سندھ کے صوفی ازم پر بدھ مت کے گہرے اثرات ہیں
آرکیالوجی کو وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کا یہ شعبہ حق دار تھا، ڈاکٹر مستور فاطمہ
محقق کی دنیا: کتابوں سے گِھرا ایک خاموش کمرہ۔ تنہائی۔ قلم اور کاغذ۔ اور لکھنے کی ایک میز!
البتہ ماہر آثاریات کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ لکھنے کی میز تک رسائی سے قبل اُسے صحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ ویرانوں میں وقت گزارنا ہوتا ہے۔ زمین میں دفن رازوں تک رسائی حاصل کرنی ہوتی ہے، تب کہیں جا کر وہ معلومات ہاتھ آتی ہے، جسے تحریر میں سمویا جا سکے۔ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ڈاکٹر مستور فاطمہ بھی ہر اس مرحلے سے گزریں۔ گو راہ میں کئی رکاوٹیں حائل تھیں، موضوع انتہائی وسیع تھا، کئی مسائل تھے، مگر وہ آگے بڑھتی گئیں۔ عرق ریزی سے کی جانے والی اس تحقیق کے دوران انھوں نے صالح پٹ، تھر، گھوٹکی اور جیکب آباد سمیت سندھ میں ایسے 72 مقامات کو ''ڈاکومینٹ'' کیا، جہاں بدھ مت کے آثار موجود ہیں۔ ساتھ ہی بدھ مت کے سندھ کے مذاہب پر اثرات کا بھی جائزہ لیا۔
دھیمے لہجے میں گفت گو کرنے والی ڈاکٹر صاحبہ اِس وقت شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ مذکورہ یونیورسٹی کے آرکیالوجی میوزیم کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ مستور فاطمہ کے بہ قول، وہ بدھ مت پر پی ایچ ڈی کرنے والی سندھ کی پہلی خاتون ہیں۔ اُنھیں جنرل ہسٹری ڈیپارٹمنٹ، کراچی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسین ان کے سپروائزر تھے۔ سادہ الفاظ میں اپنے خیالات پیش کرنے والی ڈاکٹر مستور فاطمہ کی خواہش ہے کہ اُن کی تحقیق، زیر زمین آثار کی طرح چُھپی نہ رہے، بلکہ عوام کے سامنے آئے۔ لوگ اُس سے استفادہ کریں۔ اِس ضمن میں چند منصوبے بھی ہیں۔ اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسس کو کتابی شکل دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق سندھ کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ اُنھوں نے 8 دسمبر 1959 کو معروف صنعت کار، سید محبوب علی شاہ بخاری کے گھر آنکھ کھولی۔ دادا اور والد، دونوں پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے، جنھوں نے 1903 میں بالائی سندھ میں پہلی آئرن فیکٹری قائم کی، جس کی مصنوعات سندھ بھر میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ بارہ بہن بھائیوں میں مستور فاطمہ کا گیارہواں نمبر ہے۔ بچپن میں وہ والد کی لاڈلی تھیں۔ کہتی ہیں،''اُن سے میرے انتہائی دوستانہ تعلقات تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اُن کی تربیت، ہدایات اور راہ نمائی ہی کے طفیل یہ مقام حاصل کیا۔'' بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،''میں بہت شرارتی ہوا کرتی تھی۔ گو قابل طالبہ تھی، اساتذہ کا بہت احترام کرتی تھی، مگر اسکول میں میری شرارتیں بھی بہت مشہور تھیں۔ شکایات پر ٹیچرز مجھے بلا کر ڈانٹتیں، اور کہتیں کہ اگر دوبارہ ایسی حرکت کی، تو آپ کے والد کو مطلع کیا جائے گا۔ اِس دھمکی پر میں ایک ڈیڑھ ہفتے تک کوئی نئی شرارت نہیں کرتی تھی۔'' بتاتی ہیں کہ اُن کے والد تعلیم کی اہمیت سے بہ خوبی واقف تھے، اُنھوں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے لیس کیا، تمام بچوں نے سرکاری اور نجی شعبوں میں مختلف عہدوں تک رسائی حاصل کی۔ کوئی سیشن جج ہوا، کسی نے محکمۂ پولیس میں خدمات انجام دیں، کوئی کسٹمز میں گیا، کسی نے کاروبار سنبھالا۔
اُنھوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی اسکول سے حاصل کی۔ 1970 میں پرائمری کا مرحلہ طے کرنے کے بعد مینارہ روڈ پر واقع گورنمنٹ گرلز میونسپل ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ 1975-76میں انھوں نے میٹرک کا مرحلہ طے کیا۔ اب شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور کا رخ کیا، جہاں سے 1986 میں ایم ایس سی آرکیالوجی میں فرسٹ ڈویژن میں ڈگری حاصل کی۔ فوراً ہی عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ یکم اگست1987 کو خیرپور یونیورسٹی میں بہ طور لیکچرار تعینات ہوگئیں۔ تن خواہ اس وقت تین ہزار روپے تھی، جس میں وہ خود کو مطمئن پاتیں۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتی ہیں،''زمانۂ طالب علمی ہی سے میری کوشش رہی کہ معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق شعور اجاگر کروں۔ میں نے اس ضمن میں اسکول، کالجر اور یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔''
نو برس وہ بہ طور لیکچرر مصروف رہیں۔ 1995 میں ترقی ہوئی، اور وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئیں۔ کچھ برس بعد تحقیق کا سودا سر میں سمایا۔ 2000 میں اُنھوں نے خیرپور یونیورسٹی سے ایم فل کا مرحلہ طے کیا۔ احمد حسن دانی جیسے جید استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ ''سندھ کی ابتدائی تاریخ: خصوصی حوالہ بدھ مت'' اُن کا موضوع تھا۔ انھوں نے برصغیر میں بدھ مت کو فروغ دینے والے کنشک اعظم سے راجا داہر کی آمد تک کے زمانے میں اِس مذہب کی نشانیوں پر کام کیا۔ اب پی ایچ ڈی کی سمت بڑھیں۔ 2005 تا 2010 تحقیق میں مصروف رہیں۔ ''بدھ مت کے سندھ کے مذاہب پر اثرات'' اُن کا موضوع تھا۔ اس جائزے کی بابت کہتی ہیں،''سندھ کے صوفی ازم پر بدھ مت کے گہرے اثرات ہیں۔ آج کے جو جوگی ہیں، اُن کے طرز زندگی، چال ڈھال میں ہمیں بدھ مت کے بھکشوؤں کی جھلک بے حد واضح دکھائی دیتی ہے۔''
اپنے شعبے سے متعلق کہتی ہیں، شعبۂ آثاریات اُن کا شعوری انتخاب تھا کہ اُنھیں تاریخ میں دل چسپی تھی۔ تحقیق کے لیے بدھ مت کا موضوع بھی اپنی مرضی سے چنا۔ بہ قول اُن کے،''میں آج بھی سندھ کے دور دراز علاقوں میں کام کررہی ہوں۔ حالیہ برسوں میں سندھ میں بدھ مت کے جو آثار سامنے آئے ہیں، اُن میں میری تحقیق کا بھی کردار رہا۔''
اُن کے مطابق جو لوگ اپنا ماضی، ثقافت، بھول جاتے ہیں، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ ''ہمارے ہاں اِس حوالے سے شعور کم ہے۔ آرکیالوجی کو وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کا یہ شعبہ حق دار تھا۔ اگر ہم آرکیالوجی پر توجہ دیں، اپنے ہاں موجود آثار قدیمہ کی دیکھ ریکھ کریں، اُنھیں دنیا کے سامنے پیش کریں، تو پاکستان سیاحتی نقطۂ نگاہ سے صف اول کا ملک بن سکتا ہے۔ سیاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرنے لگیں گے۔''
ڈاکٹر صاحبہ کے بہ قول اُن کی زندگی کا مقصد عوام میں آثاریات کے مضمون سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ''اِسی مقصد کے تحت وائس چانسلر جامعہ لطیف خیرپور، پروفیسر ڈاکٹر پروین شاہ کی نگرانی میں میوزیم تعمیر ہوا۔ ہم نے اِس عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ مستقبل میں ہم اِسے مزید وسعت دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح تک لے جانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔''
شعبۂ آثاریات کی جن شخصیات سے اُنھوں نے اکتسابِ فیض کیا، اُن میں معروف ماہر آثاریات، ڈاکٹر احمد حسن دانی نمایاں ہیں، جنھیں وہ اپنا استاد قرار دیتی ہیں۔ کہنا ہے،''اُن کی موجودگی میں یوں محسوس ہوتا، جیسے انسان علم کے خزانے کے سامنے موجود ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے طویل اور پیچیدہ سوالات کا مختصر مگر جامع جواب دینے کا ہنر جانتے تھے۔ یہ اُن کی علم پر گرفت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ''
