کشمیر ثالثی سے آگے
کشمیر نائن الیون کے بعد سے بدلی ہوئی سیاسی دنیا میں جہنم زار بنا ہوا ہے جہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔
اس ہفتے دو فکر انگیز موضوعات نے ذہن میں بسیرا کرلیا۔ ان میں ایک تو صدر ٹرمپ کی طرف سے بھارت کو ثالثی کی معنی خیز تجویز تھی جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عمران کے حالیہ دورہ امریکا میں دی مگر میڈیا ٹاک یا پریس کانفرنس سے نکل کر ثالثی کے اس شریفانہ لفظ نے سفارت کاری کے شعبہ میں دھماکا کردیا۔
چین، ترکی اور ملائیشیا کی جانب سے خطے کے مسائل کے تناظر میں ثالثی کو بھارتی ایجنڈے پر لایا گیا جب کہ بھارتی میڈیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ثالثی سمیت مسئلہ کشمیر کے حل کی درجنوں صائب تجویزیں وقت کی مٹھی میں بند ہیں، ان میں متفرق سفارشات،آئیڈیاز، مفروضے، تجزیے ،کالم، پالیسیاں، وزرائے اعظم ، وزارت خارجہ اور سیکریٹریز سطح کے ان گنت مشترکہ اعلامیے، حکومتی ڈیلز، تھیوریز ،ان میں سازشی تھیوریز کو بھی شامل کرلیں ، سب پاک بھارت ریکارڈ روم میں ملیں گے ۔وقت نے ان پر منوں مٹی ڈال دی ہوگی ۔ کوئی ایسا بریک تھرو آج تک نہیں ہوا جو پاک بھارت تعلقات کو کشمیر کے سیاق وسباق میں یادگار بنادیتا۔
ایک کوشش ہمارے کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے آگرہ جاکرکی تھی مگر اٹل بہاری باجپائی نے یہ طعنہ دیا کہ وہ تاریخ کا دھارا کیا موڑتے انھیں تو خود بھی تاریخ کا شعور نہ تھا، یہ کشمیر مسئلہ کے حل کا بقول خورشید محمود قصوری ایک قابل عمل، فیصلہ کن اور کثیر المقاصد فارمولہ تھا جسے بھارتی سفارت کاری نے بیدردی سے ضایع کردیا۔
بہرحال یہ بھی تاریخ کا ستم ہے کہ کشمیر نائن الیون کے بعد سے بدلی ہوئی سیاسی دنیا میں جہنم زار بنا ہوا ہے جہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت عریاں و رسوا ہوئی ہے اور جرم ِحق ِ خودارادیت پر کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ آج بھی انسانی حقوق کے حوالہ سے ایک عالمی رپورٹ بھارت کے خلاف عالمی ایف آئی آر اور جموں وکشمیر کے عوام کی طرف سے فرد جرم کا ناقابل تنسیخ صدائے ضمیر کا درجہ رکھتی ہے۔
اس تمہید کا ایک معروضی حوالہ آج کی ایک نجی گفتگو کا ہے جو لیاری کے جواں سال دانشوروں، سیاسی مکاتب فکر ، طالبعلموں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے ہوئی جس میں کشمیر ، بھارت، پاکستان اور عالمی ذرایع ابلاغ کے جدید رجحانات اور نئے انداز نظر سے متعلق ان کے دل ودماغ میں سمائے ہوئے تھے۔ اچھا ہوا یہ کیتھارسس ہو ہی گیا ۔ ورنہ کہاں لیاری کے بے نام دانشور ، قلم کار، مقالہ نویس اور کہاں کشمیر پر سکہ بند خصوصی تجزیہ دان ۔
کسی دل جلے کا کہنا تھا کہ ایک زاویہ سے دیکھا جائے تو کشمیر ایشو کو سرکاری ذرایع ابلاغ نے بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ گفتگو چند روزہ تھی مگر اس کا دائرہ وسیع اور متنوع تھا، اس میں بعض خیالات غیر متوقع اور غیر معمولی تھے اور زمینی حقائق سے جڑے رہنے کے باوصف کشمیر کی صورتحال، پاک بھارت اعلیٰ سطح کی بے نتیجہ ملاقاتوں، اس کی تاریخ اور بے فیض سفارتکاری کے نشیب وفراز سے مشروط و مربوط تھے۔
