عورت ہی معاشرے کو سنوار سکتی ہے
بنت حوا غالباً معلوم تاریخ سے ہی مردوں کے شانہ بہ شانہ محنت و مشقت کرتی رہی ہے۔
ذرایع ابلاغ میں انٹرویوز عموماً ، اداکار ،گلوکار ، رقاص یا کسی بھی شعبہ حیات میں کوئی خاص مقام رکھنے یا خدمات انجام دینے والوں کے شامل ہوتے ہیں۔
(ذریعہ ابلاغ چاہے برقی ہو یا تحریری) انٹرویوز کا مقصد عموماً ان شخصیات کا اپنے فن یا صلاحیت میں منفرد مقام حاصل کرنے کے لیے محنت، لگن اور دلچسپی و جدوجہد کو سامنے لانا ہوتا ہے کہ کن مراحل سے اور کس مخالفانہ صورتحال میں اپنی دلچسپی یا صلاحیت میں کمال حاصل کرنے کے لیے انھیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہ کہ انسان بلا محنت و جدوجہدکے کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتا یہ بات دوسروں کے لیے بھی بطور مثال سامنے آتی ہے اور کئی افراد ان حالات کے تناظر میں خود بھی اپنے راستے کا تعین کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ہم نے بھی بے شمار شخصیات کے جو کسی بھی شعبہ زندگی میں شہرت و مقام رکھتے تھے کے انٹرویو کے لیے خاص کر ایسی خواتین کے جنھوں نے اپنی روایات، گھریلو ماحول میں رہتے ہوئے اپنے لیے سب سے جدا منزل کا انتخاب کیا اور پھر منزل پر پہنچنے کے لیے ہر رکاوٹ پر قابو پایا بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں، بقول ہمارے بھائی صاحب (جو ہمارے استاد اور رہنما کا درجہ رکھتے ہیں) کہ ابتدائے صحافت میں خود کو متعارف کروانے کے لیے انٹرویو اچھا ذریعہ ضرور ہو سکتا ہے مگر منزل نہیں۔ تخلیقی و تحقیقی کام ہی کے ذریعے اپنا الگ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے جو خود پوری تفصیل کا متقاضی ہے۔
بنت حوا غالباً معلوم تاریخ سے ہی مردوں کے شانہ بہ شانہ محنت و مشقت کرتی رہی ہے، اس کے علاوہ گھرداری اور اولاد کی پرورش بھی اسی کی ذمے داری میں شامل رہی ہے، جب کہ مرد گھرکے معاشی بندوبست کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف معاشروں میں معاشی جدوجہد صرف مردوں کے لیے اورگھر داری خواتین کے لیے ہی تصورکی جاتی ہے۔ معاشی جدوجہد میں مزدوری اور سخت سے سخت کام انجام دینے کے باعث ہی شاید حضرات کو صنف قوی جب کہ گھرداری کو ہلکا پھلکا کم محنت طلب کام سمجھ کر خواتین کو صنف نازک کے خطابات سے نوازا گیا ہے۔
حالانکہ دونوں ہی صورتیں حتمی نہیں بعض اوقات مردوں کو بڑا آرام دہ کام صاف ستھرے ماحول میں بے شمار سہولیات و اعزازات کے ساتھ کرنے کے باوجود خاصا پرکشش مشاہرہ بھی ادا کیا جاتا ہے اور کچھ حالات میں سخت محنت و مشقت اور بدترین حالات کار میں اس قدر کم معاوضہ دیا جاتا ہے کہ ان کے لیے اپنے کنبے کو ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح گھرداری بھی کچھ خواتین کے لیے عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہرکام کے لیے الگ الگ نوکر چاکر صرف ایک اشارے کے منتظر زبان سے چند جملے ادا کر کے وہ اپنے تمام کام اور ذمے داری سے سبکدوش ہو جاتی ہیں، زندگی کا ہر لمحہ اپنی مرضی اور خوشی سے بسر کرتی ہیں تو دوسری جانب وہ خواتین بھی ہیں جو فجر سے قبل بیدار ہوتی ہیں صبح سے دوپہر تک کے تمام کام انجام دے کر خود بھی اپنی ملازمت پر بچوں اور شوہر سے بھی قبل نکل جاتی ہیں غرض گھر اور باہر کی تمام ذمے داریاں اس قدر منظم انداز میں انجام دیتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسی محنت کش خواتین کو صنف نازک سمجھنا، ان کی توہین ہی ہے۔
