مانیٹری پالیسی اور افراط زر
صنعتی شعبے نے زیادہ شرح سود کے باعث قرض حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں لی.
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آیندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ نئے مالی سال کے آغاز کے بعد یہ پہلی مانیٹری پالیسی ہے۔ عموماً اگست کے مہینے میں ہی پالیسی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پالیسی کے مطابق اس سال مالی خسارہ 6.3 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ انھی دنوں حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب 68 کروڑ ڈالر قرضے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے چند نکات پر عمل درآمدکی یقین دہانی مانگی گئی تھی لہذا عالمی مالیاتی ادارے کے چند مطالبات کو پورا کرنے کی خاطر اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کے اجراء میں تین ہفتے کی تاخیر ہوئی جس میں سے ایک مطالبہ یہ تسلیم کر لیا گیا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے۔
لہٰذا پہلے مرحلے میں شرح سود نصف فیصد بڑھاکر 9 فی صد سے ساڑھے نو فی صد کر دی گئی۔ جن دنوں شرح سود 10 فی صد سے بھی زائد تھی انھی دنوں ملک زبردست توانائی بحران سے بھی گزر رہا تھا۔ اور آئے روز کئی کئی دن کے لیے صنعتوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی معطل کر دی جاتی تھی۔ جس کے باعث صنعتوں اور ملوں میں بجلی اور گیس نہ ہونے کے باعث پیداوار شدید متاثر ہوتی رہی تھی۔ اور اس کے منفی اثرات برآمدات پر بھی مرتب ہوتے رہے۔ نیز شرح سود زیادہ ہونے کے باعث بھی صنعتکار اپنی پیداوار بڑھانے سے قاصر تھے۔ اس لیے کہ اول آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی گیس کے نرخ بڑھائے جا رہے تھے جس سے پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر شرح سود زائد ہونے کے باعث صنعتکار مالیات کی کمی کا شکار ہو رہے تھے۔ لہٰذا غیر ملکی تاجروں کی توجہ بنگلہ دیش، بھارت، ویتنام اور دیگر ملکوں کی جانب مبذول ہوئی۔
کیونکہ پاکستان کے حالات دہشت گردی کے باعث مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت بھی کراچی کے حالات غیر یقینی ہونے کے باعث غیر ملکی تاجر کراچی آنے سے گریزاں ہیں۔ چین سے تجارت کرنے والے کراچی کے ایک معروف تاجر کا کہنا ہے کہ ان کے چینی دوست تاجر کراچی آنے سے گریز کرتے ہوئے لاہور آنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لہٰذا انھیں اپنا دفتر لاہور بھی کھولنا پڑا اور آئے روز وہ اور ان کے بھائی کو لاہور جانا پڑتا ہے۔ بہرحال ملک کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ امن و امان کے حالات کا نہ ہونا بھی ہے۔ یہاں ذکر شرح سود کا ہو رہا تھا۔ جب شرح سود 12 فی صد اور 11 فی صد تھی اس وقت ملکی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی واقع ہو رہی تھی اس کے دیگر اسباب بھی تھے جن میں امن و امان کی خرابی بھی تھی لیکن صنعتکاروں کا یہ مطالبہ بھی سر فہرست تھا کہ شرح سود میں نمایاں کمی کی جائے تا کہ جن صنعتوں اور کاروبار کے لیے قرض کی ضرورت ہے وہ قرض لیا جا سکے۔ لہٰذا بتدریج شرح سود میں کمی کی گئی تھی۔
اس دوران افراط زر میں اضافے کو کم کرنے کے مضبوط اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ مثلاً ڈالر کی قدر میں تیزی سے بڑھنے کا سلسلہ کسی طور پر رک نہ سکا۔ جس کے باعث روپے کی قدر خاصی کم ہو گئی اور اس سے مہنگائی بھی بڑھتی چلی گئی۔ انھی دنوں شرح سود میں اضافے کے باعث نجی کاروباری ادارے بینکوں سے قرض لینے سے احتراز کرتے رہے اور سابقہ حکومت نے خوب قرض حاصل کیا۔ اس طرح بینکوں کا کاروبار بھی خوب چمکا۔ ملکی معاشی ترقی میں بینکوں کی ترقی کا گراف بڑھنے لگا۔ لہٰذا مالیاتی شعبے کی ترقی سے یہ سمجھا گیا کہ ملکی ترقی ہو رہی ہے۔ حالانکہ سارا منافع بینکوں نے کمایا بینکوں کا کاروبار بڑھنے کے باوجود روزگار میں اضافہ نہ ہو سکا۔ بلکہ ایک عشرے سے قبل بینکوں میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ برسر روزگار تھے۔ ان کے روزگار بھی ختم کر دیے گئے۔ بینکوں نے اپنے اسٹاف کی تنخواہیں تو بڑھا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہزاروں افراد کی نوکریاں ختم کر دی گئیں۔
صنعتی شعبے نے زیادہ شرح سود کے باعث قرض حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اور حکومت بے تحاشا قرض لیتی رہی جو کہ غیر ترقیاتی کاموں میں صرف ہوتا رہا۔ سابقہ حکومت اپنے اخراجات کنٹرول کرنے کے بجائے قرض لے کر اسے بڑھاتی رہی۔ جس کے باعث ملک میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اگرچہ ان دنوں بھی اسٹیٹ بینک حکومت کے بڑھتے ہوئے قرض کے حصول پر سراپا احتجاج بنی رہی۔ افراط زر بڑھنے کی دہائی دیتی رہی۔ مالیاتی خسارہ حد سے زیادہ بڑھنے کے نقصانات بیان کرتی رہی۔ لیکن ان سب باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا گیا۔ اس وقت صنعتکاروں کے پر زور مطالبات پر شرح سود میں کمی کی جاتی رہی تا کہ صنعتی پہیہ چلایا جا سکے۔ صنعتوں کی مالی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
