ایرانی صدر روحانی کو امریکا سے براہ رست مذاکرات کا ٹاسک مل گیا
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے طویل دشمنی ختم کرنیکی ہدایت کردی، سابق مذاکرات کار کا انکشاف
ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار حسین موسویان نے انکشاف کیا ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ذمے داری سونپ دی ہے۔
ویب پورٹل''ایران ڈپلومیٹک'' پر شائع مضمون میں حسین موسویان نے شام میں گذشتہ ماہ کیمیائی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور ایران کی جانب سے دمشق کے خلاف فوجی کارروائی روکے جانے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکا سے مذاکرات اور طویل عرصیسے پھیلی دشمنی ختم کرنے ٹاسک دیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حالات میں امریکس نے شام پرحملہ کیا تو تہران واشنگٹن مذاکرات نہ صرف التواکا شکار ہوں گے بلکہ شام پرحملہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا اور مفاہمت کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی۔
حسین موسویان نے امریکا کو بھی یہ پیغام دیا کہ اگر واشنگٹن شام کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہے یہ اس کی ایک بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ ایران میں حسن روحانی جیسے معتدل صدر سے بات چیت سے محروم اور ایران کے جوہری تنازع کے حل میں ناکام ہوجائے گا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بارے میں امریکا اور ایران میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ دونوں ملک ایسے ہتھیاروں کے استعمال کو سنگین جرم قرار دیتے ہیں۔ ایران اس طرح کے ہتھیاروں کا سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور میں نشانہ بنتا رہا ہے۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک خطہ قرار دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون کرے لیکن اس میدان میں صرف ایران پردباؤ ڈالنا کافی نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ حسین موسویان کا یہ مضمون ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ایرانی اور امریکی صدور کے درمیان خفیہ مراسلت بھی ہوئی ہے۔
ویب پورٹل''ایران ڈپلومیٹک'' پر شائع مضمون میں حسین موسویان نے شام میں گذشتہ ماہ کیمیائی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور ایران کی جانب سے دمشق کے خلاف فوجی کارروائی روکے جانے کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکا سے مذاکرات اور طویل عرصیسے پھیلی دشمنی ختم کرنے ٹاسک دیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا خیال ہے کہ اگر موجودہ حالات میں امریکس نے شام پرحملہ کیا تو تہران واشنگٹن مذاکرات نہ صرف التواکا شکار ہوں گے بلکہ شام پرحملہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بنے گا اور مفاہمت کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی۔
حسین موسویان نے امریکا کو بھی یہ پیغام دیا کہ اگر واشنگٹن شام کے خلاف فوجی کارروائی کرتا ہے یہ اس کی ایک بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ ایران میں حسن روحانی جیسے معتدل صدر سے بات چیت سے محروم اور ایران کے جوہری تنازع کے حل میں ناکام ہوجائے گا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بارے میں امریکا اور ایران میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ دونوں ملک ایسے ہتھیاروں کے استعمال کو سنگین جرم قرار دیتے ہیں۔ ایران اس طرح کے ہتھیاروں کا سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور میں نشانہ بنتا رہا ہے۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو تباہ کن اسلحے سے پاک خطہ قرار دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون کرے لیکن اس میدان میں صرف ایران پردباؤ ڈالنا کافی نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ حسین موسویان کا یہ مضمون ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ایرانی اور امریکی صدور کے درمیان خفیہ مراسلت بھی ہوئی ہے۔