ملکی حالات اور تعلیمی نظام کی مخدوش صورت حال پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں،''ہمارے ملک پر اصل حکم رانی بیورو کریسی کی رہی ہے۔ معاشرے کی تشکیل اور تحقیق کرنے والے اداروں پر وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کی ضرورت تھی۔ ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی ترقی کا راز اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیمی نظام انتہائی بگڑ چکا ہے۔ ہر کوئی 'شارٹ کٹ' کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ ڈگریاں ہونے کے باوجود ہمارے بچوں میں وہ قابلیت نظر نہیں آتی۔'' اُنھیں شکایت ہے کہ ہمارے ہاں ترقی کے عمل میں قابل اور اچھے اساتذہ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ترقی اور سہولیات فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے، اور یہ ایک المیہ ہے۔
دوران گفت گو این جی اوز کا موضوع نکل آیا۔ اُن کا کہنا ہے،''ویسے تو پاکستان میں ہزاروں این جی اوز ہیں، مگر بیش تر اپنے کردار کی ادائیگی میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ہاں، چند این جی اوز ایسی ضرور ہیں، جو دوردراز علاقوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ اُن کی کوششوں کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔''
مستور فاطمہ کو اِس بات کا دُکھ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ترقی نہیں کرسکا، جس کا بڑا سبب ان کے نزدیک، آرکیالوجی کے شعبے کو نظر انداز کرنا تھا۔ یقین رکھتی ہیں کہ سیاحت کی ترقی سے معیشت بہتر بنائی جاسکتی ہے، اور ملکی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مخدوش حالات کے باوجود وہ ناامید نہیں۔ ''ہر شعبے میں اچھے اور باصلاحیت لوگ ہیں۔ وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح اچھے سیاست داں بھی ہیں۔ آج کی نسل کو اچھی تعلیم، تربیت اور راہ نمائی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ بین الاقوامی چیلینجز کا مقابلہ کرسکے، اور ملک کو ترقی کی جانب گام زن کرسکے۔''
شعبۂ آثاریات میں داخلوں کی شرح کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں، طلبا و طالبات تو اِس شعبے میں دل چسپی لیتے ہیں، مگر اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس میں ملازمتیں نہیں۔ ان کے مطابق شاہ عبداللطیف یونیورسٹی آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں 40 سے زاید طلبا و طالبات تعلیم اور تحقیق میں مصروف ہیں، دیگر درس گاہوں میں بھی یہی معاملہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق آرکیالوجی میں ماسٹرز کرنے والوں کے پاس ملازمت کی کمی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ سیاحت اور شعبۂ آثاریات سے جُڑے دیگر شعبوں کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے ملازمتوں کا کال پڑ گیا۔ بتاتی ہیں، چند روز قبل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ، سندھ نے اسامیوں کا اعلان کیا تھا۔ ڈگری یافتہ نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائیں، مگر بعد میں عجیب و غریب شرائط عاید کرکے اُن کی درخواستیں رد کر دی گئیں۔ اس سے غیرسنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ذاتی زندگی زیر بحث آئی، تو بتانے لگیں کہ 13مارچ 1989 کو اُن کی معروف شاعر، ایاز علی المعروف ایاز گل سے شادی ہوئی۔ ستمبر 1993میں خدا نے اُنھیں ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام، نام وَر ایاز رکھا گیا۔ وہ زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ دُکھ بھرے لمحے بھی کئی آئے۔ والد کے انتقال نے گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
کھانے میں اُنھیں دال چاول اور کوفتے پسند ہیں۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود کچن سے رشتہ بحال رہا۔ موسم سے متعلق کہتی ہیں،''ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں آٹھ ماہ گرمی رہتی ہے، اس وجہ سے سردیوں کا موسم مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں اس کا انتظار کرتی ہوں۔'' یوں تو کئی ممالک کے دورے کیے، مگر تفریحی نقطۂ نگاہ سے سنگاپور انھیں بہت پسند ہے۔ شاعری سے گہرا شغف ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں خود بھی شعر کہا کرتی تھی، شادی کے بعد یہ مشق ترک ہوگئی۔ اِس میدان میں وہ فیض اور فراز کی مداح ہیں، فارغ اوقات میں اُن ہی کا کلام زیر مطالعہ رہتا ہے۔ کھیلوں میں بھی دل چسپی ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں وہ بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھیلا کرتی تھیں۔
تین شخصیات نے اُنھیں بہت متاثر کیا۔ پہلی شخصیت تو قائد اعظم ہیں، جن کے افکار نے اُن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر آتا ہے۔ وقت میسر ہو، تو وہ ٹاک شوز، کرنٹ افیئر پروگرامز اور ڈراموں سے محظوظ ہوتی ہیں۔ شلوار قمیص پسندیدہ پہناوا ہے۔ کتابیں پڑھنا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ روز مرہ کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہے،''نماز فجر کی ادائیگی کے بعد گھر کے کام کاج کرتی ہوں۔ پھر سکھر سے خیرپور روانہ ہوجاتی ہوں، جہاں یونیورسٹی میں تدریسی اور انتظامی ذمے داریاں انجام دیتی ہوں۔''
اخبارات وہ باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ معمولات میں شامل ہے۔ اپنی ذات سے متعلق کہتی ہیں،''میں فیصلے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتی۔ کھری بات کرتی ہوں۔ سچ بات کہنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مجھے منہ پھٹ کہتے ہیں۔ ہاں، کچھ لوگ اِس خوبی کی بنا پر مجھے پسند بھی کرتے ہیں۔'' خواہشات زیربحث آئیں، تو کہنے لگیں،''میری آرزو ہے کہ سندھ میں بدھ مت کے حوالے سے جو تحقیقی کام میں نے کیا ہے، وہ تاریخ کا حصہ بن جائے۔''
البتہ ماہر آثاریات کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ لکھنے کی میز تک رسائی سے قبل اُسے صحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ ویرانوں میں وقت گزارنا ہوتا ہے۔ زمین میں دفن رازوں تک رسائی حاصل کرنی ہوتی ہے، تب کہیں جا کر وہ معلومات ہاتھ آتی ہے، جسے تحریر میں سمویا جا سکے۔ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ڈاکٹر مستور فاطمہ بھی ہر اس مرحلے سے گزریں۔ گو راہ میں کئی رکاوٹیں حائل تھیں، موضوع انتہائی وسیع تھا، کئی مسائل تھے، مگر وہ آگے بڑھتی گئیں۔ عرق ریزی سے کی جانے والی اس تحقیق کے دوران انھوں نے صالح پٹ، تھر، گھوٹکی اور جیکب آباد سمیت سندھ میں ایسے 72 مقامات کو ''ڈاکومینٹ'' کیا، جہاں بدھ مت کے آثار موجود ہیں۔ ساتھ ہی بدھ مت کے سندھ کے مذاہب پر اثرات کا بھی جائزہ لیا۔
دھیمے لہجے میں گفت گو کرنے والی ڈاکٹر صاحبہ اِس وقت شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہیں۔ ساتھ ہی وہ مذکورہ یونیورسٹی کے آرکیالوجی میوزیم کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ مستور فاطمہ کے بہ قول، وہ بدھ مت پر پی ایچ ڈی کرنے والی سندھ کی پہلی خاتون ہیں۔ اُنھیں جنرل ہسٹری ڈیپارٹمنٹ، کراچی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسین ان کے سپروائزر تھے۔ سادہ الفاظ میں اپنے خیالات پیش کرنے والی ڈاکٹر مستور فاطمہ کی خواہش ہے کہ اُن کی تحقیق، زیر زمین آثار کی طرح چُھپی نہ رہے، بلکہ عوام کے سامنے آئے۔ لوگ اُس سے استفادہ کریں۔ اِس ضمن میں چند منصوبے بھی ہیں۔ اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسس کو کتابی شکل دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق سندھ کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ اُنھوں نے 8 دسمبر 1959 کو معروف صنعت کار، سید محبوب علی شاہ بخاری کے گھر آنکھ کھولی۔ دادا اور والد، دونوں پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے، جنھوں نے 1903 میں بالائی سندھ میں پہلی آئرن فیکٹری قائم کی، جس کی مصنوعات سندھ بھر میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ بارہ بہن بھائیوں میں مستور فاطمہ کا گیارہواں نمبر ہے۔ بچپن میں وہ والد کی لاڈلی تھیں۔ کہتی ہیں،''اُن سے میرے انتہائی دوستانہ تعلقات تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اُن کی تربیت، ہدایات اور راہ نمائی ہی کے طفیل یہ مقام حاصل کیا۔'' بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،''میں بہت شرارتی ہوا کرتی تھی۔ گو قابل طالبہ تھی، اساتذہ کا بہت احترام کرتی تھی، مگر اسکول میں میری شرارتیں بھی بہت مشہور تھیں۔ شکایات پر ٹیچرز مجھے بلا کر ڈانٹتیں، اور کہتیں کہ اگر دوبارہ ایسی حرکت کی، تو آپ کے والد کو مطلع کیا جائے گا۔ اِس دھمکی پر میں ایک ڈیڑھ ہفتے تک کوئی نئی شرارت نہیں کرتی تھی۔'' بتاتی ہیں کہ اُن کے والد تعلیم کی اہمیت سے بہ خوبی واقف تھے، اُنھوں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے لیس کیا، تمام بچوں نے سرکاری اور نجی شعبوں میں مختلف عہدوں تک رسائی حاصل کی۔ کوئی سیشن جج ہوا، کسی نے محکمۂ پولیس میں خدمات انجام دیں، کوئی کسٹمز میں گیا، کسی نے کاروبار سنبھالا۔
اُنھوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی اسکول سے حاصل کی۔ 1970 میں پرائمری کا مرحلہ طے کرنے کے بعد مینارہ روڈ پر واقع گورنمنٹ گرلز میونسپل ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ 1975-76میں انھوں نے میٹرک کا مرحلہ طے کیا۔ اب شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور کا رخ کیا، جہاں سے 1986 میں ایم ایس سی آرکیالوجی میں فرسٹ ڈویژن میں ڈگری حاصل کی۔ فوراً ہی عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ یکم اگست1987 کو خیرپور یونیورسٹی میں بہ طور لیکچرار تعینات ہوگئیں۔ تن خواہ اس وقت تین ہزار روپے تھی، جس میں وہ خود کو مطمئن پاتیں۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتی ہیں،''زمانۂ طالب علمی ہی سے میری کوشش رہی کہ معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق شعور اجاگر کروں۔ میں نے اس ضمن میں اسکول، کالجر اور یونیورسٹی میں ہونے والی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔''
نو برس وہ بہ طور لیکچرر مصروف رہیں۔ 1995 میں ترقی ہوئی، اور وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئیں۔ کچھ برس بعد تحقیق کا سودا سر میں سمایا۔ 2000 میں اُنھوں نے خیرپور یونیورسٹی سے ایم فل کا مرحلہ طے کیا۔ احمد حسن دانی جیسے جید استاد کی سرپرستی میسر آئی۔ ''سندھ کی ابتدائی تاریخ: خصوصی حوالہ بدھ مت'' اُن کا موضوع تھا۔ انھوں نے برصغیر میں بدھ مت کو فروغ دینے والے کنشک اعظم سے راجا داہر کی آمد تک کے زمانے میں اِس مذہب کی نشانیوں پر کام کیا۔ اب پی ایچ ڈی کی سمت بڑھیں۔ 2005 تا 2010 تحقیق میں مصروف رہیں۔ ''بدھ مت کے سندھ کے مذاہب پر اثرات'' اُن کا موضوع تھا۔ اس جائزے کی بابت کہتی ہیں،''سندھ کے صوفی ازم پر بدھ مت کے گہرے اثرات ہیں۔ آج کے جو جوگی ہیں، اُن کے طرز زندگی، چال ڈھال میں ہمیں بدھ مت کے بھکشوؤں کی جھلک بے حد واضح دکھائی دیتی ہے۔''
اپنے شعبے سے متعلق کہتی ہیں، شعبۂ آثاریات اُن کا شعوری انتخاب تھا کہ اُنھیں تاریخ میں دل چسپی تھی۔ تحقیق کے لیے بدھ مت کا موضوع بھی اپنی مرضی سے چنا۔ بہ قول اُن کے،''میں آج بھی سندھ کے دور دراز علاقوں میں کام کررہی ہوں۔ حالیہ برسوں میں سندھ میں بدھ مت کے جو آثار سامنے آئے ہیں، اُن میں میری تحقیق کا بھی کردار رہا۔''
