قانون اور نظام کا فرق
آج کے غالب نظام کے تحت عالمی سطح پر بہ طور مجموعی غربت میں اور فاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے
DG KHAN:
کیا جُوا ایمان داری کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکتا؟ جوا ایمان داری کے ساتھ بھی تو کھیلا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے قوانین بنائے جا سکتے ہیں کہ جواریوں کے لیے بے ایمانی کرنا ممکن ہی نہ رہے۔ اگر وہ بے ایمانی کریں بھی تو نگرانی کا نظام ایسا ہو کہ وہ فوراً پکڑے جائیں۔ پھر سزاؤں کا نظام اور ان کا نفاذ بھی ایسا ہو کہ کسی رشوت، سفارش یا اقربا پروری کا گزر نہ ہو سکے۔ جس نے بے ایمانی کی اسے سزا ہو گی۔ جو کرے گا وہ بھرے گا۔ انسانی ذہانت سے کچھ بعید نہیں۔ وہ نت نئے طریقے اور راستے تلاش کرتا رہتا اور تراشتا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر سر جوڑ کے بیٹھا جائے۔ منتخب نمایندوں کا اجلاس طلب کیا جائے اور پھر ایک اور قانون سازی کی جائے۔ یوں ایک کے بعد ایک اصول و قانون بنتے چلے جائیں گے اور جُوا ایمان داری سے کھیلا جاتا رہا کرے گا۔ کیا دنیا بھر میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ریس کھیلی جاتی ہے۔
بڑے بڑے ریس کورس بنائے گئے ہیں۔ بہت عمدہ انتظامات ہیں۔ سخت قسم کے اصول و قوانین ہیں۔ ہر فرد پر ان اصولوں کا اور قوانین کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں ہر جگہ ریس پر جوا ہوتا ہے اور نہایت ایمان داری سے ہوتا ہے۔ ریس کے میدانوں میں ایمان داری کے بعض ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جن کا عام افراد عام زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو اچھے اچھے قانون بنا کر نافذ کیے گئے تو وہ کس لیے ہیں؟ کیا وہ نظام جو معاشرے میں جوئے کے فروغ کا سبب بن رہا ہے، وہ نظام جو سٹے کی لت کو عام کرنے، سرمائے، حرص اور ہوس میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اس کے فروغ اور استحکام کے لیے یا عام فرد کی اخلاقی اور روحانی حالت میں بہتری کے لیے؟
ایک اور مثال لیتے ہیں۔ چوری کی سزا۔۔۔۔۔چوری کی سخت ترین سزاؤں میں قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنا شامل ہے۔ کچھ لوگ اس سزا کو بہت ظالمانہ اور قدیم دور کی سزا قرار دیتے ہیں لیکن ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ سزا نافذ کر دی جائے۔ پوری ایمان داری سے تو اس کے اثرات کیا ہونگے یقینی طور پر اگر ایسی سخت سزا کا نفاذ ہو جائے گا تو چوری کی وارداتیں کم یا ختم ہو جائیں گی لیکن اب اس سلسلے کا اگلا سوال یہ ہے کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایسی سخت سزاؤں کے نفاذ سے چوریاں ختم ہو گئیں۔ ہم آپ چوری چکاری کے خوف کے بغیر رہ رہے ہیں۔ گھروں، دفتروں، الماریوں، درازوں، دکانوں کہیں تالے لگانے کی بھی ضرورت نہیں یہاں تک کہ بینک بھی اپنی حفاظت کی طرف سے مطمئن ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی سکیورٹی گارڈ نہیں۔ ممکن ہے بعض دوست یہ کہیں اور سمجھیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس میں برائی کیا ہے؟ لوگ کھلے عام مہنگے موبائل استعمال کر سکیں گے، چھینے جانے کا خوف نہیں ہو گا، خواتین سونے کے زیورات پہن کر شاپنگ کے لیے جا سکیں گی؟ دفتری لوگ اور طالبعلموں کو لیپ ٹاپ چھن جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ اگر ایسا سب کچھ ہو جائے تو کتنا اچھا ہو؟
