چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی حکومت کو کیا نقصان ہوگا

حزب اختلاف اپنے اتحاد کا بھرپور ثبوت دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو ایک چیلنج دینے والی ہے


August 01, 2019
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ نہیں رہیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''دلہے میں عیب نظر آنے پر سسرالیوں نے بیٹی بیاہنے سے انکار کردیا، باراتیوں اور بڑوں کے سمجھانے پر بارات میں آئے دلہے کے بھائی سے دلہن کا نکاح کردیا گیا، دو خاندانوں میں جنم لیتی دشمنی ختم، باراتی خوش خوش واپس چلے گئے۔'' یہ وہ خبر ہے جو میں ایک اخبار میں پڑھ رہا تھا، اسی اخبار کے صفحہ اول پر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی خبر تھی۔ دونوں خبروں کا ایک خاص تعلق لگتا ہے، وہ ایسے کہ ایک سال قبل اسی ایوان کا دلہا بڑی شان و شوکت سے بلوچستان سے لایا گیا تھا، ایک سال بعد ہی اس میں ایسا کیا نقص نظر آگیا کہ اسے تبدیل ہی کرنا پڑگیا؟

ایک سال پہلے تک یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ آصف زرداری اور شہباز شریف ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں گے اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں گے۔ دلہے میں نقص نظر آیا یا بدنیتی نے ذہن میں جنم لیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے سے ملتے نظر آرہے ہیں۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ایک سال پہلے صادق سنجرانی کو منتخب کروانے والے جیالے صبح و شام متوالوں کے ساتھ گزاریں گے، ایک دوسرے کو ظہرانے اور عشائیہ پر بلائیں گے، ایک دوسرے کے ساتھ کھانے کھائیں گے۔ کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔

حزب اختلاف اپنے اتحاد کا بھرپور ثبوت دے رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو ایک چیلنج دینے والی ہے۔ اگر آج تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ نہیں رہیں گے اور اپوزیشن کے نامزد امیدوار حاصل بزنجو نئے چیئرمین ہوجائیں گے۔ نمبر گیم سے تو واضح ہے کہ اپوزیشن ہی کامیاب ہوگی۔ اپوزیشن کے دعوے کے مطابق اس کے پاس 104 کے ایوان میں 62 نشستیں موجود ہیں۔ عددی اعتبار سے کسی سخت مقابلے کی توقع نہیں ہے، لیکن یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت کی اپنی پاور ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے کچھ لوگ جادوگری کریں اور اپوزیشن سینیٹرز پر اثر انداز ہوجائیں۔

یہ معاملہ دونوں طرف ہے۔ آج خفیہ رائے شماری ہوگی۔ یہ نہیں پتہ چلے گا کہ کس نے کس کو ووٹ دیا اور اگر حزب اختلاف کے سینیٹرز چاہیں تو وہ صادق سنجرانی پر اعتماد کا اظہار کرسکتے ہیں اور اگر حکومت کے سینیٹرز بھی چاہیں کہ وہ صادق سنجرانی پر عدم اعتماد کردیں تو یہ سہولت ان کو بھی حاصل ہوگی۔

سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 104 ہے، چیئرمین کی تبدیلی کےلیے 53 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی 62 سینیٹرز کے ساتھ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ہے، جن میں مسلم لیگ ن کے 30 سینیٹرز ہیں، ان میں 16 مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اور باقی 14 آزاد حیثیت میں جیتے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی 20، نیشنل پارٹی 5، جے یو آئی ف کے چار اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2۔ اے این پی کا ایک، اس طرح اپوزیشن ارکان کی تعداد 62 ہے۔ حکومتی اتحاد کے پاس تحریک انصاف کے 14، بلوچستان عوامی پارٹی کے 2، ایم کیو ایم 5، مسلم لیگ فنکشنل کا ایک، بی این پی مینگل کا ایک سینیٹر ملا کر کل تعداد 23 بنتی ہے۔ جماعت اسلامی کے 2 سینیٹرز ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس تحریک سے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری طرف ''دھاندلی'' اور ہارس ٹریڈنگ کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن، دونوں کی طرف سے ممبران اسمبلی کے خریدے جانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سینیٹ میں پیسہ تو چلتا ہے۔ پیسے نے کام دکھایا تو صادق سنجرانی کی سیٹ بچ سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایوان بالا کا دلہا تبدیل ہوجائے گا۔ اگر دلہا تبدیل ہوگیا تو اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک کا پہلا زینہ عبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کامیابی کے ساتھ اپوزیشن فارم میں آجائے گی۔ مولانا فضل الرحمان تو پہلے ہی حکومت کو جانے کےلیے الٹی میٹم دے چکے ہیں۔ جب ہوا اکھڑ جاتی ہے تو سب کچھ بہا لے جاتی ہے۔ باراتیوں کا تو مزاج پہلے ہی خراب ہوچکا ہے۔ ایک شادی کا کھانا کھاتے ہی دوسری کی تیار کردیتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