ہونے کی دعوت دی ۔
دس جنوری 1955کوPIACآرڈینینس کے تحت ایک نئی فضائی کمپنی ''پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کارپوریشن'' کا قیام عمل میں آیا۔ ایم اے اصفہانی کو پی آئی اے کا پہلا چیئر مین اور ظفرالاحسان کو پہلا مینیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا، جنہیں ایئر لائن کے شعبے کا وسیع تجربہ تھا۔
اورینٹ ایئر لائن کی اوور ہالنگ اور مینٹی نینس سہولیات، تربیت یافتہ پائلٹس، انجینیئرز اور ٹیکنیشنز نے نئی قومی فضائی کمپنی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یکم فروری 1955کو پی آئی اے کی پہلی بین الاقوامی پرواز نے کراچی سے براستہ قاہرہ لندن کے لیے اڑان بھری۔
1959میں حکومت پاکستان نے ایئر کموڈور نور خان کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر پی آئی اے کا نیا ایم ڈی تعینات کردیا۔ نور خان نے چھے سال کے مختصر عرصے میں پی آئی اے کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں کی صف میں کھڑا کردیا۔ آج بھی ان کے دور کو ''پی آئی اے کے سنہرے سال'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نئی انتظامیہ کو بہتری، پھیلاؤ اور گروتھ کے چیلینجز کا سامنا تھا ۔ مارچ 1960 میں پی آئی اے نے لندن، کراچی اور ڈھاکہ میں پہلی ''بوئنگ 707'' جیٹ سروس شروع کی۔ زبردست کام یابی حاصل کرنے والے اس روٹ سے پی آئی اے کو جیٹ جہاز آپریٹ کرنے والی جنوبی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ پی آئی اے نے1961میں کراچی سے نیویارک تک پرواز کا آغاز کیا۔ اسی سال پی آئی اے نے فضائی بیڑے میں اضافے کے لیے مزید نئے جہازوں کا آرڈر دے دیا، جن میں ''فوکر F-27s''،''بوئنگ 720Bs''،''Sikorsky'' ہیلی کاپٹر شامل تھے۔ مشرقی پاکستان کے شہروں ''سہلٹ''،''چٹا گانگ''،''ڈھاکا''،''کومیلا'' اور ''اشوردی'' میں پی آئی اے کی ہیلی کاپٹر سروس بے حد مقبول ہوئی اور یہ آپریشن شروع ہونے کے ایک سال کے عرصے میں 70ہزار سے زاید مسافروں نے اس سروس سے استفادہ حاصل کیا۔ تاہم دو ناگہانی آفات کی وجہ سے 1966میں یہ سروس بند کر دی گئی۔
ساٹھ کی دہائی میں پی آئی اے کا نام مثالی سمجھا جاتا تھا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا اور بوئنگ،Super Constellationsاور Vickers Viscount 815s جہازوں کی خصوصی پروازیں آپریٹ کرکے مسلح افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔
1966میں مسافروں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایئرلائن کے''Vickers Viscount 815s ''جہازوں کو ''Hawker Siddeley HS.121 Trident 1E '' سے تبدیل کردیا گیا۔ تاہم بعد میں Trident 1E کو چین کی ''سول ایو ی ایشن ایڈمنسٹریشن'' کو فروخت کردیا گیا۔ اسی سال پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں دو ''فوکر F-27s''دو ''بوئنگ 707s''اور ایک ''Trident'' شامل کیا گیا۔ 1974میں پی آئی اے نے پہلی بار چوڑی باڈی والے ''McDonnell Douglas DC-10-30 '' طیارے اور 1974میں ''Airbus A300B4-203''کا استعمال شروع کیا۔ 1985میں پی آئی اے''بوئنگ 737-300'' ایئر کرافٹ استعمال کرنے والی ایشیا کی پہلی فضائی کمپنی بن گئی۔ 1991میں پی آئی اے نے چھے ''بوئنگ 737-300'' جہاز حاصل کیے جنہیں ''بوئنگ720B {{'' سے تبدیل کردیا گیا۔ 1999پی آئی اے نے یورپی اور شمالی امریکا کے فلائٹ آپریشن کے لیے پانچ ''بوئنگ {{747-367'' حاصل کیے۔ 2002میں پی آئی اے نے طیارہ ساز ادارے بوئنگ سے آٹھ ''بوئنگ 777 '' خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ پی آئی اے کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل تھی۔
2005میں پی آئی اے نے فرانس کی کمپنی '' Avions de Transport Regional ''(ATR) سے 48 سیٹر ATR 42-500 خریدنے کا معاہدہ کیا جنہیں بعد میں ''فوکرF27s'' سے تبدیل کیا گیا۔