کوئٹہ میں اپوزیشن کے جلسے سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ
صوبے کی سیاست یہاں کچھ مختلف ہے کیونکہ اپوزیشن بنچوں پر جے یو آئی کے علاوہ بی این پی بیٹھی ہے۔
چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد بلوچستان کی سیاست میں بھی تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے۔
یکم اگست کو تحریک کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں بلوچستان کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔25 جولائی کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ عام اور اس کے بعد28 جولائی کو جمعیت علماء اسلام کے ملین مارچ نے سیاسی رخ کو تبدیل کردیا ہے۔
بعض سیاسی حلقے25 جولائی کے کوئٹہ میں منعقد ہونے والے جلسے کو اُس طرح سے کامیاب قرار نہیں دیتے جس طرح سے تمام اپوزیشن جماعتیں اکٹھی تھیں اور عوامی طاقت کا مظاہرہ ہونا چاہیے تھا، تاہم ان جماعتوں کی جانب سے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اُس نے اس جلسے کو ناکام بنانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اور رکاوٹیں ڈالیں ۔
دوسری جانب اسی روز بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے جلسے کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جلسے کا رنگ دے کر ایک شمولیتی پروگرام کا انعقاد کرایا جس سے وزیراعلیٰ جام کمال نے خطاب کیا، جبکہ 25جولائی کے اپوزیشن جماعتوں کے جلسے سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین اور دیگر نے خطاب کیا۔
تاہم جمعیت علماء اسلام کے ملین مارچ نے کوئٹہ کی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے اور اس عوامی طاقت کے مظاہرے نے جمعیت علماء اسلام بلوچستان میں ایک نئی جان ڈال دی ہے، جے یو آئی کے ملین مارچ سے مولانا فضل الرحمان، مولانا عبدالغفور حیدری،اکرم درانی، مولانا عبدالواسع، مولانا عطاء الرحمان اور دیگر نے خطاب کیا۔ سیاسی حلقے اس ملین مارچ کو صوبے کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا عوامی اجتماع قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس ملین مارچ نے کئی سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بیرونی ایجنٹوں اور جعلی حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا چکے ہیں اور اب ہم جعلی حکمرانوں کو گھروں تک پہنچا کر دم لیں گے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں موجودہ حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کو افغانستان نہ بناؤ ۔ اگر پھر بھی تم بضد ہو تو آؤ دو دو ہاتھ کر لیتے ہیں ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں جعلی وزیراعظم کے جلسے میں60 فیصد قادیانی تھے اور اس جلسے کا انتظام قادیانیوں نے ہی کیا تھا اب تحریک چل پڑی ہے ہمیں آگے جانا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت کو مہلت دے رہے ہیں کہ وہ استعفے دے دے اگر اُس نے استعفیٰ نہ دیا اور نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا تو اکتوبر میں ہم اسلام آباد میں آزادی مارچ کریں گے اور اس حکومت کو عوام کی طاقت سے گرائیں گے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی مرتب ہونگے اور یہاں کے سیاسی ماحول میں بھی تبدیلی کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے حکومت کی پہلی کوشش تو یہ ہوگی کہ اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا جائے کیونکہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد اس کے اثرات مرکز اور دو صوبوںکی حکومتوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں اسی لئے مرکز میں تحریک انصاف حکومت اور بلوچستان کی برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اس تحریک کو ناکام بنانے کیلئے سرگرم ہے جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے بعض سینیٹرز سے رابطے بھی کئے جا رہے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ خفیہ رائے شماری میں یہ سینیٹرز اپنا کام دکھا دیں ۔
اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پھر بقول جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع کہ ''اگلا ہدف بلوچستان کی جام حکومت ہوگی''؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے بڑے سافٹ ٹارگٹ منتخب کر رکھے ہیں، ان تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اگلے ہدف میں پنجاب یا بلوچستان کی حکومتوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں، بلوچستان میں پہلے سے ہی جام حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔
صوبے کی سیاست یہاں کچھ مختلف ہے کیونکہ اپوزیشن بنچوں پر جے یو آئی کے علاوہ بی این پی بیٹھی ہے، بی این پی مرکز میں آزاد بنچوں پر بیٹھ کر تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کر رہی ہے، بلوچستان میں وہ جے یو آئی کی اتحادی جماعت ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہے اور بلوچستان میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت ہے جس نے25 جولائی کے یوم سیاہ اور اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ عام میں بھرپور شرکت کی۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یکم اگست کو چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک کی کامیابی کی صورت میں نزلہ بلوچستان میں اے این پی پر بھی گر سکتا ہے ۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں جام حکومت کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اندرون خانہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے تاہم بلوچستان کی تبدیل ہوتی ہوئی سیاست کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا اس لئے بھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ تمام سیاست کا دارومدار اب یکم اگست کے سینٹ کے نتیجے پر منحصر ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں سینٹ میں میر صادق سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو صادق سنجرانی کو مرکز یا پھر بلوچستان میں کوئی ایک اہم ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے جس پر بعض کرتا دھرتا سر جوڑ کر غور وخوض کر رہے ہیں اور آنے والے دن ملکی و صوبائی سیاسی صورتحال میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں ۔
یکم اگست کو تحریک کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں بلوچستان کی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔25 جولائی کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ عام اور اس کے بعد28 جولائی کو جمعیت علماء اسلام کے ملین مارچ نے سیاسی رخ کو تبدیل کردیا ہے۔
بعض سیاسی حلقے25 جولائی کے کوئٹہ میں منعقد ہونے والے جلسے کو اُس طرح سے کامیاب قرار نہیں دیتے جس طرح سے تمام اپوزیشن جماعتیں اکٹھی تھیں اور عوامی طاقت کا مظاہرہ ہونا چاہیے تھا، تاہم ان جماعتوں کی جانب سے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اُس نے اس جلسے کو ناکام بنانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اور رکاوٹیں ڈالیں ۔
دوسری جانب اسی روز بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے جلسے کو کاؤنٹر کرنے کیلئے جلسے کا رنگ دے کر ایک شمولیتی پروگرام کا انعقاد کرایا جس سے وزیراعلیٰ جام کمال نے خطاب کیا، جبکہ 25جولائی کے اپوزیشن جماعتوں کے جلسے سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین اور دیگر نے خطاب کیا۔
تاہم جمعیت علماء اسلام کے ملین مارچ نے کوئٹہ کی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے اور اس عوامی طاقت کے مظاہرے نے جمعیت علماء اسلام بلوچستان میں ایک نئی جان ڈال دی ہے، جے یو آئی کے ملین مارچ سے مولانا فضل الرحمان، مولانا عبدالغفور حیدری،اکرم درانی، مولانا عبدالواسع، مولانا عطاء الرحمان اور دیگر نے خطاب کیا۔ سیاسی حلقے اس ملین مارچ کو صوبے کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا عوامی اجتماع قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس ملین مارچ نے کئی سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم بیرونی ایجنٹوں اور جعلی حکومت کے خلاف طبل جنگ بجا چکے ہیں اور اب ہم جعلی حکمرانوں کو گھروں تک پہنچا کر دم لیں گے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں موجودہ حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان کو افغانستان نہ بناؤ ۔ اگر پھر بھی تم بضد ہو تو آؤ دو دو ہاتھ کر لیتے ہیں ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں جعلی وزیراعظم کے جلسے میں60 فیصد قادیانی تھے اور اس جلسے کا انتظام قادیانیوں نے ہی کیا تھا اب تحریک چل پڑی ہے ہمیں آگے جانا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت کو مہلت دے رہے ہیں کہ وہ استعفے دے دے اگر اُس نے استعفیٰ نہ دیا اور نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا تو اکتوبر میں ہم اسلام آباد میں آزادی مارچ کریں گے اور اس حکومت کو عوام کی طاقت سے گرائیں گے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی مرتب ہونگے اور یہاں کے سیاسی ماحول میں بھی تبدیلی کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے حکومت کی پہلی کوشش تو یہ ہوگی کہ اس تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا جائے کیونکہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد اس کے اثرات مرکز اور دو صوبوںکی حکومتوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں اسی لئے مرکز میں تحریک انصاف حکومت اور بلوچستان کی برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اس تحریک کو ناکام بنانے کیلئے سرگرم ہے جس کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے بعض سینیٹرز سے رابطے بھی کئے جا رہے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ خفیہ رائے شماری میں یہ سینیٹرز اپنا کام دکھا دیں ۔
اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پھر بقول جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر و رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع کہ ''اگلا ہدف بلوچستان کی جام حکومت ہوگی''؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے بڑے سافٹ ٹارگٹ منتخب کر رکھے ہیں، ان تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اگلے ہدف میں پنجاب یا بلوچستان کی حکومتوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں، بلوچستان میں پہلے سے ہی جام حکومت کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔
صوبے کی سیاست یہاں کچھ مختلف ہے کیونکہ اپوزیشن بنچوں پر جے یو آئی کے علاوہ بی این پی بیٹھی ہے، بی این پی مرکز میں آزاد بنچوں پر بیٹھ کر تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کر رہی ہے، بلوچستان میں وہ جے یو آئی کی اتحادی جماعت ہے۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہے اور بلوچستان میں وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت ہے جس نے25 جولائی کے یوم سیاہ اور اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ عام میں بھرپور شرکت کی۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یکم اگست کو چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک کی کامیابی کی صورت میں نزلہ بلوچستان میں اے این پی پر بھی گر سکتا ہے ۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں جام حکومت کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اندرون خانہ اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے تاہم بلوچستان کی تبدیل ہوتی ہوئی سیاست کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا اس لئے بھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ تمام سیاست کا دارومدار اب یکم اگست کے سینٹ کے نتیجے پر منحصر ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں سینٹ میں میر صادق سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو صادق سنجرانی کو مرکز یا پھر بلوچستان میں کوئی ایک اہم ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے جس پر بعض کرتا دھرتا سر جوڑ کر غور وخوض کر رہے ہیں اور آنے والے دن ملکی و صوبائی سیاسی صورتحال میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں ۔