آثار قدیمہ تمام علوم کی ماں ہے
فن کاروں نے گوتم بدھ کے مجسموں کے لیے مقامی اور یونانی فنون سے استفادہ کیا، ڈاکٹر محمد نسیم خان
COVENTRY, UK:
انسان کی بے حسی کی انتہا ہو گئی ہے۔
وہ گوشت پوست کی ایک مشین سی بن کر رہ گیا ہے، انسانیت اس سے یوں رخصت ہوئی کہ اب اگر کوئی پتھر کو بھی انسان بننے کی دعوت دے ڈالے تو وہ بھی شاید ہاتھ جوڑ دے کہ اس قدر سنگ دلی اس سے بھی ممکن نہیں لیکن خیر قحط ایسا بھی نہیں، خال خال ہی سہی ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں'' جو پتھر سے بھی اتنے خلوص کے ساتھ معاملہ بندی کرتے ہیں کہ وہ بھی بولنے لگ جاتے ہیں۔
وہ اپنی آڑی ترچھی لکیروں میں انسانی تاریخ وتہذیب کی داستاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں، ڈاکٹر نسیم خان ایسی ہی شخصیت ہیں جن سے قدیم سنگ و خشت بھولی بسری تہذیبوں کی باتیں کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب اس سنگی زبان کی تفہیم کرتے ہیں تو اسرار کے ایسے ایسے گنبد و محراب وا ہوتے ہیں کہ سامع مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔
''ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا'' ڈاکٹر نسیم کا دھیما اندازِ گفت گو اور مقناطیسی شخصیت، مخاطب کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے گھرانے اورماحول میں آنکھ کھولی ہے جہاں علم دین اور پختون ولی کے سوا اور کچھ نہیں تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ ایک تربیت یافتہ پختون کی مانند وہ اپنے عالمانہ استدلال اور دور اندیشی سے مخاطب کے فکری الجھاؤ دورکرتے ہیں ان کی شخصیت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو کا اپنا ایک جداگانہ رنگ ہے مگر ان کی سوچ کی اڑان، اور بالغ نظری کا جواب نہیں، جو انسان دوستی اور خیر میں گندھی ہوئی ہے۔
اس کا عکس ان کی عملی زندگی میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے، وہ اپنی قوم کی زبوں حالی اور تعلیمی پس ماندگی پر ہر وقت غمگین نظر آتے ہیں اور ہر وقت بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ گہرامطالعہ، عمیق مشاہدہ اورتعلیمی تجربے نے ان کی ذات میں رچ بس کر ان میں دریا جیسی گہرائی پیدا کردی ہے، ان کی چال ڈھال، گفت گو اور لباس میں ایک روشن خیال پختون کے تمام رنگ سمائے نظرآتے ہیں۔ وہ اصول پسندی کی ایک عمدہ مثال ہیں، ان کی اصول پسندی بسا اوقات ان کے لیے وجۂ شکایت اور باعثِ خفگی بھی ثابت ہوئی مگر وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔
اس وقت ایک اہم سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود وہ قانون کی حکم رانی اور اصول پرستی کو نظر انداز نہیں کرتے اور خود کو اس کا پابند ہی نہیں بل کہ اس کے سامنے جواب دہ بھی سمجھتے ہیں وہ ان افسروں میں سے نہیں ہیں جن میں غرور اور تکبر پایا جاتا ہو بل کہ وہ پوری دیانت داری اور لگن سے اپنے کام اورذمہ داری کے حوالے سے خودکوخادم سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک انسان کی عظمت اس کے کردار اور عمل سے ہے نہ کہ افسرانہ ٹھاٹ باٹ سے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمدنسیم خان، شاہ نسیم خان کے ہاں تیمرگرہ کے ایک گاؤں خونگی بالا میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم سمیت میٹرک اپنے گاؤں کے اسکول سے کیا، 1979 میں بی اے پشاوریونی ورسٹی سے کیا، بعد میں اسی مادرعلمی سے آرکیالوجی میں ایم اے کیا اور گولڈمیڈل حاصل کیا، بعدازاں دوایم فل کی ڈگریاں لینے کا اعزازبھی حاصل کرچکے ہیں۔
