بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فعالیتملکی سیاست میں نیا رجحان

بیرون ملک مقیم بااثر پاکستانیوں کا ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں عمل دخل رہا ہے اور وہ اہم حکومتی عہدوں پر بھی رہے ہیں۔

فوٹو : فائل

بیرون ملک مقیم بااثر پاکستانیوں کا ہمیشہ پاکستان کی سیاست میں عمل دخل رہا ہے اور وہ اہم حکومتی عہدوں پر بھی رہے ہیں۔

اس حوالے سے پہلی مثال ایوب دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر شعیب کی ہے۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی ڈاکٹر شعیب کے دور سے شروع ہوا اور آج ہماری معیشت ان قرضوں میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔ ایسے افراد کا آج تک گاہے بہ گاہے غلبہ رہا ہے۔ ضیاء الحق دور میں ڈاکٹر محبوب الحق اور سرتاج عزیز بھی باہر سے آئے۔ بے نظیر بھٹو دور میں وی اے جعفری اور صاحبزادہ یعقوب خاں بھی بنیادی طور پر باہر کے ہی تھے۔ پرویز مشرف دور میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز باہر سے پکڑ کر لائے گئے۔ سابق صدر آصف زرداری بھی رحمان ملک کو لے کر آئے اور وہ پانچ سال پاکستان کے وزیر داخلہ رہے۔

ماضی میں معیشت اور خارجہ امور کے ماہر لوگ باہر سے آتے تھے اور انہیں کردار ملتا رہا جن کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب پاکستان کی سیاست میں ایک نیا رجحان آگیا ہے اور پاکستان ایک ایسی ریاست بن گئی ہے جہاں حکمران اپنے کاروباری معاملات اور دیگر مفادات کیلئے بیرون ممالک دوستوں کو نواز رہے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے تو حد کر دی ہے اور پہلی بار برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی چودھری محمد سرور کو پنجاب کا گورنر بھی بنا دیا گیا ہے۔ پہلے کبھی اوورسیز پاکستانیوں کو اس طرح کا عہدہ نہیں دیا گیا۔ دراصل چودھری سرور شریف خاندان کی جلاوطنی میں ان کے مدد گار رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں جنوبی پنجاب سے بھی گورنر شپ کے کئی امیدوار تھے مگر انہیں نظر انداز کیا گیا۔ چودھری سرور کو گورنر بنائے جانے کے فیصلے پر پارٹی کے اندر تحفظات ہیں۔ برطانوی شہریت چھوڑنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ایک منٹ میں واپس بھی لی جاسکتی ہے۔

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور برمنگھم سے رکن پارلیمنٹ شاہد ملک پرویز مشرف دور میں انہیں سپورٹ کرتے رہے ہیں، انھوں نے بہت سے فوائد بھی حاصل کئے تھے۔ اس دور میں ایک سیمنٹ کمپنی کے مالک انور پرویز کا بھی پاکستان کی سیاست میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ چودھری شجاعت حسین لندن میں ان کے گھر قیام کرتے تھے۔ 2006 ء میں نواز شریف لندن پہنچے تو اس وقت یہ لوگ پرویز مشرف کے ساتھ پرائم ٹائم گزار چکے تھے، پھر انہوں نے نوازشریف کے ساتھ روابط بڑھا لئے اور شریف برادران کے بہت قریب ہوگئے۔

برطانوی دارلاامراء کے پہلے کشمیری مسلمان رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کا پاکستان اور خصوصاً آزاد کشمیر میں بھی بڑا فعال کردار رہا ہے۔ ان کی سیاست پر ذاتی مفادات کا کوئی دھبہ نظرنہیں آتا، انہیں آزاد کشمیر حکومت کی گورننس کے معاملے پر تحفظات ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے اپنی حالیہ ملاقات میں آزاد کشمیر حکومت کی بعض مالی بے ضابطگیوں کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے۔ تاہم لارڈ قربان حسین آزاد کشمیر حکومت اور لارڈ نذیر احمد کے درمیان مفاہمت کیلئے کوشاں ہیں۔

