ہنزہ کے بلند پہاڑوں میں تین نئی جھیلیں دریافت

پاک فضائیہ کے نامور ہوا باز ایم ایم عالم کے بھانجے نے سب سے اونچی جھیل انہی کے نام سے منسوب کردی

پاک فضائیہ کے نامور ہوا باز ایم ایم عالم کے بھانجے نے سب سے اونچی جھیل انہی کے نام سے منسوب کردی (فوٹو: ایکسپریس)

کراچی کے مہم جو عمر احسن نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے وادی ہنزہ میں بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے دامن میں 3 نئی جھیلیں دریافت کرلیں، جس میں انہوں ںے سب سے بلند جھیل پاک فضائیہ کے نامور ہوا باز ایم ایم عالم کے نام سے منسوب کردی جو کہ 17 ہزار 77 فٹ بلند ہے۔

ایم ایم عالم ڈسکوری اینڈ ایکسپینڈیشن (مہم جوئی ) فاؤنڈیشن، پرستان الپائن کلب، سروائیو انٹرنیشنل پاکستان نامی مہم جوئی کے اداروں سے جڑے عمر احسن کے مطابق ان کی سرگرمیوں کا مقصد مہم جوئی کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں کے لق و دق صحراؤں، بلند و بالا برف پوش چوٹیوں کے عقب میں چھپے ان خوبصورت اور صحت افزا مقامات کو دریافت کرنا ہے جو دشوار گزار راستوں کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔



عمر احسن کے مطابق ان کی مہم جوئی کا آغاز سن 2017ء میں بلوچستان میں ایک ساحل دریافت کرنے سے ہوا جو چندرگپت کنڈ ملیر سے کچھ پہلے لگ بھگ 3 ہزار فٹ کی بلند چوٹی کے دامن میں انتہائی مشکل راستوں کے عقب میں تھا۔ اس ساحل کے راستے میں ایک لق و دق 8 کلومیٹر طویل صحرا جبکہ ایک زندہ مڈ وال کینو (زندہ اور سلگتا ہوا مٹی کا دلدل) حائل تھا۔



صحرا کی ریت میں خاص قسم کی اونچے ٹائروں اور فور وہیل ڈرائیو گاڑی ہی چل سکتی تھی، نتیجہ یہ کہ اس صحرا اور راستے میں موجود دلدلی علاقے کو پیدل طے کرنے کا فیصلہ ہوا بعدازاں اس خوبصورت دریافت کو انھوں نے ساحل امید نام دیا۔



عمر احسن کے مطابق سن 2018ء میں ان کے دل میں خواہش ابھری کہ تلاش اور جستجو کا یہ سلسلہ تھمنا نہیں چاہیے اور پھر اسی جذبے اور ولولے کی وجہ سے وہ یکم ستمبر 2018ء کو طویل سفر پر نکلے، اسکردو پہنچنے کے بعد انھوں نے نئی دریافت کے لیے ضروری آلات کا بندوبست کیا اور سیاچن کے 14 کلومیٹر مغرب میں خپلو ڈسٹرکٹ گئے۔

بعدازاں ہنجور تک پیدل سفر کیا اور آخری مرحلے میں ان کا بلندی کی جانب ایک دشوار گزار اور انتہائی صبر آزما سفرشروع ہوا مگر اس سفر میں ایک خوف بھی حائل تھا کیونکہ انھوں نے بلندی پر جس علاقے کی جانب رخت سفر باندھا ہوا تھا۔



مہم جو نے بتایا کہ وہاں پر کسی بھی وقت لینڈ سلائیڈنگ شروع ہوجاتی تھی اور وہاں کے علاقہ مکینوں کے مطابق مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اس مخصوص علاقے کا جغرافیہ تبدیل ہوچکا تھا اور ماضی کے رستے بھول بھلیوں میں بدل گئے تھے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق مسلسل لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وہاں پر ہریالی بھی نہیں اگتی تھی، یہی وجہ تھی کہ لوگ اپنے پالتو جانور چرانے نہیں لے جاتے تھے۔