1995 میں فرانس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اب تک کئی ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں، جن میں سی آر اویوایس، سی این اویو ایس فیلوشپ، جرمنی سے ڈاڈ فیلوشپ، یوکے سے چارلس والزفیلو شپ، ہائی رامافیلوشپ، رائل ایستھیٹک سوسائٹی سے ویزیٹنگ فیلوشپ، وزیزیٹنگ سکالر، ویزیٹنگ پروفیسر جے این یونی ورسٹی آف دہلی انڈیا کے علاوہ مختلف ممالک میں منعقدہ آثارقدیمہ کے حوالے سے بے شمار سیمینارز، سمپوزیمز اور ورکشاپس میں تحقیقی مقالے پڑھ چکے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم خان بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح شرارتیں کیاکرتے تھے، ان کے بہ قول جوبچہ شرارتیں نہیں کرتا وہ ابنارمل ہوتاہے۔ علاقے کے روایتی کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے، والی بال کے بہترین کھلاڑی رہ چکے ہیں، مچھلی خور اس وجہ سے تھے کہ خودمچھلیوں کا شکارکیاکرتے تھے، لڑکپن میں فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے، پہلی فلم ''نوکر'' دیکھی، موسیقی کے دل دادہ ہیں، گلوکاروں میں مہدی حسن، خیال محمد، زرسانگہ اور قمرگلہ کو ہمہ تن گوش ہوکرسنتے ہیں، سیروسیاحت کے رسیاہیں، قدرتی مناظرمیں لینڈ اسیکپ ان کی کم زوری ہے، سیاست دانوں میں قائداعظم محمدعلی جناح کورول ماڈل قراردیتے ہیں۔
ان کے سامنے کوئی فطرت کے خلاف کام کرے توسخت برہم ہوجاتے ہیں تاہم ان کی برہمی چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ دفتری اموراور لکھنے پڑھنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کی وجہ سے ان کے گھروالے ان سے بدمزہ رہتے ہیں۔ انہیں اپنی حرکتوں سے بہت ڈر لگتاہے کہ مبادا کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جس سے ان پرکوئی داغ لگ جائے۔
میوزیمز ڈائریکٹروں میں پروفیسر فرید خان، فداء اللہ صحرائی اوراحسان علی کے کام کوسراہتے ہیں، وہ گندھارا ریسرچ گروپ کے کنوینر، قومی نصاب کمیٹی برائے آثارِ قدیمہ کے کنوینر ، گندھارا اسٹڈیزکے بانی اورایڈیٹر، پاکستان جرنل آف انتھرا پالوجی کے بانی اورایڈیٹر اور انشنٹ پاکستان کے ایڈیٹرہیں، اس کے ساتھ سٹیئرنگ کمیٹی برائے آثار قدیمہ کے ممبر، سنٹرل پرچیزکمیٹی پشاوریونی ورسٹی کے ممبر، بورڈ آف اسٹڈیز ڈیپارنمنٹ آف آرکیالوجی پنجاب یونی ورسٹی کے ممبر، گریجوایٹس اسٹڈیز ڈیپارنمنٹ آف آرکیالوجی ہزارہ یونی ورسٹی کے ممبر، بورڈآف اسٹڈی ڈیپارنمنٹ آف ٹؤرازم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ یونی ورسٹی آف ملاکنڈ کے ممبرکی حیثت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
آثارقدیمہ کے موضوع پر اب تک ان کے ساٹھ تحقیقی مقالے اور سات تحقیقی کتابیں چھپ چکی ہیں، آثار قدیمہ کوتمام علوم کی ماں قرار دیتے ہیں اور آرکیالوجی اورانتھرا پالوجی کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں، ان کے بقول انتھراپالوجی کے تین بڑے حصے ہیں، جن میںکلچرل انتھراپالوجی، سوشل انتھراپالوجی اور فیزیکل انتھراپالوجی شامل ہیں۔ وہ ملک کے پہلے ماہر آثار قدیمہ ہیں جنہوں نے اس شعبے میں دو ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں، اسی طرح وہ ملک کے پہلے اور واحد اسکالر ہیں جو قدیم تحریروں اورزبانوں خصوصاً سنسکرت کے ماہرہیں۔
ڈاکٹرنسیم کوجرمنی کی ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جہاںدوسال تک تحقیقی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ 1997 میں وطن واپس آ کر پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ آثار قدیمہ میں بہ حیثیت مدرس درس وتحقیق کا آغازکیا، اس دوران تحقیقی کام جاری رکھا جس کونہ صرف اندورن ملک بل کہ بیرون ملک بھی پزیرائی حاصل ہوئی۔ وہ کئی اسکالرزکے ایم فل اورپی ایچ ڈی میں نگرانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں اورکئی طلبہ فی الوقت ان کی نگرانی میں تحقیق کا کام رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی اہم جگہوں مثلاً کشمیر سمستھ، عزیز ڈھیری اوربالاحصار ڈھیری چارسدہ پر، کھدائی کرکے تاریخی شواہداکٹھے کیے ہیں جن کواپنی کتابوں اورمقالوں کی شکل میں شائع بھی کیا ہوا۔ ڈاکٹرنسیم کا نام اورخدمات آثار قدیمہ کے شعبے میں سب سے نمایاں ہے۔ وہ شعبۂ آرکیالوجی کے شمارے کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔
ان کی زیر نگرانی شعبۂ آثار قدیمہ میں دوبین الاقوامی کانفرنسیں بھی منعقدکی گئیں، جن میں شعبۂ آرکیالوجی کی پچاس سالا تقریبات بھی شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم کے بہ قول ہمارے ہاں آثار قدیمہ کے بارے میں آگہی کی بہت کمی ہے اس کے علاوہ بد امنی بھی اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے مگر پھر بھی ہم مایوس نہیں ہیں اورپشاوریونی ورسٹی کے شعبۂ آثارقدیمہ میں داخلہ کی شرح میں ہر سال اضافہ ہو رہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ پتھروں پرکندہ تحریریں، نقش و نگار یا دیگر نوادرات ہماری تاریخ ہیں، انہیں مٹانا یا ضائع کرنا اپنی تاریخ، تہذیب اور اپنی پہچان کومٹانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں گندھارا تہذیب مشہور ہے مگر افسوس کہ ہمارے لوگ اس سرمائے اور تاریخ سے نابلد ہیں۔
صوابی کے لاہور نامی گاؤں میں دنیا کا سب سے پہلا گرائمر لکھنے والا اور سنسکرت زبان کا عالم پانینی پیداہوا، اسی طرح لاہور کے قریب ہنڈ جو ہندوشاہیہ کا دارلحکومت رہ چکاہے اور سکندر یونانی بھی اسی مقام سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے جہاں ان کی یادگارکے طور پرسابق حکومت نے ایک مینار بھی قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر نسیم نے بتایا کہ دیگر ممالک میں یہ ایک قانون ہے کہ جس مقام پرکوئی عمارت یا گھر بنانا چاہتا ہو تو سب سے پہلے وہ محکمۂ آثار قدیمہ سے این او سی لیتا ہے اورکنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ ایک ماہرآثار قدیمہ بھی ہوتا ہے جو اس جگہ کا معائنہ کرتا ہے کہ یہاں پرآثار قدیمہ تو نہیں جب کہ ہمارے ہاں لوگوں نے ایسے تاریخی مقامات پر قبضہ جمارکھاہے، اس پرآبادی کی ہوئی ہے، اگرچہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکاہے کہ جہاں جہاں لوگوں نے ایسے مقامات پر قبضہ کیا ہوا ہے یا گھر تعمیرکیے ہیں، ان سے ایسی جگہیں وا گزارکرائی جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ آثار قدیمہ کے حوالے سے میڈیا بہت مثبت رول اداکر رہا ہے۔
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے لوگوں میں شعور و آگہی پیدا ہو رہی ہے اور اب لوگ اس شعبے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ ڈاکٹرنسیم کا کہناہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت محکمۂ آثارقدیمہ صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تھوڑی بہت مشکلات پیش آرہی ہیں مگر ان پر جلد قابو پالیا جائے گا کیوں کہ ہماری صوبائی حکومت اس شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اوراس کے لیے قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے تاکہ اسمگلنگ کا راستہ روکا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ جن اضلاع میں میوزیم بنائے گئے ہیں، وہاں اسی علاقے سے برآمد ہونے والی اشیاء وہاں کی مقامی ثقافت کے نمونے کے طورپر رکھی گئی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ صوبے کے ہرضلع میں اپنا اپنا میوزیم قائم کیاجائے، ہمارے ہاں قدم قدم پر آثار قدیمہ کے نمونے بکھرے پڑے ہیں، جگہ جگہ ہماری قدیم تاریخ وتہذیب موجود ہے مگرلوگوں میں اس کا شعور نہیں ہے، ہم نے اب تک تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ڈاکٹر نسیم کے بہ قول سیاحت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور اس کے لیے آرکیالوجی کا ہونا بہت ضروری ہے جوکہ ہمارے ہاں وافر مقدار میں موجودہے، اس کی حفاظت اور ترقی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ہم ہرکام حکومت پرڈالتے ہیں اورخود یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہمارا مشترکہ قومی سرمایہ ہے، ان کے بہ قول کشمیر سمستھ اس صدی کی سب سے بڑی دریافت ہے، جوضلع مردان کے علاقے میں واقع ہے اس کے بارے میں طرح طرح کی روایتیں چلی آرہی تھیں مگر وہاں سے ملنے والے نمونوں سے ثابت ہوگیا کہ اس جگہ کا تعلق اسلامی دورسے ہے، اس کے علاوہ اوربھی کئی مقامات پرکھدائی کاکام جاری ہے اوروہاں سے ملنے والے نوادرات سے نئے نئے تاریخی انکشافات متوقع ہیں۔
