ملزمان 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں دینے کی مخالفت
سندھ حکومت کے شدید تحفظات، اختیارات آئین سے متصادم ہیں، چیلنج ہوجائیں گے.
حکومت سندھ نے کراچی آپریشن کے دوران حراست میں لیے جانے والے افراد کو تفتیش کے لیے 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں دیے جانے والے اختیارات کی مخالفت کردی ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ اختیارات آئین کے آرٹیکل10 اور 10A سے متصادم ہیں اوران کو عدالت میں چیلنج بھی کیا جاسکتاہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر خالد جاوید خاں کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ کو بھیجے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی زاہد حامدکی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میںشامل سول آرمڈ فورسز ایجنسیوں کے نمائندوں کے ساتھ پولیس کے نمائندے کو بھی شامل کیا جائے ۔
جبکہ کمیٹی میں شامل پولیس افسران کے دستخط سے ملزمان کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش کیے جائیں گے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان سے تفتیش کے لیے بنائی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997میں ترمیم لانے کی بھی سفارش کی گئی ہیجو وفاقی حکومت کی طرف سے لائی جائے گی۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ قانونی کمیٹی کے اجلاس میںمشکوک افراد کو تفتیش کے لیے 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں دیے جانے والے اختیارات پر حکومت سندھ کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ معاملے کو قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کیا جائے گا جبکہ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گرفتار کیے جانیوالے ملزمان کو سیکیورٹی خطرات کی بناء پر عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے جیل سے وڈیو ٹرائل بھی کرنے کے حوالے سے غور کیا جارہاہے۔کمیٹی نے بھتہ خوری کے مقدمات میں آئندہ پولیس کی مدعیت میں بھی مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔دریں اثنا کراچی آپریشن میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اختیارات کے متعلق وفاق اور صوبہ سندھ میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ دوسری جانب جبری ہڑتالوں کے خلاف قانون سازی کا معاملہ بھی التواکا شکار ہوگیا ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ اختیارات آئین کے آرٹیکل10 اور 10A سے متصادم ہیں اوران کو عدالت میں چیلنج بھی کیا جاسکتاہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر خالد جاوید خاں کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ کو بھیجے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی زاہد حامدکی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میںشامل سول آرمڈ فورسز ایجنسیوں کے نمائندوں کے ساتھ پولیس کے نمائندے کو بھی شامل کیا جائے ۔
جبکہ کمیٹی میں شامل پولیس افسران کے دستخط سے ملزمان کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش کیے جائیں گے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ملزمان سے تفتیش کے لیے بنائی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997میں ترمیم لانے کی بھی سفارش کی گئی ہیجو وفاقی حکومت کی طرف سے لائی جائے گی۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ قانونی کمیٹی کے اجلاس میںمشکوک افراد کو تفتیش کے لیے 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں دیے جانے والے اختیارات پر حکومت سندھ کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ معاملے کو قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کیا جائے گا جبکہ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ گرفتار کیے جانیوالے ملزمان کو سیکیورٹی خطرات کی بناء پر عدالتوں میں پیش کرنے کے بجائے جیل سے وڈیو ٹرائل بھی کرنے کے حوالے سے غور کیا جارہاہے۔کمیٹی نے بھتہ خوری کے مقدمات میں آئندہ پولیس کی مدعیت میں بھی مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔دریں اثنا کراچی آپریشن میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اختیارات کے متعلق وفاق اور صوبہ سندھ میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ دوسری جانب جبری ہڑتالوں کے خلاف قانون سازی کا معاملہ بھی التواکا شکار ہوگیا ہے۔