ایں سعادت بزورِ ِبازو نیست
قائد اعظم نے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کا قیام قطعی آئینی طریقے سے کیا تھا
گزشتہ 9 ستمبر پیرکو مسلم لیگ (ن) کے منتخب صدارتی امیدوار جناب ممنون حسین نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 12ویں صدر کی حیثیت سے اپنا منصب سنبھال لیا جس کے لیے ہم انھیں تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس منصب کے بجا طورپر مستحق تھے۔ لیکن اس معاملے میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے حسن انتخاب کی بھی داد دینا پڑے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس انتخاب میں سب سے بڑا دخل مشیعت ایزدی کا ہے کیونکہ :
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے خدائے بخشندہ
ایوان صدر میں منعقدہ ایک پر وقار تقریب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے ان سے صدر مملکت کے عہدے کا حلف لیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ممنون حسین نے قومی زبان اردو میں حلف اٹھانے کو ترجیح دی جس سے ان کی قومی یکجہتی کے جذبے کا واضح طورپر اظہار ہوتاہے اس تقریب کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ اسٹیج پر ان کے ساتھ وزیراعظم میاں نواز شریف اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے علاوہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری بھی براجمان تھے جن کی موجودگی نے اس تقریب کے حسن کو دوبالا کردیا۔ سیاسی بلوغت کا یہ مظاہرہ ملک وقوم کے لیے انتہائی خوش آیند اور لائق تحسین ہے۔ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی تقریب کے اختتام تک وہاں موجود رہے۔
اس تقریب کا ایک اور قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں بعض ایسے سیاستدان بھی شریک ہوئے جنھوںنے اس سے قبل ایوان صدارت میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا۔ ان میں جناب اعجاز الحق اور جناب ممتاز بھٹو شامل ہیں۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ دو سابق وزرائے اعظم جناب یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی تقریب میں موجود تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور حکومت سے تعلق رکھنے والے سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ بھی حلف وفاداری کی اس تقریب میں شریک ہوئے اس موقعے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوںنے کہاکہ یہ امر باعث مسرت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بہت سے رہنما جن میں بعض پرانے حریف بھی شامل ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے جمع ہیں۔
صدر ممنون حسین کا تعلق ایک متمول گھرانے سے ہے۔ وہ 1940میں ہندوستان کے مشہور تاریخی شہر آگرہ میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی میں آکر سکونت پذیر اور تجارت کے شعبے سے وابستہ ہوگیا۔ ممنون حسین نے کراچی کے معروف تعلیمی ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA) سے گریجویشن کیا اور اس اعتبار سے پہلے سندھ کا گورنر بننا اور اس کے بعد ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہونا آئی بی اے کے لیے بھی بہت بڑا اعزاز ہے۔ ملنساری، برد باری، سادگی اور انکساری جناب ممنون حسین کی شخصیت کے لازمی اجزا ہیں جو ان کے خمیر میں شامل ہیں۔ گورنر بننے سے قبل وہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور ملک کی تاجر برادری میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ بڑا عجیب حسن اتفاق ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین دونوں ہی کا تعلق ملک کی تاجر برادری سے ہے۔ اس موقع پر ہمیں فارسی کا یہ مشہور مصرع یاد آرہاہے:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
انگریزی زبان میں اسی مفہوم کو (birds of the same feather flock together) کہہ کر ادا کیاجاسکتاہے۔
صدر ممنون حسین اپنے پیش رو صدر آصف علی زرداری سے کئی اعتبار سے مختلف ہیں ان کا مسند صدارت پر اپنی نشست کو سنبھالنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مزاح گوشاعر کے اسٹیج چھوڑنے کے بعد کسی سنجیدہ گو اور تحت للفظ پڑھنے والے شاعر کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی جائے ان میں اور سابق صدر زرداری میں مزاج کے اعتبار سے زمین وآسمان کا فرق ہے۔ وہ نمود ونمائش اور ظاہر داری سے کوسوں دور ہیں، گھوڑے تو کجا وہ طوطے پالنے کے بھی شوقین نہیں ہیں۔ البتہ علم دوستی اور ذوق سلیم ان کا طرہ امتیاز ہے۔ ہوس اقتدار بھی ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہے اس لیے اگر آئین میں اٹھارہویں ترمیم نہ بھی ہوئی ہوتی تب بھی ایوان صدارت ان کے دور صدارت میں سیاسی اکھاڑہ ہرگز نہ بنتا۔ سیاسی چال بازیاں، قلابازیاں اور میکاولی اور چانکیہ کی عیاریاں اور مکاریاں ان کے صاف ستھرے مزاج کا حصہ کبھی نہیں بن سکتیں۔ وہ ایک ایمان دار اور وضع دار قسم کے انسان ہیں اور تجارت کے شعبے میں اپنی اسی اعلیٰ ساکھ کو انشاء اﷲ ایوان صدارت میں بھی برقرار رکھیںگے۔
ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں تجارت کو ہی نہیں سیاست کو بھی عبادت کا درجہ دیاجاتاہے۔ حب الوطنی ان کے خون اور خمیر میں شامل ہے۔ کسی بھی قسم کی عصبیت، خواہ وہ طبقاتی ہو یا فرقہ وارانہ، ان کی لغت میں ہی شامل نہیں ہے۔ لہٰذا وہ جو کام بھی کریں گے خالص میرٹ کی بنیاد پر ہی کریں گے ۔ اس اعتبار سے ان سے مثبت توقعات ہی وابستہ کی جانی چاہئیں۔ وہ ایسے مسلم لیگی رہنما ہیں جو روز اول سے ہی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے آدرشوں پر عمل پیرا نہیں۔ قائد اعظم نے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کا قیام قطعی آئینی طریقے سے کیا تھا اور وہ بذات خود بھی تادم آخر قواعد اور قوانین کے پابند رہے۔ اپنے قائد کے ایک وفادار پیروکار ہونے کی بنا پر صدر ممنون حسین سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے عہد صدارت میں آئین کا بھرپور احترام کرکے ایک روشن اور آیندہ کے صدور کے لیے ایک قابل تقلید مثال قائم کریں گے اور ان کے دور میں قصر صدارت سے محلاتی سازشوں سمیت تمام سیاسی مکروہات اور بدعات کا خاتمہ ہوگا اور صاف ستھری اور پاکیزہ سیاست کی ایک نئی روایت کا آغاز ہوگا جو شرافت کا دور کہلائے گا۔
صدر زرداری کی رخصتی اور صدر ممنون حسین کی آمد کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ قصر صدارت بے رنگ ہوجائے گا۔ اگر اس بے رنگی سے مراد سازشوں اور ریشہ دوانیوں یا چالوں کے نہ ہونے سے ہے تو بے شک یہ بات بالکل درست ہے بصورت دیگر یہ کہنا درست ہو گا کہ اب ایوان صدارت کا Complexion تبدیل ہوجائیگا اور یہاں اب وہ سرگرمیاں پروان چڑھیں گی جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اور اس مقدس ایوان کے شایان شان ہوں گی۔ ''ہرکہ آمد عمارت نو ساخت'' کے مصداق ایوان صدارت کے نئے مکین اب اپنے انداز اور ذوق کے مطابق اپنے نئے مکان کی تزئین و آرائش کرینگے جس کا آغاز قصر صدارت کے غیر ضروری عملے کی تعداد میں نمایاں تخفیف کے ساتھ ہوچکا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایوان صدارت کوئی مویشی خانہ یا چڑیا گھر نہیں ہے کہ یہاں گھوڑے یا دیگر چرند و پرند پالے جائیں۔ نہ ہی یہ کسی نواب کی جاگیر ہے جہاں خادموں کی ایک فوج ظفر موج کو پالا پوسا جائے۔ اس موقع پر ہمیں سابق صدر غلام اسحق خان یاد آرہے ہیں جنھوں نے ایوان صدارت میں قدم رکھتے ہی فضول اور فالتو اخراجات میں کمی کا آغاز باورچی خانے کے بے جا اخراجات میں کمی کے ساتھ کیا تھا اور اس کہاوت پر حرف بہ حرف عمل کرکے دکھایا تھا کہ Charity begins at home سرکاری خزانہ مال غنیمت نہیں ہے کہ اللے تللے کرکے قوم کی خون پسینے کی کمائی کو عیاشیوں اور فضول خرچیوں کے ذریعے بے تحاشہ لٹایا جائے۔ اس خزانے کی پائی پائی اور کوڑی کوڑی قوم کی امانت ہے اور تمام عہدے داران اس کے امین اور جواب دہ ہیں۔
بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی یہ قیاس آرائی بھی درست نہیں کہ ماضی کے دو صدور کی طرح نئے صدر ممنون حسین بھی گونگے یا بے زبان ہوکر ایوان صدر میں مقیم ہوں گے۔ ان حلقوں کی خدمت میں بصد آداب عرض ہے کہ شطرنجی سیاست کے علاوہ اور بہت کچھ ہے:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
آئینی ذمے داریوں کو کماحقہ ادا کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں جو صدر ممنون حسین ایوان صدر میں انجام دے کر ملک و قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ علم کا فروغ ان میں سرفہرست ہے جس کی جانب وہ اشارہ بھی کرچکے ہیں۔ صدر ممنون کوئی چپ سادھ کر اور ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھنے والے انسان نہیں بلکہ وہ ایک انتہائی فعال اور متحرک قسم کے انسان ہیں معاشرے اور وطن کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ صدارتی امیدوار کے طور پر ابھرنے کے بعد سے ہی وہ اس مختصر سے عرصے میں میڈیا پر آرہے ہیں اور اپنے تاثرات اور اپنی آراء کا معقولیت کے ساتھ برملا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت نہ صرف نہایت کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پوری کرینگے بلکہ اخلاقی اور جمہوری تابندہ روایات کا ایک نیا اور سنہری باب رقم کرینگے۔