گندھارا آرٹ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مستند تاریخ اور برآمد ہونے والے بے شمار قدیم آثار و نوادرات کی روشنی میں خیبرپختون خوا کی زمین پر 20 لاکھ سال قبل از مسیح سے لے کر برطانوی دور حکومت تک کئی ثقافتوں اور تہذیبوں نے جنم لیا ہے، ان تہذیبوں میں سب سے زیادہ مشہور گندھارا تہذیب ہے، جس سے برآمد ہونے والے بے شمار نمونے آج بھی ملک کے اندر بالخصوص پشاورکے عجائب گھر میں موجود ہیں،گندھارا وادیٔ پشاور کا پرانا نام ہے، جو دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات، دیر اور بامیان (افغانستان) تک پھیلا ہوا تھا، بعد میں ٹیکسلا کا علاقہ بھی اس کے زیر اثر رہا، آریاؤں کی مقدس کتاب رگ وید اور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھے گئے دارا اول کے سنگی کتبوں میں بھی وادیٔ گندھارا اور اخمینی حکومت کا ذکر موجود ہے، پشکلاوتی (بالاحصار چارسدہ) چھٹی صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک گندھارا کی پہلی راج دہانی رہی، جس پر 327 قبل از مسیح میں سکندر یونانی نے حملہ کیا تھا، اخمینی، موریا، یونانی، کشان اور ساسانیوں نے بھی گندھارا پر حکومت کی۔ کشان خاندان نے پہلی صدی عیسوی میں پشاور یا پرش پورہ کو دارالحکومت بنایا، بعد میں شاہی خاندان نے'' ہنڈ'' کو، جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے تربیلا ڈیم اور اٹک کے درمیان ضلع صوابی میں واقع ہے، کو اپنا مستقر قرار دیا۔
998 عیسوی میں غزنوی خاندان نے ہنڈ پر قبضہ کرکے گندھارا تہذیب کا خاتمہ کردیا۔ پہلی صدی عیسوی میں منظر عام پر آنے والا گندھارا آرٹ مقامی تھا جو کسی حد تک یونانی اور رومی فنون لطیفہ سے متاثر ہوا، یہ فن پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک پھلتا پھولتا رہا اور تقریباً آٹھویں صدی عیسوی میں ختم ہو گیا، اس فن کا مقصد خطے میں بدھ مت کا پرچار تھا اور اس مقصد کے لیے پتھر، چونے، مٹی اور کانسی کے بے شمار مجسمے بناکر عبادت گاہوں (سٹوپا) اور خانقاہوں میں رکھے گیے تھے، چینی سیاح ہیون سانگ نے ساتویں صدی کے اوائل میں اپنے سفر نامے میں ہزاروں ایسی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا ذکر کیا ہے، جن میں سے اب صرف چند کی کھدائی کی گئی ہے۔ گندھارا آرٹ میں گوتم بدھ کے انفرادی مجسمے، مکمل سوانح حیات اور پچھلے جنموں سے متعلق کہانیاں کندہ کی ہیں۔
فن کاروں نے گوتم بدھ کے مجسموں کے لیے مقامی اور یونانی فنون سے استفادہ کیا اور مہاتما بدھ کے مجسمے کو ابدی زندگی عطا کی۔ راجہ کنِشک کے دور حکومت میں گوتم بدھ کی سوانح حیات سے متعلق مسجمے بدھ مت کی ایک شاخ جسے 'مہایان' کہا جاتا ہے، کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زائرین، سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے شاہ راہ ریشم کے راستے چین، کوریا اور جاپان تک بدھ مت کا پرچار ہوا، بدھ آرٹ آج کے شمال مغربی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے علاقوں میں فروغ پاتا رہا، سب سے بڑی بات جو گندھارا سٹوپا کو پہلے کے سٹوپاز سے ممتاز و ممیز کرتی ہے وہ چوٹی پر بنائی ہوئی بڑی چھتری ہے، یہ بلاشبہ فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے اور اس کی مضبوطی اور استحکام زیادہ حیران کن ہے۔
تمام گندھارا سٹوپاز میں سب سے بڑا سٹوپا کنشک نے اس جگہ بنوایا تھا جو آج شاہ جی کی ڈھیری کے نام سے مشہور ہے اور پشاور کے نواح میں ہے۔ گندھارا آرٹ کے مثالی شاہ کار آج بھی خیبرپختون خوا کے کئی علاقوں میں مدفون ہیں، خصوصاًً ضلع مردان، سوات کے علاوہ ضلع صوابی کے مشہور تاریخی گاؤں لاہور، جو اب ضلع صوابی کی تحصیل بھی ہے اور جہاں سنسکرت زبان کا پہلا قواعد دان' پانینی' بھی پیدا ہوا تھا۔ یہاں ان کے نام سے ایک جگہ'پنے ونڈ'، 'پنے ڈھنڈ' اور بدھ کے نام سے 'بدھوونڈ' آج بھی موجود ہے۔
اس حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ اگر 'پنے ونڈ' اور 'بدھو ونڈ' میں کھدائی کا کام شروع کیا گیا تو نہ صرف بدھ مت بل کہ گندھارا آرٹ کے بے شمار نادر نمونے ہاتھ آسکتے ہیں، اسی طرح لاہور سے دو چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں'مانکئی، ' جلبئی' اور 'جلسئی' کے مقام پر بھی ' سولئی ڈھیری' 'مالادر'، بھاگو'' اور'رتہ پنڈ ڈھیری' ایسے مقامات ہیں جہاں سے قدیم تاریخی آثار کے علاوہ گندھارا تہذیب کے نادر نمونے دریافت ہوسکتے ہیں، اگر کوئی گندھارا آرٹ کے شاہ کار نمونے دیکھنے کا آرزومند ہو تو آج بھی پشاور کے عجائب گھر میں اس تہذیب کے بے شمار نادر و نایاب نمونے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
.....
