این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ نے تعلیم سے محروم بچوں کیلیے اسکول قائم کر دیا
بچوں کا اسکولوں میں داخلہ کرانے گئے توبھاری فیس مانگی گئی جس پر اپنا اسکول بنا دیا، اروہا ڈار
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ نے اپنی جیب خرچ سے رقم منہا کرکے محنت کش بچوں کے لیے ''تدریس'' اسکول قائم کردیا جہاں اسٹریٹ چلڈرن اور مختلف اشیا بیچنے والے تعلیم سے محروم بچوں کو مفت تعلیم دی جارہی ہے۔
تعلیم سے محروم بچوں کے لیے اسکول کھولنے کا خیال این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی طالبہ اروہا ڈار کا ہے جنھوں نے اس مقصد کے لیے اپنے ساتھی طلبہ اور مخیر حضرات کی مدد سے ان بچوں کو سب سے پہلے یونیورسٹی کے گارڈ روم میں تعلیم دینا شروع کی جہاں اردگرد کی پسماندہ آبادی کے بچے پڑھنے آتے تھے۔
اروہا ڈار نے بتایا کہ مجھے اور دیگر طلبہ اور یونیورسٹی کے عملے کو یہ بچے سڑکوں پر مختلف اشیا بیچتے ہوئے بہت عجیب لگتے تھے اور ہم سوچتے تھے کہ یہ بچے پڑھتے کیوں نہیں، میری زندگی میں میں نومبر 2016 اس وقت اچانک ایک امید کی کرن جاگی جب میں نے دیکھا کہ ایک بچہ ان بچوں کو انگلش کے الفاظ پڑھنا سکھا رہا تھا اور تمام بچے انتہائی توجہ سے انگلش کے الفاظ سیکھنے کی کوشش کررہے تھے تب میں نے ان بچوں کے پاس جا کر پوچھا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش کیا ہے جس پر بچوں نے کہا کہ ''ہمیں بڑے ہو کر این ای ڈی میں پڑھنا ہے'' اس کے بعد میں نے ان پسماندہ مگر بڑی امنگیں اور خواب رکھنے والے بچوں کو پڑھانے کے لیے قدم بڑھایا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے پہل میں نے ان بچوں کو فٹ پاتھ کے قریب پڑھانا شروع کیا یہ اسکولوں میں دی جانے والی معمول کی نصابی تعلیم نہیں تھی میں اور میرے کچھ دوست ان بچوں کو ان کے معاشی نکتہ نظر سے مختلف طریقے سے پڑھانے لگے اور اس طرح ہم نے ان بچوں کو 6 ماہ تک پڑھایا اس تعلیمی مقصد کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ نے میری مدد کی اور پھر ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت سے ان بچوں کو گارڈز کے لیے بنائے جانے والے کمرے میں پڑھانا شروع کیا بہت جلد ہمارے پاس20 طلبہ و طالبات پڑھنے لگے۔
ہم نے این ای ڈی کے50 طلبہ و طالبات کا گروپ بنایا جو ہر ماہ اپنی جیب خرچ سے 500 روپے اس مقصد کے لیے عطیہ کرنے لگے، طلبہ کے ان عطیات کی بدولت ہم نے ان طلبہ کو باقاعدہ تعلیم دینا شروع کی اور انھیں ایک وقت کا کھانا بھی فراہم کرتے تھے ہم نے اپنی تنظیم بنانے سے قبل ان بچوں کا مختلف نجی اسکولوں میں داخلہ کرانے کی کوشش کی لیکن اسکولوں کی انتظامیہ نے بھاری فیسوں کا مطالبہ کیا جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان بچوں کے لیے اپنا اسکول بنائیں گے۔
ہم طلبہ و طالبات نے ''تدریس'' کے نام سماجی تنظیم قائم کی جس کا ایک ہی مقصد تھاکہ معاشرے کے محروم بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کی جائے این ای ڈی کے طلبہ و طالبات نے اس تنظیم کی ذمے داریاں آپس میں تقسیم کرلیں، چند طلبہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی اور چند طلبہ نے براہ راست مخیر حضرات سے اس مقصد کی کامیابی کے لیے رابطہ کیا ، طلبہ و طالبات کی محنت سے ہم نے10 لاکھ روپے کی رقم جمع کرلی اور اسکول کی عمارت تعمیر کرنا شروع کردی۔
