مہنگی ہوتی ہوئی قربانی
بعض سرکاری و نجی اداروں نے قربانی کو کاروبار بنا رکھا ہے اور ان کا مقصد محض کمائی کرنا رہ گیا ہے۔
عیدالاضحی پرکی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی ہے، جس کی ادائیگی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو، وہ قربانی ضرورکرتا ہے۔ مسلمان قربانی سنت ابراہیمی سمجھ کر ہی نہیں کرتے بلکہ استطاعت نہ ہونے کے باوجود قربانی اس لیے بھی کرتے تھے کہ قربانی اللہ کو بھی پسند ہے اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرکے نہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی قربانی سے وہ پریشانیوں اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔
مقروض لوگوں کے لیے قربانی ضروری نہیں سمجھی جاتی مگر پھر بھی مقروض مسلمان بھی قربانی کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کی قربانی قبول ہوتی ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں عام آدمی تو قربانی کر ہی نہیں سکتا، البتہ سرمایہ داروں میں قربانی نہ صرف دکھاوا بلکہ مقابلہ بن کر رہ گئی ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں بقر عید کے لیے مویشی منڈیاں لگائی جاتی ہیں وہاں بھی کئی سالوں سے امتیاز پیدا کر دیا گیا ہے۔
ایشیا کی سب سے بڑی منڈی کہلانے والی سپر ہائی وے کراچی مویشی منڈی میں گائے، بیلوں، بکرے، بکریوں اور اونٹوں کی فروخت کے لیے الگ الگ جگہیں مختص ہوتی ہیں اور مین منڈی میں شامیانے قناطیں لگا کر جانوروں کی الگ جگہیں مختص کی جاتی ہیں، جو وی آئی پی بلاک کہلاتے تھے اب ان میں بھی امتیاز بڑھ گیا ہے اور وی وی آئی پی بلاک وجود میں آگئے ہیں جہاں اچھی نسل، بڑے قد کاٹھ اور صحت مند مختلف خوبصورت رنگوں کے جانور موجود ہوتے ہیں مگر ان کی قیمت ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہوتی ہے۔
جہاں بڑی مویشی منڈیوں میں عام لوگوں کے لیے عام جانور بغیرکسی سائبان کے کھلے آسمان تلے دن رات فروخت کے لیے موجود ملتے ہیں جوکھلے آسمان تلے ہونے کی وجہ گرمی سردی برداشت کرتے ہیں۔ ایسے جانور گوبر پر ہی بیٹھ جاتے ہیں اور صاف ستھرے نہیں ہوتے اور رات کو تھوڑی روشنی میں نمایاں نظر آتے اور ان کے خریدار ان جانوروں کے مالکان سے کھڑے کھڑے ہی سودے نمٹاتے ہیں اور سودا ہونے پر خرید کرکرائے کی پک اپ کرا کر گھر لے جاتے ہیں جنھیں کوئی پانی کو بھی نہیں پوچھتا۔
وی وی آئی پی اور وی آئی پی مویشی بلاکوں میں رکھے گئے جانور عام نہیں ہوتے بلکہ فارم مالکان ان کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ صاف ستھرے شامیانوں تلے رکھے گئے جانوروں کی خدمت کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں۔ جانور صاف ستھری جگہ جگمگاتی روشنی میں ہوتے ہیں جو گوبر کریں تو فوراً اٹھا لیا جاتا ہے تاکہ جانور صاف ستھرے رہیں۔ خدمت گار ان جانوروں کے جسم کپڑے سے صاف کرتے رہتے ہیں۔ وی وی آئی پی بلاکوں میں خریداروں کا کم مگر دیکھنے والوں کا رش زیادہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں میں آنے والے ان گاہکوں کے لیے بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور پنکھے موجود ہوتے ہیں۔