پشاور عجائب گھر انگریزی دور میں 1906 میں وکٹوریہ میموریل ہال میں قائم کیا گیا، اس کے پہلے کیوریٹر آرل سٹائین تھے، عجائب گھر کی عمارت پشاور شہر اور صدر کے ریلوے اسٹیشن کے درمیان گورنر ہاؤس کے قریب واقع ہے، یہ عمارت ایک بڑے ہال اور اطراف کی راہ داریوں پر مشتمل تھی، جس میں 1975-74 اور 1978-79 میں دو منزلہ گیلریوں کا اضافہ کیا گیا، پشاور عجائب گھر میں گندھارا تہذیب و ثقافت کے نوادارت، قدیم قبائلی ثقافت کے آثار، سکے اور اسلامی تہذیب کے شعبے نمایاں ہیں، جن میں گندھارا نوادرات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
گندھارا کے اکثر نوادرات پشاور سے 54 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع 'تخت بہاہی' اور'سہری بہلول' کے آثار قدیمہ سے حاصل کیے گیے ہیں، قبائلی ثقافت کے ذخیرے میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ وادی چترال کے'' کیلاش'' تہذیب کے لکڑی کے مجسمے بھی شامل ہیں، اسلامی گیلری میں تصاویر، خطاطی کے نمونے مخطوطات اور اس زمانے کے آلات واوزار کے علاوہ اسلحہ بھی رکھا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
انسان کی بے حسی کی انتہا ہو گئی ہے۔
وہ گوشت پوست کی ایک مشین سی بن کر رہ گیا ہے، انسانیت اس سے یوں رخصت ہوئی کہ اب اگر کوئی پتھر کو بھی انسان بننے کی دعوت دے ڈالے تو وہ بھی شاید ہاتھ جوڑ دے کہ اس قدر سنگ دلی اس سے بھی ممکن نہیں لیکن خیر قحط ایسا بھی نہیں، خال خال ہی سہی ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں'' جو پتھر سے بھی اتنے خلوص کے ساتھ معاملہ بندی کرتے ہیں کہ وہ بھی بولنے لگ جاتے ہیں۔
وہ اپنی آڑی ترچھی لکیروں میں انسانی تاریخ وتہذیب کی داستاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں، ڈاکٹر نسیم خان ایسی ہی شخصیت ہیں جن سے قدیم سنگ و خشت بھولی بسری تہذیبوں کی باتیں کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب اس سنگی زبان کی تفہیم کرتے ہیں تو اسرار کے ایسے ایسے گنبد و محراب وا ہوتے ہیں کہ سامع مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔
''ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا'' ڈاکٹر نسیم کا دھیما اندازِ گفت گو اور مقناطیسی شخصیت، مخاطب کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ انہوں نے ایک ایسے گھرانے اورماحول میں آنکھ کھولی ہے جہاں علم دین اور پختون ولی کے سوا اور کچھ نہیں تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ ایک تربیت یافتہ پختون کی مانند وہ اپنے عالمانہ استدلال اور دور اندیشی سے مخاطب کے فکری الجھاؤ دورکرتے ہیں ان کی شخصیت کے یوں تو بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو کا اپنا ایک جداگانہ رنگ ہے مگر ان کی سوچ کی اڑان، اور بالغ نظری کا جواب نہیں، جو انسان دوستی اور خیر میں گندھی ہوئی ہے۔
اس کا عکس ان کی عملی زندگی میں بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے، وہ اپنی قوم کی زبوں حالی اور تعلیمی پس ماندگی پر ہر وقت غمگین نظر آتے ہیں اور ہر وقت بہتری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ گہرامطالعہ، عمیق مشاہدہ اورتعلیمی تجربے نے ان کی ذات میں رچ بس کر ان میں دریا جیسی گہرائی پیدا کردی ہے، ان کی چال ڈھال، گفت گو اور لباس میں ایک روشن خیال پختون کے تمام رنگ سمائے نظرآتے ہیں۔ وہ اصول پسندی کی ایک عمدہ مثال ہیں، ان کی اصول پسندی بسا اوقات ان کے لیے وجۂ شکایت اور باعثِ خفگی بھی ثابت ہوئی مگر وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔
اس وقت ایک اہم سرکاری عہدے پر فائز ہونے کے باوجود وہ قانون کی حکم رانی اور اصول پرستی کو نظر انداز نہیں کرتے اور خود کو اس کا پابند ہی نہیں بل کہ اس کے سامنے جواب دہ بھی سمجھتے ہیں وہ ان افسروں میں سے نہیں ہیں جن میں غرور اور تکبر پایا جاتا ہو بل کہ وہ پوری دیانت داری اور لگن سے اپنے کام اورذمہ داری کے حوالے سے خودکوخادم سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک انسان کی عظمت اس کے کردار اور عمل سے ہے نہ کہ افسرانہ ٹھاٹ باٹ سے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمدنسیم خان، شاہ نسیم خان کے ہاں تیمرگرہ کے ایک گاؤں خونگی بالا میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم سمیت میٹرک اپنے گاؤں کے اسکول سے کیا، 1979 میں بی اے پشاوریونی ورسٹی سے کیا، بعد میں اسی مادرعلمی سے آرکیالوجی میں ایم اے کیا اور گولڈمیڈل حاصل کیا، بعدازاں دوایم فل کی ڈگریاں لینے کا اعزازبھی حاصل کرچکے ہیں۔
