اپوزیشن کی طرف سے یوم سیاہ اور ملین مارچ کے جلسوں کا انعقاد
قبائلی اضلاع کے انتخابات تو ہو چکے لیکن معاملات اب تک واضح نہیں ہو پائے۔
LAHORE ':
بلاشبہ25 جولائی کا دن اپوزیشن کا دن تھا کیونکہ اس روز پشاور سے کوئٹہ اور کراچی تک اپوزیشن جماعتیں گزشتہ سال کے عام انتخابات کے نتائج اور موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اپنی صف بندی اس طریقے سے کی تھی کہ ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اپوزیشن قائدین میدان گرمانے کے لیے موجود رہے ، پشاورمیں یہ فریضہ مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور آفتاب شیرپاؤ کے حوالے کیا گیا جن کی سپورٹ کے لیے احسن اقبال، نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر بھی موجود رہے۔
گیارہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر یوم سیاہ منانے اور جلسہ کرنے کے حوالے سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ غیر معمولی رش ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوسکا البتہ جلسہ اچھا خاصا ہوا اور اپوزیشن قائدین نے پشاورکو گرمائے رکھا، تاہم اپوزیشن کے یوم سیاہ کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام(ف)کا ملین مارچ متاثر کن رہا اور مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں میدان میں نکلے جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن بڑا شو کرنے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ یہ کوشش کی گئی کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ طور پر یوم سیاہ منائیں اور اس اجتماع کو ملین مارچ کا نام دیا جائے تاہم اپوزیشن جماعتیں جے یوآئی کی اس تجویز سے متفق نہیں تھیں جس کی وجہ سے ایک ہی دن پشاور میں دو اجتماعات کا انعقاد کیا گیا، توقع یہ کی جا رہی تھی کہ ایک ہی دن میں دو بڑے اجتماعات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا اور پارٹی ورکرز شدید گرمی کے اس موسم میں دو اجتماعات کے لیے نہیں نکل پائیں گے تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی نے اس سلسلے میں جو حکمت عملی اپنائی اس کے تحت انہوں نے اپنے ورکر یوم سیاہ جلسے کے لیے تو ضرور بھیجے لیکن اپنی اصل فورس ملین مارچ کے لیے ریزرو میں رکھی جس نے ملین مارچ میں شرکت سے سماں باندھ دیا جس سے مولانا فضل الرحمٰن یہ پیغام دینے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ٹھہرے کہ وہ عوامی طاقت بھی رکھتے ہیں اور جب چاہیں بڑا مجمع بھی لگا سکتے ہیں جو اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مستقبل میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کی سوچ کیے ہوئے ہیں جس کے لیے انھیں یہی سٹریٹ پاور اور سیاسی ورکردرکار ہونگے۔
قبائلی اضلاع کے انتخابات تو ہو چکے لیکن معاملات اب تک واضح نہیں ہو پائے کیونکہ مختلف حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور جیتے ہوئے امیدواروں کے ہارنے اور ہارے ہوؤں کے جیتنے کا سلسلہ چل رہا ہے جس کی وجہ سے تاحال کامیاب امیدواروں کی کامیابی کا سرکاری اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا جا سکا نہ ہی پانچ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا کوئی فارمولا بن سکا ہے، قبائلی اضلاع سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان کے حوالے سے الگ دوڑ لگی ہوئی ہے، خیبر سے منتخب آزاد رکن شفیق آفریدی کے بعد اورکزئی سے منتخب رکن غزن جمال بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں جن کے ساتھ ان کے والد ڈاکٹر جی جی جمال بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں کابینہ کا حصہ ہوا کرتے تھے، پی ٹی آئی میں دو آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مزید آزاد ارکان کے ساتھ بھی پی ٹی آئی قیادت رابطوں میں ہے کیونکہ زیادہ آزاد ارکان کی شمولیت سے نہ صرف پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کر لے گی بلکہ اسے خواتین واقلیتی مخصوص نشستوں میں بھی فائدہ ہوگا۔