اروہا ڈار نے کہا کہ ہمیں یونیورسٹی کی حدود میں ایک ایسی جگہ بھی مل گئی جہاں اسکول تعمیر کیا جاسکتا تھا اور اس وقت ہم نے 2 سیمنٹ سے بنے پختہ کمروں کی کلاسیں اور تین بانس سے بنے کمروں میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردی اس وقت اسکول میں 3 سے 16 سال عمر کے 110 بچے زیر تعلیم ہیں اور اب ان بچوں کو باقاعدہ انگلش، حساب، اردو اور معلومات عامہ کے مضامین ورک بک استعمال کرکے پڑھائے جارہے ہیں، ہم نے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے3 اساتذہ اور عملے کو رکھا ہے۔
اسکول کا افتتاح 23 جون کو این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی نے کیا صرف طلبہ و طالبات ہی نہیں ہمارے اس نیک مقصد یونیورسٹی کے کئی اساتذہ بھی شامل ہوچکے ہیں جو اپنا وقت اور عطیات اس نیک مقصد کے لیے دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقل میں ہم چاہیں گے کہ ایسے تمام پسماندہ علاقوں میں جاکر کام کریں جہاں کچرے سے کارآمد اشیا چننے والے بچے اور سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی گزرنے والے اسٹریٹ چلڈرن کو ایسے اسکولوں میں داخل کراکر پڑھایا جاسکے تاہم ایسے مزید بچوں کے داخلوں کے لیے کے لیے ہمیں مالی مدد چاہیے ہوگی اور ہم اس بڑے مقصد میں کامیاب ہو بھی پائیںیا نہیں، اروہا ڈار شام کی شفٹ میں اپنی ماسٹرز کی کلاسز لیتی ہیں اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی دن کی نوکری چھوڑدی۔
انھوں نے بتایا کہ ہم اس اسکول کو پسماندہ علاقوں کے محروم بچوں کے لیے بہترین درس گاہ بنائیں اور اس طرح کے اسکول مزید پسماندہ علاقوں میں کھولیں گے، این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ کی اس کاوش کے بعد سرکاری اور نجی جامعات کے طلبہ و طالبات نے ان سے رابطہ کرکے مدد کی پیشکش کی ہے کچھ بیرون ملک رہنے والے مخیر افراد نے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اروہا ڈار نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ ہم اس مقصد اور مشن کو آگے بڑھائیں اور ہمارا وژن اور خواب ہے کہ ہم پسماندہ علاقوں کے محروم بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کریں۔
تعلیم سے محروم بچوں کے لیے اسکول کھولنے کا خیال این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی طالبہ اروہا ڈار کا ہے جنھوں نے اس مقصد کے لیے اپنے ساتھی طلبہ اور مخیر حضرات کی مدد سے ان بچوں کو سب سے پہلے یونیورسٹی کے گارڈ روم میں تعلیم دینا شروع کی جہاں اردگرد کی پسماندہ آبادی کے بچے پڑھنے آتے تھے۔
اروہا ڈار نے بتایا کہ مجھے اور دیگر طلبہ اور یونیورسٹی کے عملے کو یہ بچے سڑکوں پر مختلف اشیا بیچتے ہوئے بہت عجیب لگتے تھے اور ہم سوچتے تھے کہ یہ بچے پڑھتے کیوں نہیں، میری زندگی میں میں نومبر 2016 اس وقت اچانک ایک امید کی کرن جاگی جب میں نے دیکھا کہ ایک بچہ ان بچوں کو انگلش کے الفاظ پڑھنا سکھا رہا تھا اور تمام بچے انتہائی توجہ سے انگلش کے الفاظ سیکھنے کی کوشش کررہے تھے تب میں نے ان بچوں کے پاس جا کر پوچھا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش کیا ہے جس پر بچوں نے کہا کہ ''ہمیں بڑے ہو کر این ای ڈی میں پڑھنا ہے'' اس کے بعد میں نے ان پسماندہ مگر بڑی امنگیں اور خواب رکھنے والے بچوں کو پڑھانے کے لیے قدم بڑھایا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے پہل میں نے ان بچوں کو فٹ پاتھ کے قریب پڑھانا شروع کیا یہ اسکولوں میں دی جانے والی معمول کی نصابی تعلیم نہیں تھی میں اور میرے کچھ دوست ان بچوں کو ان کے معاشی نکتہ نظر سے مختلف طریقے سے پڑھانے لگے اور اس طرح ہم نے ان بچوں کو 6 ماہ تک پڑھایا اس تعلیمی مقصد کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ نے میری مدد کی اور پھر ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت سے ان بچوں کو گارڈز کے لیے بنائے جانے والے کمرے میں پڑھانا شروع کیا بہت جلد ہمارے پاس20 طلبہ و طالبات پڑھنے لگے۔