1995 میں فرانس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اب تک کئی ایوارڈز حاصل کرچکے ہیں، جن میں سی آر اویوایس، سی این اویو ایس فیلوشپ، جرمنی سے ڈاڈ فیلوشپ، یوکے سے چارلس والزفیلو شپ، ہائی رامافیلوشپ، رائل ایستھیٹک سوسائٹی سے ویزیٹنگ فیلوشپ، وزیزیٹنگ سکالر، ویزیٹنگ پروفیسر جے این یونی ورسٹی آف دہلی انڈیا کے علاوہ مختلف ممالک میں منعقدہ آثارقدیمہ کے حوالے سے بے شمار سیمینارز، سمپوزیمز اور ورکشاپس میں تحقیقی مقالے پڑھ چکے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم خان بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح شرارتیں کیاکرتے تھے، ان کے بہ قول جوبچہ شرارتیں نہیں کرتا وہ ابنارمل ہوتاہے۔ علاقے کے روایتی کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے، والی بال کے بہترین کھلاڑی رہ چکے ہیں، مچھلی خور اس وجہ سے تھے کہ خودمچھلیوں کا شکارکیاکرتے تھے، لڑکپن میں فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے، پہلی فلم ''نوکر'' دیکھی، موسیقی کے دل دادہ ہیں، گلوکاروں میں مہدی حسن، خیال محمد، زرسانگہ اور قمرگلہ کو ہمہ تن گوش ہوکرسنتے ہیں، سیروسیاحت کے رسیاہیں، قدرتی مناظرمیں لینڈ اسیکپ ان کی کم زوری ہے، سیاست دانوں میں قائداعظم محمدعلی جناح کورول ماڈل قراردیتے ہیں۔
ان کے سامنے کوئی فطرت کے خلاف کام کرے توسخت برہم ہوجاتے ہیں تاہم ان کی برہمی چند لمحوں کی ہوتی ہے۔ دفتری اموراور لکھنے پڑھنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کی وجہ سے ان کے گھروالے ان سے بدمزہ رہتے ہیں۔ انہیں اپنی حرکتوں سے بہت ڈر لگتاہے کہ مبادا کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جس سے ان پرکوئی داغ لگ جائے۔
میوزیمز ڈائریکٹروں میں پروفیسر فرید خان، فداء اللہ صحرائی اوراحسان علی کے کام کوسراہتے ہیں، وہ گندھارا ریسرچ گروپ کے کنوینر، قومی نصاب کمیٹی برائے آثارِ قدیمہ کے کنوینر ، گندھارا اسٹڈیزکے بانی اورایڈیٹر، پاکستان جرنل آف انتھرا پالوجی کے بانی اورایڈیٹر اور انشنٹ پاکستان کے ایڈیٹرہیں، اس کے ساتھ سٹیئرنگ کمیٹی برائے آثار قدیمہ کے ممبر، سنٹرل پرچیزکمیٹی پشاوریونی ورسٹی کے ممبر، بورڈ آف اسٹڈیز ڈیپارنمنٹ آف آرکیالوجی پنجاب یونی ورسٹی کے ممبر، گریجوایٹس اسٹڈیز ڈیپارنمنٹ آف آرکیالوجی ہزارہ یونی ورسٹی کے ممبر، بورڈآف اسٹڈی ڈیپارنمنٹ آف ٹؤرازم اینڈ ہوٹل منیجمنٹ یونی ورسٹی آف ملاکنڈ کے ممبرکی حیثت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
آثارقدیمہ کے موضوع پر اب تک ان کے ساٹھ تحقیقی مقالے اور سات تحقیقی کتابیں چھپ چکی ہیں، آثار قدیمہ کوتمام علوم کی ماں قرار دیتے ہیں اور آرکیالوجی اورانتھرا پالوجی کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم گردانتے ہیں، ان کے بقول انتھراپالوجی کے تین بڑے حصے ہیں، جن میںکلچرل انتھراپالوجی، سوشل انتھراپالوجی اور فیزیکل انتھراپالوجی شامل ہیں۔ وہ ملک کے پہلے ماہر آثار قدیمہ ہیں جنہوں نے اس شعبے میں دو ایم فل اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں، اسی طرح وہ ملک کے پہلے اور واحد اسکالر ہیں جو قدیم تحریروں اورزبانوں خصوصاً سنسکرت کے ماہرہیں۔
ڈاکٹرنسیم کوجرمنی کی ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جہاںدوسال تک تحقیقی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ 1997 میں وطن واپس آ کر پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ آثار قدیمہ میں بہ حیثیت مدرس درس وتحقیق کا آغازکیا، اس دوران تحقیقی کام جاری رکھا جس کونہ صرف اندورن ملک بل کہ بیرون ملک بھی پزیرائی حاصل ہوئی۔ وہ کئی اسکالرزکے ایم فل اورپی ایچ ڈی میں نگرانی کے فرائض انجام دے چکے ہیں اورکئی طلبہ فی الوقت ان کی نگرانی میں تحقیق کا کام رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی اہم جگہوں مثلاً کشمیر سمستھ، عزیز ڈھیری اوربالاحصار ڈھیری چارسدہ پر، کھدائی کرکے تاریخی شواہداکٹھے کیے ہیں جن کواپنی کتابوں اورمقالوں کی شکل میں شائع بھی کیا ہوا۔ ڈاکٹرنسیم کا نام اورخدمات آثار قدیمہ کے شعبے میں سب سے نمایاں ہے۔ وہ شعبۂ آرکیالوجی کے شمارے کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔
ان کی زیر نگرانی شعبۂ آثار قدیمہ میں دوبین الاقوامی کانفرنسیں بھی منعقدکی گئیں، جن میں شعبۂ آرکیالوجی کی پچاس سالا تقریبات بھی شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم کے بہ قول ہمارے ہاں آثار قدیمہ کے بارے میں آگہی کی بہت کمی ہے اس کے علاوہ بد امنی بھی اس راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے مگر پھر بھی ہم مایوس نہیں ہیں اورپشاوریونی ورسٹی کے شعبۂ آثارقدیمہ میں داخلہ کی شرح میں ہر سال اضافہ ہو رہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ پتھروں پرکندہ تحریریں، نقش و نگار یا دیگر نوادرات ہماری تاریخ ہیں، انہیں مٹانا یا ضائع کرنا اپنی تاریخ، تہذیب اور اپنی پہچان کومٹانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں گندھارا تہذیب مشہور ہے مگر افسوس کہ ہمارے لوگ اس سرمائے اور تاریخ سے نابلد ہیں۔