اگرچہ آزاد ارکان جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں اور سابق پارلیمنٹرین شاہ جی گل آفریدی کے صاحبزادے اور بھتیجے نے پی ٹی آئی حکومت کے وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی کے بعد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کی ہے جس سے تاحال ان کی سمت کا معلوم نہیں پڑ رہا کہ وہ حکومت کی طرف آئیں گے یا اپوزیشن کی طرف؟ تاہم شاہ جی گل آفریدی جو بھی فیصلہ کرینگے وہ 2021ء کے سینٹ انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے ہی کریں گے تاکہ دو سال بعد سینٹ انتخابات میں فائدہ لیا جا سکے کیونکہ اب قبائلی اضلاع کے لیے الگ سے سینیٹرز کا انتخاب نہیں کیا جائے گا بلکہ قبائلی اضلاع صوبہ کا حصہ ہونے کے باعث صوبہ کے کوٹے ہی میں منتخب ہونگے جس کی وجہ سے دوررس نگاہوں کے مالک سیاسی لوگ اب سے دو سال بعد کے حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں،آزاد ارکان کے حوالے سے امکان یہی لگ رہا ہے کہ ممکنہ طور پر مزید ایک یا دو آذاد ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں گے جس سے پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہو جائے گا جس کا فائدہ وہ اسمبلی کے اندراور باہر دونوں جگہوں پر لے گی ۔
اور چونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی تعداد124سے بڑھ کر145ہوگئی ہے اس لیے صوبائی کابینہ کا حجم بھی اب بڑھ جائے گا، اٹھارویں ترمیم کے بعد خیبرپختونخوا کابینہ ارکان کی تعداد بشمول وزیراعلیٰ15سے زائد نہیں ہو سکتی تاہم اب چونکہ اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھ گئی ہے اس لیے گیارہ فیصد کے حساب سے مزید دو وزراء کی شمولیت کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے، چونکہ صوبائی کابینہ اس وقت 14ارکان پر مشتمل ہے اس لیے کابینہ میں مزید تین وزراء کو شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے اور تین میں سے کم ازکم دو وزراء قبائلی اضلاع سے لیے جائیں گے جس کے ساتھ حکومت کے پاس دو مشیر اور معاونین خصوصی لینے کی گنجائش بھی موجود ہے اس لیے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان کو حکومتی ٹیم بننے کا موقع ملے گا جس کے ساتھ ہی دیر سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ارکان کی قسمت بھی کھل سکتی ہے اور ان میں سے بھی کسی ایک کو صوبائی کابینہ یا حکومتی ٹیم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی حکومتی ٹیم میں ردوبدل کی بھی باتیں سننے میں آرہی ہیں ۔
صوبائی حکومتی ٹیم میں ردوبدل کے حوالے سے جو بازگشت سنائی دے رہی ہے اس میںبعض بڑے اور اہم نام بھی شامل ہیں جنھیں یا تو کابینہ سے باہر کی راہ دکھائی جا سکتی ہے یا پھر ان کے قلمدان تبدیل کیے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ ارکان میں بہرکیف تشویش پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کچھ نئے چہرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک یا دو خواتین ارکان بھی شامل ہو سکتی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین ارکان کابینہ یا حکومتی ٹیم کا حصہ نہ بنائے جانے کی وجہ سے پارٹی سے ناراض ہیں جس کااظہار وہ پارٹی اجلاسوں میں ڈھکے چھپے الفاظ میں کر چکی ہیں اس لیے وزیراعلیٰ محمود خان اور پی ٹی آئی کی قیادت ان کی فریاد پر کان دھرنے کے لیے تیار ہے۔
اور جماعت اسلامی جوماہ اگست میں عید کے بعد پشاورمیں اجتماع منعقد کرنے جا رہی ہے اس کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں عجیب صورت حال بننے جا رہی ہے کیونکہ قبائلی اضلاع سے جماعت اسلامی کا ایک رکن منتخب ہوا ہے جبکہ دو ارکان پہلے سے موجود ہیں جو جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کاحصہ بنے تھے تاہم اب قبائلی ضلع باجوڑ سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن کی آمد کے بعد ایوان کے اندر موجود پہلے سے دو ارکان کیا جماعت اسلامی کے ارکان کہلائیں گے یا ایم ایم اے کے؟یہ سوال ضرور موجود ہے کیونکہ مزید ایک رکن کی آمد کے بعد جماعت اسلامی کے ارکان اپنی سہ رکنی پارلیمانی پارٹی تشکیل دیتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم وہ دو ارکان جو جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ان کو اس ضمن میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے کیونکہ انھیں ٹکٹ جماعت اسلامی کے امیر کی بجائے ایم ایم اے کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری ہوئے اور وہ ایم ایم اے کے پارلیمانی ڈسپلن کے پابند ہیں تاہم اگر جماعت اسلامی نے اپنی الگ پالیسی لے کر چلنے کی کوشش کی تو اس صورت میں ایوان کے اندر ایم ایم اے کا شیرازہ بکھر سکتا ہے جس کا فائدہ اور کوئی نہیں بلکہ حکومت ہی اٹھائے گی۔