لیکن ذرا سوچیے کیا یہ تصویر کا ایک ہی رخ نہیں ہے۔ تصویر کا دوسرا اور اصل رخ یہ ہے کہ اچھے سے اچھا قانون غلط نظام میں ظالموں کا مددگار بن جاتا ہے۔ ایک ایسا نظام جو فرد کے اخلاق، کردار اور اس کی روحانیت کے بجائے اس کی حرص میں فروغ کا سبب بننے والا ہو اس نظام میں اچھے سے اچھے قوانین بھی ظالم کے مددگار ہوتے ہیں۔ آج کے غالب نظام کے تحت عالمی سطح پر بہ طور مجموعی غربت میں اور فاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ دولت سمٹ کر کارپوریشنز کی طرف بہہ رہی ہے۔ امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ کچھ دوست ہمارے ہمسایہ بھارت کی اور چین کی ترقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں کروڑں افراد فاقوں سے مر رہے ہیں۔ کروڑوں افراد وہ ہیں جنھیں صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ کیا یہ وہی خطہ نہیں جو مغلوں کے دور میں دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ جسے سونے کی چڑیا کہا گیا تھا؟ کیا یہ وہی خطہ نہیں جس کے بارے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ نے تاج برطانیہ کو جا کر بتایا تھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔
وہاں کے عام افراد کی امارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دو اناج ایک وقت میں ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ یہ برطانیہ عظمیٰ کا وہ وقت تھا جب دو اناج ایک ساتھ کھانے کا تصور ان کے امراء کے ہاں بھی نہیں تھا۔ آج دنیا کے ایک تہائی غریب وہاں رہتے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 40 کروڑ سے زائد بھارتی پچیس ڈالر سے بھی کم کی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ گویا ہر ماہ ان کے پاس تمام اخراجات کے لیے 4 ہزار روپے بھی نہیں ہوتے۔ یہ کون سی ترقی ہے؟ چین کی 12 فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں اگر سخت قوانین سختی سے نافذ ہو جائیں تو کیا ساہوکاروں کو کوئی ڈر ہو گا؟ اگر وہ اپنی تجوریاں کھول کر بھی سوئیں تو بے فکری کی نیند کے مزے لے سکتے ہیں۔ امیر اپنی دولت کے انبار بڑھانے میں آزاد ہونگے۔ ظالمانہ نظام میں عمدہ قوانین بھی ظالموں کی معاونت کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں مغربی قوانین نافذ ہیں۔ مغرب میں فرد کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک آزاد فرد، ایک آزاد شہری۔ اس پر اس وقت تک کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی انفرادی آزادی کسی اور فرد کی آزادی سے نہ ٹکرائے۔ جیسے مغربی طرز کی جمہوریاؤں میں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ ایک فرد اپنی آزادی کا ایسا استعمال کرے جس سے سرمائے کی قدر یا آزادی پر حرف آئے یعنی آپ کو اپنی آزادی میں اضافے کی تو اجازت ہے اپنی آزادی کسی کی غلامی میں یا کسی کی بندگی میں دینے کی کوئی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چونکہ یہ قوانین انسانوں نے انسانوں کے لیے بنائے ہیں اور انسانوں کے بھی ایک خاص طبقے نے بنائے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ طبقاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچ سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جہاں اس نظام اور قانون کا اطلاق ہوتا گیا وہاں وہاں طبقاتی فرق بھی بڑھتا گیا۔ بااثر افراد اپنے مفادات کے لیے قانون سازی ہی تک محدود نہیں رہتے وہ نافذ قوانین کی تعبیر، تشریح اور توضیح بھی اپنی ہی مرضی کی کیے چلے جاتے ہیں۔
قانون سازی کے شوق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنے زیادہ قوانین بنائے جانے لگے معاشرے میں جرائم بھی اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس بات کی فکر نہیں کی گئی کہ عمدہ سے عمدہ قانون بھی اخلاقی دباؤ کا بدل نہیں ہو سکتا۔ بھارت اور چین نے ماں باپ کی خدمت کے لیے قوانین بنائے کیا اس طرح کے قوانین کا کچھ فائدہ بھی ہے؟ کیا والدین کی خدمت کے قوانین کے نفاذ سے بچے اپنے والدین کی خدمت کرنے لگیں گے؟ یہاں اس سوال پر کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی آخر ان روایتی تہذیبوں میں وہ کیا بنیادی تبدیلی واقع ہوئی کہ لوگ والدین کی خدمت میں عار محسوس کرنے لگے؟ہماری ہاں شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی بھی سب نے دیکھی۔ اس کا حل ہمارے بعض جغادری قوانین کے حوالے سے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسا نظام ہے جس کے تحت وہ افراد پیدا ہو رہے ہیں جو ذرا سی بات پر قتل کر کے فتح کا نشان لہراتے ہیں۔ یہ کیسی نسل پیدا ہو رہی ہے جو قتل جیسے فعل پر بھی شرمسار نہیں۔ یہ کون سا نظام ہے جس نے چند انسانوں کو اتنا با اختیار بنا دیا ہے کہ وہ سزا سے بچنے کے لیے اپنی عمر جتنی چاہیں کم کر دیں، جب چاہیں باوجود پابندیوں کے ملک سے فرار ہو جائیں اور جب چاہیں قتل معاف کروا لیں۔ کیا یہ عدل پر مبنی نظام ہے؟ یہ قصاصی کا معاملہ ہے یا ''حرابہ'' کا۔ شاہ زیب کا قتل قصاص کے زمرے میں آتا ہی نہیں یہ تو ''حرابے'' کا کیس ہے اور اسے کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ جج صاحبان اس فرق کو ہم سے بہتر سمجھتے ہوں گے۔ اصحاب علم کی جانب سے اس کی تفصیل و وضاحت بھی سامنے آنی ہی چاہیے۔ جرم کے مطابق قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ چوری الگ جرم ہے ڈکیتی الگ۔ چوری کے جرم کو مالک معاف کر سکتا ہے۔ ڈکیتی کا جرم کوئی بھی معاف نہیں کر سکتا اس کی سزا ضرور ملتی ہے۔معاشرتی بگاڑ صرف قانون سازی اور قانون کے نفاذ سے درست نہیں ہوا کرتا، قلب و نظر کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی نہایت ضروری ہے۔
کیا جُوا ایمان داری کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکتا؟ جوا ایمان داری کے ساتھ بھی تو کھیلا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے قوانین بنائے جا سکتے ہیں کہ جواریوں کے لیے بے ایمانی کرنا ممکن ہی نہ رہے۔ اگر وہ بے ایمانی کریں بھی تو نگرانی کا نظام ایسا ہو کہ وہ فوراً پکڑے جائیں۔ پھر سزاؤں کا نظام اور ان کا نفاذ بھی ایسا ہو کہ کسی رشوت، سفارش یا اقربا پروری کا گزر نہ ہو سکے۔ جس نے بے ایمانی کی اسے سزا ہو گی۔ جو کرے گا وہ بھرے گا۔ انسانی ذہانت سے کچھ بعید نہیں۔ وہ نت نئے طریقے اور راستے تلاش کرتا رہتا اور تراشتا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر سر جوڑ کے بیٹھا جائے۔ منتخب نمایندوں کا اجلاس طلب کیا جائے اور پھر ایک اور قانون سازی کی جائے۔ یوں ایک کے بعد ایک اصول و قانون بنتے چلے جائیں گے اور جُوا ایمان داری سے کھیلا جاتا رہا کرے گا۔ کیا دنیا بھر میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ریس کھیلی جاتی ہے۔
بڑے بڑے ریس کورس بنائے گئے ہیں۔ بہت عمدہ انتظامات ہیں۔ سخت قسم کے اصول و قوانین ہیں۔ ہر فرد پر ان اصولوں کا اور قوانین کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں ہر جگہ ریس پر جوا ہوتا ہے اور نہایت ایمان داری سے ہوتا ہے۔ ریس کے میدانوں میں ایمان داری کے بعض ایسے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جن کا عام افراد عام زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو اچھے اچھے قانون بنا کر نافذ کیے گئے تو وہ کس لیے ہیں؟ کیا وہ نظام جو معاشرے میں جوئے کے فروغ کا سبب بن رہا ہے، وہ نظام جو سٹے کی لت کو عام کرنے، سرمائے، حرص اور ہوس میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اس کے فروغ اور استحکام کے لیے یا عام فرد کی اخلاقی اور روحانی حالت میں بہتری کے لیے؟
