حالیہ پاک بھارت سرحدی کشیدگی کی وجوہات
پاکستان کے افغان عمل میں کردار بڑھنے سے بھارت افغانستان سے مائنس ہوتا نظر آ رہا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے موقع پر حکومت اور تجزیہ نگار یہ توجیح پیش کررہے تھے کہ مودی بھارت میں انتخابات میں پاکستان کی مخالفت بیچ رہے ہیں۔ وہ پاکستان مخالف ایجنڈے پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس لیے سرحدوں پر کشیدگی ان کی ضرورت ہے۔ اس لیے بعض ایسی آوازیں بھی اٹھ رہی تھیں کہ بھارتی انتخابات کے موقع پر پاک بھارت محدود جنگ ہو سکتی ہے۔ سب کو اندازہ تھا کہ مودی کوئی نہ کوئی ایڈونچر کریں گے۔
پھر ہم نے دیکھا کہ بھارت میں انتخابات کے دوران مودی نے پاکستان کے خلاف ایک ناکام سرجیکل اسٹرائیک کی۔ اس کے اگلے دن پاکستان نے کامیاب جواب دیا۔ بھارت کے دو جہاز گرا دیے۔ اور ان کے پائلٹ ابی نندن کو جنگی قیدی بنا لیا۔ بعد میں اگلے دن ابی نندن کو رہا کر دیا گیا۔ تاہم بھارت کے ساتھ کشیدگی برقرار رہی۔ پاکستان نے بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود بند رکھیں۔ دونوں طرف ایک جنگی ماحول رہا۔ ایسے ماحول میں بھارت میں انتخابات ہوئے اور مودی کو تاریخی کامیابی مل گئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ مودی اپنی پلاننگ میں کامیاب رہے۔ انھوں نے ایک جنگی ماحول میں انتخابی پولنگ کرائی اور جیت گئے۔
سب کا خیال تھا کہ یہ جنگی ماحول صرف انتخابات کے لیے تھا۔ انتخابات کے بعد مودی بدل جائیں گے۔ وہ پاک بھارت کشیدگی کم کر دیں گے۔ اسی تناظر میں مودی کی جیت کے بعد عمران خان نے مودی کو مبارکباد کے خط لکھے۔ تا ہم مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں عمران خان کو مدعو نہیں کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے انھوں نے نواز شریف کو اپنی پہلی حلف برداری میں مدعو کیا تھا۔ اس بار بھی عمران خان جانے کے لیے تیار تھے۔ تا ہم مودی نے مدعو نہیں کیا۔ ایک رائے سامنے آئی کہ مودی کے لیے اتنی جلدی یوٹرن لینا ممکن نہیں۔ انھیں وقت چاہیے۔ وہ آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے کشیدگی کم کریں گے۔
اس کے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ میں سیکیورٹی کونسل کے لیے بھارت کی حمایت میں ووٹ دے دیا۔ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب اس پر بھی سوال اٹھا تو یہی توجیح پیش کی گئی کہ بھارت سے برف پگھلانے کے لیے کچھ تو کرنا ہو گا۔ اس لیے ووٹ دیا گیا۔ اسی دوران جب مودی ایک غیر ملکی دورے پر جا رہے تھے تو پہلے پاکستان سے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگی گئی اور جب پاکستان نے مودی کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی تو بعد میں مودی نے گزرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی کہ بین الااقوامی اخلاقی اقدار کے تحت جب کوئی سربرا ہ مملکت کسی دوسرے ملک کی فضائی حدود میں سے گزرتا ہے تواس ملک کے سربراہ کو نیک خواہشات کا پیغام بھیجتا ہے۔ اور مودی ابھی نیک خواہشات کا پیغام نہیں بھیجنا چاہتے۔ اس لیے انھوں نے پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہیں کی۔
اسی دوران وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا سے قبل حافظ سعید کو گرفتار کر لیا گیا۔ سب نے پوچھا یہ کیا ہے بتایا گیا کہ بین الا قوامی مجبوریاں سمجھیں۔ امریکا کا دورہ ہے۔ سمجھ نہیں آئی لیکن پھر صدر ٹرمپ نے حافظ سعید کی گرفتاری پر فاتحانہ ٹوئٹ کر دیا اور تسلی ہوئی کہ قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ بتایا گیا کہ امریکا کا دورہ بہت کامیاب رہا ہے۔ ایسا ماحول بنایا گیا جیسے امریکا فتح کر لیا گیا ہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے کہا مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے انھوں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔ حالانکہ بظاہر کوئی کامیابی نظر نہیں آ رہی تھی۔
بہر حال کامیاب دورہ امریکا بعد پاکستان میں حالات بد ل گئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کامیاب دورہ امریکا کے بعد ملک میں دہشتگردی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب ہم امریکی مفادات کے لیے افغان جنگ میں شامل ہوئے تھے تو پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں پھنس گیا تھا۔ اب دوبارہ امریکا پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں ملوث کر رہا ہے ۔ میرے لیے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد دہشتگردی کے واقعات کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں بھی اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن وہاں کے حالات مختلف ہیں۔ وہاں طالبان اور حکومت کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ طالبان ابھی تک افغان حکومت کے ساتھ سیز فائر کے لیے نہیں مانے۔ تاہم پاکستان میں تو ہم دہشتگردوں کو شکست دے چکے ہیں۔ امن قائم ہو چکا ہے۔ ہم نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کر لیا ہے۔ وہاں پُرامن انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ کے پی کے قبائلی علاقے کے پی میںضم ہو گئے ہیں۔ امن کے گیت گائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں دہشتگردی کے واقعات کی دوبارہ لہر کیا پیغام دے رہی ہے۔ کیوں وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے بعد ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
افغان سرحد پر کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افغان سرحد سے پاکستان کی چوکی پر حملہ ہوا ہے۔ پاکستان کے جوان شہید ہوئے ہیں۔ افغان سرحدوں پر کشیدگی بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ ہم جب امریکی مفاد کے لیے افغانستان میں ملوث ہوتے ہیں، تب تب پاک افغان کشیدگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ طالبان نے وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے بعد دورہ پاکستان کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اگر طالبان خوش ہیں تو باقی ناراض ہیں۔
بھارت نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھا دی ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحد پر گولہ باری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ مقامی لوگ بتا رہے ہیں کہ جنگ کا ماحول بن گیا ہے۔ بھارت نہتے شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ مودی واپس جنگی ماحول میں آگئے ہیں۔
پاکستان کے افغان عمل میں کردار بڑھنے سے بھارت افغانستان سے مائنس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ طالبان نے اب تک افغان عمل میں شریک تمام ممالک کے دورے کیے ہیں۔ لیکن طالبان اور بھارت کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان نئے اشتراک عمل سے بھارت ناراض ہے۔ بھارت کی ناراضگی سرحدوں پر نظر آ رہی ہے۔ یہ گولہ باری اسی ناراضگی کا اظہار ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا اور بھارت کے درمیان بھی اختلاف سامنے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
کہا یہی جاتا ہے کہ بھارت نے افغانستان کو اپنے مفادات کے لیے تو بہت استعمال کیا ہے۔ لیکن بھارت امریکی مفادات کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بھارت کے افغانستان میںامریکی مفادات کے تحفظ سے انکار کی وجہ سے ہی امریکا کو دوبارہ پاکستان کی طرف رجوع کرنا پڑا ہے۔ اب بھارت سرحدوں پر غصہ نکال رہا ہے۔ اگر منظر نامہ یہی ہے تو پھر بھارت کو سیکیورٹی کونسل کے لیے ووٹ دینا ضایع ہو گیا ہے۔ فضائی حدود کھولنے کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے جیسے پاکستان کا افغان عمل میں کردار بڑھتا جائے گا، بھارت کا افغانستان میں کردار محدود ہوتا جائے گا۔ ویسے ویسے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھارت کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس لیے سرحدوں پر گولہ باری بڑھے گی۔ ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔ شاید بھارت کو غصہ تو امریکا پر ہے لیکن نکال پاکستان پر رہا ہے۔