بلاشبہ25 جولائی کا دن اپوزیشن کا دن تھا کیونکہ اس روز پشاور سے کوئٹہ اور کراچی تک اپوزیشن جماعتیں گزشتہ سال کے عام انتخابات کے نتائج اور موجودہ مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اپنی صف بندی اس طریقے سے کی تھی کہ ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اپوزیشن قائدین میدان گرمانے کے لیے موجود رہے ، پشاورمیں یہ فریضہ مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور آفتاب شیرپاؤ کے حوالے کیا گیا جن کی سپورٹ کے لیے احسن اقبال، نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر بھی موجود رہے۔
گیارہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر یوم سیاہ منانے اور جلسہ کرنے کے حوالے سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ غیر معمولی رش ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوسکا البتہ جلسہ اچھا خاصا ہوا اور اپوزیشن قائدین نے پشاورکو گرمائے رکھا، تاہم اپوزیشن کے یوم سیاہ کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام(ف)کا ملین مارچ متاثر کن رہا اور مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں میدان میں نکلے جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن بڑا شو کرنے میں کامیاب رہے۔
اگرچہ یہ کوشش کی گئی کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ طور پر یوم سیاہ منائیں اور اس اجتماع کو ملین مارچ کا نام دیا جائے تاہم اپوزیشن جماعتیں جے یوآئی کی اس تجویز سے متفق نہیں تھیں جس کی وجہ سے ایک ہی دن پشاور میں دو اجتماعات کا انعقاد کیا گیا، توقع یہ کی جا رہی تھی کہ ایک ہی دن میں دو بڑے اجتماعات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا اور پارٹی ورکرز شدید گرمی کے اس موسم میں دو اجتماعات کے لیے نہیں نکل پائیں گے تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی نے اس سلسلے میں جو حکمت عملی اپنائی اس کے تحت انہوں نے اپنے ورکر یوم سیاہ جلسے کے لیے تو ضرور بھیجے لیکن اپنی اصل فورس ملین مارچ کے لیے ریزرو میں رکھی جس نے ملین مارچ میں شرکت سے سماں باندھ دیا جس سے مولانا فضل الرحمٰن یہ پیغام دینے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ٹھہرے کہ وہ عوامی طاقت بھی رکھتے ہیں اور جب چاہیں بڑا مجمع بھی لگا سکتے ہیں جو اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مستقبل میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کی سوچ کیے ہوئے ہیں جس کے لیے انھیں یہی سٹریٹ پاور اور سیاسی ورکردرکار ہونگے۔
قبائلی اضلاع کے انتخابات تو ہو چکے لیکن معاملات اب تک واضح نہیں ہو پائے کیونکہ مختلف حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور جیتے ہوئے امیدواروں کے ہارنے اور ہارے ہوؤں کے جیتنے کا سلسلہ چل رہا ہے جس کی وجہ سے تاحال کامیاب امیدواروں کی کامیابی کا سرکاری اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا جا سکا نہ ہی پانچ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا کوئی فارمولا بن سکا ہے، قبائلی اضلاع سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان کے حوالے سے الگ دوڑ لگی ہوئی ہے، خیبر سے منتخب آزاد رکن شفیق آفریدی کے بعد اورکزئی سے منتخب رکن غزن جمال بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں جن کے ساتھ ان کے والد ڈاکٹر جی جی جمال بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں کابینہ کا حصہ ہوا کرتے تھے، پی ٹی آئی میں دو آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مزید آزاد ارکان کے ساتھ بھی پی ٹی آئی قیادت رابطوں میں ہے کیونکہ زیادہ آزاد ارکان کی شمولیت سے نہ صرف پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل کر لے گی بلکہ اسے خواتین واقلیتی مخصوص نشستوں میں بھی فائدہ ہوگا۔