صوابی کے لاہور نامی گاؤں میں دنیا کا سب سے پہلا گرائمر لکھنے والا اور سنسکرت زبان کا عالم پانینی پیداہوا، اسی طرح لاہور کے قریب ہنڈ جو ہندوشاہیہ کا دارلحکومت رہ چکاہے اور سکندر یونانی بھی اسی مقام سے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے جہاں ان کی یادگارکے طور پرسابق حکومت نے ایک مینار بھی قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر نسیم نے بتایا کہ دیگر ممالک میں یہ ایک قانون ہے کہ جس مقام پرکوئی عمارت یا گھر بنانا چاہتا ہو تو سب سے پہلے وہ محکمۂ آثار قدیمہ سے این او سی لیتا ہے اورکنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ ایک ماہرآثار قدیمہ بھی ہوتا ہے جو اس جگہ کا معائنہ کرتا ہے کہ یہاں پرآثار قدیمہ تو نہیں جب کہ ہمارے ہاں لوگوں نے ایسے تاریخی مقامات پر قبضہ جمارکھاہے، اس پرآبادی کی ہوئی ہے، اگرچہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آچکاہے کہ جہاں جہاں لوگوں نے ایسے مقامات پر قبضہ کیا ہوا ہے یا گھر تعمیرکیے ہیں، ان سے ایسی جگہیں وا گزارکرائی جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ آثار قدیمہ کے حوالے سے میڈیا بہت مثبت رول اداکر رہا ہے۔
آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے لوگوں میں شعور و آگہی پیدا ہو رہی ہے اور اب لوگ اس شعبے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ ڈاکٹرنسیم کا کہناہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت محکمۂ آثارقدیمہ صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تھوڑی بہت مشکلات پیش آرہی ہیں مگر ان پر جلد قابو پالیا جائے گا کیوں کہ ہماری صوبائی حکومت اس شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اوراس کے لیے قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے تاکہ اسمگلنگ کا راستہ روکا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ جن اضلاع میں میوزیم بنائے گئے ہیں، وہاں اسی علاقے سے برآمد ہونے والی اشیاء وہاں کی مقامی ثقافت کے نمونے کے طورپر رکھی گئی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ صوبے کے ہرضلع میں اپنا اپنا میوزیم قائم کیاجائے، ہمارے ہاں قدم قدم پر آثار قدیمہ کے نمونے بکھرے پڑے ہیں، جگہ جگہ ہماری قدیم تاریخ وتہذیب موجود ہے مگرلوگوں میں اس کا شعور نہیں ہے، ہم نے اب تک تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ ڈاکٹر نسیم کے بہ قول سیاحت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور اس کے لیے آرکیالوجی کا ہونا بہت ضروری ہے جوکہ ہمارے ہاں وافر مقدار میں موجودہے، اس کی حفاظت اور ترقی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ہم ہرکام حکومت پرڈالتے ہیں اورخود یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہمارا مشترکہ قومی سرمایہ ہے، ان کے بہ قول کشمیر سمستھ اس صدی کی سب سے بڑی دریافت ہے، جوضلع مردان کے علاقے میں واقع ہے اس کے بارے میں طرح طرح کی روایتیں چلی آرہی تھیں مگر وہاں سے ملنے والے نمونوں سے ثابت ہوگیا کہ اس جگہ کا تعلق اسلامی دورسے ہے، اس کے علاوہ اوربھی کئی مقامات پرکھدائی کاکام جاری ہے اوروہاں سے ملنے والے نوادرات سے نئے نئے تاریخی انکشافات متوقع ہیں۔
گندھارا آرٹ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مستند تاریخ اور برآمد ہونے والے بے شمار قدیم آثار و نوادرات کی روشنی میں خیبرپختون خوا کی زمین پر 20 لاکھ سال قبل از مسیح سے لے کر برطانوی دور حکومت تک کئی ثقافتوں اور تہذیبوں نے جنم لیا ہے، ان تہذیبوں میں سب سے زیادہ مشہور گندھارا تہذیب ہے، جس سے برآمد ہونے والے بے شمار نمونے آج بھی ملک کے اندر بالخصوص پشاورکے عجائب گھر میں موجود ہیں،گندھارا وادیٔ پشاور کا پرانا نام ہے، جو دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات، دیر اور بامیان (افغانستان) تک پھیلا ہوا تھا، بعد میں ٹیکسلا کا علاقہ بھی اس کے زیر اثر رہا، آریاؤں کی مقدس کتاب رگ وید اور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھے گئے دارا اول کے سنگی کتبوں میں بھی وادیٔ گندھارا اور اخمینی حکومت کا ذکر موجود ہے، پشکلاوتی (بالاحصار چارسدہ) چھٹی صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک گندھارا کی پہلی راج دہانی رہی، جس پر 327 قبل از مسیح میں سکندر یونانی نے حملہ کیا تھا، اخمینی، موریا، یونانی، کشان اور ساسانیوں نے بھی گندھارا پر حکومت کی۔ کشان خاندان نے پہلی صدی عیسوی میں پشاور یا پرش پورہ کو دارالحکومت بنایا، بعد میں شاہی خاندان نے'' ہنڈ'' کو، جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے تربیلا ڈیم اور اٹک کے درمیان ضلع صوابی میں واقع ہے، کو اپنا مستقر قرار دیا۔