اس وقت پاکستان کی معیشت پر جس طرح کی سرد بازاری طاری ہے، اس میں ضرورت اس امر کی تھی کہ اسٹیٹ بینک مانیٹر پالیسی میں ایسے اقدامات اختیار کرتا جس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا۔ کیونکہ ''مانیٹری پالیسی'' ایک ایسی پالیسی ہوتی ہے جو کہ ملک کے زری حکام زر کی مقدار کو کنٹرول کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں، جیسے شرح سود میں اضافہ یا کمی کر کے۔ شرح سود میں کمی کر کے زر کی مقدار میں اضافہ کیا جائے تو لوگ پہلے کی نسبت زیادہ مقدار میں اشیاء و خدمات کی خریداری میں لگ جاتے ہیں۔ لہٰذا کساد بازاری کے دور میں شرح سود میں کمی کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی درست ہے کہ اس طرح افراط زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں افراط زر میں اضافے کی دیگر بہت سی وجوہات بھی ہیں۔
اول ہر حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ منافع خور تاجر طلب و رسد کو جواز بنا کر قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز اشیاء کی قلت کا شور مچا کر بڑی مقدار میں ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ سے مختلف اشیاء غائب ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ان کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور حکومت ان تمام معاملات کو کنٹرول کرنے میں کوشش کے باوجود ناکام رہتی ہے یا پھر غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے یا اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں جس معاشی ویژن کو متعارف کرایا تھا اس کے باعث تاجر برادری کو توقع تھی کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے شرح سود میں کم از کم ایک یا آدھ فی صد کی کمی کی جائے گی تا کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔
کیونکہ ملک میں جاری توانائی بحران کے ساتھ ہی شام اور امریکا کشیدگی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کے رجحان سے پاکستان کی معیشت بھی خاصی متاثر ہوئی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ کر دیا جس کے منفی اثرات ہر شے پر اس طرح پڑے کہ اشیاء کی لاگت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اور خاص طور پر آٹے کی قیمت بھی اس دوران بڑھتی رہی جس کی وجہ سے روٹی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ ادھر امن و امان کی خراب صورت حال نے بھی معاشی ترقی کی رفتار کو مدھم کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی نے پوری کر دی ہے۔ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ اگر شرح سود 6 یا 7 فی صد ہو تو اس سے جو صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو گئی ہیں ان کے واپس پاکستان منتقل ہونے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی لیکن بعض صنعتکاروں نے یہ بھی رویہ اختیار کیے رکھا کہ ملکی بینکوں سے قرض حاصل کر لیا۔ اور پھر یہ قرض لے کر بیرون ملک منتقل ہو گئے۔
وہاں پر صنعتکاری کی اور تجارت کرتے رہے۔ جب کہ پاکستان میں خود کو نقصان میں ظاہر کر کے اپنے کارخانوں اور ملوں کو شدید نقصان میں مبتلا کر کے قرض معاف کرا لیا یا پھر اس میں خاصی چھوٹ حاصل کر لی۔ اس کے علاوہ افراط زر میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ بھی ہے۔ جو کہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ مخصوص ہے۔ پاکستان کے اپنے مخصوص محل وقوع اور عالمی استعماری قوتوں کے مخصوص مفادات کے باعث عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرض دیتے وقت عالمی طاقتوں کے اشارے پر پاکستان پر بعض کڑی شرائط اور مطالبات لاگو کر دیتے ہیں اور قرض لینے کی خاطر پاکستان کو اس قسم کی کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے، اول قرضوں کی قسط اور سود پر ادائیگی کے باعث پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر، جو کہ پہلے ہی بہت ہی کم ہیں، خاصا دباؤ پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے اور روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتی ہے۔
بالآخر نتیجہ مہنگائی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ادھر عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات پر بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ سبسڈی کا خاتمہ یا اس مد میں بڑی حد تک کمی کا مطالبہ ماننے کے باعث افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک وہاں غریب عوام کو ریلیف دینے کی خاطر سبسڈی دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کو ایسا کرنے سے گریز کرنے کا نسخہ تھما دیا جاتا ہے تا کہ پاکستان کی معیشت پر گرفت مضبوط ہوتی چلی جائے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال میں افراط زر کی شرح 11 سے 12 فیصد ہو سکتی ہے۔ عوام کو مہنگائی کا بوجھ کم محسوس ہو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔ لہٰذا اسٹیٹ بینک اپنی مانیٹری پالیسی میں ایسے اقدامات اختیار کرے اور حکومت بھی ایسے طریقے بروئے کار لائے جس سے افراط زر کی شرح میں خاصی کمی واقع ہو۔