وی وی آئی پی بلاکوں میں آنے والوں کی چائے پانی سے خدمت بھی کی جاتی ہے اور وہ مول تول کی بجائے جانور پسند کرکے آرڈر بک کرا دیتے ہیں۔ وی آئی پی جانور لانے والوں کے ملک بھر میں بڑے بڑے کیٹل فارم موجود ہیں جہاں چھانٹ چھانٹ کر جانور لائے جاتے ہیں اور بڑے لوگوں کو گھر بیٹھے فارم والے پسند کے جانور پہنچا دیے جاتے ہیں۔ وی وی آئی پی بلاکوں میں لاکھوں کروڑوں میں جانور فروخت ہوتے ہیں جہاں مہنگے جانوروں کو پسینے اور گرمی سے بچانے کے لیے پنکھے بھی لگے ہوتے ہیں اور ان کے خریدار بھی وی آئی پی ہوتے ہیں۔
قربانی جو مذہبی طور پر سنت ابراہیمی ہے مگر اب کئی سالوں سے قربانی مختلف سرکاری اور نجی اداروں اور کاروباری لوگوں کے لیے محض کمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے اور ہر سال جانوروں کے مہنگا ہونے سے قربانی کے جانور کم فروخت ہو رہے ہیں۔ بکرے اس قدر مہنگے کردیے گئے ہیں کہ اجتماعی قربانی دوبارہ فروغ پا رہی ہے اور جو لوگ بکرے نہیں خرید سکتے وہ گائے کی قربانی میں حصہ دار بن جاتے ہیں اور دس سے 15 ہزار تک میں مناسب گائے میں باآسانی حصہ لے لیا جاتا ہے۔ متوسط لوگ اپنے خاندان کے حصوں کے حساب سے گائے خرید کر کسی غیر کو شامل کیے بغیر قربانی کرلیتے ہیں۔ مدارس اور دینی جماعتیں سات آٹھ ہزار میں حصہ لینے کی آفر کرتی ہیں جو عوام کو سستا پڑتا ہے اور اخراجات نکال کر کھالیں ان اداروں کو مل جاتی ہیں اور ان کا مقصد کمائی کرنا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو سہولت دینا ہوتا ہے۔
بعض سرکاری و نجی اداروں نے قربانی کو کاروبار بنا رکھا ہے اور ان کا مقصد محض کمائی کرنا رہ گیا ہے۔ یہ ادارے ہر سال اپنے نرخ بڑھا کر جگہیں مہنگی فروخت کرتے ہیں اورکاروباری لوگ بھی ان منڈیوں میں ٹھیکے لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان منڈیوں میں گرانی عروج پر اور ہر چیزکی قیمت آسمان پر پہنچی ہوتی ہے۔ منڈیاں لگانے والے ادارے اگر قربانی کو اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں تو ہزاروں افراد قربانی سے محروم نہ ہوں اور انھیں بھی مناسب داموں جانور مل سکتے ہیں مگر ان خواہش مندوں کی فکر حکومت کو ہے نہ قربانی کوکاروبار بنانے والے اداروں کو۔ اگر حکومت اور ادارے قربانی کو اپنی بے پناہ آمدنی کا ذریعہ نہ بنائیں تو جانوروں کے نرخ بڑھتے بڑھتے اس مقام پر نہ آتے کہ لوگ چاہتے ہوئے بھی مہنگے جانوروں کی خریداری سے محروم رہ جاتے ہیں۔
منڈیاں لگانے والے سرکاری اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ شہر میں جگہ جگہ منڈیاں نہ لگیں تاکہ لوگ ان کی قائم کردہ مہنگی منڈیوں میں مجبور ہوکر آئیں اور مہنگے جانور خرید کر لے جائیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں انتظامیہ نے صرف چھ مقامات پر عیدالاضحی پر مویشی منڈیاں لگانے کی اجازت دی ہے جو سراسر ناانصافی اور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔
چھوٹے پیمانے پر جانور پالنے والے اپنے جانور منڈیوں میں نہیں لے جاتے اور مختلف علاقوں میں کھڑے ہوکر اپنے جانور فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو منڈیوں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں مگر اس کے لیے انھیں متعلقہ اداروں کے گھومنے والے اہلکاروں اور پولیس کو رشوت دینا پڑتی ہے اور پابندی کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور لوگوں کو منڈیوں کے مقابلے میں سستے جانور مل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں انتظامیہ صفائی کو بنیاد بناتی ہے تو عیدالاضحی پر صفائی تو ویسے بھی متاثر ہوتی ہے مگر لوگ کم قیمت جانور خرید لیتے ہیں۔