جیساکہ ہم نے پہلے لکھا کہ ذرایع ابلاغ پر ایسی خواتین (شخصیات) کو جو اپنی مرضی، شوق اور خوشی سے کسی فن پر عبور حاصل کر لیں اہمیت دی جاتی ہے دیکھا جائے تو ان کا فن کسی دوسرے کے کسی کام نہیں آ رہا ہوتا، البتہ وہ خود دولت و شہرت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو بیک وقت کئی کام انجام دے رہی ہوتی ہیں جن سے دوسرے بھی استفادہ کریں اور معاشرے کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوں۔
ان کی سوچ اس قدر مثبت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو ہنر سلیقہ اور تخلیقی صلاحیت عطا فرمائی ہے وہ دوسروں کے بھی کام آئے ایسی خواتین جو کسی بھی مجبوری کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکیں اور کوئی بھی ملازمت کرنے کے قابل نہیں بلکہ بعض اوقات پڑھی لکھی خواتین بھی معاشرتی یا خاندانی مجبوریوں کے باعث گھر سے نکل کر اپنے معاشی حالات کو درست نہیں کر سکتیں ان کو گھر پر ہی ایسے ہنر اور فن سکھا کر روزگارکے مواقعے پیدا کیے جائیں کہ وہ باعزت زندگی بسر کر سکیں۔
گزشتہ ماہ ہم ایسی ہی خاتون سے متعارف ہوئے جو ایک مقامی اسکول میں آرٹ ٹیچر ہونے کے علاوہ اپنے تخلیق کردہ لباس اور گھریلو استعمال کی اشیا مثلاً بیڈکور، کشن، ٹیبل میٹس اور دیگر آرائشی چیزیں کم قیمت میں بے حد دلکش و دیدہ زیب تیارکر کے شہرکے بڑے اسٹورز میں نمائش کے لیے رکھتی ہیں اور آن لائن بھی فروخت کرتی ہیں یہ تو ایک طرح ان کا کاروبار ہے مگر یہ ہنر مند خاتون تعلیمی اداروں کی چھٹیوں میں مختلف فنون اور ہنر کے مختصر کورسز انتہائی کم فیس میں کرواتی ہیں اور پورے سال بھی شام کو یہی کورسز طالبات اورگھریلو خواتین کو سکھاتی ہیں جس میں ان کا مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ خواتین اور لڑکیوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
یہ فیس بک پر بھی فن پارے بنانا سکھاتی ہیں جس سے بلا کسی خرچ کے خواتین بہت کچھ بنانا سکھاتی ہیں، اس طرح وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دوسروں کے لیے راستے کھولتی ہیں۔ Equation Art and Craft by Dure-e-Shahwar کے نام سے وہ اپنا ہنر اور فن دوسروں تک کامیابی سے پہنچاتی ہیں اس سارے فنی و تخلیقی کاموں سے جہاں انھیں دلی سکون حاصل ہوتا ہے وہاں وہ اس نتیجے پر بھی پہنچی ہیں کہ معاشرتی بگاڑ کو عورت ہی درست کر سکتی ہے اس مقصد کے لیے انھوں نے خواتین کے لیے سیمینار اور ورک شاپ کے ذریعے خود آگاہی کا پروگرام شروع کیا ہے اور ان خاتون جن کا نام درِ شہوار ہے سے ہماری ملاقات ایک ایسی ہی ورک شاپ میں شرکت کرنے پر ہوئی جو انھوں نے اپنی ساتھی کے ہمراہ منعقد کی تھی جس کا موضوع ''اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کرنا'' تھا۔
