پولیس اسٹیٹ
تاریخ میں سیاسی رہنماؤں اوران کے کارکنان کو عجیب و غریب قوانین کے تحت گرفتارکرنے کی ایک داستان موجود ہے۔
عرفان صدیقی بنیادی طور پر استاد ہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد، لاتعداد ہے، عرفان صدیقی راولپنڈی کے سرکاری کالج میں فرائض سر انجام دیتے رہے۔اس لیے ان کے شاگردوں میں اعلیٰ و فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ عرفان صدیقی نے ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری شروع کی ، انھیں اپنی آدرش کی پاسداری کی پاداش میں اڈیالہ جیل کی تیسری کلاس والی بیرک میں مقید ہونا پڑا۔
عرفان صدیقی جماعت اسلامی کے متاثرین میں ہیں، ان کے قریبی عزیز جماعت اسلامی کی ابتدائی قیادت میں شامل تھے، پھر عرفان صدیقی میاں نواز شریف کے مشیروں میں شامل ہوئے، جس کی سزا وہ آج کل بھگت رہے ہیں۔
عرفان صدیقی کو دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت ایک ایسے مقدمے میں شامل کیا گیا جس کا براہ راست ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مقدمے کی ضمانت تھانے میں پیشی پر ہی ہوجاتی ہے لیکن اسلام آباد کی ڈپٹی کمشنر نے جو مجسٹریٹ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں نے عرفان صدیقی سے وہی سلوک کیا جو انگریز راج کا ڈپٹی کمشنر انگریز دور کے مخالفین کے لیے کرتا تھا۔1947ء سے بائیں بازو اور قوم پرست سیاست سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔
انسانی حقوق کے وکلا کا کہنا ہے کہ جب برطانیہ نے 1886میں پولیس کا قانون نافذ کیا تو دفعہ 144اس بنا پر شامل کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر کو اپنے مخالفین کو سزا دینے میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے۔اس دفعہ کے تحت ڈپٹی کمشنرکو دوسرے اختیارات بھی حاصل ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کانگریس،کیمونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ نے انگریزکو ہندوستان سے نکالنے کے لیے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے کسی قسم کی تحریک کا اعلان کیا تو انگریز حکومت نے دفعہ 144 تحت جلسے جلوسوں کو روکنے کی کوشش کی اور سیاسی کارکنوں ، دانشوروں اور ادیبوں کو دفعہ 144کے تحت جیلوں میں قید کر دیا ۔برصغیر میں جب اعلیٰ عدلیہ نے دفعہ 144میں پھنسے لوگوں کی داد رسی کی کوشش کی تو سیکیورٹی ایکٹ اور دوسرے غیر انسانی قوانین کا اطلاق ہونا شروع ہوا، اس وقت کے مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ان سیاہ قوانین کی ہمیشہ مخالفت کی۔ پھر ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پاکستان وجود میں آگیا مگر برطانوی دور کے سیاہ قوانین نافذ رہے ۔
جب بھی سیاسی جماعتوں نے انسانی حقوق ،جموری بالادستی کے لیے آواز اٹھائی تو ان کے خلاف دفعہ 144اور دوسرے سیاہ قوانین حرکت میں لائے جاتے رہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص کے بغیر تمام قومی رہنماؤں کو ان قوانین کے تحت قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔خان غفار خان ، ولی خان ، جی ایم سید ، مولانا مودودی ، میر غوث بخش بزنجو ، مفتی محمود ،مولانا بھاشانی،نصراللہ خان،حبیب جالب،فیض احمد فیض اور بے نظیر بھٹو سمیت ہزاروں افراد کو ان سیاہ قوانین کے تحت اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے روکا گیا۔
تاریخ میں سیاسی رہنماؤں اوران کے کارکنان کو عجیب و غریب قوانین کے تحت گرفتارکرنے کی ایک داستان موجود ہے۔کبھی بکری چوری کے الزام میں پکڑا گیا تو کبھی بھینس چوری کے الزامات لگے اورکبھی بینک لوٹنے کے الزامات کا نشانہ بننا پڑا۔ان سیاہ قوانین کے تحت سیاسی کارکنان کو جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے روکا گیا جس کا اثر پاکستا ن کے عوام پر تو پڑا ہی مگر جمہوری عمل ارتقا پذیر ہونے سے رک گیا۔ ارتقا رکنے کے سب سے زیادہ اثرات بڑے صوبے مشرقی پاکستان پر بڑے جب کہ چھوٹے صوبوں کو اس سے متاثرہونا پڑا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی دوست مہتاب اکبر راشدی کی شادی میں شرکت کی تو دلہن و بے نظیرکی رنگین تصویر کراچی کے ایک اخبار میں شایع ہوئی توکراچی کی انتظامیہ نے اخبارکی تمام کاپیاں ضبط کر لیں اور اخبارکے ایڈیٹر کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا ،مگر عوام نے 1988میں بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔ جب محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو سیاسی کارکنوں کی بالادستی کا دور شروع ہوا، سیاہ قوانین کا دور ختم ہوا، جلسے جلوسوں کی مکمل اجازت دے دی گئی، پھر آنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے اس روایت کو جاری رکھا ، اگرچہ جنرل مشرف غیرآئینی طریقے سے حاکم بنے لیکن انھوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ بلوچستان کے علاوہ پورے ملک میں سیاسی جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت تھی۔
2008 میں آصف زرداری ملک کے صدر بنے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو سیاسی فضا مکمل طور پر آزاد رہی ۔ عمران خان نے اسی دور میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کا ذکر شروع کیا۔ تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا مگر تحریک انصاف یا کسی دوسری جماعت کے کسی رہنما کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔ یہی صورتحال میاں نواز شریف کے دور میں رہی جب تحریک انصاف نے ڈی چوک پر چھ ماہ دھرنا دیا ،سپریم کورٹ اور پی ٹی وی کے ہیڈکواٹر پر حملے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مقدمات بنائے گئے مگرکبھی کوئی رہنما گرفتار نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آتے ہی انگریز حکومت کی یاد تازہ ہوگئی۔اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہونے لگیں، سیاسی رہنماؤں پر اسی قسم کے مقدمات درج ہونے لگے جیسے ایوب خان دور میں ہوا کرتے تھے۔ایوب خان کے دور میں جب سیاسی رہنماؤں کوگرفتار کیا جاتا تو اس وقت وہی موقف اختیار کیا جاتا جوآج اختیار کیا جارہا ہے۔
عرفان صدیقی کی گرفتاری کے بعد وزیرداخلہ اعجاز شاہ کا بیان سب سے زیادہ مضحکہ خیز ہے، وہ اس گرفتاری کا الزام ن لیگ پر لگا رہے ہیں ۔ عرفان صدیقی سے نظریاتی طورپر تو اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی گرفتاری سے یوں محسو س ہو رہا ہے کہ جیسے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ہٹلر کی پولیس اسٹیٹ میں سیاسی مخالفین کے لیے جیلوں کے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں ہوتی تھی مگر ہٹلرکا ذکر تاریخ میں کن الفاظ سے کیا جاتا ہے، یہ بات زیادہ اہم ہے۔
تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ استاد اور صحافی عرفان صدیقی اس امتحان میں سرخرو ہوئے مگر ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے والوں کے ساتھ تاریخ کیا سلوک کرے گی، ان کے ساتھ بھی یقینا تاریخ وہی سلوک کرے گی جو ایوب دور میں احکامات جاری کرنے والوں کے ساتھ کیا ہے۔ عرفان صدیقی چوبیس گھنٹے اڈیالہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو چکے ہیں مگر ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا لیکن جن لوگوں نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کیا، ان کے ساتھ تاریخ کیا سلوک کرتی ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
عرفان صدیقی جماعت اسلامی کے متاثرین میں ہیں، ان کے قریبی عزیز جماعت اسلامی کی ابتدائی قیادت میں شامل تھے، پھر عرفان صدیقی میاں نواز شریف کے مشیروں میں شامل ہوئے، جس کی سزا وہ آج کل بھگت رہے ہیں۔
عرفان صدیقی کو دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت ایک ایسے مقدمے میں شامل کیا گیا جس کا براہ راست ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مقدمے کی ضمانت تھانے میں پیشی پر ہی ہوجاتی ہے لیکن اسلام آباد کی ڈپٹی کمشنر نے جو مجسٹریٹ کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں نے عرفان صدیقی سے وہی سلوک کیا جو انگریز راج کا ڈپٹی کمشنر انگریز دور کے مخالفین کے لیے کرتا تھا۔1947ء سے بائیں بازو اور قوم پرست سیاست سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔
انسانی حقوق کے وکلا کا کہنا ہے کہ جب برطانیہ نے 1886میں پولیس کا قانون نافذ کیا تو دفعہ 144اس بنا پر شامل کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر کو اپنے مخالفین کو سزا دینے میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے۔اس دفعہ کے تحت ڈپٹی کمشنرکو دوسرے اختیارات بھی حاصل ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کانگریس،کیمونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ نے انگریزکو ہندوستان سے نکالنے کے لیے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے کسی قسم کی تحریک کا اعلان کیا تو انگریز حکومت نے دفعہ 144 تحت جلسے جلوسوں کو روکنے کی کوشش کی اور سیاسی کارکنوں ، دانشوروں اور ادیبوں کو دفعہ 144کے تحت جیلوں میں قید کر دیا ۔برصغیر میں جب اعلیٰ عدلیہ نے دفعہ 144میں پھنسے لوگوں کی داد رسی کی کوشش کی تو سیکیورٹی ایکٹ اور دوسرے غیر انسانی قوانین کا اطلاق ہونا شروع ہوا، اس وقت کے مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ان سیاہ قوانین کی ہمیشہ مخالفت کی۔ پھر ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پاکستان وجود میں آگیا مگر برطانوی دور کے سیاہ قوانین نافذ رہے ۔
جب بھی سیاسی جماعتوں نے انسانی حقوق ،جموری بالادستی کے لیے آواز اٹھائی تو ان کے خلاف دفعہ 144اور دوسرے سیاہ قوانین حرکت میں لائے جاتے رہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص کے بغیر تمام قومی رہنماؤں کو ان قوانین کے تحت قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔خان غفار خان ، ولی خان ، جی ایم سید ، مولانا مودودی ، میر غوث بخش بزنجو ، مفتی محمود ،مولانا بھاشانی،نصراللہ خان،حبیب جالب،فیض احمد فیض اور بے نظیر بھٹو سمیت ہزاروں افراد کو ان سیاہ قوانین کے تحت اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے روکا گیا۔
تاریخ میں سیاسی رہنماؤں اوران کے کارکنان کو عجیب و غریب قوانین کے تحت گرفتارکرنے کی ایک داستان موجود ہے۔کبھی بکری چوری کے الزام میں پکڑا گیا تو کبھی بھینس چوری کے الزامات لگے اورکبھی بینک لوٹنے کے الزامات کا نشانہ بننا پڑا۔ان سیاہ قوانین کے تحت سیاسی کارکنان کو جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے روکا گیا جس کا اثر پاکستا ن کے عوام پر تو پڑا ہی مگر جمہوری عمل ارتقا پذیر ہونے سے رک گیا۔ ارتقا رکنے کے سب سے زیادہ اثرات بڑے صوبے مشرقی پاکستان پر بڑے جب کہ چھوٹے صوبوں کو اس سے متاثرہونا پڑا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی دوست مہتاب اکبر راشدی کی شادی میں شرکت کی تو دلہن و بے نظیرکی رنگین تصویر کراچی کے ایک اخبار میں شایع ہوئی توکراچی کی انتظامیہ نے اخبارکی تمام کاپیاں ضبط کر لیں اور اخبارکے ایڈیٹر کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا ،مگر عوام نے 1988میں بے نظیر کے حق میں فیصلہ دیا۔ جب محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو سیاسی کارکنوں کی بالادستی کا دور شروع ہوا، سیاہ قوانین کا دور ختم ہوا، جلسے جلوسوں کی مکمل اجازت دے دی گئی، پھر آنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے اس روایت کو جاری رکھا ، اگرچہ جنرل مشرف غیرآئینی طریقے سے حاکم بنے لیکن انھوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ بلوچستان کے علاوہ پورے ملک میں سیاسی جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت تھی۔
2008 میں آصف زرداری ملک کے صدر بنے اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو سیاسی فضا مکمل طور پر آزاد رہی ۔ عمران خان نے اسی دور میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کرپشن کا ذکر شروع کیا۔ تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا مگر تحریک انصاف یا کسی دوسری جماعت کے کسی رہنما کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا۔ یہی صورتحال میاں نواز شریف کے دور میں رہی جب تحریک انصاف نے ڈی چوک پر چھ ماہ دھرنا دیا ،سپریم کورٹ اور پی ٹی وی کے ہیڈکواٹر پر حملے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں پر مقدمات بنائے گئے مگرکبھی کوئی رہنما گرفتار نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آتے ہی انگریز حکومت کی یاد تازہ ہوگئی۔اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہونے لگیں، سیاسی رہنماؤں پر اسی قسم کے مقدمات درج ہونے لگے جیسے ایوب خان دور میں ہوا کرتے تھے۔ایوب خان کے دور میں جب سیاسی رہنماؤں کوگرفتار کیا جاتا تو اس وقت وہی موقف اختیار کیا جاتا جوآج اختیار کیا جارہا ہے۔
عرفان صدیقی کی گرفتاری کے بعد وزیرداخلہ اعجاز شاہ کا بیان سب سے زیادہ مضحکہ خیز ہے، وہ اس گرفتاری کا الزام ن لیگ پر لگا رہے ہیں ۔ عرفان صدیقی سے نظریاتی طورپر تو اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کی گرفتاری سے یوں محسو س ہو رہا ہے کہ جیسے ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ہٹلر کی پولیس اسٹیٹ میں سیاسی مخالفین کے لیے جیلوں کے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں ہوتی تھی مگر ہٹلرکا ذکر تاریخ میں کن الفاظ سے کیا جاتا ہے، یہ بات زیادہ اہم ہے۔
تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کو یہ سوچنا چاہیے کہ استاد اور صحافی عرفان صدیقی اس امتحان میں سرخرو ہوئے مگر ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے والوں کے ساتھ تاریخ کیا سلوک کرے گی، ان کے ساتھ بھی یقینا تاریخ وہی سلوک کرے گی جو ایوب دور میں احکامات جاری کرنے والوں کے ساتھ کیا ہے۔ عرفان صدیقی چوبیس گھنٹے اڈیالہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو چکے ہیں مگر ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا لیکن جن لوگوں نے ان کی گرفتاری کا حکم جاری کیا، ان کے ساتھ تاریخ کیا سلوک کرتی ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