لارڈ نذیر احمد کو بھی کئی دفعہ پاکستان میں سیاسی رول کی پیشکش کی جاچکی ہے مگر وہ اس کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ بے نظیر بھٹو بھی انہیں اہم ذمہ داریاں دینا چاہتی تھیں۔ لارڈ نذٰیر احمد کو خداوند تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ ہاؤس آف لارڈز میں میں ان کی ولولہ انگیز تقریروں سے جہاں ان کی قوت گفتار کا پتہ چلتا ہے وہاں ان کے استدلال اور ان کی لیاقت بھی عیاں ہوتی ہے۔ انہوں نے برطانوی حکمران طبقے تک اہم ایشوز خصوصا ًاسلام، پاکستان، کشمیر اور ان کے حقوق کے حوالے سے جس مؤثر انداز میں بات کی ہے اس کا اپنے پرائے سب اعتراف کرتے ہیں۔


انہوں نے اپنے جرأت اظہار کے ذریعے برطانیہ میں مقیم مسلم کمیونٹی کی ترجمانی اور مظلوم و محکوم قوموں کے حقوق کی نگہبانی کا حق ادا کردیا۔ پچھلے دنوں ان کی تقاریر پر مشتمل کتاب کی تقریب پذیرائی شہر کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، سیبیئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی، سابق وفاقی وزیر سید حامد سعید کاظمی، بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسلم گھمن سمیت متعدد دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر جہاں لارڈ نذیر کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی وہاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور مجیب الرحمٰن شامی کی گفتگو نے انہیں لطف دیا۔

وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کہا کہ لارڈ نذیر ایک سچے اور کھرے انسان ہیں اور ملک کو ایسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے ستمبر 2007ء میں برطانوی حکومت اور قریبی رفقاء کی مخالفت کے باوجود اس وقت نواز شریف کا ساتھ دیاجب وہ طیارے میں پاکستان آئے لیکن اس وقت کے ڈکٹیٹر مشرف نے انہیں زبردستی دوبارہ جدہ بجھوادیا لیکن لارڈ نذیر احمد حکومت کی زیادتی اور ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے رہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ جس طرح برطانوی رکن پارلیمنٹ چوہدری سرور کو گورنر پنجاب بنادیا گیا ہے، اس طرح لارڈ نذیر احمد بھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان آجاتے تو انہیں گورنر سندھ بنادیا جاتا کیونکہ شریف برادران کے ساتھ ان کے تعلقات بڑے دیرینہ اور مضبوط ہیں۔ اس تقریب میں بھی لارڈ نذیر احمد نے بڑے دلچسپ پیرائے میں اظہار خیال کیا اور پاکستان، اہل پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کی متعدد مثالیں دیں اور کہا کہ پاکستان کی سیاسی شخصیات سے ان کے تعلقات اور دوستیاں بھی اس لئے ہیں کہ انہیں پاکستان سے عشق ہے۔

اس تقریب میں مجیب الرحمٰن شامی نے لارڈ نذیر احمد کی کتابوں خدمات اور صلاحیتوں کو بھی سراہا اور کہا کہ لارڈ نذیر احمد سے ہماری واقفیت نہ ہوتی اگر عمران چوہدری نہ ہوتے اس دوران ہمارے ایک صحافی دوست نے یہ جملہ کسا کہ غلام محی الدین ان کی کتاب کو اردو کے قالب میں نہ ڈھالتے تو اس قدر خوبصورت کتاب سامنے نہ آتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران چوہدری کی کاوش کے نتیجے میں لارڈ نذیر احمد جیسی سماجی شخصیت کے خیالات اردو دان طبقے تک پہنچے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بھی گورنر ہاؤس لاہور میں لارڈ نذیر احمد کی کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا ۔

جس میں ملک بھر کے دانشور، اہل علم و فکر، صحافی، شاعر ، ادیب کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ تقریب سے صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو، سہیل وڑائچ، ڈاکٹر اجمل نیازی، پیر سیدکبیر علی شاہ، ڈاکٹر امجد اسلام امجد، بشریٰ اعجاز،عمران چودھری کے علاوہ دیگر ادبی شخصیات نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا کہ لارڈ نذیر احمد کا دل پاکستانیوں اور بالخصوص مصیبت میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لئے دھڑکتا ہے۔ دُنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان ظلم کا شکار ہوئے لارڈ نذیر احمد سب سے پہلے وہاں پہنچے۔

صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ لارڈ نذیر احمد جیسے لوگ بیرون ملک پاکستانیوں کے سفیر ہیں وہ ملک کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کیلئے ہمیشہ ہاؤس آف لارڈز میں اپنی آواز بلند کی ہے ان جیسے لوگوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کچھ نہیں ہوسکتا اگر ہم سب اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو پاکستان ترقی کے راستہ پر گامزن ہوجائے گا۔

 
Load Next Story