فکری و غیر رسمی گفتگو اس نکتہ پر ہوئی کہ ایسے کتنے نوجوان یا کہنہ مشق سیاستدان ، طالبعلم ،اسکالر اور ادیب و صحافی ہیں جن کے قلم سے کشمیر کے کوئی تاریخی انکشافات منظر عام پر آنے کو ہیں، یا ایسے کتنے لیاری یا کراچی کے طالبعلم ہیں جو کشمیر مسئلہ کے اصل سیاق وسباق کا ادراک رکھتے ہوئے اپنے نئے تھیسس اور ڈاکٹریٹ کے مقالوں کے لیے مواد کے حصول میں سرگرم عمل ہیں ان میں تحقیق کی تپش دیدنی ہے، اور اس کے لیے وہ پاکستان، مقبوضہ و آزاد کشمیر، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں مقیم بھارتی اہل قلم یا سفارتکاروں اور سیاسی تنظیموں سے رابطہ کیے ہوئے ہیں چنانچہ اس گفتگو اور رابطہ سے لیاری کے طالب علموں، اہل قلم، دستاویزی فلمیں تیار کرنیوالے نوجوان فنکاروں اور دانشوروں نے اہم باتوں سے آگاہ کیا اور بعض نے پاک بھارت تعلقات،کشمیرکی حالت زار، اس کے لہو رنگ مستقبل اور ذرایع ابلاغ کے رول پر اپنے مستقبل کے امکانی پروگرواموں کا تذکرہ کیا مگر جن طالبعلموں، نوجوانوں اور ڈاکٹریٹ کی تیاریوں میں مصروفیت کا عنوان کشمیر ایشو سے جوڑ دیا انھوں نے بڑی چونکا دینے والی باتیں کیں لیکن ان اصحاب کا کہنا تھا کہ ثالثی کا ایشو ہو، کلبھوشن یادیو کے عالمی انصاف عدالت کا فیصلہ ہو یا افغان امن کے تنازع اور طالبان کو پھر سے مدعو کرنے میں پاکستان کے کلیدی کردار کا معاملہ ہو، ان سب کے راستے خطے کے مرکزی مسئلہ کشمیر سے جاکر ملتے ہیں۔پاکستان کو بند گلی میں پھر نہیں پھنسنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے،یہ بھی بھارت کی کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے آئینہ میں بے نتیجہ بھارتی سامراجیت کا شاخسانہ ہے۔ بھارتی کردار افغانستان کے پیچیدہ بحران کی تہ میں بھی موجود ہے، یہی بھارت بلوچستان میں مداخلت کاری کا خاص ایجنڈا رکھتا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی پوری سیاسی، سماجی، لسانی، ثقافتی اور معاشی تاریخ کو طاق نسیاں پر رکھنے کا ایک ظالمانہ سفر طے کیا ہے،دنیا پاک بھارت تعلقات کے سیاق وسباق میں کشمیر مسئلہ کو فلیش پوائنٹ سے بہت آگے دیکھ رہی ہے، وہ کہنے لگے کہ اسکالرز، ادیب، صحافی، سفارتکار، عسکری ادارے، تھنک ٹینک، سیاسی مفکرین اور محققین نئے موضوعات کو زیر بحث لائیں۔
کشمیر ایشو پاکستان کے ضمیر کے قیدیوں سے نیا انداز بیاں چاہتے ہیں، پرانی سٹیبلشمنٹ کی کہانی بے روح ہوچکی، ان کی رائے تھی کہ اردو اور انگریزی زبان میں کشمیر پر تحقیق اس انداز نظر سے ہو کہ بھارتی اور پاکستانی مائنڈ سیٹ ماضی کی رقابتوں سے الگ رہتے ہوئے ''آج '' کے کشمیر اور افغانستان کو سامنے رکھے۔ ان کا کہنا تھا ریسرچ اسکالر An Indian Approach to Self Determination پر نئی تحقیق پیش کریں۔New dilemmas in Indian Initiative کا عنوان ان کی تحقیق کی بنیاد بنے۔
