32 پارلیمانی سیکرٹریز کا تعین تحریک انصاف مشکلات میں پھنس گئی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے بتیس پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرکے بظاہر تحریک انصاف کے اندر...
RAWALPINDI:
آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں جو فیصلہ ہوا تھا وہ دیر بالا میں ایک میجر جنرل اور ان کے ساتھی فوجی افسروں کی شہادت کی نذر ہوتا نظرآرہا ہے۔
یہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ عسکری قیادت اس واقعہ کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے جبکہ سیاسی قیادت کی جانب سے بھی اس واقعہ کو اہم قراردیاجارہاہے۔ مذکورہ واقعہ کے حوالے سے بعض حلقے یہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ اس واقعہ میں ممکنہ طور پر سوات کا فضل اللہ گروپ ملوث ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل دیر اور چترال میں کیے جانے والے حملوں کوبھی اسی گروپ سے جوڑا جارہاتھا۔
تاہم دیر بالا کے واقعہ میں جو کوئی بھی ملوث ہو اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب امکانات ظاہر کیے جارہے تھے کہ حکومت اور طالبان، دونوں جذبہ خیر سگالی کے تحت قیدی رہا کریں گے تاکہ معاملات بہتر سمت کی جانب بڑھ سکیں۔گومل زام ڈیم سے دو سال قبل اغواء کیے گئے واپڈا اہلکاروں کی رہائی کو بھی اسی نظر سے دیکھاجارہا تھا تاہم اب سارا منظر ہی تبدیل ہوگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے کی گئی مذاکرات کی پیشکش کے تحت طالبان مذاکرات کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر فوجی افسروں کو کیوں مارا گیا؟اور اگر طالبان اس واقعہ میں ملوث نہیں ہیں تو انہوں نے فوری طور پر اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کیوں کی؟ اس سے قبل بھی بعض ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی بلکہ ان کی جانب سے مذکورہ واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا۔
دیر بالا کے واقعہ کے فوراً بعد ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ جو مذاکراتی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا وہ اب شروع ہوپائے گا یا نہیں؟ کیونکہ آرمی چیف نے بھی بڑے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ ''دہشت گردوں کو شرائط اور ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے ''،جو اس بات کا پتا دے رہاہے کہ جو فیصلے ہوئے تھے، ان پر نظر ثانی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یقینی طور پر ایک بڑی کارروائی ہی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کی راہ بڑی مشکل سے ہموار ہوئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب اے این پی کی حکومت نے اپنے دور میں سوات کے طالبان سے مذاکرات شروع کیے تھے اس وقت بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ بھی آیا تھا اور شدید تنقید بھی کی گئی تھی ۔ بین الاقوامی برادری کو ایسے مذاکرات کسی طور پر بھی ہضم نہیں ہوسکتے۔ اب جبکہ ملکی سیاسی وعسکری قیادت نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو اس فیصلہ پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ نہ تو فوجی آپریشن سے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی ساری عمر فوجی آپریشن کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوج جو گزشتہ ایک دہائی سے قبائلی علاقوں میں موجود ہے اسے ایک دم وہاں سے نکالنا بھی مشکلات پیدا کرسکتاہے ۔ فوج کی قبائلی علاقوں سے واپسی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہاں پر امن قائم ہوجائے اور امن اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ طالبان اور مرکزی حکومت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہوجائیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے بتیس پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرکے بظاہر تحریک انصاف کے اندر کسی بھی فارورڈ بلاک کے قیام کی تمام راہیں بند کردی ہیں تاہم اس بندش کے ساتھ ہی پارلیمانی سیکرٹریوں پر بھی کئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کے تحت وہ صوبائی وزراء کی طرز پر اپنے حلقوں کے مسائل اسمبلی میں لاسکتے ہیں نہ ہی انھیں دیگر اراکین اسمبلی کی طرح یہ اجازت حاصل ہوگی کہ وہ پارلیمانی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمانی سیکرٹریز جنھیں بوجوہ تاحال کوئی مراعات بھی نہیں مل سکیں وہ ان پابندیوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔
اب متعدد پارلیمانی سیکرٹریز اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے ہوئے اس شکنجے سے آزادی حاصل کرنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔دوسری طرف بعض پارلیمانی سیکرٹریوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی دیگر آزاد ارکان کی طرز پر کارروائی میں حصہ بھی لیں گے اور اپنے حلقوں کے مسائل بھی اسمبلی کے فورم پر لائیں گے۔ اگر انھیں روکا گیا تو اس صورت میں وہ پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ رکھنے کی بجائے استعفے دینے کو ترجیح دیں گے۔ مذکورہ صورت حال ایسی بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ جس میں حکومت خود مشکلات کا شکار ہورہی ہے۔ کیونکہ اگر حکومت پارلیمانی سیکرٹریوں کو مراعات دیتی ہے تو اس صورت میں دیگر سیاسی جماعتیں اور سوشل میڈیا اس کے پیچھے پڑ جائے گا اور اگر مراعات نہیں دیتی تو خود ان کے پارلیمانی سیکرٹریز بغاوت پر اترآئیں گے۔
تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے درمیان جاری مخاصمت بدستور موجود ہے، اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔ اسی ماحول میں آج ٹانک سے قومی اسمبلی کی نشست پر دونوں جماعتوں میں ٹاکرا ہورہاہے جہاں تحریک انصاف جے یو آئی سے مذکورہ نشست چھین کر اپنی سیاسی برتری ثابت کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صاحبزادے مولانا اسعد محمود کو میدان میں اتارا ہوا ہے وہ بھی اس نشست پر کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ لکی مروت کی نشست پر دھچکا لگنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن ٹانک کی نشست کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتے۔
آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں جو فیصلہ ہوا تھا وہ دیر بالا میں ایک میجر جنرل اور ان کے ساتھی فوجی افسروں کی شہادت کی نذر ہوتا نظرآرہا ہے۔
یہ معمولی واقعہ نہیں ہے۔ عسکری قیادت اس واقعہ کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے جبکہ سیاسی قیادت کی جانب سے بھی اس واقعہ کو اہم قراردیاجارہاہے۔ مذکورہ واقعہ کے حوالے سے بعض حلقے یہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ اس واقعہ میں ممکنہ طور پر سوات کا فضل اللہ گروپ ملوث ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل دیر اور چترال میں کیے جانے والے حملوں کوبھی اسی گروپ سے جوڑا جارہاتھا۔
تاہم دیر بالا کے واقعہ میں جو کوئی بھی ملوث ہو اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب امکانات ظاہر کیے جارہے تھے کہ حکومت اور طالبان، دونوں جذبہ خیر سگالی کے تحت قیدی رہا کریں گے تاکہ معاملات بہتر سمت کی جانب بڑھ سکیں۔گومل زام ڈیم سے دو سال قبل اغواء کیے گئے واپڈا اہلکاروں کی رہائی کو بھی اسی نظر سے دیکھاجارہا تھا تاہم اب سارا منظر ہی تبدیل ہوگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے کی گئی مذاکرات کی پیشکش کے تحت طالبان مذاکرات کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر فوجی افسروں کو کیوں مارا گیا؟اور اگر طالبان اس واقعہ میں ملوث نہیں ہیں تو انہوں نے فوری طور پر اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کیوں کی؟ اس سے قبل بھی بعض ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی بلکہ ان کی جانب سے مذکورہ واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا رہا۔
دیر بالا کے واقعہ کے فوراً بعد ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ جو مذاکراتی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا تھا وہ اب شروع ہوپائے گا یا نہیں؟ کیونکہ آرمی چیف نے بھی بڑے واضح انداز میں کہہ دیا ہے کہ ''دہشت گردوں کو شرائط اور ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے ''،جو اس بات کا پتا دے رہاہے کہ جو فیصلے ہوئے تھے، ان پر نظر ثانی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یقینی طور پر ایک بڑی کارروائی ہی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کی راہ بڑی مشکل سے ہموار ہوئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب اے این پی کی حکومت نے اپنے دور میں سوات کے طالبان سے مذاکرات شروع کیے تھے اس وقت بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ بھی آیا تھا اور شدید تنقید بھی کی گئی تھی ۔ بین الاقوامی برادری کو ایسے مذاکرات کسی طور پر بھی ہضم نہیں ہوسکتے۔ اب جبکہ ملکی سیاسی وعسکری قیادت نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو اس فیصلہ پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ نہ تو فوجی آپریشن سے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی ساری عمر فوجی آپریشن کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فوج جو گزشتہ ایک دہائی سے قبائلی علاقوں میں موجود ہے اسے ایک دم وہاں سے نکالنا بھی مشکلات پیدا کرسکتاہے ۔ فوج کی قبائلی علاقوں سے واپسی صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہاں پر امن قائم ہوجائے اور امن اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ طالبان اور مرکزی حکومت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہوجائیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے بتیس پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر کرکے بظاہر تحریک انصاف کے اندر کسی بھی فارورڈ بلاک کے قیام کی تمام راہیں بند کردی ہیں تاہم اس بندش کے ساتھ ہی پارلیمانی سیکرٹریوں پر بھی کئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن کے تحت وہ صوبائی وزراء کی طرز پر اپنے حلقوں کے مسائل اسمبلی میں لاسکتے ہیں نہ ہی انھیں دیگر اراکین اسمبلی کی طرح یہ اجازت حاصل ہوگی کہ وہ پارلیمانی کارروائی میں حصہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمانی سیکرٹریز جنھیں بوجوہ تاحال کوئی مراعات بھی نہیں مل سکیں وہ ان پابندیوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں۔
اب متعدد پارلیمانی سیکرٹریز اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے ہوئے اس شکنجے سے آزادی حاصل کرنے کے لئے پرتول رہے ہیں۔دوسری طرف بعض پارلیمانی سیکرٹریوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی دیگر آزاد ارکان کی طرز پر کارروائی میں حصہ بھی لیں گے اور اپنے حلقوں کے مسائل بھی اسمبلی کے فورم پر لائیں گے۔ اگر انھیں روکا گیا تو اس صورت میں وہ پارلیمانی سیکرٹری کا عہدہ رکھنے کی بجائے استعفے دینے کو ترجیح دیں گے۔ مذکورہ صورت حال ایسی بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ جس میں حکومت خود مشکلات کا شکار ہورہی ہے۔ کیونکہ اگر حکومت پارلیمانی سیکرٹریوں کو مراعات دیتی ہے تو اس صورت میں دیگر سیاسی جماعتیں اور سوشل میڈیا اس کے پیچھے پڑ جائے گا اور اگر مراعات نہیں دیتی تو خود ان کے پارلیمانی سیکرٹریز بغاوت پر اترآئیں گے۔
تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام(ف)کے درمیان جاری مخاصمت بدستور موجود ہے، اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔ اسی ماحول میں آج ٹانک سے قومی اسمبلی کی نشست پر دونوں جماعتوں میں ٹاکرا ہورہاہے جہاں تحریک انصاف جے یو آئی سے مذکورہ نشست چھین کر اپنی سیاسی برتری ثابت کرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صاحبزادے مولانا اسعد محمود کو میدان میں اتارا ہوا ہے وہ بھی اس نشست پر کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ لکی مروت کی نشست پر دھچکا لگنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن ٹانک کی نشست کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتے۔