ہم نے این ای ڈی کے50 طلبہ و طالبات کا گروپ بنایا جو ہر ماہ اپنی جیب خرچ سے 500 روپے اس مقصد کے لیے عطیہ کرنے لگے، طلبہ کے ان عطیات کی بدولت ہم نے ان طلبہ کو باقاعدہ تعلیم دینا شروع کی اور انھیں ایک وقت کا کھانا بھی فراہم کرتے تھے ہم نے اپنی تنظیم بنانے سے قبل ان بچوں کا مختلف نجی اسکولوں میں داخلہ کرانے کی کوشش کی لیکن اسکولوں کی انتظامیہ نے بھاری فیسوں کا مطالبہ کیا جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان بچوں کے لیے اپنا اسکول بنائیں گے۔
ہم طلبہ و طالبات نے ''تدریس'' کے نام سماجی تنظیم قائم کی جس کا ایک ہی مقصد تھاکہ معاشرے کے محروم بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کی جائے این ای ڈی کے طلبہ و طالبات نے اس تنظیم کی ذمے داریاں آپس میں تقسیم کرلیں، چند طلبہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی اور چند طلبہ نے براہ راست مخیر حضرات سے اس مقصد کی کامیابی کے لیے رابطہ کیا ، طلبہ و طالبات کی محنت سے ہم نے10 لاکھ روپے کی رقم جمع کرلی اور اسکول کی عمارت تعمیر کرنا شروع کردی۔
اروہا ڈار نے کہا کہ ہمیں یونیورسٹی کی حدود میں ایک ایسی جگہ بھی مل گئی جہاں اسکول تعمیر کیا جاسکتا تھا اور اس وقت ہم نے 2 سیمنٹ سے بنے پختہ کمروں کی کلاسیں اور تین بانس سے بنے کمروں میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردی اس وقت اسکول میں 3 سے 16 سال عمر کے 110 بچے زیر تعلیم ہیں اور اب ان بچوں کو باقاعدہ انگلش، حساب، اردو اور معلومات عامہ کے مضامین ورک بک استعمال کرکے پڑھائے جارہے ہیں، ہم نے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے3 اساتذہ اور عملے کو رکھا ہے۔
اسکول کا افتتاح 23 جون کو این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی نے کیا صرف طلبہ و طالبات ہی نہیں ہمارے اس نیک مقصد یونیورسٹی کے کئی اساتذہ بھی شامل ہوچکے ہیں جو اپنا وقت اور عطیات اس نیک مقصد کے لیے دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقل میں ہم چاہیں گے کہ ایسے تمام پسماندہ علاقوں میں جاکر کام کریں جہاں کچرے سے کارآمد اشیا چننے والے بچے اور سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر زندگی گزرنے والے اسٹریٹ چلڈرن کو ایسے اسکولوں میں داخل کراکر پڑھایا جاسکے تاہم ایسے مزید بچوں کے داخلوں کے لیے کے لیے ہمیں مالی مدد چاہیے ہوگی اور ہم اس بڑے مقصد میں کامیاب ہو بھی پائیںیا نہیں، اروہا ڈار شام کی شفٹ میں اپنی ماسٹرز کی کلاسز لیتی ہیں اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی دن کی نوکری چھوڑدی۔
انھوں نے بتایا کہ ہم اس اسکول کو پسماندہ علاقوں کے محروم بچوں کے لیے بہترین درس گاہ بنائیں اور اس طرح کے اسکول مزید پسماندہ علاقوں میں کھولیں گے، این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ کی اس کاوش کے بعد سرکاری اور نجی جامعات کے طلبہ و طالبات نے ان سے رابطہ کرکے مدد کی پیشکش کی ہے کچھ بیرون ملک رہنے والے مخیر افراد نے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اروہا ڈار نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ ہم اس مقصد اور مشن کو آگے بڑھائیں اور ہمارا وژن اور خواب ہے کہ ہم پسماندہ علاقوں کے محروم بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کریں۔