اسی طرح صحافی False Hopes and Modi failures میں اہل قلم موجودہ بھارتی نقطہ نظر کا تجزیہ مکمل غیر جانبداری اور کشادہ نظری سے کریں۔ لیاری کے اسکالرز اور سیاسی ایکٹی وسٹوں کا کہنا تھا کہ Why Mediation? A new Password for india جیسے سبجیکٹ نئی فکری اور سیاسی بحث کا نقطہ آغاز بنیں ۔ ٹرمپ کی تجویز سے ثالثی بحث کا معنی خیز آغاز ہو اور بحث قطعی فکری اور معروضی پیرائے میں ہو، اس میں پاک بھارت میڈیا کی 71 سالہ گلی سڑی باتوں، دوطرفہ سیاسی گھاتوںکہہ مکرنیوں، مخاصمت، یو ٹرنوں اور سفارتی قلابازیوں کی تکرار کی کوئی گونج نہ ہو،یہ ایک شفاف اور دھرتی اور خطے سے جڑے ہوئے مکالمہ کا پیش لفظ ہو جسے پاک بھارت ذہن کا سفارتی قبیلہ خندہ پیشانی سے قبول کرے اور اس پر آؤٹ آف باکس بات چیت پر راضی ہو۔
اس اسکالر کا اصرار تھا کہ یہت سارا وقت پاک بھارت سفارتکاری کی نذر ہوا اور کشمیر کے عوام سمیت پاک بھارت خلق خدا کو اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا، پاک بھارت نیا مکالمہ اگر خطے کو ریلیف نہیں دیتا تو ایسے مکالمہ سے گریز مناسب ہے۔ ایک نوجوان ریسرچ اسکالر کے مطابق پاک بھارت ماہرین ذرایع ابلاغ میں اس نکتہ پر سیمینار اور کانفرنس منعقد کریں۔ کشمیر کتب میلہ منعقد ہو۔ اسکالر Mediation: A Challenge or an Opportunity کے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔
ایک صائب رائے یہ بھی سامنے لائی گئی کہ ڈاکٹریٹ کرنیوالے ریسرچ اسکالرز چاہے انگریزی زبان سے تعلق رکھتے ہوں یا اردو اور علاقائی زبان سے انھیں اپنا رابطہ بھارتی، بنگلہ دیشی، متحدہ امارات ، پاکستانی اسکالرز ، سابق سفارتکاروں، سینئر صحافیوں ،سیاسی مدبرین سے فیڈ بیک لینا چاہیے۔ وہ اپنے ہم منصبوں کو بتائیں کہ ان کا مقصد پاک بھارت انٹر ایکشن کی ڈائنامکس تبدیل کرنی ہیں، پرانی دشمنیوں کو دفن کرنا ہے۔
لوگوں کو قائل کریں کہ وہ اس بے نتیجہ مشق سفارتکاری سے تنگ آچکے،اب نئی شروعات ہونی چاہیے تاکہ مخاصمت ، تنگ نظری، بے نام سی دشمنی سے بالاتر رہتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ پر تاریخی سچائی کے ساتھ روشن ضمیری پر مبنی دو طرفہ مکالمہ کی ابتدا ہو۔ گفتگو میں نوجوان دانشوروں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر سے متعلق انڈین لٹریچر، شاعری،فکشن اور سیاسی تجزیہ کاری کا سرمایہ دنیا کے سامنے لایا جائے، جموں وکشمیر کے پیدائشی ادیبوں اور شاعروں کا کلام اور ان کی تخلیقات تک رسائی حاصل کی جائے۔
دیکھنا چاہیے کہ اکیڈیمیا، انٹیلیجنشیا، بھارتی میڈیا نے کبھی کسی مقامی ادیب یا شاعر کی غیر معمولی تخلیق کو نمایاں پذیرائی دی ۔کسی دختر جموں و کشمیر کے بے رحم قلم سے کشمیر کا نوحہ کسی طلسم ہوشربا ناول کی صورت منصۂ شہود پر لایا گیا ہو؟ کشمیر تنازع پر ہزاروں مضامین اور بڑی درد انگیز شاعری کا ذخیرہ موجود ہے ۔ کشمیر ہمارے دور حاضرکا ایک دیومالائی موضوع ہے۔
دنیا کے اکثر قلم کار پوچھتے ہیں کہ مودی کے پاس کشمیر کا کیسا منڈیٹ ہے جسے وہ تعصب، نفرت اور دشمنی کے ترازو میں تولتے ہیں اور انسانی حقوق کا قتل عام کرتے ہیں۔ آج بھی نامور ادیب، صحافی، قلم کار ، بھارت کے سابق آرمی چیفس، اپوزیشن رہنما،کانگریس اور اروندھتی رائے جیسی جری و بے خوف سیاسی کارکن اور ادیب بھارتی سٹییلشمنٹ کی بے ضمیری کو للکارتی ہیں۔ مودی سوچیں کہ وہ تاریخ کے ٹائٹل پر ایک انسان دوست رہنما کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا اس کا حاشیہ ان کا مقدر و منتظر ہے؟