ایک اور مثال لیتے ہیں۔ چوری کی سزا۔۔۔۔۔چوری کی سخت ترین سزاؤں میں قطع ید یعنی ہاتھ کاٹنا شامل ہے۔ کچھ لوگ اس سزا کو بہت ظالمانہ اور قدیم دور کی سزا قرار دیتے ہیں لیکن ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ سزا نافذ کر دی جائے۔ پوری ایمان داری سے تو اس کے اثرات کیا ہونگے یقینی طور پر اگر ایسی سخت سزا کا نفاذ ہو جائے گا تو چوری کی وارداتیں کم یا ختم ہو جائیں گی لیکن اب اس سلسلے کا اگلا سوال یہ ہے کہ اس سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایسی سخت سزاؤں کے نفاذ سے چوریاں ختم ہو گئیں۔ ہم آپ چوری چکاری کے خوف کے بغیر رہ رہے ہیں۔ گھروں، دفتروں، الماریوں، درازوں، دکانوں کہیں تالے لگانے کی بھی ضرورت نہیں یہاں تک کہ بینک بھی اپنی حفاظت کی طرف سے مطمئن ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی سکیورٹی گارڈ نہیں۔ ممکن ہے بعض دوست یہ کہیں اور سمجھیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس میں برائی کیا ہے؟ لوگ کھلے عام مہنگے موبائل استعمال کر سکیں گے، چھینے جانے کا خوف نہیں ہو گا، خواتین سونے کے زیورات پہن کر شاپنگ کے لیے جا سکیں گی؟ دفتری لوگ اور طالبعلموں کو لیپ ٹاپ چھن جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ اگر ایسا سب کچھ ہو جائے تو کتنا اچھا ہو؟
لیکن ذرا سوچیے کیا یہ تصویر کا ایک ہی رخ نہیں ہے۔ تصویر کا دوسرا اور اصل رخ یہ ہے کہ اچھے سے اچھا قانون غلط نظام میں ظالموں کا مددگار بن جاتا ہے۔ ایک ایسا نظام جو فرد کے اخلاق، کردار اور اس کی روحانیت کے بجائے اس کی حرص میں فروغ کا سبب بننے والا ہو اس نظام میں اچھے سے اچھے قوانین بھی ظالم کے مددگار ہوتے ہیں۔ آج کے غالب نظام کے تحت عالمی سطح پر بہ طور مجموعی غربت میں اور فاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ دولت سمٹ کر کارپوریشنز کی طرف بہہ رہی ہے۔ امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ کچھ دوست ہمارے ہمسایہ بھارت کی اور چین کی ترقی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں کروڑں افراد فاقوں سے مر رہے ہیں۔ کروڑوں افراد وہ ہیں جنھیں صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ کیا یہ وہی خطہ نہیں جو مغلوں کے دور میں دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ جسے سونے کی چڑیا کہا گیا تھا؟ کیا یہ وہی خطہ نہیں جس کے بارے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ نے تاج برطانیہ کو جا کر بتایا تھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔
وہاں کے عام افراد کی امارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دو اناج ایک وقت میں ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ یہ برطانیہ عظمیٰ کا وہ وقت تھا جب دو اناج ایک ساتھ کھانے کا تصور ان کے امراء کے ہاں بھی نہیں تھا۔ آج دنیا کے ایک تہائی غریب وہاں رہتے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 40 کروڑ سے زائد بھارتی پچیس ڈالر سے بھی کم کی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ گویا ہر ماہ ان کے پاس تمام اخراجات کے لیے 4 ہزار روپے بھی نہیں ہوتے۔ یہ کون سی ترقی ہے؟ چین کی 12 فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں اگر سخت قوانین سختی سے نافذ ہو جائیں تو کیا ساہوکاروں کو کوئی ڈر ہو گا؟ اگر وہ اپنی تجوریاں کھول کر بھی سوئیں تو بے فکری کی نیند کے مزے لے سکتے ہیں۔ امیر اپنی دولت کے انبار بڑھانے میں آزاد ہونگے۔ ظالمانہ نظام میں عمدہ قوانین بھی ظالموں کی معاونت کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں مغربی قوانین نافذ ہیں۔ مغرب میں فرد کو ایک فرد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک آزاد فرد، ایک آزاد شہری۔ اس پر اس وقت تک کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی انفرادی آزادی کسی اور فرد کی آزادی سے نہ ٹکرائے۔ جیسے مغربی طرز کی جمہوریاؤں میں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ ایک فرد اپنی آزادی کا ایسا استعمال کرے جس سے سرمائے کی قدر یا آزادی پر حرف آئے یعنی آپ کو اپنی آزادی میں اضافے کی تو اجازت ہے اپنی آزادی کسی کی غلامی میں یا کسی کی بندگی میں دینے کی کوئی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چونکہ یہ قوانین انسانوں نے انسانوں کے لیے بنائے ہیں اور انسانوں کے بھی ایک خاص طبقے نے بنائے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ طبقاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچ سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جہاں اس نظام اور قانون کا اطلاق ہوتا گیا وہاں وہاں طبقاتی فرق بھی بڑھتا گیا۔ بااثر افراد اپنے مفادات کے لیے قانون سازی ہی تک محدود نہیں رہتے وہ نافذ قوانین کی تعبیر، تشریح اور توضیح بھی اپنی ہی مرضی کی کیے چلے جاتے ہیں۔
قانون سازی کے شوق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنے زیادہ قوانین بنائے جانے لگے معاشرے میں جرائم بھی اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس بات کی فکر نہیں کی گئی کہ عمدہ سے عمدہ قانون بھی اخلاقی دباؤ کا بدل نہیں ہو سکتا۔ بھارت اور چین نے ماں باپ کی خدمت کے لیے قوانین بنائے کیا اس طرح کے قوانین کا کچھ فائدہ بھی ہے؟ کیا والدین کی خدمت کے قوانین کے نفاذ سے بچے اپنے والدین کی خدمت کرنے لگیں گے؟ یہاں اس سوال پر کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی آخر ان روایتی تہذیبوں میں وہ کیا بنیادی تبدیلی واقع ہوئی کہ لوگ والدین کی خدمت میں عار محسوس کرنے لگے؟ہماری ہاں شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی بھی سب نے دیکھی۔ اس کا حل ہمارے بعض جغادری قوانین کے حوالے سے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیسا نظام ہے جس کے تحت وہ افراد پیدا ہو رہے ہیں جو ذرا سی بات پر قتل کر کے فتح کا نشان لہراتے ہیں۔ یہ کیسی نسل پیدا ہو رہی ہے جو قتل جیسے فعل پر بھی شرمسار نہیں۔ یہ کون سا نظام ہے جس نے چند انسانوں کو اتنا با اختیار بنا دیا ہے کہ وہ سزا سے بچنے کے لیے اپنی عمر جتنی چاہیں کم کر دیں، جب چاہیں باوجود پابندیوں کے ملک سے فرار ہو جائیں اور جب چاہیں قتل معاف کروا لیں۔ کیا یہ عدل پر مبنی نظام ہے؟ یہ قصاصی کا معاملہ ہے یا ''حرابہ'' کا۔ شاہ زیب کا قتل قصاص کے زمرے میں آتا ہی نہیں یہ تو ''حرابے'' کا کیس ہے اور اسے کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ جج صاحبان اس فرق کو ہم سے بہتر سمجھتے ہوں گے۔ اصحاب علم کی جانب سے اس کی تفصیل و وضاحت بھی سامنے آنی ہی چاہیے۔ جرم کے مطابق قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ چوری الگ جرم ہے ڈکیتی الگ۔ چوری کے جرم کو مالک معاف کر سکتا ہے۔ ڈکیتی کا جرم کوئی بھی معاف نہیں کر سکتا اس کی سزا ضرور ملتی ہے۔معاشرتی بگاڑ صرف قانون سازی اور قانون کے نفاذ سے درست نہیں ہوا کرتا، قلب و نظر کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی نہایت ضروری ہے۔