اس سلسلے میں درِ شہوار کا کہنا ہے کہ جب تک خواتین معاشرتی مسائل سے آگاہ نہیں ہوتیں تو وہ ان مسائل کو حل کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں؟ اس خیال کے تحت ہی انھوں نے یہ ورک شاپ ترتیب دی کہ خواتین سب سے پہلے خود آگاہی سے ہمکنار ہوں انھیں اندازہ ہو کہ وہ کیا کر سکتی ہیں اور کیا کچھ سیکھ سکتی ہیں اس کے بعد وہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے معاشرتی آگاہی کی جانب خواتین کو راغب کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور یوں وہ اپنی تعلیم ہنر اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی معاشرتی ذمے داری سے عہدہ برا ہونا چاہتی ہیں۔
درِ شہوار نے اس ورکشاپ میں خواتین کو متحرک کرنے کے لیے بطور ماہر تہمینہ علی کو مدعوکیا تھا جو گزشتہ 25 سال سے مختلف بین الاقوامی اداروں سے بطور موٹیویشنل اسپیکر منسلک ہیں۔ تہمینہ علی نے خواتین کو باآسانی سمجھ آنے والے انداز میں یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہر بات ہماری اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنا انداز فکر تبدیل کر کے حالات اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے۔
اپنی خامیوں پر قابو پا کر دوسروں کو دل سے قبول کر کے اپنی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے جب ہم دوسروں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کریں گے تو تب ہی وہ بھی ہمارے بارے میں اپنے منفی نظریات کو تبدیل کریں گے۔ نہ ہم اپنے ماحول سے جان چھڑا سکتے ہیں اور نہ تنہا زندگی بسرکر سکتے ہیں۔ لہٰذا حالات سے سمجھوتہ کر کے ہی ہنسی خوشی رہا جا سکتا ہے۔ یوں ہم اپنی صلاحیتوں سے بھی واقف ہو جاتے ہیں کہ ہم کس حد تک خود کو تبدیل کر سکتے ہیں جو بات مشکل لگتی ہے وہی انداز فکر اختیارکرنے سے آسان ہو جاتی ہے۔
(ذریعہ ابلاغ چاہے برقی ہو یا تحریری) انٹرویوز کا مقصد عموماً ان شخصیات کا اپنے فن یا صلاحیت میں منفرد مقام حاصل کرنے کے لیے محنت، لگن اور دلچسپی و جدوجہد کو سامنے لانا ہوتا ہے کہ کن مراحل سے اور کس مخالفانہ صورتحال میں اپنی دلچسپی یا صلاحیت میں کمال حاصل کرنے کے لیے انھیں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہ کہ انسان بلا محنت و جدوجہدکے کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتا یہ بات دوسروں کے لیے بھی بطور مثال سامنے آتی ہے اور کئی افراد ان حالات کے تناظر میں خود بھی اپنے راستے کا تعین کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ہم نے بھی بے شمار شخصیات کے جو کسی بھی شعبہ زندگی میں شہرت و مقام رکھتے تھے کے انٹرویو کے لیے خاص کر ایسی خواتین کے جنھوں نے اپنی روایات، گھریلو ماحول میں رہتے ہوئے اپنے لیے سب سے جدا منزل کا انتخاب کیا اور پھر منزل پر پہنچنے کے لیے ہر رکاوٹ پر قابو پایا بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئیں، بقول ہمارے بھائی صاحب (جو ہمارے استاد اور رہنما کا درجہ رکھتے ہیں) کہ ابتدائے صحافت میں خود کو متعارف کروانے کے لیے انٹرویو اچھا ذریعہ ضرور ہو سکتا ہے مگر منزل نہیں۔ تخلیقی و تحقیقی کام ہی کے ذریعے اپنا الگ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے جو خود پوری تفصیل کا متقاضی ہے۔