998 عیسوی میں غزنوی خاندان نے ہنڈ پر قبضہ کرکے گندھارا تہذیب کا خاتمہ کردیا۔ پہلی صدی عیسوی میں منظر عام پر آنے والا گندھارا آرٹ مقامی تھا جو کسی حد تک یونانی اور رومی فنون لطیفہ سے متاثر ہوا، یہ فن پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک پھلتا پھولتا رہا اور تقریباً آٹھویں صدی عیسوی میں ختم ہو گیا، اس فن کا مقصد خطے میں بدھ مت کا پرچار تھا اور اس مقصد کے لیے پتھر، چونے، مٹی اور کانسی کے بے شمار مجسمے بناکر عبادت گاہوں (سٹوپا) اور خانقاہوں میں رکھے گیے تھے، چینی سیاح ہیون سانگ نے ساتویں صدی کے اوائل میں اپنے سفر نامے میں ہزاروں ایسی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا ذکر کیا ہے، جن میں سے اب صرف چند کی کھدائی کی گئی ہے۔ گندھارا آرٹ میں گوتم بدھ کے انفرادی مجسمے، مکمل سوانح حیات اور پچھلے جنموں سے متعلق کہانیاں کندہ کی ہیں۔
فن کاروں نے گوتم بدھ کے مجسموں کے لیے مقامی اور یونانی فنون سے استفادہ کیا اور مہاتما بدھ کے مجسمے کو ابدی زندگی عطا کی۔ راجہ کنِشک کے دور حکومت میں گوتم بدھ کی سوانح حیات سے متعلق مسجمے بدھ مت کی ایک شاخ جسے 'مہایان' کہا جاتا ہے، کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زائرین، سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے شاہ راہ ریشم کے راستے چین، کوریا اور جاپان تک بدھ مت کا پرچار ہوا، بدھ آرٹ آج کے شمال مغربی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے علاقوں میں فروغ پاتا رہا، سب سے بڑی بات جو گندھارا سٹوپا کو پہلے کے سٹوپاز سے ممتاز و ممیز کرتی ہے وہ چوٹی پر بنائی ہوئی بڑی چھتری ہے، یہ بلاشبہ فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے اور اس کی مضبوطی اور استحکام زیادہ حیران کن ہے۔
تمام گندھارا سٹوپاز میں سب سے بڑا سٹوپا کنشک نے اس جگہ بنوایا تھا جو آج شاہ جی کی ڈھیری کے نام سے مشہور ہے اور پشاور کے نواح میں ہے۔ گندھارا آرٹ کے مثالی شاہ کار آج بھی خیبرپختون خوا کے کئی علاقوں میں مدفون ہیں، خصوصاًً ضلع مردان، سوات کے علاوہ ضلع صوابی کے مشہور تاریخی گاؤں لاہور، جو اب ضلع صوابی کی تحصیل بھی ہے اور جہاں سنسکرت زبان کا پہلا قواعد دان' پانینی' بھی پیدا ہوا تھا۔ یہاں ان کے نام سے ایک جگہ'پنے ونڈ'، 'پنے ڈھنڈ' اور بدھ کے نام سے 'بدھوونڈ' آج بھی موجود ہے۔
اس حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ اگر 'پنے ونڈ' اور 'بدھو ونڈ' میں کھدائی کا کام شروع کیا گیا تو نہ صرف بدھ مت بل کہ گندھارا آرٹ کے بے شمار نادر نمونے ہاتھ آسکتے ہیں، اسی طرح لاہور سے دو چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں'مانکئی، ' جلبئی' اور 'جلسئی' کے مقام پر بھی ' سولئی ڈھیری' 'مالادر'، بھاگو'' اور'رتہ پنڈ ڈھیری' ایسے مقامات ہیں جہاں سے قدیم تاریخی آثار کے علاوہ گندھارا تہذیب کے نادر نمونے دریافت ہوسکتے ہیں، اگر کوئی گندھارا آرٹ کے شاہ کار نمونے دیکھنے کا آرزومند ہو تو آج بھی پشاور کے عجائب گھر میں اس تہذیب کے بے شمار نادر و نایاب نمونے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
.....
پشاور عجائب گھر انگریزی دور میں 1906 میں وکٹوریہ میموریل ہال میں قائم کیا گیا، اس کے پہلے کیوریٹر آرل سٹائین تھے، عجائب گھر کی عمارت پشاور شہر اور صدر کے ریلوے اسٹیشن کے درمیان گورنر ہاؤس کے قریب واقع ہے، یہ عمارت ایک بڑے ہال اور اطراف کی راہ داریوں پر مشتمل تھی، جس میں 1975-74 اور 1978-79 میں دو منزلہ گیلریوں کا اضافہ کیا گیا، پشاور عجائب گھر میں گندھارا تہذیب و ثقافت کے نوادارت، قدیم قبائلی ثقافت کے آثار، سکے اور اسلامی تہذیب کے شعبے نمایاں ہیں، جن میں گندھارا نوادرات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
گندھارا کے اکثر نوادرات پشاور سے 54 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع 'تخت بہاہی' اور'سہری بہلول' کے آثار قدیمہ سے حاصل کیے گیے ہیں، قبائلی ثقافت کے ذخیرے میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ وادی چترال کے'' کیلاش'' تہذیب کے لکڑی کے مجسمے بھی شامل ہیں، اسلامی گیلری میں تصاویر، خطاطی کے نمونے مخطوطات اور اس زمانے کے آلات واوزار کے علاوہ اسلحہ بھی رکھا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