اگرچہ آزاد ارکان جمعیت علماء اسلام (ف) کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں اور سابق پارلیمنٹرین شاہ جی گل آفریدی کے صاحبزادے اور بھتیجے نے پی ٹی آئی حکومت کے وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی کے بعد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کی ہے جس سے تاحال ان کی سمت کا معلوم نہیں پڑ رہا کہ وہ حکومت کی طرف آئیں گے یا اپوزیشن کی طرف؟ تاہم شاہ جی گل آفریدی جو بھی فیصلہ کرینگے وہ 2021ء کے سینٹ انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے ہی کریں گے تاکہ دو سال بعد سینٹ انتخابات میں فائدہ لیا جا سکے کیونکہ اب قبائلی اضلاع کے لیے الگ سے سینیٹرز کا انتخاب نہیں کیا جائے گا بلکہ قبائلی اضلاع صوبہ کا حصہ ہونے کے باعث صوبہ کے کوٹے ہی میں منتخب ہونگے جس کی وجہ سے دوررس نگاہوں کے مالک سیاسی لوگ اب سے دو سال بعد کے حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں،آزاد ارکان کے حوالے سے امکان یہی لگ رہا ہے کہ ممکنہ طور پر مزید ایک یا دو آذاد ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں گے جس سے پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہو جائے گا جس کا فائدہ وہ اسمبلی کے اندراور باہر دونوں جگہوں پر لے گی ۔
اور چونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے ارکان کی تعداد124سے بڑھ کر145ہوگئی ہے اس لیے صوبائی کابینہ کا حجم بھی اب بڑھ جائے گا، اٹھارویں ترمیم کے بعد خیبرپختونخوا کابینہ ارکان کی تعداد بشمول وزیراعلیٰ15سے زائد نہیں ہو سکتی تاہم اب چونکہ اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھ گئی ہے اس لیے گیارہ فیصد کے حساب سے مزید دو وزراء کی شمولیت کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے، چونکہ صوبائی کابینہ اس وقت 14ارکان پر مشتمل ہے اس لیے کابینہ میں مزید تین وزراء کو شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے اور تین میں سے کم ازکم دو وزراء قبائلی اضلاع سے لیے جائیں گے جس کے ساتھ حکومت کے پاس دو مشیر اور معاونین خصوصی لینے کی گنجائش بھی موجود ہے اس لیے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان کو حکومتی ٹیم بننے کا موقع ملے گا جس کے ساتھ ہی دیر سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی ارکان کی قسمت بھی کھل سکتی ہے اور ان میں سے بھی کسی ایک کو صوبائی کابینہ یا حکومتی ٹیم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی حکومتی ٹیم میں ردوبدل کی بھی باتیں سننے میں آرہی ہیں ۔
صوبائی حکومتی ٹیم میں ردوبدل کے حوالے سے جو بازگشت سنائی دے رہی ہے اس میںبعض بڑے اور اہم نام بھی شامل ہیں جنھیں یا تو کابینہ سے باہر کی راہ دکھائی جا سکتی ہے یا پھر ان کے قلمدان تبدیل کیے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے کابینہ ارکان میں بہرکیف تشویش پائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کچھ نئے چہرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک یا دو خواتین ارکان بھی شامل ہو سکتی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین ارکان کابینہ یا حکومتی ٹیم کا حصہ نہ بنائے جانے کی وجہ سے پارٹی سے ناراض ہیں جس کااظہار وہ پارٹی اجلاسوں میں ڈھکے چھپے الفاظ میں کر چکی ہیں اس لیے وزیراعلیٰ محمود خان اور پی ٹی آئی کی قیادت ان کی فریاد پر کان دھرنے کے لیے تیار ہے۔
اور جماعت اسلامی جوماہ اگست میں عید کے بعد پشاورمیں اجتماع منعقد کرنے جا رہی ہے اس کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں عجیب صورت حال بننے جا رہی ہے کیونکہ قبائلی اضلاع سے جماعت اسلامی کا ایک رکن منتخب ہوا ہے جبکہ دو ارکان پہلے سے موجود ہیں جو جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر نہیں بلکہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کاحصہ بنے تھے تاہم اب قبائلی ضلع باجوڑ سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن کی آمد کے بعد ایوان کے اندر موجود پہلے سے دو ارکان کیا جماعت اسلامی کے ارکان کہلائیں گے یا ایم ایم اے کے؟یہ سوال ضرور موجود ہے کیونکہ مزید ایک رکن کی آمد کے بعد جماعت اسلامی کے ارکان اپنی سہ رکنی پارلیمانی پارٹی تشکیل دیتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم وہ دو ارکان جو جماعت اسلامی کی بجائے ایم ایم اے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ان کو اس ضمن میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے کیونکہ انھیں ٹکٹ جماعت اسلامی کے امیر کی بجائے ایم ایم اے کے سربراہ کے دستخطوں سے جاری ہوئے اور وہ ایم ایم اے کے پارلیمانی ڈسپلن کے پابند ہیں تاہم اگر جماعت اسلامی نے اپنی الگ پالیسی لے کر چلنے کی کوشش کی تو اس صورت میں ایوان کے اندر ایم ایم اے کا شیرازہ بکھر سکتا ہے جس کا فائدہ اور کوئی نہیں بلکہ حکومت ہی اٹھائے گی۔