بنت حوا غالباً معلوم تاریخ سے ہی مردوں کے شانہ بہ شانہ محنت و مشقت کرتی رہی ہے، اس کے علاوہ گھرداری اور اولاد کی پرورش بھی اسی کی ذمے داری میں شامل رہی ہے، جب کہ مرد گھرکے معاشی بندوبست کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف معاشروں میں معاشی جدوجہد صرف مردوں کے لیے اورگھر داری خواتین کے لیے ہی تصورکی جاتی ہے۔ معاشی جدوجہد میں مزدوری اور سخت سے سخت کام انجام دینے کے باعث ہی شاید حضرات کو صنف قوی جب کہ گھرداری کو ہلکا پھلکا کم محنت طلب کام سمجھ کر خواتین کو صنف نازک کے خطابات سے نوازا گیا ہے۔
حالانکہ دونوں ہی صورتیں حتمی نہیں بعض اوقات مردوں کو بڑا آرام دہ کام صاف ستھرے ماحول میں بے شمار سہولیات و اعزازات کے ساتھ کرنے کے باوجود خاصا پرکشش مشاہرہ بھی ادا کیا جاتا ہے اور کچھ حالات میں سخت محنت و مشقت اور بدترین حالات کار میں اس قدر کم معاوضہ دیا جاتا ہے کہ ان کے لیے اپنے کنبے کو ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسی طرح گھرداری بھی کچھ خواتین کے لیے عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہرکام کے لیے الگ الگ نوکر چاکر صرف ایک اشارے کے منتظر زبان سے چند جملے ادا کر کے وہ اپنے تمام کام اور ذمے داری سے سبکدوش ہو جاتی ہیں، زندگی کا ہر لمحہ اپنی مرضی اور خوشی سے بسر کرتی ہیں تو دوسری جانب وہ خواتین بھی ہیں جو فجر سے قبل بیدار ہوتی ہیں صبح سے دوپہر تک کے تمام کام انجام دے کر خود بھی اپنی ملازمت پر بچوں اور شوہر سے بھی قبل نکل جاتی ہیں غرض گھر اور باہر کی تمام ذمے داریاں اس قدر منظم انداز میں انجام دیتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسی محنت کش خواتین کو صنف نازک سمجھنا، ان کی توہین ہی ہے۔
جیساکہ ہم نے پہلے لکھا کہ ذرایع ابلاغ پر ایسی خواتین (شخصیات) کو جو اپنی مرضی، شوق اور خوشی سے کسی فن پر عبور حاصل کر لیں اہمیت دی جاتی ہے دیکھا جائے تو ان کا فن کسی دوسرے کے کسی کام نہیں آ رہا ہوتا، البتہ وہ خود دولت و شہرت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو بیک وقت کئی کام انجام دے رہی ہوتی ہیں جن سے دوسرے بھی استفادہ کریں اور معاشرے کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوں۔
ان کی سوچ اس قدر مثبت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو ہنر سلیقہ اور تخلیقی صلاحیت عطا فرمائی ہے وہ دوسروں کے بھی کام آئے ایسی خواتین جو کسی بھی مجبوری کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکیں اور کوئی بھی ملازمت کرنے کے قابل نہیں بلکہ بعض اوقات پڑھی لکھی خواتین بھی معاشرتی یا خاندانی مجبوریوں کے باعث گھر سے نکل کر اپنے معاشی حالات کو درست نہیں کر سکتیں ان کو گھر پر ہی ایسے ہنر اور فن سکھا کر روزگارکے مواقعے پیدا کیے جائیں کہ وہ باعزت زندگی بسر کر سکیں۔