عمر احسن نے کہا کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 30 سال سے وہاں کوئی انسان نہیں جاسکا، چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اس بلند و بالا پہاڑی کے دامن کو الگ ہی دنیا واقع ہے اور پھر جب ہم نے 16 ہزار فٹ کی بلندی عبور کی تو ہمارے سامنے قدرت کی صناعی کا ایک بہت ہی دل فریب منظر تھا اورگویا صحرا کے پیچھے ایک نخلستان چھپا ہوا تھا کیونکہ اس بلندی سے عین 400 فٹ نیچے ایک خوبصورت جھیل موجود تھی جس کی تہہ میں پتھر تک دکھائی دے رہے تھے اور نیلے پانی کا نظارہ ہی کچھ اورتھا۔



پاک فضائیہ کے معروف جنگی ہوا باز ایم ایم عالم کے بھانجے ہیں عمر احسن کا کہنا تھا کہ بے ساختہ میرے ذہن میں پرستان کا خیال ابھرا اور پھر اس جھیل کا نام پرستان لیک (پرستان جھیل رکھ دیا گیا)، پرستان جھیل کی دریافت کے بعد ذہن پر ایک ایسا عزم طاری ہوا کہ مزید دریافت کے لیے تحقیق بڑھادی اور پھر رواں سال سن 2019ء کے مئی کے مہینے میں ایک نیا سفر شروع ہوا جس کی منزل شمالی علاقہ جات میں غزریو کا پہاڑی سلسلہ تھا جو ڈسٹرکٹ ہنزہ اور تحصیل گوجال جبکہ یونین کونسل شمشال میں واقع ہے۔



عمر احسن کے مطابق انھیں قطعی معلوم نہیں تھا کہ 2019ء میں ہونے والے سفرکے دوران کامیابی ان کے اس انداز سے قدم چومے گی کہ یکے بعد دیگرے وہ تین مختلف جھیلیں دریافت کرلیں گے۔ وہ اس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں وہ واحد شخص ہے جنھوں نے تن تنہا یہ مشکل مہم سرکیا کیونکہ عموما یہ کام گروپ کی شکل میں کیے جاتے ہیں۔



عمر احسن نے جو تین جھلیں دریافت کی ہیں ان میں ایم ایم عالم جھیل 17 ہزار 77 فٹ، لالک جان 16 ہزار 398 فٹ اور عمر احسن لیک 15 ہزار 990 فٹ بلند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کے دوران انھیں شدید نوعیت کی برف باری کا بھی سامنا رہا جبکہ اس مقام کا درجہ حرارت 5 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ 15 دن کے سفر کے دوران واپسی پر دنیا کے سرد مقام سائبریا اور نارتھ امریکا میں پایا جانے والا نادر و نایاب خون خوار جانور 'ویزل' بھی دریافت کیا جبکہ مار خور، بلیو شیپ (نیلگوں بھیڑیں) اور برفانی ریچھ سمیت کئی نادر و نایاب جانوروں کو نہ صرف قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ انہیں کیمرے کی آنکھ میں عکس بند بھی کیا۔



عمر احسن کے مطابق اس سفر کے دوران انھوں ایک گلشیئر پر ایک رات بھی گزاری جہاں آکیسجن کی مقدار انتہائی کم جبکہ درجہ حرارت 15 ڈگری تھا۔ اس مقام پر انھوں نے لگاتار 14 گھنٹے قیام کیا۔



عمر احسن کے مطابق جس وقت پرستان جھیل دریافت کی تھی پاکستان بلند جھیلوں کے لحاظ سے دنیا بھر میں 25 ویں نمبر پر تھا مگر مذکورہ جھیلوں کی دریافت کے بعد پاکستان دنیا کے ساتویں ملک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔
Load Next Story