سازشوں کی کڑی

اہلِ وطن کو نواز، عمران اور اہل قوت کی باہمی رسہ کشی سے پریشان ہونے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں


یہاں ہر کسی کو لگ رہا ہے کہ دوسرا اس کے خلاف سازش کررہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نواز شریف سے لے کر ریاست پاکستان تک ہم میں سے اکثر کے خلاف ہر ایک یا اکثر لوگ سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کسی قوم کے خلاف اتنی سازشیں ہوئی ہوں جتنی ہمارے خلاف ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اور ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو اپنے مسائل کے حل کےلیے نہیں بلکہ ہمارے خلاف سازش کے طور پر منتخب کیا ہے اور اس پہ طرہ یہ کہ عمران خان میں ٹرمپ اور مودی سے مماثلتیں تلاش کرکے انہیں بھی ''اسی'' سازش کے سلسلے کی اگلی کڑی قرار دیا جاتا ہے۔

ماضی میں نواز شریف دائیں بازو کے طاقتور طبقے کی بائیں بازو کے روشن خیال گروہ کے خلاف ایک سازش تھے۔ آج نواز شریف بائیں بازو کی دائیں بازو کے خلاف ایک سازش ہیں۔

اور اوپر سے ان کے اپنے خلاف سازشیں! ارض و سماء کی تمام قوتیں باہم متحد ہو کر اس ایک نہتے لڑکے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ عمرانیات کا اصول ہے کہ جس سے جتنا زیادہ پیار ہوتا ہے، اس کے اتنے زیادہ نام رکھے جاتے ہیں اور اگر نواز شریف کی تاریخ دیکھیں اور ان کا اور اسٹیبلشمنٹ کا جنم جنم کا ساتھ دیکھیں تو جب وہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ خلائی مخلوق ان کے خلاف سازشیں کر رہی ہے، اسکرپٹ رائٹر ان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، محکمہ زراعت والے ان کے خلاف صف آرا ہیں اور تو اور منے کے ابا بھی ان کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں تو پھر یہ نکتہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ محبت جتنی پرانی ہوتی ہے، اتنی ہی گہری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی پرانا محبوب آپ کو کٹہرے میں لاکھڑا کرے، آپ کی محبت کا انکار کردے، آپ کا حقہ پانی بند کردے اور پھر بھی آپ کا جی اسے برا سمجھنے کو نہ مانے تو پھر آپ یہی دہائی دیں گے ناں کہ میری محبت ناخالص نہیں، محبوب کی ناراضی کا سبب دراصل ہم دونوں کے بیچ کسی تیسرے کی سازش ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ تیسرا کوئی اور نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہو۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کے پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

غضب خدا کا بھلا کٹھ پتلی بے چاری کسی کے خلاف کیسے سازش کرسکتی ہے؟ اس کا تو اپنا وجود کسی کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ لیکن نہیں!

بات دراصل یہ ہے کہ اگر کل تک ہم کٹھ پتلی ہونے کے باوصف محبوب کی آںکھ کا تارا تھے اور آج کٹھ پتلی بننے کا انکار کرتے ہی ثریا نے ہم کو زمین پر دے مارا ہے اور نئی کٹھ پتلی کو آنکھ کا تارا بنا لیا ہے اور ہم جو اب تک یہ سمجھتے آئے تھے کہ محبوب ہمیں ہمارے کٹھ پتلی ہونے کے سبب نہیں بلکہ حسین ہونے کے سبب چاہتا ہے، اب اعترافِ حقیقت کرکے کیوں جی جلائیں؟ مار تو کھا ہی لی ہے، اب کم از کم یہ شور مچا کر ہی دل کو بہلا لیں کہ محبوب کی ناراضی دراصل کسی تیسرے کی، کسی کٹھ پتلی کی سازش ہے، ورنہ محبوب تو آج تک ہمارے حُسن پر جی جان سے مرتا ہے۔

چنانچہ اہلِ وطن سے التماس ہے کہ انہیں نواز، عمران اور اہل قوت کی باہمی رسہ کشی سے پریشان ہونے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح ہر دور اور ہر خطے کے سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا، سسی پنوں، مرزا صاحباں، سیتا رام اور رومیو جیولٹ اپنے اپنے زمانوں کے چاچا قیدو سے لڑتے رہے ہیں اور ہر ممکن حد تک کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی کھلم کھلا باہم محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے ہیں، اسی طرح آج بھی کبھی منے کے ابا مریم نواز سے درونِ خانہ ڈیل کررہے ہوتے ہیں تو کبھی عمران خان کے ساتھ ٹرمپ کے پہلو میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ دنیا اسی کا نام ہے۔

میاں صاحب یاد آ گئے (ن لیگ والے نہیں، سیف الملوک والے)

سدا نہ ماپے حُسن جوانی، سدا نہ صُحب یاراں

احمد فراز نے بھی عین اسی وقت کےلیے کہا ہے:

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

اور اب اگر فراز کی سنی ہے تو فیض کی بھی سنیں، عین برمحل ہے۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں

اگر آج ڈیل دینے والے مریم نواز کو آفر دے سکتے ہیں اور براہِ راست آفر پر ناکام ہونے پر عمران خان کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن کی خدمت میں نامۂ محبت بھجوا سکتے ہیں تو کیا پھر بھی خان صاحب کو یہ لگتا ہے کہ ان کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور ن لیگ ہمیشہ نامراد رہے گی اور وہ جسے چاہیں جیلوں میں بھریں، انہیں کچھ بھگتنا نہیں پڑے گا؟

اگر وہ واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو اسی جنت میں رہتے ہیں جس میں ڈان لیکس سے لے کر جی ٹی روڈ مارچ تک کے زمانے میں نواز شریف رہا کرتے تھے اور مریم نواز ہنوز ٹھہری ہوئی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں