احتساب اور انتقام میں فرق کی ضرورت
انا اور خود داری کی سارے دعوے دوسروں کی غلامی ، کاسہ لیسی اور درویزہ گری میں بدل گئے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ 22 سال سے وہ کرپٹ عناصر کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور یہ خواہش کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک موقعہ دے اور وہ چوروں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکیں۔ اب اللہ نے انھیں یہ موقعہ عنایت فرمایا ہے تو وہ اب کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔
چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کسی کڑے اور بلا امتیاز احتساب کے وہ کتنے قائل ہیں یہ تو ہم سب اُن کے اِس ایک سالہ دور میں جان چکے ہیں، جو چور اور ڈاکو اُن کی سیاسی پارٹی میں جائے پناہ لے لے وہ ہر قسم کے احتساب سے بچ جاتا ہے اور جو نہیں آتا وہ اُن کے اِس نام نہاد احتساب کی زد میں آ جاتا ہے۔
خان صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اوراِس ملک کے عوام نے انھیں یہ موقعہ ہرگز عنایت نہیں فرمایا ہے ۔ یہ توکوئی اور ہی قوت ہے جس نے 2011ء سے اُن پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ورنہ اِس سے پہلے وہ اِس ملک کے شہروں ، قصبوں اور بیابانوں میں کس طرح مارے مارے پھر رہے تو اور کوئی اُن کا ہاتھ پکڑنے والا تک نہیں تھا۔عوام الناس نے تو انھیں صرف ایک دو سیٹ سے زیادہ لائق اعتبار و اعتماد نہیں سمجھا تھا۔1996ء میں میدان سیاست میں داخل ہوتے ہوئے وہ جس مشن اور تبدیلی نظام کی باتیں کیا کرتے تھے رفتہ رفتہ وہ سب انھوں نے پس پشت ہی ڈال دیا۔ تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے کی ساری باتیں عہد گم گشتہ میں کہیں کھوکر رہ گئیں۔
انا اور خود داری کی سارے دعوے دوسروں کی غلامی ، کاسہ لیسی اور درویزہ گری میں بدل گئے۔ صاف اور شفاف سیاست کی بھی ساری کہانیاں محض لن ترانیاں ہی ثابت ہوتی گئیں۔ انتخابات میں الیکٹیبلزکے نام پر ہر اُس چور اور ڈاکوکو گلے لگا لیا جس میں طاقت اوردولت کے بل بوتے پر اپنے علاقے میں عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی تھوڑی سے بھی صلاحیت موجود ہو۔ لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ جیسے بد نام زمانہ طریق کار کو بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنا کر پہلے قومی اور پھر پنجاب اسمبلی میں جعلی اور جھوٹی اکثریت بھی بنا لی۔ اِس مقصد کے لیے اپنی سب سے بڑی مالی امداد فراہم کرنے والی ATM مشین کو جسے اِس ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے نا اہل قرار دیکر انتخابی سیاست سے باہرکر دیا تھا ، استعمال کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ۔ مخالفوں کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال شروع کر کے وہ سمجھ رہے ہیں کہ اِس طرح وہ اپنے اقتدارکو طول دے سکیں گے۔
حالانکہ انھیں پتہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنی صلاحیت ، طاقت اور قوت بازوکے بل بوتے پر ہرگزنہیں کر رہے ہیں ۔ یہ توکوئی اور ہی ہے جس نے آج اعلیٰ عدلیہ ، نیب اور ایف آئی اے سمیت ملک کے ہر ادارے کو اپنی مرضی و منشاء کے تابع کیا ہوا ہے۔ ورنہ کیا مجال تھی خان صاحب اکیلے یہ سب کچھ کر سکتے۔ خان صاحب آج میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کے بہت بڑے دشمن بنے ہوئے ہیں ، جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 2011ء تک وہ میاں نواز شریف کے کیسے ہم خیال اور ہم نوا بنے ہوئے تھے۔ 2008ء میں تو وہ اُس اتحاد کا حصہ بھی رہے تھے جس نے پرویز مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد و پیمان کیاہوا تھا۔ اِس لیے اُن کا یہ کہنا قطعی طور پر درست نہیں ہے کہ وہ گزشتہ 22 سالوں سے اِس دن کا انتظار کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک موقعہ دے اور وہ چوروں اور ڈاکوؤں کا سخت اور کڑا احتساب کرسکیں۔
کہنے کو تو وہ متحدہ قومی موؤمنٹ اور مسلم لیگ (ق) کے بارے میں نجانے کیا کچھ کہہ چکے تھے لیکن حالات کی گردشوں اور مصلحت کی ناہمواریوں نے آج انھیں اِن دونوں جماعتوں سے اتحاد کرنے پر بے بس اور مجبورکردیا ہے۔ قدرت کاکرشمہ دیکھیے جس ایم کیوایم کے لوگوں کو وہ اپنے ساتھ بٹھانے پر راضی و رضا مند نہ تھے آج اُن سے بڑھ کرکوئی اور نفیس سیاستداں انھیں دکھائی ہی نہیں دے رہا ۔ اِس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کو اتنی بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے دعوے ہرگز نہیں کرنے چاہیئیں۔ پتہ نہیں کون سے گھڑی انھیں کتنا گرنے اورگڑگڑانے پر مجبور کردے۔خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج جس زعم اور غروروتکبر کے ساتھ اپنے مخالفوں کو لتاڑ رہے ہیں اور احتساب کے نام پر جس انتقام کا بازار گرم کررہے ہیں ہوسکتا ہے وہ زیادہ دن نہیں چل پائے اور حالات اچانک پلٹا کھا لیں۔
یہ درست ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے لوگ چوروں اور ڈاکوؤں کا احتساب چاہتے ہیں لیکن ایسا احتساب نہیں جس میں اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو چھوڑ دیا جائے اور صرف مخالفوں کی صفوں پرکاری ضرب لگایا جائے۔ ہمارے لوگ اِس حکومت کے عزم کی پختگی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ محاسبہ اندھا، گونگا اور بہرہ ہو۔ اِس میں کسی دوست اور دشمن میں کوئی فرق برتا نہیں گیا ہو۔کوئی کرپٹ شخص اپنے تعلق، قد و قامت اور شجرہ نسب کی وجہ سے بچ کر نہ نکلے۔ تبھی جا کر کڑے اور بے لاگ احتساب کی یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی۔ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی شخص کوبلاتحقیق و تصدیق راہ چلتے اُٹھا لیا جائے اور نوے دنوں تک نیب کی قید میںبند رکھ کر اُس کی عزت و عظمت کو داغ دار کردیا جائے۔اگر کسی نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو بے شک اُسے سزا دلوائیں۔ لیکن کسی پر جھوٹے الزامات لگا اور زبردستی بند کرکے بلاوجہ کڑے احتساب کا ڈھونگ نہیں رچایاجائے۔ نیب کے زیر تفتیش ابھی تک جتنے مقدمات ہیں اُن میں کسی ایک کیس میں بھی کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے ثبوت نہیں مل سکے۔
یہی وجہ ہے کہ جب یہ مقدمات احتساب عدالت کے روبرو لائے جاتے ہیں توکسی کو بھی لائق سزا نہیں گردانا جاتا۔ حکومت ابھی تک نیب کے ذریعے صرف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت لوگوں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور اِسی بنیاد پروہ انھیں بلاوجہ گرفتار بھی کیے ہوئے ہے۔ الزامات کی صحت وصداقت کا انحصار تو عدلیہ پر ہے۔ اِس لیے انھیں ابھی سے چور یا ڈاکو کہہ کر اُن تضحیک و تذلیل کرنا کسی طور درست طرز عمل نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ ہوں یا سابق وزیر اعظم شاہد خاقاں عباسی یا پھر جناب سعد رفیق کسی پر بھی ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے اور حکومت انھیں کئی ماہ سے اُن کے جائز انسانی حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے۔
حالات اور واقعات کبھی یکساں نہیں رہتے۔آج آپ کوکسی کی سر پرستی حاصل ہے اور آپ اُس کی شہ پر غراتے اور للکارتے پھر رہے ہیں۔ یہ صورتحال زیادہ دنوں تک نہیں رہنے والی۔ ویسے بھی آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا اقتدار کسی کا مرہون منت ہے۔ جنہوں نے یہ اختیار و اقتدار نوازا ہے وہ اُسے واپس لینا بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
لوگوں کو زبردستی بند کر کے ، صحافت اورالیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں لگا کر اور اپنے حق میں یکطرفہ جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے آپ کچھ دن خیروخوبی سے گزار تو سکتے ہیں لیکن یاد رکھیے تکبرورعونت کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔دنیا میں آپ سے پہلے بھی بہت سے ڈکٹیٹر پیدا ہوتے رہے۔ سب کو عارضی اور جز وقتی کامیابی بھی نصیب ہوتی رہی ، لیکن بالآخر اُن کا انجام بھی انتہائی عبرت ناک اور بھیانک ہی رہا ہے۔
اقتدار اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی گئی آزمائشوں میں سے ایک بہت بڑی آزمائش ہوا کرتا ہے۔اِسے اپنی قابلیت، کامیابی یا خوش قسمتی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوارنے اور بگاڑنے کا بہت بڑا ذریعہ بنتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ اِس کے نشے میں اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں یا باقی ڈکٹیٹروں اور آمروں کی طرح اقتدار واختیارات کی قاہرانہ قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گور رسوائی کے تاریک اندھیروں میں خود کو لاکھڑا کرتے ہیں۔