آرٹیکل 35 اے اور بھارتی سازش

آرٹیکل 35 اے کی آڑ میں عوام کو دبانے کی بھارتی سازش کشمیریوں سے ان کی شناخت کا حق چھین لے گی


کشمیر کی آزادانہ حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارتی سرکار آرٹیکل 35A ختم کرنا چاہتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

27 اکتوبر 1947 سری نگر میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ کشمیریوں نے 5 ہزار 134 مربع میل کشمیر کا علاقہ، جبکہ 27 ہزار 991 مربع میل گلگت بلتستان کو بھارتی تسلط سے آزاد کرالیا تھا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے، لیکن اس تاریک دن بھارت نے پیراشوٹ کے ذریعے اپنی فوجیں سری نگر اور دیگر علاقوں پر اتار دیں۔ اسی طرح جموں کے قتل عام کو دبانے کےلیے بھی علاقے میں بھاری تعداد میں فوجی دستے تعینات کردئیے تھے، جن کی تعداد اس وقت 7 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔

مقبوضہ وادی ایک فوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ بڑی شاہراہوں سے لے کر چھوٹے گاؤں ساری وادی فوجی کیمپ کا منظر پیش کررہی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں لے کرگیا جس نے پاکستان اور بھارت کو پابند کیا کہ وہ یہاں کے عوام کی مرضی و منشا کے مطابق الحاق کا اختیار انہیں دیں۔ 1948 کی جنگ بندی کے بعد بھارت اپنے معاہدوں سے مکر گیا اور وادی پر اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ریاست کی آزادانہ حیثیت کو برقرار رہنے دیں۔ اس کےلیے پاکستانی آئین اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے اس کی حیثیت کا تعین بھی کرتے ہیں۔ بھارتی آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق موجود دفعہ 35 اے کے مطابق جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے یہاں سرمایہ کاری کا اختیار حاصل ہے۔

یہ قوانین مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 سے لے کر 1932 تک نافذ کئے تھے۔ لیکن اب شنید یہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کی شناخت تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ بی جے پی ہر دور میں اس قانون کو ختم کرنے کےلیے کوششیں کرتی رہی ہے لیکن ریاستی حکومت اس کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی این جی او 'دی سٹیزن' نے اس میں ترمیم کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ غالب امکان ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون میں ترمیم کردے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں آئینی امور کی ماہر جویریہ منظور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اس حوالے سے کوئی قانون نہیں بناسکتی، کیوں کہ ریاست کےلیے قانون سازی کا حق صرف ریاستی حکومت کے پاس ہے۔ تاہم ہندو نواز سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کا سہارا لے کر چور دروازے سے ریاست کی شناخت ختم کرانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

تاریخی کتب کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد شمالی پنجاب کے لوگوں نے ریاست میں اپنا کاروبار بڑھانے کےلیے یہاں رہائش اختیار کی تھی، جس کے بعد مقامی افراد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس عمل سے ریاست کے پشتینی باشندوں کے کاروبار پر اثر پڑے گا۔ انہوں نے مہاراجہ سے غیر ریاستی باشندوں کی آبادی روکنے کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد یہ قانون نافذ کیا گیا۔ جموں کے پنڈت اور وادی کے مسلمان سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ آرٹیکل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کی جائے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قانون سازی کےلیے بھارتی حکومت کو ریاستی اسمبلی کی اتفاق رائے سے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی لیکن اس وقت محبوبہ مفتی قانون میں ترمیم کے خلاف ہیں اور انہوں نے فاروق عبداللہ سمیت دیگر سیاسی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ آئینی ترمیم کی سازش کامیاب نہ ہونے دیں۔ تادم تحریر بھارت نواز سیاسی جماعتیں، حریت کانفرنس اور دیگر ریاستی تنظیموں نے آئینی ترمیم کی بھرپور مخالفت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

27 اکتوبر 1947 کی طرح گزشتہ دنوں بھارتی سرکار نے پیراشوٹ کے ذریعے سرینگر ایئر پورٹ پر اپنی مزید فورسز اتار دی ہیں۔ وزرات داخلہ کے مطابق وادی میں 40 ہزار سے زائد مزید فوجی تعینات کردئیے گئے ہیں۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے جاری مراسلے میں وادی میں موجود مساجد کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے وادی میں قیام پذیر سیاحوں اور یاتریوں کو بھی اپنے علاقوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان اقدامات اور ہدایات کے بعد وادی افواہوں کی زد میں ہے۔ شہری ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور انہیں وادی کے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ وادی کے اکثر حصوں میں انٹرنیٹ سروس بند جبکہ موبائل نیٹ ورکس پر بھی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں موجود صحافیوں اور عزیز و اقارب سے اس معاملے پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ جن کا کہنا تھا کہ ریاستی باشندے شدید اضطراب میں ہیں، شہریوں نے گھروں میں راشن اکٹھا کرنا شروع کردیا ہے۔ اے ٹی ایم مشینوں سے کیش اور پٹرول پمپوں سے پٹرول ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ شہری کسی بھی ہنگامی صورت سے نمٹنے کےلیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال کب تک رہے گی؟ بھارتی عدالت زعفرانی چادر بریگیڈ کے سامنے جھک جائے گی یا آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی؟ اگر بھارتی سرکار کشمیری عوام کی امنگوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کے بعد وادی میں تشدد اور جبر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بھارتی حکومت نے وادی میں تعینات مسلمان پولیس اہلکاروں کو غیر مسلح کردیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورت حال 15 اگست کے بعد واضح ہوگی، تاہم اس ہنگامہ خیزی کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں حریت رہنما یاسین ملک کے خلاف عدالتی فیصلہ، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، جبکہ بعض ذرائع کے مطابق بھارت مقبوضہ وادی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس میں جموں اور لداخ کو وادی سے علیحدہ کرکے الگ ریاست کا درجہ دینے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس منصوبے سے وادی کی جداگانہ حیثیت برقرار رکھنے والے آرٹیکلز 270 اور 35 اے خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ تاہم اس معاملے پر جموں کے مسلمان اور ہندو منقسم نظر آتے ہیں۔

مودی جی ہندواتوا کا نعرہ بلند کرکے اقتدار میں آئے تھے۔ جبکہ ہندو نواز ووٹرز نے اس بار بھی انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ بھی اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نریندر مودی نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی قسمیں کھائی تھیں مگر اپنے جاسوس پکڑوا دئیے، طیارے گنوا بیٹھے اور خارجہ امور میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت کے پاس صرف کشمیر کا معاملہ بچا ہے، جس پر وہ گزشتہ پانچ سال اقتدار میں رہے اور اسی بنیاد پر وہ دوبارہ کرسی اقتدار پر براجمان ہیں۔

کشمیر میں ہونے والے مظالم کا اگر جائزہ لیا جائے تو 90 کی دہائی میں بھارتی فوج نے مودی کے دور اقتدار میں کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنائی ہے۔ برہان وانی کا واقعہ اور اس کے بعد کی صورتحال کے ذمے دار بھی بھارتی وزیراعظم ہی ہیں۔

آرٹیکل 35 اے کی آڑ میں ریاستی عوام کو دبانے کی بھارتی سازش جہاں کشمیریوں سے ان کی شناخت کا حق چھین لے گی، وہیں وادی میں قتل عام کا بازار بھی مزید بڑھ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اس اقدام کےلیے آواز بلند کریں اور کشمیر کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانے کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں