احتساب کی چومکھی جنگ

تعلیم، میڈیا اور سیاست کے شعبوں میں دیانت داری کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔

بلاتفریق احتساب کی کاوشوں کو مرکزی نقطہ بنا کر تحریک انصاف کی حکومت نے ایک ہنگامہ خیز ابتدا کی اب رفتہ رفتہ ان کے قدم جمنا شروع ہوگئے ہیں۔ معیشت کی تشویش ناک صورت حال کے باوجود کچھ امید افزا آثار نمایاں ہوئے ہیں۔

21لاکھ افراد ٹیکس ریٹرنز جمع کروا چکے ہیں،یہ ایف بی آر کی تاریخ میں ٹیکس فائلرز کی سب سے زیادہ تعداد ہے، مستقبل قریب میں مزید افراد کا اس دائرے میں شامل ہونا متوقع ہے۔ جون 2018 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.9ارب ڈالر تھا، جون 2019میں کم ہوکر 997 ملین ڈالر پر آچکا ہے۔ درآمدات میں کمی آئی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ ''سب کچھ اچھا'' تو نہیں، صرف ایک برس میں تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کا مطالبہ بھی خلاف انصاف ہوگا، ان سب باتوں کے باوجود بہتری کی رفتار بہرحال سست ہے۔

کرپشن، اقربا پروری، دھوکا دہی اور کھلی چور بازاری کے خاتمے کے اہداف حاصل کرنے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ بااثر ترین سیاسی خاندانوں کے سربراہ جیلوں میں ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سیاسی مصلحتوں کی آڑ میں اغوا برائے تاوان، منی لانڈرنگ اور مالیاتی فراڈ کرنے والے بہروپیوں کے چہرے کل بھی سامنے آچکے تھے اور آج بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ جھوٹی گواہی اور عدالت میں کذب بیانی کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی کئی بار یہ بات دہرا چکے لیکن کیا ایسے مقدمے میں کسی کو اب تک سزا ہوسکی؟ اسے ''شرفا کا جرم''کہا جاتا ہے اوربارسوخ افراد اپنے وفاداروں کو اسی طرح ''تحفظ'' فراہم کرتے ہیں۔ صدیوں سے جاگیردارانہ ذہنیت کا تسلسل برقرار ہے، ایسی صورت میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ طاقتوروں اور ریاستی قوت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی انتقامی کارروائیوں سے عام لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔

ہمارے ہاں فرد کا تحفظ یاتو اس کا خاندان کرتا ہے یا قبیلہ و برادری، یا کسی جاگیر دار پر انحصار کرنے والے ہاری اور کسان اسے اپنا محافظ تصور کرتے ہیں۔ جدید سماج کے قیام میں حائل اس معاشرتی رویے پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اقربا پروری کے فروغ اور میرٹ کا قتل جرائم کی پردہ پوشی میں مددگار ہیں اور اس طرز عمل کے باعث ذہین، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد بھی طاقت وروں کے مرہون منت رہتے ہیں ، انھیں اس وفا داری کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ جب طاقت و اختیار کسی اور کو منتقل ہوتا ہے تو وفاداری کا قبلہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہم حزب اختلاف اور حکومتی جماعتوں میں روز یہ تماشا دیکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ ''کوئی اور'' نہیں بلکہ ہم آپ سبھی اس میں مبتلا ہیں۔

معلومات کی چوری، ہیکنگ اور راز افشا کرکے جھوٹی گواہی دینے والوں کے جرائم کے ثبوت حاصل کرنا انتہائی دشوار کام ہے۔ لیکن کیا کوئی عمل اسی وقت جرم کہلائے گا جب اس سے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہو؟ یہاں ہم قانون و اخلاق کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی عمل میں قانون کی خلاف ورزی نہ ہوئی ہو یا کوئی چالاک وکیل ''ٹھوس شواہد'' کی عدم دستیابی کا فریب دینے میں کام یاب ہوجائے، لیکن غلط تو غلط رہے گا اور ایسے عمل کے مرتکب کو سزا نہیں دی جاتی تو یہ عوامی تاثر مزید پختہ ہوتا ہے کہ عدالت کے نزدیک اخلاقیات اور اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں۔

اخلاق اور قانون میں تفریق یورپی و مغربی سیکولر تہذیبوں کی اختراع ہے جہاں مذہب کو محض ذاتی زندگی تک محدود کردیا گیا۔ مذہب اخلاق کی تعلیم و ہدایت کا سرچشمہ اور ان پر عمل درآمد کا موثر ترین ذریعہ ہے لیکن وہاں اسے قانون سازی سے یکسر لاتعلق کردیا گیا۔ مذہب کی جگہ قانون سازی کے بنیادی اصول کے طور پر ''انسانیت'' کے عمومی تصور کو متبادل بنا کر پیش کیا گیا، جو کارگر ثابت نہ ہوسکا اور مغربی ممالک میں ہم اس کا عملی مظاہرہ دیکھتے ہیں۔


اس کے برعکس غیر یورپی معاشرے کبھی سیکولر نہیں رہے بلکہ یہاں جدت مذہب ہی نے متعارف کروائی۔ اسلام کی اخلاقی اقدار میں انصاف کو سماج اور قانون کے لیے بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہا جاتا ہے اور موجودہ حکومت یہاں مدینہ کی طرز پر ریاستی نظام کے قیام کو اپنا ہدف بتاتی ہے، اسلام و قانون کے مابین تعلق کا گراں قدر سرمایہ ہے جس میں اخلاقی اقدار کو انصاف کی بنیادی روح تسلیم کیا گیا ہے۔

تعلیم، میڈیا اور سیاست کے شعبوں میں دیانت داری کو مرکزیت حاصل ہونی چاہیے۔ دانشورانہ دیانت کا تقاضا ہے کہ کسی اور کے خیالات یا تحقیق کو اپنے نام سے پیش نہ کیا جائے۔ معاشی امانت داری کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کے مال جائیداد کا احترام کیا جائے، دیانت داری سے کاروبار کیا جائے اور کاروباری معاہدوں میں دوطرفہ حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ ذاتی دیانت یہ ہے کہ نفع نقصان کی پروا کیے بغیر ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا جائے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی آنے والی نسل کے لیے قابل عمل مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ بددیانتی کے آگے ہتھیار ڈالنے یا ایسے عناصر کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے سے ہماری آیندہ نسلیں برباد ہوں گی۔ بچے اور نوجوان عملی مثالوں سے سیکھتے ہیں، بلند و بانگ دعوؤں سے نہیں!

اس کے لیے ضروری ہے کہ ثابت شدہ جھوٹوں اور فریب کاروں کو کھلی چھوٹ نہ دی جائے۔ عدالت میں جعلی دستاویز پیش کرنے جیسے جرائم اس کی واضح مثالیں ہیں۔ غلط معلومات ، جھوٹ ، مسخ شدہ حقائق پھیلانے، لوگوں کو بلیک میل کرنے اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے لیے سیکڑوں کارکن بھرتی کیے جاتے ہیں۔ ایسی سرگرمیاں تنہا نہیں کی جاسکتیں، ایسے کاموں میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی شریک جرم ہوتا ہے جو یا تو وسائل مہیا کرتا ہے یا کارندے فراہم کرتا ہے۔ بیورو کریٹس کی غفلت ناقابل برداشت ہونی چاہیے۔

اس جرم کے مددگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے اور اگر یہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کام یاب ہوبھی جائیں تو ان کے اصل چہرے بے نقاب کردینے چاہییں۔ ایسے افراد کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہیے جو اپنے سامنے ہونے والے جرائم پر خاموش رہے؟ میڈیا کے ان عناصر کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو سب کچھ جانتے ہوئے، اپنے ''گھر کے خرچ'' سے اربوں بنانے والوں کے حق میں لمبی چوڑی تحریریں لکھتے رہے۔

آزادی اظہار کی آڑ میں بعض میڈیا گروپس اور ان کے کارندوں کے اصل کرتوت طشت ازبام کرنے چاہییں۔ میڈیا کی آزادی کے بارے میں جاری حالیہ بحث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں عوام کے سامنے کھلا جھوٹ بولنے کے لیے کس طرح میڈیا کی آزادی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ''آزادیٔ اظہار'' مغرب کی اختراع ہے۔ کیا مغرب میں ہولوکوسٹ کے بارے میں ایسی ہی بہتان طرازی برداشت کی جائے گی جیسی اسلام کے خلاف روا رکھی جاتی ہے؟ میڈیا اب آزاد نہیں رہا، یہ زیادہ سے زیادہ دام لگانے والوں کی زبان بولتا ہے چاہے دام دینے والا کوئی بھی کیوں نہ ہو۔

عمران خان کی حکومت ایک دیانت دار اور عدل پسند سماج کے قیام کی دعوے دار ہے، اسے سب سے پہلے اپنی صفوں میں شامل ایسے بدطینت افراد کو نشان عبرت بنانا چاہیے جو ماضی کی طرح اس حکومت کا حصہ بننے میں بھی کام یاب رہے ہیں۔ ''نیا پاکستان'' کے لیے خود احتسابی کو فروغ دینا ہوگا جس میں ہر کوئی اپنے اعمال کا خود جائزہ لے، صرف ''دوسروں'' پر انگشت نمائی نہ کرتا ہو۔ اس کے بغیر ہماری ذات اور پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story