گزشتہ ماہ ہم ایسی ہی خاتون سے متعارف ہوئے جو ایک مقامی اسکول میں آرٹ ٹیچر ہونے کے علاوہ اپنے تخلیق کردہ لباس اور گھریلو استعمال کی اشیا مثلاً بیڈکور، کشن، ٹیبل میٹس اور دیگر آرائشی چیزیں کم قیمت میں بے حد دلکش و دیدہ زیب تیارکر کے شہرکے بڑے اسٹورز میں نمائش کے لیے رکھتی ہیں اور آن لائن بھی فروخت کرتی ہیں یہ تو ایک طرح ان کا کاروبار ہے مگر یہ ہنر مند خاتون تعلیمی اداروں کی چھٹیوں میں مختلف فنون اور ہنر کے مختصر کورسز انتہائی کم فیس میں کرواتی ہیں اور پورے سال بھی شام کو یہی کورسز طالبات اورگھریلو خواتین کو سکھاتی ہیں جس میں ان کا مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ خواتین اور لڑکیوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
یہ فیس بک پر بھی فن پارے بنانا سکھاتی ہیں جس سے بلا کسی خرچ کے خواتین بہت کچھ بنانا سکھاتی ہیں، اس طرح وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دوسروں کے لیے راستے کھولتی ہیں۔ Equation Art and Craft by Dure-e-Shahwar کے نام سے وہ اپنا ہنر اور فن دوسروں تک کامیابی سے پہنچاتی ہیں اس سارے فنی و تخلیقی کاموں سے جہاں انھیں دلی سکون حاصل ہوتا ہے وہاں وہ اس نتیجے پر بھی پہنچی ہیں کہ معاشرتی بگاڑ کو عورت ہی درست کر سکتی ہے اس مقصد کے لیے انھوں نے خواتین کے لیے سیمینار اور ورک شاپ کے ذریعے خود آگاہی کا پروگرام شروع کیا ہے اور ان خاتون جن کا نام درِ شہوار ہے سے ہماری ملاقات ایک ایسی ہی ورک شاپ میں شرکت کرنے پر ہوئی جو انھوں نے اپنی ساتھی کے ہمراہ منعقد کی تھی جس کا موضوع ''اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کرنا'' تھا۔
اس سلسلے میں درِ شہوار کا کہنا ہے کہ جب تک خواتین معاشرتی مسائل سے آگاہ نہیں ہوتیں تو وہ ان مسائل کو حل کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں؟ اس خیال کے تحت ہی انھوں نے یہ ورک شاپ ترتیب دی کہ خواتین سب سے پہلے خود آگاہی سے ہمکنار ہوں انھیں اندازہ ہو کہ وہ کیا کر سکتی ہیں اور کیا کچھ سیکھ سکتی ہیں اس کے بعد وہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے معاشرتی آگاہی کی جانب خواتین کو راغب کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور یوں وہ اپنی تعلیم ہنر اور تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی معاشرتی ذمے داری سے عہدہ برا ہونا چاہتی ہیں۔
درِ شہوار نے اس ورکشاپ میں خواتین کو متحرک کرنے کے لیے بطور ماہر تہمینہ علی کو مدعوکیا تھا جو گزشتہ 25 سال سے مختلف بین الاقوامی اداروں سے بطور موٹیویشنل اسپیکر منسلک ہیں۔ تہمینہ علی نے خواتین کو باآسانی سمجھ آنے والے انداز میں یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہر بات ہماری اپنی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنا انداز فکر تبدیل کر کے حالات اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے۔
اپنی خامیوں پر قابو پا کر دوسروں کو دل سے قبول کر کے اپنی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے جب ہم دوسروں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کریں گے تو تب ہی وہ بھی ہمارے بارے میں اپنے منفی نظریات کو تبدیل کریں گے۔ نہ ہم اپنے ماحول سے جان چھڑا سکتے ہیں اور نہ تنہا زندگی بسرکر سکتے ہیں۔ لہٰذا حالات سے سمجھوتہ کر کے ہی ہنسی خوشی رہا جا سکتا ہے۔ یوں ہم اپنی صلاحیتوں سے بھی واقف ہو جاتے ہیں کہ ہم کس حد تک خود کو تبدیل کر سکتے ہیں جو بات مشکل لگتی ہے وہی انداز فکر اختیارکرنے سے آسان ہو جاتی ہے۔