اُن کے مطابق جو لوگ اپنا ماضی، ثقافت، بھول جاتے ہیں، وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ ''ہمارے ہاں اِس حوالے سے شعور کم ہے۔ آرکیالوجی کو وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کا یہ شعبہ حق دار تھا۔ اگر ہم آرکیالوجی پر توجہ دیں، اپنے ہاں موجود آثار قدیمہ کی دیکھ ریکھ کریں، اُنھیں دنیا کے سامنے پیش کریں، تو پاکستان سیاحتی نقطۂ نگاہ سے صف اول کا ملک بن سکتا ہے۔ سیاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرنے لگیں گے۔''
ڈاکٹر صاحبہ کے بہ قول اُن کی زندگی کا مقصد عوام میں آثاریات کے مضمون سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ''اِسی مقصد کے تحت وائس چانسلر جامعہ لطیف خیرپور، پروفیسر ڈاکٹر پروین شاہ کی نگرانی میں میوزیم تعمیر ہوا۔ ہم نے اِس عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ مستقبل میں ہم اِسے مزید وسعت دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح تک لے جانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔''
شعبۂ آثاریات کی جن شخصیات سے اُنھوں نے اکتسابِ فیض کیا، اُن میں معروف ماہر آثاریات، ڈاکٹر احمد حسن دانی نمایاں ہیں، جنھیں وہ اپنا استاد قرار دیتی ہیں۔ کہنا ہے،''اُن کی موجودگی میں یوں محسوس ہوتا، جیسے انسان علم کے خزانے کے سامنے موجود ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے طویل اور پیچیدہ سوالات کا مختصر مگر جامع جواب دینے کا ہنر جانتے تھے۔ یہ اُن کی علم پر گرفت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ''
ملکی حالات اور تعلیمی نظام کی مخدوش صورت حال پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں،''ہمارے ملک پر اصل حکم رانی بیورو کریسی کی رہی ہے۔ معاشرے کی تشکیل اور تحقیق کرنے والے اداروں پر وہ توجہ نہیں دی گئی، جس کی ضرورت تھی۔ ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی ترقی کا راز اعلیٰ تعلیم میں مضمر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیمی نظام انتہائی بگڑ چکا ہے۔ ہر کوئی 'شارٹ کٹ' کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ ڈگریاں ہونے کے باوجود ہمارے بچوں میں وہ قابلیت نظر نہیں آتی۔'' اُنھیں شکایت ہے کہ ہمارے ہاں ترقی کے عمل میں قابل اور اچھے اساتذہ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ترقی اور سہولیات فراہم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے، اور یہ ایک المیہ ہے۔
دوران گفت گو این جی اوز کا موضوع نکل آیا۔ اُن کا کہنا ہے،''ویسے تو پاکستان میں ہزاروں این جی اوز ہیں، مگر بیش تر اپنے کردار کی ادائیگی میں ناکام نظر آتی ہیں۔ ہاں، چند این جی اوز ایسی ضرور ہیں، جو دوردراز علاقوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ اُن کی کوششوں کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔''
مستور فاطمہ کو اِس بات کا دُکھ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ترقی نہیں کرسکا، جس کا بڑا سبب ان کے نزدیک، آرکیالوجی کے شعبے کو نظر انداز کرنا تھا۔ یقین رکھتی ہیں کہ سیاحت کی ترقی سے معیشت بہتر بنائی جاسکتی ہے، اور ملکی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مخدوش حالات کے باوجود وہ ناامید نہیں۔ ''ہر شعبے میں اچھے اور باصلاحیت لوگ ہیں۔ وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح اچھے سیاست داں بھی ہیں۔ آج کی نسل کو اچھی تعلیم، تربیت اور راہ نمائی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ بین الاقوامی چیلینجز کا مقابلہ کرسکے، اور ملک کو ترقی کی جانب گام زن کرسکے۔''
شعبۂ آثاریات میں داخلوں کی شرح کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں، طلبا و طالبات تو اِس شعبے میں دل چسپی لیتے ہیں، مگر اُن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس میں ملازمتیں نہیں۔ ان کے مطابق شاہ عبداللطیف یونیورسٹی آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں 40 سے زاید طلبا و طالبات تعلیم اور تحقیق میں مصروف ہیں، دیگر درس گاہوں میں بھی یہی معاملہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق آرکیالوجی میں ماسٹرز کرنے والوں کے پاس ملازمت کی کمی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ سیاحت اور شعبۂ آثاریات سے جُڑے دیگر شعبوں کو نظرانداز کیا گیا، جس کی وجہ سے ملازمتوں کا کال پڑ گیا۔ بتاتی ہیں، چند روز قبل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ، سندھ نے اسامیوں کا اعلان کیا تھا۔ ڈگری یافتہ نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائیں، مگر بعد میں عجیب و غریب شرائط عاید کرکے اُن کی درخواستیں رد کر دی گئیں۔ اس سے غیرسنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ذاتی زندگی زیر بحث آئی، تو بتانے لگیں کہ 13مارچ 1989 کو اُن کی معروف شاعر، ایاز علی المعروف ایاز گل سے شادی ہوئی۔ ستمبر 1993میں خدا نے اُنھیں ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام، نام وَر ایاز رکھا گیا۔ وہ زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ دُکھ بھرے لمحے بھی کئی آئے۔ والد کے انتقال نے گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
کھانے میں اُنھیں دال چاول اور کوفتے پسند ہیں۔ تمام تر مصروفیات کے باوجود کچن سے رشتہ بحال رہا۔ موسم سے متعلق کہتی ہیں،''ہم جس علاقے میں رہتے ہیں، وہاں آٹھ ماہ گرمی رہتی ہے، اس وجہ سے سردیوں کا موسم مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں اس کا انتظار کرتی ہوں۔'' یوں تو کئی ممالک کے دورے کیے، مگر تفریحی نقطۂ نگاہ سے سنگاپور انھیں بہت پسند ہے۔ شاعری سے گہرا شغف ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں خود بھی شعر کہا کرتی تھی، شادی کے بعد یہ مشق ترک ہوگئی۔ اِس میدان میں وہ فیض اور فراز کی مداح ہیں، فارغ اوقات میں اُن ہی کا کلام زیر مطالعہ رہتا ہے۔ کھیلوں میں بھی دل چسپی ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں وہ بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھیلا کرتی تھیں۔
تین شخصیات نے اُنھیں بہت متاثر کیا۔ پہلی شخصیت تو قائد اعظم ہیں، جن کے افکار نے اُن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر آتا ہے۔ وقت میسر ہو، تو وہ ٹاک شوز، کرنٹ افیئر پروگرامز اور ڈراموں سے محظوظ ہوتی ہیں۔ شلوار قمیص پسندیدہ پہناوا ہے۔ کتابیں پڑھنا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ روز مرہ کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہے،''نماز فجر کی ادائیگی کے بعد گھر کے کام کاج کرتی ہوں۔ پھر سکھر سے خیرپور روانہ ہوجاتی ہوں، جہاں یونیورسٹی میں تدریسی اور انتظامی ذمے داریاں انجام دیتی ہوں۔''
اخبارات وہ باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ معمولات میں شامل ہے۔ اپنی ذات سے متعلق کہتی ہیں،''میں فیصلے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتی۔ کھری بات کرتی ہوں۔ سچ بات کہنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مجھے منہ پھٹ کہتے ہیں۔ ہاں، کچھ لوگ اِس خوبی کی بنا پر مجھے پسند بھی کرتے ہیں۔'' خواہشات زیربحث آئیں، تو کہنے لگیں،''میری آرزو ہے کہ سندھ میں بدھ مت کے حوالے سے جو تحقیقی کام میں نے کیا ہے، وہ تاریخ کا حصہ بن جائے۔''